جمیلہ ہاشمی کی ناول نگاری | The Novel Writing of Jamila Hashmi
تحریر: ڈاکٹر برکت علی
موضوعات کی فہرست
اس تحریر کے اہم مقامات:
- جمیلہ ہاشمی اس کی زندگی میں مذہبی موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے اترنے کی کوشش کرتی ہے۔۔۔
- ناول کے خاتمے پر تصور ابھرتا ہے کہ حسین بن منصور علاج آزادی اظہار رائے کی علامت تھا۔۔۔۔
- جمیلہ ہاشمی نے منصور کے مرنے کے منتظر کو اس طرح لکھا ہے کہ پڑھنے والے پر لرزہ طاری ہو جائے۔۔۔۔
- مذہبی عقاید، تاریخی حقائق ، کفر و ایمان کی آویزش اور روایت اور بغاوت کے ٹکراؤ نے اس ناول کو بے حد پرکشش اور پر تاثر بنا دیے۔۔۔
- ناول ویسے بھی دور حاضر کا رزمیہ کہلاتا ہے ۔۔
- عبد الحلیم شرر با وجود اس کے کہ ہمارے ادب میں ناولوں کے حوالے سے اہم حوالہ جاتی نام ہیں تاریخی حقائق سے روگردانی کی بناء پر آج تک تنقید کی زد میں ہیں۔۔۔
جمیلہ ہاشمی کی ناول نگاری
"تلاش بہاراں” اور "دشت سوس” جیسے ناولوں کی مصنفہ جمیلہ ہاشمی ان ناول نگاروں میں اپنی ایک مسلم حیثیت رکھتی ہیں
جنہوں نے ادب میں تاریخی و اسلامی رجحان کی آبیاری کی ایک عام ناول نگار ہی سماجی مورخ کا کردار انجام دیتا ہے اور وہ ناول نگار جو تاریخ سے کردار اخذ کرتا ہے
اور انہیں ادب میں زندہ تابندہ کر دیتا ہے وہ اپنے رشتہ موانست میں مورخ کا فرسٹ کزن بن جاتا ہے۔ لیکن تاریخی کردار کو ناول نگار کی فنی و فکری ذمہ داری کچھ زیادہ ہوتی ہے
اس لیے کہ جس کردار کو وہ ماجرہ کا حصہ بناتا ہے وہ زندگی گزار چکا ہوتا ہے اس لیے یہاں تاریخی حقیقت نگاری کے تقاضے جان لیوا بن جاتے ہیں ۔
عبد الحلیم شرر با وجود اس کے کہ ہمارے ادب میں ناولوں کے حوالے سے اہم حوالہ جاتی نام ہیں تاریخی حقائق سے روگردانی کی بناء پر آج تک تنقید کی زد میں ہیں۔
خود انگریزی ناول نگار والٹر اسکاٹ جیسا ناول نگار بھی باوجود چند کامیابیوں کے پرفیکٹ نہ کہلایا مگر ایک تاریخی رجحان کے استحکام کے لیے کامیاب قرار دیا گیا۔
اس نے تاریخی کردار تخلیق کئے مگر گہرائی میں نہیں گیا۔ اس لیے ڈاکٹر احسن فاروقی مرحوم نے اپنی کتاب ” تاریخ ادب انگریزی” مطبوعہ جامعہ کراچی میں لکھا تھا کہ
چونکہ اسکاٹ زندگی کی گہرائیوں میں نہیں جاتا اس لیے تاریخی ناولوں میں وہ کمی ہے بہر صورت جمیلہ ہاشمی پر یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر جمیلہ ہاشمی کو ایسے سوختہ تن و عاشق تن کردار کیوں پسند ہیں؟ ایک جگہ وہ اس کا جواب یوں دیتی ہیں :
ل”وگ بدیہی حوالوں سے بات کرتے ہیں اور اپنے کلچر تک کو یوروپ کے واسطے سے درآمد کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں۔
تو پھر اُم سلمی قرة العین حیدر ، زرین تاج طاہرہ کی زندگی مجھے کیوں اتنی پرکشش نظر آتی ہے۔
وہ کون سی بات تھی جو مجھے پچھلی صدی کے ایران میں لے گئی۔
آتش زیر پا رکھنے والی بات کی مقلد، انقلاب آفرین شعلہ جوالہ خاتون جس کی آپ بیتی میں ایک عظیم المیے کی ساری ممکنات ہیں۔
ایسی ممکنات جو ایک یونانی دیو مالا کہانی کے مقابل رکھی جاسکتی ہیں۔ شیکسپیر کے ڈراموں کے کردار جن کی دل شکستگی، حرماں نصیبی میں قدرت کی بے پرواہی اور مقدر کی سیاہی کارفرما ہے۔
عناصر کے سامنے آدمی کیسا ذرہ نا چیز ہے۔ صابر و شاکر ہونے کے باوجود طوفانوں سے لڑ جانے کا حوصلہ رکھتا ہے۔” (۳)
ناولٹ چہرہ بہ چہرہ رو برو کی رونمائی کے موقع پر جمیلہ ہاشمی نے جن خیالات کا اظہار کیا وہ مندرجہ بالا سطور کو بجھنے کی کلید ہیں ” تلاش بہاراں کی راجکماری بھی ایسا ہی کردار ہے جو فنا میں زندگی ڈھونڈتی ہے
"دشت سوس” کا منصور بن حلاج بھی انا الحق کی پاداش میں ٹکڑے ٹکڑے کیا جاتا ہے ۔
جمیلہ ہاشمی ایسے کردار کی تخلیق میں شاعرانہ اسلوب اور تخیل کی تمام تر رعنائیوں کو مقید کر لیتی ہیں۔
جو ٹریجڈی Tragedy کے تمام تر معیارات پر پورے اثر تے ہوں ۔ جو دیو مالائی کہانی کے عظیم ہیروز Heroes کے مقابل رکھے جاتے ہوں ۔
ان کا یہ اوبیشن Obsession ان کے ناولوں یا یوں کہیئے کہ چھوٹے ناولووں میں آنا ہی تھا۔
ناول ویسے بھی دور حاضر کا رزمیہ کہلاتا ہے ۔ جمیلہ ہاشمی مختلف ادوار کے رزمیے دور حاضر میں تخلیق کر تی ہیں ۔
چہرہ بہ چہرہ روبرو ہی کی تقریب میں مختار زمین نے خوب بیان کیا کہ ابلیس اظہار رائے عمل کی آزادی ملی اور اس نے آزادی کو اپنی طینت کے پر چار کے لیے استعمال کیا پھر بھی اقبال اور ملٹن نے اسے اس کی جگہ دی تو ظاہرہ کو کیوں نہ دی جائے۔
ابلیس کو اس کی انا لے ڈوبی ، طاہرہ نے اپنی انا کو قربان کر کے فنا کو قبول کیا اور طاہرہ کو جمیلہ نے اس کا حق دیا ۔
مذہبی عقاید، تاریخی حقائق ، کفر و ایمان کی آویزش اور روایت اور بغاوت کے ٹکراؤ نے اس ناول کو بے حد پرکشش اور پر تاثر بنا دیے۔
روایت اور بغاوت کا یہ ٹکراؤ ہیں عموماً ناول کے پلاٹ اسٹرکچر کی بنیاد بنتا ہے،
حسنن بن منصور حلاج جو معتزلہ کے عقائد سے دلچسپی رکھنے والے آتش پرست دادا کا پوتا اور منصور کا بیٹا تھا، ت
اریخ میں امر ہو جانے والی تمام ترکیفیات کا حامل تھا۔ منصور نے جان بوجھ کر اس کا نام حسین رکھا تھا۔ حضرت امام حسین کب کے شہید ہو چکے تھے۔
منصور کو آزادی سے محبت تھی اور اس کے بیٹے اور حسین بن منصور حلاج نے اس آزادی کا خوب استعمال کیا۔
مروجہ قوانین و اقدار کی دھجیاں بکھیر دیں ۔ حسین بن منصور حلاج انتہائی پر آشوب دور میں وارد ہوا تھا۔
خلیفہ متوکل نے معتزلہ کو دربار سے نکال دیا تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے اسلام میں دخل انداز کی ہے۔
یہودیوں، عیسائیوں اور مجوسیوں کے اثرات سے نپٹنا متوکل کے لیے در وسر تھا۔
بصرہ اس زمانے میں علم کا مخزن تھا اور حسین کی روح حقیقت تک رسائی کے لیے بے چین ہوئے جاتی تھی۔
حقیقت جو آسانی سے اس کی گرفت میں نہیں آتی ہے اور علماء اس کے انجام سے ڈرتے تھے اور حسین تربیت نفس کا بھی خواہاں تھا
ملک کے طول و عرض سے بے خبر امیر المومنین مقتصد حسن کے علم سے متاثر تھے۔ آقائے رازی سے حسین کے جواب درکار تھے:
"ہر طرف سوال ہی سوال تھے، روشنی میں اندھیرے میں، دن میں اور رات میں صبح اور شام میں۔
اپنے اس گوشے میں جو اس کی دنیا تھا۔ اب اسے آرام نہیں ملتا تھا۔” (۴)
شیخ نے اس سے کہا تھا کہ اپنے مقدرات پر خوش رہو ۔ مگر وہ سوچتا تھا کہ اس کے مقدرات کیا ہیں؟۔
ہر شے اور ہر بات کا اسرار پالینے کا شوق تھا۔ اسے لگتا تھا۔ گویا اسے پرندے پکارتے ہیں۔
وہ وجود اور شہود کے مسائل سے دوچار تھا ۔ وہ پتہ نہیں کہاں پہنچنا چاہتا تھا ؟۔ حیات و ممات کے مسائل اسے مارے ڈال رہے تھے۔
عالم دین ابو ایوب اقطع کی بیٹی زنیب سے اس کا نکاح اس کی دیوانگی میں کوئی کمی نہیں کرتا۔
اس نے زنیب کو دیکھا عجیب سوختہ چہرہ جس پر نہ کوئی خوشی تھی نہ کوئی جذبہ ۔
زنیب اکثر اپنی ازدواجی زندگی کی بے بضاعتی پر غور کرتی۔ وہ اپنے اندر کے طوفانوں کو دباتی اور وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔
حسین تو اغول جیسی لونڈی کے سحر میں گرفتار ہوتے ہوئے بھی سب بکھیڑوں سے دور تھا۔ وہ اغول جو خلیفہ کے وزیر حامد بن عباس کی بیوی بنی اور حامد بن عباس جس کے دل میں حسد اور جلن کا آتش فشاں دھنک رہا تھا
اور جو اس کی انا سے اس قدر خوفزدہ تھا کہ موت کا خوف بھی اس کے آگے بیچ تھا۔ ہر المیہ کا ایک سبب یا بنیاد ہوتی ہے۔ حامد بن عباس نے وہ بنیاد ڈھونڈ لی تھی ۔
خلافت عباسیہ اب اپنی آخری سانس لے رہی تھی اور بدترین طوائف الملو کی کا دور تھا۔ حامد بن عباس کا خیال تھا کہ وہ روئے زمین پر ایک بہت بڑا فتنہ تھا شاید وہ حکومت کے لیے بھی خطرہ تھا۔؟
حسین دربار سے بھی وابستہ رہ چکا تھا لیکن وہ تو دربار کے اصولوں اور پابندیوں سے بلند تر تھا۔
اپنے علم کی لازوال پیاس بجھانے کے لیے وہ جنید بغدادی کی خدمت میں بھی حاضر ہوا۔ شیخ نے اسے مشورہ دیا کہ خدا کے وجود میں ضم ہونے سے پہلے اپنی نبضوں کو آزما اور مجاہد ہو ریاضیت کرو اور یہاں اس کا دائرہ مکمل ہو جاتا ہے۔
وہ اس ریاضت و مجاہدہ سے، آگ کے دریا کو عبور کر کے برآمد ہوتا ہے۔ آنحضرت محمدؐ کے درباغ پر پہنچ کر وہ مد ہوش ہو جاتا ہے ۔ وہاں اسے آقائے رازی ملتے ہیں۔ وہ کہتا ہے شیطان نہ ہوتا تو خیر و شر کا تمیز نہ ہوتا ۔ انسان کو جنت کی خواہش نہ ہوتی ۔ آقائے رازی ڈر گئے … … ایسی باتیں مت کرو لیکن اسے اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کوئی خوف و ڈر نہ تھا۔ جنید بغدادی نے اسے سمجھایا۔
عبادت کرو ا توحید سے سب کچھ مل جاتا ہے۔ نیز یہ کہ کوئی بھی مقام رسول خدا حضرت محمد کے مقام سے بلند نہیں ہے ۔ (۵)
حسین بن منصور حلاج اگر اس نکتہ کو سمجھ لیتا تو اس کا ذاتی المیہ ظہور میں ہی کیوں آتا۔
اور بغداد کے قاضی ابو عمر کو زبانی اور پھر تحریری طور پر اس کے خلاف دعوی پر کیوں مجبور ہونا پڑتا ۔
انہوں نے بڑی عرق ریزی سے شواہد جمع کئے تھے مگر وہ گھبراہٹ اور بے چینی کا شکار تھے۔ وہ اس کے جوابات سے گڑ بڑا جاتے تھے۔
حسین بن منصور حلاج زنداں میں تھا اور اپنے انجام کا منتظر۔ ایک دن قاضی ابو شمر نے وزیر حامد بن عباس کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ منصور کو چھوڑ دے۔
حامد بن عباس نے پہلے ہی خلیفہ مقتدر سے اس کے پروانے پر دستخط کروا لیے تھے ۔ اس کے خلاف فتوی پر دوسرے علماء ابن عطار اور دوسروں کے بھی دستخط تھے۔
شقی القلب حامد بن عباس نے منصور کی موت کے پروانے میں اپنے قلم سے دار پر لٹکائے جانے کے علاوہ دیگر سزائیں مثلا سنگساری اور پھر ایک ہزار کوڑے وغیرہ خود تحریر کی تھیں جس کا قاضی ابو عمر کو بڑا شکوہ تھا۔
بہر صورت حامد بن عباس نے اپنی خواہش پوری کر لی ۔ اس نے حسین بن منصور حلاج پر قرامطی ہونے کا الزام لگایا اور اسے ختم کروادیا۔
وہ نعرہ انالحق کی بھیٹ چڑھ گیا۔ خلقت پہلے ہی اس کے خیالات کی وجہ سے فتنہ میں ممتبلا ہوگئی تھی۔
لوگ پہلے اس کے نعرہ کو شک کی نگاہ سے دیکھتے اور پھر اس کے معتقد ہو جاتے۔
جمیلہ ہاشمی نے منصور کے مرنے کے منتظر کو اس طرح لکھا ہے کہ پڑھنے والے پر لرزہ طاری ہو جائے۔
"حبشی نے اس کے پاؤں کاٹے۔ چھری کند تھی۔ ریشہ ریشہ کٹ رہا تھا۔
حسین کا چہرہ زرد تھا حامد کا پیغام آیا اگر وہ اب بھی زندہ ہے تو اس کے بازو کاٹ ڈالو!
کٹے ہوئے ہاتھوں سے خون بہتا دیکھ کر اس نے اپنے منہ پر مل لیا وضو کر رہا ہوں تا کہ نماز عشق ادا ہو جائے ۔
وہ آقائے رازی کو جواب دیتا ہے ۔ ایک جان ہی تو تھی جو راہ میں حائل تھی۔ اب میں آزاد ہوں۔”
جب منصور نے خون سے وضو کیا تو حامد نے کہا۔
” بے مثال عاشق ہے۔ قاضی ابو عمر نے کانپ کر کہا۔ ” کہیں ہم سے غلطی تو نہیں ہوئی ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ خدا کے تعلق میں بہت آگے نکل گیا ہو۔
اور … جب منصور آزاد ہو گیا تو حامد نے حکم دیا۔ جاؤ! اس کے جسد خاکی کو جلا دو۔ خاک اڑا دو۔ اس کی آنا کو میں نے قتل کر دیا ہے ۔ اب وہ کیسے حق کو پکارے گی۔”
حسین بن منصور حلاج خود آتشکده بن گیا۔ وہ انا الحق کہہ رہا تھا کہ وہ حق تھا ۔ (۶)
ناول کے خاتمے پر تصور ابھرتا ہے کہ حسین بن منصور علاج آزادی اظہار رائے کی علامت تھا۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کے خیالات مبہم نظر آتے تھے اور دین اسلام سے متعلق مروجہ خیالات و افکار سے ٹکراتے تھے لیکن منصور جس خمیر کا بنا ہوا تھا اس میں ہلاکت خیزی پنہاں تھی۔
ڈاکٹر سہیل احمد خان نے ان کرداروں کے لیے لکھا ہے؟
"رسوم و قیود کوتوڑنے میں ہی اپنی ہستی کی بقا تھی چوں کہ دوسروں کی آنکھ کو سمندر دکھائی دیتا تھا۔ ان اہل شوق کے لیے تنگ تالاب کا درجہ رکھتا تھا چنانچہ المیہ ان کی سرشت میں پوشیدہ تھا۔ (۷)
المیہ کو دکھانے کے لیے ایک ایسے کردار کی ضرورت ہوتی ہے جو تصادم اور کشمکش سے عبارت ہو۔
حسین بن منصور حلاج اس شرط پر پورا اترتا تھا۔ اس کا اسرار بہت زیادہ نہیں تھوڑا بہت ہی اہل دل جانتے ہیں ۔
جمیلہ ہاشمی اس کی زندگی میں مذہبی موشگافیوں سے گریز کرتے ہوئے اترنے کی کوشش کرتی ہے تا کہ حقیقت افسانہ بنے اور اس کا کردار ان کے دیگر آئیڈیل کرداروں کی مانند ہی آئیڈیل کردار بن جائے ۔
اس کے لیے وہ اپنی شاعرانہ نشتر کو استعمال کرتی ہیں۔ جو تلاش بہاراں سے سفر کرتے ہوئے اب بلوغت سے ہمکنار ہو چکی تھی۔
ڈاکٹر جمیل جالبی تو ان کی روح ہی میں شاعری تلاش کرتے ہوئے ایک موقع پر رائے دیتے ہیں کہ:
"ان کی روح میں شاعری ہے اس لیے حقیقت ان کے یہاں افسانہ
بن جاتی ہے ۔ (۸)
اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقت کا افسانہ بنا ہی فکشن کا اصل مزاج ہے اور پھر جب تاریخ کا کوئی کردار زیر تخلیق ہو تو فنکار پر کافی سے زیادہ فنی ریاضت کا بوجھ آن پڑتا ہے۔
اس موقع پر شاعری تاریخ کے کردار کے جذباتی پہلوؤں کو آسانی سے آشکار کرتی ہے۔ اس کی دو مثالیں یہ ہیں:
"قرب الہی کا خواہاں شخص روح کو شق کئے بغیر قرب حاصل نہیں کر سکتا مگر اس راستے میں دو ہزار آگ کے پہاڑ اور ایک ہزار ہلاکت خیز بحر بے کراں ہیں جوان دونوں سے خائف ہوئے بنا راستہ طے کرنا چاہے وہ ہی اس پر قدم رکھئے۔
زمین سے مخفی خزانے اور ان کے اسرار ابلیس کے انکار سجدہ کا اسرار، فرشتوں کے سجدہ کا اسرار ، روح کے شق کا اسرار نفس کے شک کا اسرار … (9)
"اگر تم اعتراف کر لو تو رہائی ممکن ہے۔ عمار نے کہا اس سجدے کا اقرار جو میں ابھی نہیں کر سکا۔ اس سجدے کا اعتراف جو ابھی میری جبیں میں خوابیدہ ہے اس سجدے کا اقرار جس کے بعد یا سر رہتا ہے یا سجدہ، حسین بیٹھے سے کھڑا ہو گیا تھا۔ (۱۰)
دشت سوس کے سلسلے میں ناول نگار رشیدہ رضویہ جو مشرق وسطی میں کافی عرصے مقیم رہی ہیں، چند اعتراضات اٹھاتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ منصور حلاج کا لونڈی اغول سے کیا تعلق؟
منصور کے جو اشعار دیئے گئے ہیں وہ صرف عشق الٰہی کے ترجمان ہیں ورنہ اس کا نام اولیائے گرام میں کیوں لیا جاتا۔
منصور کی موت سے گیارہ بارہ سال قبل ہی حضرت جنید بغدادی اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے لہذا ان کا اس کے انجام میں کوئی ہاتھ نہیں۔
بغداد میں برفباری ہوا کرتی تو وہاں کھجور کے بجائے سیب کے درخت ہوا کرتے نیز یہ کہ رقصاں درویش جو علاج کے دادائی کے دور میں دکھائے گئے ہیں وہ مولانا رومی کے عہد میں ہوتے تھے
اور اپنی مخصوص ٹوپی اور لباس میں باہر سڑکوں پر نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنی خانقاہ میں ایک وقت مقررہ پر رقص کرتے تھے۔
رشیدہ رضویہ کے ان ارشادات کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے تاریخ سے متعلق کرداروں اور واقعات کو برتنے میں تصرف بھی ہو جاتا ہے
دیکھنا یہ ہے کہ کہیں کہیں بھول چوک یا غلطیاں Lapses ماجرہ کی حقیقت کو تلپٹ نہ کریں جیسا کہ شرر کے یہاں ہوا جو کہ مسلمانوں کو ان کی عظمت رفتہ یاد دلا کر ان میں نئے حوصلوں کا طوفان اُٹھانا چاہتے تھے۔
دیکھنا یہ ہے کہ کہیں جمیلہ ہاشمی نے جان بوجھ کر تاریخ کو اس طرح تو مسخ نہیں کیا ہے کہ ماجرہ اور کردار دونوں نا قابل قبول اور غیر حقیقی ہوگئے ہوں ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان سے سہو تو ضرور ہوا ہے لیکن اس سے منصور حلاج کے عہد کا منظر نامہ نہ تو تبدیل ہوا ہے اور نہ اس کے کردار نے مجہول اور غیر مواثر صورت اختیار کی ہے اور انگریز فکشن نقاد والٹریلین جنہوں نے اپنی مشہور زمانہ کتاب دی انگلش ناول میں کہا تھا ۔
کہ ہر ناول نگار کا ناول اس کے خیالات کا توسیعی استعارہ ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے دشت سوس میں منصور حلاج کے کردار کو بغاوت ، تبدیلی اور آزادی اظہار کی علامت کے طور پر کامیابی سے پیش کیا گیا ہے۔
ماخذ: اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں