اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں علماء و صوفیاء کا کردار
Abstract (English)
The topic "اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں علماء و صوفیاء کا کردار” (The Role of Scholars and Sufis in the Promotion and Dissemination of the Urdu Language) was discussed in the WhatsApp group. Participants including محترم Dr. Umar, محترمہ حنایہ, and محترم سید اعجاز حسین contributed their thoughts on how scholars and Sufi saints played a crucial role in spreading and popularizing the Urdu language. This post brings together their insights, highlighting the spiritual and intellectual efforts behind the promotion of Urdu.
اردو زبان کے ارتقاء میں صوفیوں، علماء اور سلاطین کا کردار اردو لٹریچر میں بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ تینوں طبقے اردو زبان کو فروغ دینے اور اسے مقبول بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ صوفی بزرگوں نے اپنی تعلیمات اور شاعری اردو میں لوگوں تک پہنچائیں۔
انہوں نے آسان اور عام فہم زبان میں بات کی تاکہ لوگ روحانی باتوں کو سمجھ سکیں۔ ان کی شاعری میں محبت، روحانیت اور انسانیت جیسے موضوعات کو خوبصورتی سے پیش کیا گیا، جو آج بھی اردو لٹریچر کا اہم حصہ ہے۔ علماء نے اردو زبان کو دینی تعلیمات کے لیے استعمال کیا۔ انہوں نے مذہبی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کیا اور لوگوں کو دین کی باتیں سمجھائیں۔
ان کی نثر نے اردو ادب کو مضبوط بنایا، اور مذہبی موضوعات کو اردو لٹریچر میں خاص مقام ملا۔ مسلم حکمرانوں نے اردو زبان کی سرپرستی کی اور اسے عام لوگوں کی زبان کے طور پر فروغ دیا۔ مغل دربار میں اردو ادب کو فروغ ملا، اور شاعری و نثر کو خوب بڑھاوا ملا۔
یہ بھی پڑھیں۔ اردو زبان کی نشوونما میں مسلم صوفیائے کرام کا حصہ
سلاطین کی سرپرستی سے اردو لٹریچر میں ترقی ہوئی اور اردو ادب کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہوا۔اردو زبان کے ارتقا میں صوفیا اکرام کا حصہ اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں اولیاء اللہ کے فیض و کرام کو بھی بڑا دخل حاصل ہے مسلمانوں کے ابتدائے قیام ہند سے ہی صوفیائے کرام ہندوستان تشریف لائے اور اپنے نور باطن سے اہل ہند کے دل و جان کو روشن کرنا شروع کیا
ان بزرگوں کی نظر میں ملک و قوم اور مذہب و ملت کی کوئی قید نہیں تھی ان کا فیضان مسلم و ہند سب پر یکساں تھا کتنے ہندو مسلمان ہوئے اور اولیاء اللہ سے فیض حاصل کیا اس فیضیابی کی خاطر اگرچہ اہل ہند نے فارسی کی مشق بہم پہنچائی لیکن فیض رسانی کے لیے اولیاء اللہ کی زبان فیض ترجمان پر بھی اکثر ہندی الفاظ جاری ہوئے حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری حکومت غزنیہ کے زمانے میں لاہور تشریف لائے
مزار پاک بھی وہیں یے حضرت خواجہ معین الدین چشتی راجہ پر تھی راج کے زمانے میں اجمیر تشریف لائے داتا صاحب اور خواجہ صاحب کا کوئی قول ہندی زبان کا نہیں ملتا تاہم خواجہ اجمیری کے تکلم زبان ہندی کے متعلق شہادت ملتی ہے حضرت خواجہ قطب الدین بختار کا کی قطب الدین کے زمانے میں دہلی تشریف لائے خواجہ اجمیر کے خلیفہ اور بابا شکرگنج کے
یہ بھی پڑھیں: اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں کا کردار
پیر و مرشد تھے حضرت بابا فرید گنج شکر نے غلام خاندان کی حکومت کے زمانے میں پاک پٹن سکونت اختیار کی خواجہ بختار سے فیض باطن پایا پنجاب بلکہ تمام ہندوستان کو اپنے نور باطن سے منور فرمایا بابا صاحب کے زمانے میں مسلمانوں کے فتح پنجاب و حکومت و ہند کو 200 برس کے قریب گزر چکے تھے اردو زبان کی تشکیل ہو چکی تھی اور رواج بہت بڑھ گیا تھا
حضرت شاہ ابو علی قلندر پانی پت سلطان علاؤ الدین خلجی کے زمانے میں تھے ایک مرتبہ حضرت امیر خسر و کی خدمت میں گئے اور کچھ گانا سنایا شاہ خوش ہوئے اور اپنا کلام امیر صاحب کو سنایا امیر اس کو سن کر آبدیدہ ہو گئے تعارف اردو زبان بولنے والوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی تمام زبانوں میں سے بیسویں نمبر پر ہے یہ پاکستان کی قومی زبان جب کہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی 23 سرکاری زبانوں میں سے ایک ہے اردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موزانہ کیا جاتا ہے
اردو اور ہندی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ "اردو نستعلیق رسم الخط” میں لکھی جاتی ہے جبکہ ہندی "دیو ناگری رسم الخط” میں لکھی جاتی ہے مغل بادشاہ اکبر کا دور،،اردو کو سب سے پہلے "مغل شہنشاہ اکبر "کے زمانے میں متعارف کروایا گیا واقعہ کچھ یوں ہے کہ برصغیر میں 635 ریاستیں تھی جن پر اکبر نے قبضہ کر لیا اتنے بڑے رقبے کی حفاظت کے لیے اسے مضبوط فوج کی ضرورت تھی اس لیے اس نے فوج میں نئے سپاہی داخل کرنے کا حکم دیا۔
ان 635 ریاستوں سے کئی نوجوان امڈ ائے سب کے سب الگ الگ زبان بولنے والے تھے جس سے فوجی انتظامیہ کو مشکلات کا سامنا تھا اکبر نے نیا حکم جاری کیا کہ سب میں ایک نئی زبان متعارف کروائی جائے تب سب فوجیوں کو اردو کی تعلیم دی گئی جن سے اگے اردو برصغیر میں پھیلتی چلی گئی اردو زبان کے ارتقا پر طائرانہ نظر ڈالنے سے حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے بطور خاص اردو زبان کو اپنایا اور اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا
اس سلسلے میں ان صوفیا اکرام کی کاوشیں بھی فی الحقیقت قابل ستائش ہیں جنہوں نے اپنی تعلیمات کے پھیلاؤ اور تبلیغ اسلام کے لیے اردو کو وسیلہ اظہار بنایا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اردو سب سے پہلے ان صوفیائے کرام کی خان قاہوں میں ہی پروان چڑھتی ہے اردو کے پہلے شاعر،،اردو زبان کے پہلے شاعر "حضرت امیر خسرو” ابھی ایک صوفی کامل تھے انہوں نے اپنے عارفانہ کلام کے لیے اردو ہی کو چنا نثر نگار،،
اس طرح اردو کے پہلے نثر نگار دکن کے معروف صوفی” خواجہ بندہ نواز گیسو دراز "ہیں ان کا مذہبی رسالہ "معراج العاشقین” اردو کی پہلی نثری تصنیف ہے "شمس العشاق شاہ میرا جی” کارسالہ” خوب ترنگ” بھی ایک ایسی مثال ہے اس طرح شیخ عین الدین کے تین مذہبی رسالے بھی ابتدائی اردو نثر کی روشن مثالیں ہیں گویا اردو زبان کو سب سے پہلے صوفیاء کرام نے فضیلت بخشی اور مقامی لب و لہجہ صوفیا اکرام کی تعلیمات کے نتیجے میں مشرف با اسلام ہوا
تو اردو کا روپ دھار گیا شعری روایت،،اردو کے شعری ادب کا سب سے پہلا مرکز دکن ہے شعری روایت میں اس دور کا سب سے بڑا نام قلی قطب شاہ ہے جسے اپنے زور گوئی کی بدولت اردو کا پہلا "صاحب دیوان شاعر” ہونے کا اعزاز حاصل ہےایک عمومی تاثر یہ ہے کہ اردو زبان کی ترویج صوفیا کے ہاں غیر ارادی اور فطری عمل کے طور پر وقوع پذیر ہوئی۔
لیکن درج ذیل اقتباس سے اس تاثر کے برعکس صورتحال سامنے آتی ہے اور واضح ہوتا ہے کہ اب بزرگوں کے ہاں یہ ایک سوچا سمجھا عمل تھا۔آج حضرت نے مجلسِ خاص میں مجھ کو اور خواجہ حسن سنجری کو ، امیر خسرو کو اور خواجہ سید محمد اور ان کے بھائی خواجہ سید موسیٰ کو، اپنی بہن کے پوتے خواجہ سید رفیع الدین ہارون کو اور میرے ہم وطن سنبھل دیو اور سیتل کو یاد فرمایا تھا۔
جب ہم سب جمع ہو گئے تو ارشاد ہوا: تم سب مل کر ایک ایسی زبان تیار کرو، جو ہندو زبان اور باہر کے آئے ہوئے مسلمان آپس کی بات چیت اور لین دین کے لیے کام میں لائیں۔ امیر خسرو اور خواجہ سید محمد کی طرف خاص التفات کے ساتھ حضور نے دیکھا اور فرمایا کہ میں پہلے بھی تم سے یہ بات کہہ چکا ہوں ۔
ان دونوں نے جواب میں گزارش کی : ہم مخدوم کے حکم پر عمل کر رہے ہیں۔ امیر خسرو نے یہ بھی کہا کہ میں نے بچوں کی تعلیم کے لیے ایک چھوٹی سی کتاب بھی لکھنی شروع کی جس کا نام [خالق باری] تجویز کیا ہے اور اس کے بعد انھوں نے کچھ اشعار [خالق باری] کے حضرت کو سنائے ۔ حضرت نے ان کو بہت پسند فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد حضرت نے اپنی بہن کے پوتے سید رفیع الدین ہارون اور خواجہ سید موسیٰ اور خواجہ حسن سنجری کو بھی اسی بات کی تاکید فرمائی اور ان سب نے ارشاد کی تکمیل کا وعدہ کیا۔ آخر میں ہم چاروں ہندوؤں کو بھی یہی حکم ہوا اور ہم چاروں نے بھی اس کی تعمیل کا وعدہ کیا۔ اس کے بعد حضرت نے فرمایا : آج کل ہماری فارسی اور خسرو کی ترکی زبانوں کے ساتھ ہندوؤں کی بول چال کے بہت سے لفظ مل گئے ہیں اور اب لوگ اپنے گھروں اور مجلسوں میں بھی ہندی کے الفاظ بولنے لگے ہیں
لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہیں ، جو فارسی اور عربی اور ترکی زبانوں میں ہندی کی آمیزش نہیں چاہتے ۔ اس لیے ان کو سمجھانا چاہیے کہ ان کا اور ان کی حکومت کا فائدہ اسی میں ہے کہ ہندوستانیوں کو اپنے دل کی بات سمجھا سکیں اور یہ بھی ہوگا کہ وہ ضد کو چھوڑ دیں اور ہندی بول چال کا چر چا بڑھائیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں