احمد ندیم قاسمی کے حالات زندگی | The Life and Times of Ahmed Nadeem Qasmi”
موضوعات کی فہرست
خاندانی پس منظر
احمد ندیم قاسمی کا تعلق اعوان قبیلے سے ہے۔ ان کے آباء و اجداد عرب کے باشندے تھے۔ ان میں سے علماء کا ایک گروہ تبلیغ اسلام کی خاطر ایران آئے پھر افغانستان ہجرت کر کے بعد میں ملتان میں آہے۔
ان میں چند افراد تبلیغ کے سلسلے میں کوہستان نمک کے بلند پہاڑ سکیسر کی جھیل کے کنارے تک پہنچ گئے اور وہاں آباد ہوئے اور سکیسر قاسمی کے آبا و اجداد کا مسکن بنا۔ احمد ندیم قاسمی اپنے آباء واجداد کے بارے میں اپنی کتاب جلال و جمال میں اپنی خود
نوشت لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔
"میرا خاندان علاقہ سون سکیسر کے معزز ترین گھرانوں میں شمار ہوتا ہے یہ احترام دنیوی دولت سے زیادہ نہ ہی بزرگی کامنت کش ہے۔(۱)
احمد ندیم قاسمی کے والد کا نام پیر غلام نبی (عرف نبی چن) ہے۔ پیر غلام نبی انگہ کے خوش حال اور امیر گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ بزرگی میں وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اس لیے سارے علاقے میں اسے شہرت عام حاصل تھی۔ ان کے دس بھائی اور ایک بہن تھی۔ ان کے دیگر بھائی بھی امیر تھے۔ پیر غلام نبی دنیا سے سروکار نہیں رکھتے تھے بلکہ اللہ کے اولیاء میں سے تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کو زندہ جاوید رکھنے کے لیے غلام بیوی سے شادی کی۔ جس کے بطن سے پانچ بچے ہوئے۔ جن میں تین بیٹے تھے۔ اللہ بخش، محمد بخش اور احمد شاہ اور دو بیٹیاں ایک سعیدہ بانو اور دوسری کم سنی میں وفات ہوئی۔ پیر غلام نبی نے ۱۹۲۳ء میں وفات پائی۔
احمد ندیم قاسمی کی والدہ کا نام غلام بیوی ہے۔ ان کی والدہ اپنے شوہر سے عمر میں کم تھیں۔ غلام بیوی کے پانچ بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ غلام بیوی اپنے بچوں کی پرورش خود کرتی تھی کیوں کہ اس کے شوہر نے اللہ سے لولگار بھی تھی۔ قاسمی اپنی ماں کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
"میری زندگی پر سب سے عظیم اثر میری ماں کا ہے۔ (۲)
غلام بیوی طبعاً پر مزاج گفتگو، صابر و شاکر اور حوصلہ مند خاتون تھیں۔ انہوں نے غربت اور تنگی میں بھی حوصلہ نہیں ہارا۔ ان کی وفات ۱۹۵۶ء میں ہوئی۔
احمد ندیم قاسمی کی بڑی بہن کا نام سعیدہ بانو ہے جو ۱۹۲۰ ء میں وفات ہوئی تھی۔ ان کے اکلوتے بیٹے تفسیر باہر نے پاکستان کے ممتاز صحافیوں میں عظیم نام کمایا ہے۔
قاسمی کے بڑے بھائی کا نام پیر زادہ محمد بخلش تھا جو ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے۔ قاسمی کے دو سرے بھائی کا نام اللہ بخش ہے۔ قاسمی کے بچا کا نام پیر حیدر شاہ ہے جنہوں اسے قرآن مجید کی تفسیر پڑھائی اور کافی حد تک ان کی پرورش کی ہے۔
پیدائش اور نام
وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ میں پیر غلام نبی کے ہاں پانچ بچوں نے جنم لیا تھا، جن میں ایک نام احمد شاہ ہے جو بعدمیں احمد ندیم قاسمی کے نام سے مشہور و مقبول ہوا۔
بقول ڈاکٹر قاسم ظفر:
"احمد ندیم قاسمی کی پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۱۶ء میں قصبہ انگہ تحصیل خوشاب، ضلع سر گودھا ( پنجاب ) ہندوستان میں ہوئی۔ آپ کا خاندانی نام احمد شاہ، ادبی نام احمد ندیم قاسمی اورتخلص ندیم ہے۔ ” (۳)
احمد ندیم قاسمی کا نام ان کی والدہ نے نھیال کے ایک بزرگ کے نام پر احمد شاہ ر کھا تھا۔ گھر والے احمد شاہ کو پیار سے شاہ (بادشاہ) کہتے تھے۔ وہ گھر میں سب سے چھوٹے تھے اس لیے گھر والوں کی آنکھوں کا تارہ بن گیا تھا۔ بچپن میں احمد شاہ بہت ذہین اور ساتھ ہی شرارتی بھی تھے۔ پیر زادہ محمد بخش نے اپنے چھوٹے بھائی کے بچپن کا منظر یوں پیش کیا۔
گھر کے صحن میں ایک گول مٹول، سرخ و سفید بچہ اچھل کود میں مصروف ہے۔ بھرا بھرا جسم کھنگریالے بال، مونا مگر معصوم ناک نقشہ کبھی اپنی بڑی بہن کو جا کر چھیڑتا ہے اور کبھی اپنے بڑے بھائی کو ، کبھی امی کی گود میں دھم سے جا گرتا ہے اور کبھی آپا کی سہیلیوں کے چکیاں لے کر بھاگ جاتا ہے۔
جب سب خفا ہونے لگتے ہیں تو دور ہٹ وہ کوئی ایسی چلبلی حرکت کرتا ہے کہ سب کھلا کر ہنسنے لگتے ہیں۔ امی اس کی بلائیں لینے لگتی ہیں، آپا اس کا منہ چوم لیتی ہیں بڑا بھائی ہیے سے لگا لیتا ہے۔ ہو ہے امارا احمد شاہ جو آج کل حضرت احمد ندیم کی کہلاتا ہے اور جیسے ہم پیار سے شاہ کہتے ہیں۔ (۳)
کسی کی پہلی نظم چو دو برس کی عمر میں (۱۹۳۱ ء ) روزنامہ سیاست میں پیر زادہ احمد شاہ احمد کے نام سے شائع ہوئی۔ چند روبرس کی عمر میں شاطر غزنوی نے اس کے لیے ندیم تخلص تجویز کیا۔
احمد شاہ کو یہ تخلص بہت اچھانگا اور نام کا پہلا حصہ "احمد "بر قرار رکھتے ہوئے "ندیم” تخلص کے ساتھ قائم خاندان سے تعلق رکھنے کی بنا پر ” قاسمی "لکھ کر یوں ان کا نام احمد ندیم قاسمی بنا۔ ادبی دنیا میں قاسمی کے حسین نام نے بہت کم وقت میں شہرت عام حاصل کیا۔ قاسمی کی شادی اپنے خالہ زاد مولوی ضیاء الدین صاحب کی صاحب زادی رابعہ بیگم سے ۴ جولائی ۱۹۴۸ء میں ہوئی۔
یہ بھی پڑھیں: احمد ندیم قاسمی بطور افسانہ نگار pdf
رابعہ بیگم قاسمی کی والدہ کی وفات تک ان کے ساتھ انگہ میں مقیم رہیں اور ان کی والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد ۱۹۶۲ء میں لاہور آئیں۔ رابعہ بیگم ایک شریف، ہمدرد، نیک دل اور با حیا عورت تھی۔ وہ اپنے شوہر سے بعض کاموں میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی ان کے لیے مخلص تھی۔ رابعہ بیگم زندگی کے نشیب و فراز طے کر کے آخر کار ۱۹۹۶ء میں وفات پاگئی۔
احمد ندیم قاسمی کو اللہ تعالیٰ نے رابعہ کے بطن سے دو بیٹیوں ناہید قاسمی، نشاط قاسمی اور ایک بیٹے نعمان قاسمی سے نوازا ناہید قاسمی کی ولادت ۱۹۴۹ء کو انگہ میں ہوئی، شعر و ادب سے خاص دلچسپی رکھتی تھی۔ ان کی شادی محمد حیات قاسمی سے اگست ۱۹۷۴ء میں ہوئی۔
حیات قاسمی سے ان کے تین بیٹیاں نفیسہ ، نیلم، ناموس اور ایک بیٹا نئیر پیدا ہوا تھا۔ دوسری بیٹی نشاط قاسمی کی پیدائش ۱۹۵۱ء میں ہوئی۔ ان کی شادی پیر زادہ محمد خالد سے ہوئی۔ خالد سے ان کی دو بیٹیاں نوشین ، نوشابہ اور ایک بیٹا خرم پیدا ہوا۔ ان کی وفات ۱۹۹۵ء میں ہوئی۔ قاسمی کے اکلوتے بیٹے کا نام نعمان ہے۔ ان کی سن ولادت ۱۹۵۶ ء ہے۔ نعمان کے بیٹے کا نام نمو اور بیٹیوں کے نام نوین، نایاب اور نشا ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے منہ بولی بہنوں میں تسنیم سلیم چھتاری، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور ادا جعفری شامل ہیں۔ قاسمی نے ان کو بھائی جیسی شفقت دی ہے۔
تعلیم
احمد ندیم تا کسی نے تعلیم کا آغاز ۱۹۲۰ء میں الگ کے خاندانی مسجد میں درس قرآن سے کیا۔ ۱۹۲۱ء میں انہوں نے دنیاوی تعلیم کا آغاز کیا اور اللہ کے پرائمری اسکول میں واللہ لیا۔ ان کا اولین استاد منشی غلام حیدر تھے۔ اس وقت پرائمری تعلیم چہار جماعتوں پر تھی۔ انہوں نے ۱۹۲۵ء تک انگہ کے اسکول میں تعلیم حاصل کی۔
” اس کے بعد اپنے چچا کے ساتھ کیمبل پور چلے گئے۔ بقول قاسمی نو برس کی عمر میں مجھے اماں سے الگ ہو کر تعلیم کے سلسلے میں کیمبل پور جانا پڑا۔ (۵)
۱۹۲۹ء میں انہوں نے گورنمنٹ اسکول کیمبل پور سے مڈل کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ قاسمی ایک ذہین اور قابل طالب علم تھے۔ اس کے کلاس فیلو احمد شفیع کا بیان ہے۔
احمد شاه صف اول کے ڈیسک پر بیٹھتا تھا وہ ایک ذہین اور محنتی طالب علم تھا ۔ اس لیے وہ اساتذہ کے بالکل سامنے بیٹھنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا وہ کالج کا طالب ہو ا تو جب بھی پروفیسر کے سامنے ڈٹ کر بیٹھتارہا۔ (۶)
قاسمی نے ۱۹۳۱ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول شیخو پورہ سے میٹرک پاس کیا۔ اس وقت انہوں نے غلام جیلانی کی والدہ اور بہن کی بہ یک وقت وفات پر مرثیہ لکھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد ان کے چچانے انہیں بہاول پور کے صادق ایجرٹن کالج میں فرسٹ ائیر میں داخل کروا دیا۔ اس وقت قاسمی ہاسٹل میں رہتے تھے۔
۱۹۳۳ء میں انہوں نے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ان کے مضامین میں انگریزی، اُردو، اقتصادیات ، عربی اور تاریخ شامل تھے۔ ۱۹۳۴ء میں قاسمی سال سوم کا طالب علم تھا کہ ان کا چچا وفات پا گیا۔ چا کی وفات پر قاسمی کو بہت تکلیف پہنچا اور اس پر مالی لحاظ سےکافی برا اثر ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: احمد ندیم قاسمی کی خاکہ نگاری | pdf
قاسمی نے ۱۹۳۵ء میں بہاول پور پنجاب یونی ورسٹی سے عبد الرشید کی دست گیری میں بی۔ اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ بی۔ اے کرنے کے بعد قاسمی انگریزی میں ایم۔ اے کرنے کے شیدائی تھے ۔
اس فرض سے انہوں نے دو اہم کالجوں میں درخواستیں جمع کئے اور میرٹ لیسٹ میں ان کا نام آگیا لیکن فیس نہ ہونے کی وجہ سے اس نے داخلہ نہ لیا اور وہاں سے تعلیم کا سلسلہ قطع کیا اور اپنے بھائی محمد بخش کے ہاں لاہور جاکر ملازمت کی تلاش شروع کی۔
ملازمت
احمد ندیم قاسمی نے بی۔ اے کرنے کے بعد ملازمت کی تگ و دو شروع کی ۔ ملازمت کی تلاش میں قاسمی نے بہت تکالیف برداشت کیے یہاں تک کہ کئی بار انہوں نے خود کشی کرنے کی ٹھان لی لیکن بوڑھی ماں کی محبت نے اسے روکا۔
کا کسی اپنی کوشش کے نتیجے میں ۱۹۳۶ء میں ریفارمز کمشنر لاہور کے دفتر میں میں روپے ماہوار پر بحیثیت محرر مقرر ہوا ۱۹۳۷ء تک اس دفتر سے منسلک رہے۔ ۱۹۳۹ ء میں ان کے پھوپھی زاد بھائی کپٹن ملک امیر حیدر نے اسے محکمہ آب کاری کے شعبہ ایکسائز میں بطور سب انسپکٹر منظور کرالیا۔
ابتدا میں ان کی تنخواہ پچاس روپے تھی۔ یہ نوکری قاسمی کی طبیعت سے مطابقت نہ رکھتی جس کی وجہ سے انہوں نے ۲۰ ستمبر ۱۹۳۹ء کو اس نوکری سے استعفی دے دیا۔ ۱۹۴۲ء میں عبد المجید سالک کی تجویز پر قاسمی دو ہفت روزہ رسالوں” پھول” اور "تہذیب نسواں کا مدیر بنا دیا گیا۔ ۱۹۴۳ء میں ادب لطیف (لاہور) جو مشہور رسالہ ہے، اس کی ادارت سنبھالی۔
۱۹۴۶ء میں قاسمی نے ادب لطیف کی ادارت چھوڑ دی۔ ۱۹۴۶ء میں اسے سجاد سرور نیازی نے پشاور بلوایا اور وہاں ۱۹۴۶ء سے ۱۹۴۸ء تک قاسمی بحیثیت مسودہ نویس ( سکرپٹ رائٹر ) رہا۔ ۱۹۴۷ء میں پاکستان بننے کے دوران قاسمی پشاور میں تھے۔
۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۸ء تک قائمی لاہور میں رسالہ ” سویرا ” کے مدیر بھی رہے۔ لاہور میں قاسمی نے محمد طفیل اور ہاجرہ مسرور کے تعاون سے رسالہ نقوش ( ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۰ء تک) کا اجرا کیا۔
۱۹۵۰ء میں قاسمی ماہنامہ "سحر” کے ایڈیٹر بنے۔ ۱۹۵۲ء میں قاسمی جنرل سیکرٹری ” انجمن ترقی پسند مصنفین ” پاکستان منتخب کیا گیا۔ مارچ ۱۹۵۳ء میں "امروز” کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ ۱۹۵۹ء میں قاسمی بحیثیت امروز ایڈیٹر گرفتار ہوئے اور سو دن قید میں پورا کرنے کے بعد انہوں نے امروز کی ادارت سے استعفیٰ دیا۔
۱۹۹۳ء میں قاسمی نے اپنے ذاتی رسالے الفنون "کا اجرا کیا ۔ یہ قاسمی صاحب کا ذاتی رسالہ تھا لیکن اس نے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ایسا مقام و مرتبہ حاصل کیا کہ ہر کوئی اس کو اپنا سمجھتا ہے۔
۱۹۷۴ء میں پروفیسر حمید احمد کا انتقال ہوا تو ” مجلس ترقی ادب ” کی نظامت کی آسامی خالی ہو گئی۔ پر وفیسر فتح ملک کے تجویز پر تاکی کا نام اس ادارے کے لیے منتخب ہوا۔ ۱۹۷۴ء میں قاسمی ” مجلس ترقی ادب لاہور ” کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔
اس عہدے پر تا کی ۲۰۰۹ء تک فائز رہے۔ ۱۹۷۴ء سے ۲۰۰۹ء تک قاسمی تحقیقی و تنقیدی ادبی رسالے صحیفہ ” لاہور کے مدیر بھی رہے۔ قاسمی نے ابتداسے انتہا تک انتہائی احسن طریقے سے اپنے فرائض سر انجام کئےہیں۔
تصانیف کا مختصر جائزہ
احمد ندیم قاسمی نے اردو ادب پر بڑا احسان کیا کہ انہوں نے ساری زندگی اس پر نچھاور کی ہے۔ انہوں نے اردو ادب میں مختلف اصناف پر طبع آزمائی کی ہے مثلاً انہوں نے افسانے، کالم، ننھے بچوں کے سبق آموز کہانیاں، ڈرامے ، ناولٹ، فلموں کے اسکرپٹ اور گیت لکھے ہیں۔ بہت سی کتابیں ترتیب و تدوین کیں۔ انہوں نے مختلف کتابوں کے دیباچے لکھے ۔ مختصر آقاسمی نے بہت سے اصناف اپنے زیر قلم لائی ہیں اور جس صنف پر بھی اس نے طبع آزمائی کی ہے اس کے طرز اسلوب پر دیگر ادباء رشک کرتے ہیں۔ اختصار سے قاسمی کے تصانیف کا جائزہ پیش نظرہے۔
افسانوی مجموعے
چوپال
(۱۹۳۹ ء لاہور ، پنجاب) قاسمی کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ اس میں چودہ افسانے شامل ہیں۔ اس مجموعے میں قاسمی نے دیہات والوں کی محبت، غربت، معاشی مسائل، انسانی بے کسی ، انا اور امیر لوگوں کی جبر و ظلم بے نقاب کیاہے۔
بگولے
(۱۹۳۱ ءلاہور ) قاسمی کا دوسرا افسانوی مجموعہ میں افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس میں انہوں نے حقیقت پسندی،انسانی محبت ، معاشرتی ماحول، مسائل اور جنگی حالات انتہائی نفاست سے پیش کی ہیں۔
طلوع و غروب
(۱۹۳۳ ء لاہور) نو افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس میں محفلوں کی عکاسی، محنت کشوں کی مظلومیت
اور زمینداروں کی ظلم جیسی تلخ حقائق موجود ہیں۔
گرداب
(۱۹۳۳ء حیدر آباد ) مجموعے میں کل پندرہ افسانے ہیں۔ اس میں قاسمی نے سیاسی ، سماجی اور طبقاتی مسائل کو
پیش کرنے کی سعی کی ہے۔
سیلاب
(۱۹۴۴ء حیدر آباد) مجموعے میں بارہ افسانے ، ایک ڈرامہ اور ایک مکالمہ موجود ہے۔ قاسمی نے اس لوگوں کے مسائل اور تلخ حقائق کا انکشاف کیا ہے۔
آنچل
(۱۹۴۵ء لاہور ) مجموعے میں کل گیارہ افسانے موجود ہیں۔ اس میں قاسمی نے پنجاب کے لوگوں کا تعصب، تنگ نظری ، جبر اور سماجی بغاوت زیر قلم لیا ہے۔
آبلے
(۱۹۴۶ء لا ہور) مجموعہ تین طویل افسانوں پر مشتمل ہے اور اس کا بنیادی موضوع معاشرتی مسائل ہے۔
آس پاس
(۱۹۴۸ ء لاہور ) آٹھ افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے اور قیام پاکستان کے بعد قاسمی کا پہلا شائع ہونے والا مجموعہ بھی ہے۔ اس میں قاسمی نے قحط بنگال، تقسیم ہند کے مسائل اور ہجرت کے مسائل خوب چھیڑ ا ہیں۔
در دو دیوار
(۱۹۴۹ ،لاہور) مجموعے میں آٹھ افسانے اور ایک ریڈیائی کھیل موجود ہے۔ اس میں قاسمی نے وطن سے
محبت، انسانی بے بسی اور جنگ کے ہولناکیوں سے پردہ اٹھایا ہے۔
سنانا
(۱۹۵۲ ،لاہور) مجموعہ دس افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس میں انسانی ظلم، تقسیم ہند کے واقعات ، اقتصادی حالات
اور استحصال جیسی باتیں موجود ہیں۔
بازار حیات
(۱۹۵۵ء لاہور ) مجموعے میں کل تیرہ افسانے ہیں۔ اس کے بنیادی موضوعات خوف خدا، خدمت خلق، معاشرتی بغاوت، انسانی ہمدردی اور جسم فروشی ہیں۔
برگ حنا
(۱۹۵۹ ء لاہور ) دس افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس میں قاسمی نے رشتوں کے مسائل، مغربی تہذیب کی تقلید اور تعلیم نسواں جیسی موضوعات قلم بند کئے ہیں۔
سیلاب و گرداب
(۱۹۹۱ء) گیارہ افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس میں کاکی نے اپنے دور کے رسم وروان، با ثروت لوگوں کی علم اور غریب لوگوں کی مظلومیت لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے۔ اس مجموعے کے بارے میں قاسمی کا قول ہے۔
’’سیلاب و گرداب میرے افسانوں کے دو الگ الگ مجموعے تھے۔ یہ افسانے ۱۹۳۰ء اور۱۹۳۱ء میں لکھے گئے اور ۱۹۳۲ء میں دو مجموعوں کی صورت میں ادارہ اشاعت اردو حیدر آبادو کن نے شائع کئے ۔‘‘ (۷)
گھر سے گھر تک
(۱۹۶۳، راولپنڈی) گیارہ افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس کے بنیادی موضوعات زر پرستی، خود غرضی، خود فریبی، بے حسی، جنس استحصال، رسم و رواج، انسانی رویے، ضعیف الاعتقادی اور پنجاب کے عورتوں کی محنت و مشقت ہیں۔
کپاس کا پھول
(۱۹۷۳ ء لاہور) مجموعے میں کل سترہ افسانے ہیں۔ اس میں قاسمی نے ماں کی محبت، گھریلوں ضروریات، نافرمان اولاد، ہم جنس پرستی، بے روزگاری، غربت، قرض کی لعنت اور امیر طبقوں کی کنار کشی پیش کی ہے۔
نیلا پتھر
(۱۹۸۰ء لاہور) نو افسانوں پر مشتمل مجموعہ ہے۔ اس کے موضوعات بیوہ کی مسائل، معاشرتی تضاد اور بعض لوگوں کی نفسیات کی عکاسی ہیں۔
کوہ پیا
(۱۹۹۵ ء لا ہور) مجموعے میں کل دس افسانے ہیں۔ اس میں قاسمی نے عشق رسول، خوف خدا، اور سرمایہ دارانہ نظام کا جائزہ لیا ہے۔
پت جھڑ
(۲۰۰۷ ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور) مجموعے میں سات افسانے اور ایک نوٹ موجود ہے۔ اس میں زندگی کے تلخ حقائق اور قاسمی کے سوائح کو الف موجود ہیں۔
شاعری کے مجموعے
۶۳ دھڑکنیں
(۱۹۳۱ء) قاسمی کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس میں ۲۵۲ قطعات شامل ہیں۔
رم حجم
(۱۹۴۴) شعری مجموعے میں ۴۲۷ قطعات ۶۰۰ رباعیات اور ۴ ترائیلے شامل ہیں۔
جلال و جمال
(۱۹۴۶ء) کے دیباچے میں قاسمی کی مختصر حالات زندگی موجود ہے۔ یہ مجموعہ چھ حصوں پر پر مشتمل ہے۔ حصہ اول میں ۵۲ افلمیں، حصہ دوم میں ۲۳ تنظمیں، حصہ سوم میں وہ نظمیں، حصہ چہارم میں ۵۳ نظمیں، حصہ پنجم میں 44 غزلیں اور حصہ ششم میں متفرق اشعار موجود ہیں۔
شعلہ گل
(۱۹۵۳ء) مجموعہ بھی چھ حصوں میں تقسیم ہے۔ حصہ اول میں ۳۱ نظمیں، حصہ دوم میں نظمیں، حصہ سوم میں 4 نظمیں، حصہ چہارم میں ۱۰ نظمیں، حصہ پنجم میں ۳۶ غزلیں اور حصہ ششم میں ” مطلعے ” کے عنوان سے ۲۷ اشعار موجود ہیں۔
دشت وفا
(۱۹۶۳ء) مجموعے میں ۳۲ قطعات ۵۷ غزلیں، نظمیں اور ” فردیات” کے عنوان سے ۱۴۴ اشعار موجود ہیں۔ محیط (۱۹۷۶ ء ) مجموعے میں ۱۲۵ غزلیس ۱۰۷ نظمیں، ۱۵ قطعات ، ۵ رباعیات اور ۳۵ متفرق اشعار موجود ہیں۔
دوام
(۱۹۷۹ء) مجموعہ ایک نعت ، ۵۵ غزلوں ، ۶۷ نظموں اور متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔
لوح خاک
(۱۹۸۸ء) مجموعے میں ۶۰ نظمیں، ۶۵ غزلیں، ۷ قطعات اور ۱۳ متفرق اشعار موجود ہیں۔
جمال
(۱۹۹۲ء) مجموعہ ۲۲ نعتوں پر مشتمل ہے۔
بسیط
( ۱۹۹۵ء) مجموعے میں ۴۵ غزلیں اور ۳۶ نظمیں موجود ہیں۔
ارض و سما
(۲۰۰۶) مجموعه ۴۳ غزلوں ، ۱۳۲ نظموں ، ۵ قطعات اور ۳۰ متفرق اشعار پر مشتمل ہے۔
انور جمال
(۲۰۰۷) مجموعے میں ۲ حمدیہ، ۴ دعائیہ ، ۳۱ نعتیں، ۶ سلام، ۷ قطعات و رباعیات ، ۱۸ غزلیں اور ۱۰۴ غزلیہ اشعار موجود ہیں۔ قاسمی نے ” اس راستے پر ” کے نام سے ایک فولٹ بھی لکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں سماجی اقدار | مقالہ، احمد حسین | PDF
تنقیدی کتب
احمد ندیم قاسمی کے تنقیدی کتب میں ادب اور تعلیم کے رشتے، تہذیب و فن، اقبال ایک محاکمہ، پس الفاظ ، معنی کے تلاش اور تذکرے شامل ہیں۔ ان کے خاکوں کے نام "میرے ہم سفر ” اور ” میرے ہم قدم ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے ترتیب و تدوین کتب میں انگڑائیاں، نقوش لطیف، کیسر کیاری، منٹو کے خطوط بنام ندیم، پاکستان کی لوک کہانیاں اور نذر حمید احمد خان شامل ہیں۔
کاکی نے بچوں کے لیے آسمان کے گوشے میں ، دوستوں کی کہانیاں، نئی نویلی کی کہانیاں اور باغ کے گوشے میں جیسے نصیحت آموز کتب لکھتے ہیں۔ قاسمی کے کلیات میں ندیم کی غزلیں، ندیم کی نظمیں اور ندیم کے منتخب افسانے کے نام سے موجود ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کے زیر طبع تصانیف میں آنکھ کھولی، خوشاب کالونیا، بہن سے بچھو کا گھر ، جلیبیاں، اپریل فول، ایک پیسے کی ریوڑیاں ، دوستی اور چی دوستی ، سبز جھنڈا، کتابی کیڑا، روداد، تذکرے، ادبی تنقیدی مضامین (جلد اول اور جلد دوم) عنقا فکاری کالم (جلد اول اور جلد دوم موج در موج فکاہی کالم (جلد اول اور جلد دوم) ، رواں دواں، معاشرتی، سماجی کالم (جلد اول اور جلد دوم) ، احمد ندیم قاسمی کا منتخب کردہ کلام میر تقی میر، فلم ” دو راستے "حمایت علی شیر کی فلم "الوری ” ٹی وی کے لیے لکھے اور اور یجنل ڈراموں کے سکرپٹ مجموعہ اور ندیم کے نام مشاہیر کے خطوط کا مجموعہ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ قاسمی کے دیگر فلموں کے سکرپٹ، مکالمے اور ریڈیوں اور فیچرایسے بھی ہیں جو غیر شائع شدہ ہیں۔
اعزازات
احمد ندیم قاسمی کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں بہت سے اعزازات سے سے نوازا گیا اگر چہ انہوں نے ہر حال میں حکومت کے خلاف اور عوام اور عوام کا ساتھ دیا ہے۔ قاسمی نے کل پاکستان مقابلہ اردو نظم بہ عنوان ” پیغام عمل ” بہ اہتمام انجمن حمایت اسلام ( گولڈن جوبلی پر ) ۱۹۳۶ء ۳۷ میں اول انعام اور گولڈ میڈل بابائے اردو مولوی عبد الحق سے حاصل کیا۔
۱۹۶۴ء میں قاسمی کو شعری مجموعے دشت وفا پر آدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
۱۹۶۸ء میں پرائیڈ آف پر فارمنس اور ۱۹۷۶ء میں ان کے "محیط ” شعری مجموعے پر آدم جی ایوارڈ ملا۔
۱۹۷۹ء میں قاسمی کو تین ایوارڈ ملے تھے۔ پہلا ” دوام ” شعری مجموعے پر آدم جی ایوارڈ، دوسرا دوحہ ادبی ایوارڈ یو۔ اے۔ ای اور تیسر ا غالب ادبی ایوارڈ ( دہلی ، بھارت) سے ملا۔
۱۹۸۰ء میں قاسمی کو ستارہ امتیاز ، ۱۹۹۷ء میں پہلا کمال فن جبکہ ۱۹۹۹ء میں نشان امتیاز ایوارڈ ملا۔
۲۰۰۱ء میں "فن محمد ٹرسٹ "بجکر نے سال کی بہترین تخلیقات پر ” احمد ندیم قاسمی ایوارڈ کا اجرا کیا۔
۲۰۰۲ء میں قاسمی کو اے آر وائے گولڈ ادبی ایوارڈ ملا۔
فیچر فلموں ” دو راستے ” اور "لوری ” کے مکالموں پر بہترین مکالمہ نویس کے ” نگار ایوارڈ ملا۔
۱۰جولائی ۲۰۰۹ء کو پاکستان محکمہ ڈاک نے احمد ندیم قاسمی یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔
۲۰۱۷ء اسلام کی ایک بڑی سڑک سیونتھ ایونیو کو احمد ندیم قاسمی کے نام سے منسوب کر دیا اور قاکی کی ۱۰۰ ویں سالگرہ کے موقع پر ۲۰۱۶ء کو "ندیم صدی سال ” قرار دیا گیا۔ قاسمی کے اعزازات کے بارے میں ڈاکٹر افشاں لکھتی ہیں۔
” اتنے پر وقار اعزازات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ جیسے احمد ندیم قاسمی کسی شو ونڈو میں لگے ہوئے کسی شو میں یا عجائب گھر کی زینت بنے ہوئے کوئی ایسا بارعب مجسمہ تھے جس کو بس دور سے ہی دیکھ کر مسرت محسوس کی جاسکتی ہے۔(۸)
احمد ندیم قاسمی نے علمی ادبی مہارت کے بل بوتے اتنے اعزازات حاصل کئے ہیں، جس پر عوام تو چھوڑ دیں ادبا بھی رشک کرتے ہیں۔
ناقدین کی نظر میں
احمد ندیم قاسمی اردو ادبی میدان میں علیحدہ دبستان کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے افسانے فن کی اتنی بلندی پر ہیں کہ دیگر افسانہ نگار اس پر رشک کرتے ہیں۔ انہوں وہ تلخ حقائق اپنے افسانوں میں بر ملا بیان کی ہیں، جن سے دیگر افسانہ نگار دامن بھی بچاتے ہیں۔ قاسمی ادبی قافلے کے سالار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے بارے میں چند ناقدین کے اقوال درج ذیل ہیں۔
بقول ڈاکٹر افشاں:
’’احمد ندیم قاسمی شاعروں، ادیبوں اور نئے لکھنے والوں کے لیے چشمہ حیات کا درجہ رکھتےہیں۔‘‘ (۹)
ڈاکٹر ہارون الرشید:
’’پاکستان اور پاکستان سے باہر وہ ادب کا بڑا حوالہ تھے۔ ‘‘(۱۰)
فراق گھورکھ پوری:
’’ اردو ادب میں دو کیا آدمی ہیں جنہوں نے افسانہ نگاری اور شاعروں بولوں استاب ادب میں کئی باتوں اور بنی مندلوں کی نشان دہی کی ہے۔‘‘ (۱۱)
محمد احتشام حسین:
’’کیا افسانہ نگاری اور کیا شاعری دونوں قاسمی کے بانی ارتقا اور تخلیقی لگن کی ایک دل داستان سناتی ہیں۔ وہی مشاہدہ کی گہرائی اور ناز کی روہی انداز کی فسوں گرمی ، وہی اہم اور غیر اہم کا امتیاز ، وہی رومانی دفور کے سانچے میں ڈھلی ہوئی حقیقت پسندی ، وہی قد از قلب اور وہی انسان دوستی ، وہی احترام فن اور وہی انفرادی اند از نظر ایک اچھے شاعر اور افسانہ نگار ، اچھےدوست اور اچھے انسان کی ساری خوبیاں قاسمی میں جمع ہو گئی ہیں۔‘‘ (۱۲)
محمد خالد اختر:
’’آغاز ہی میں شاعری اور افسانہ نگاری میں اس کی (قاسمی کی انوکھی صلاحیتوں نے مولانا صلاح الدین احمد جیسے ناقدین سے داد وصول کی۔‘‘ (۱۳)
احمد ندیم قاسمی بلاشبہ بلند و پایا افسانہ نگار گزر چکا ہے۔ انہوں جس صنف پر قلم اٹھایا ہے ۔ اس پر گہری چھاپ چھوڑی ہے لیکن ان کی وجہ شہرت شاعری کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری بھی ہے۔ وہ افسانوی میدان میں سب سے اعلیٰ اور لاثانی حیثیت کے حامل ہیں۔
قاسمی کی شخصیت کی ایک اہم پہلو احساس ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے جس کام کی ذمہ داری لی ، انتہائی نفاست سےپایہ تکمیل تک پہنچایا ہے۔
وفات
احمد ندیم قاسمی دل اور پھیپھڑوں کے مرض میں عرصہ دراز سے مبتلا تھے۔ آخری برسوں میں دمے کے مرض نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا۔ وقفے وقفے سے وہ ہسپتال میں داخل ہوتے تھے لیکن سانس میں دشواری کے باعث انہیں ۲ جمالی ۲۰۰۰ میں پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کار را یاری میں داخل کر دیا گیا۔ مرض میں کافی کی ہوئی سائس لینے میں آسانی پید اہوئی، قاسمی اور اشگوار ہے میں باتیں کرتے ہے کہ اچانک ان کی حالت میں تغیر آئی اور ۱۰ جولائی میر کے عام پانی سے کوچ کر گئے۔ وفات کی وقت ان کی عمر تو اس برس تین چو اور میں ان فتقی تھی۔ ان کی جولائی کا دن قوم کے لیے انتہائی المناک دن تھا اور کا کسی کی وفات پر مامی ناز اور یوں نے اپنے مکالموں میں گھرے کا انفید کیا۔
حوالہ جات
۱۔ قاسم القمر خان اکثر احمد عدیم کا کسی کی افسانہ نگاری ” روی آزاد پریس سبزی باش، پانه ۱۹۹۶۰ ، ص ۱۳
۲۔ امید تا کی ڈاکٹر احمد عدیم تا کی معیت اور فن ” ، نٹ پر میں اسلام آباد، مطبع دوم ۲۰۱۸، ص ۵۸
۳۔ قاسم ظفر خان، ڈاکٹر، احمد ندیم قاسمی کی افسانہ نگاری ” وی آزاد پریس سبزی باغ، پله ۱۹۹۲۰ ، رص ۱۶
۴۔ ناہید کا کی، ڈاکٹر احمد ندیم قاسمی شخصیت اور فن ” نسٹ پر لیس اسلام آباد، طبع دوم ، ۲۰۱۸، ص ۵۲
۵۔ ایضاً، ص ۹۳
۶۔ ایضاً، ص ۲۶
۷۔ احمد ندیم قاسمی، "سلاب و گرداب ” ، اداره اشاعت اردد، حیدر آباد ۱۹۶۱۰، ص۹
۸۔ افشان ملک ، ڈاکٹر، ” احمد ندیم قاسمی آثار و افکار ” نیسٹ پر نشرس دہلی، جنوری ۲۰۱۷ء ، ص ۳۹
۹۔ ایضاً، ص ۴۲
۱۰ ۔ ناہید قاکی، ڈاکٹر، ” احمد ندیم قاسمی شخصیت اور فن ” ، نسٹ پر یس اسلام آباد، طبع دوم ۲۰۱۸، ص ۱۲۳
۱۱۔ ایضاً، ص ۱۳۳
۱۲۔ ایضاً ص ۱۳۴
۱۳۔ ایضاً، ص ۱۹۳
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں