اردو کی ابتدائی نشو و نما اور صوفیائے کرام
ساتویں صدی ہجری میں امیر خسرو نے فارسی اور ہندی کی آمیزش سے ایک نئی زبان تیار کی لیکن انہوں نے اپنے دیوان "غرۃالکمال” کے دیباچے میں لکھا ہے کہ مسعود سعد سلیمان لاہوری نے ایک دیوان ہندی میں بھی لکھا ہے اور یہاں سے اردو ادب کے ڈانڈے ملنا شروع ہوتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں مختلف سلاطین اور فاتحین آئے وہ اپنے ساتھ مختلف ماہر فنون اور علمائے کرام لے کے آئے جنہوں نے وہاں علم و ادب کے چراغ روشن کیے۔
سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کیے اور تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ وہ جب بھی آتا تھا اس کے ساتھ علماء اور صوفیاء بھی تشریف لاتے جن میں محمد بن ابو احمد کا نام نمایاں ہے۔
فتح سندھ کے بعد بھی علمائے کرام کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا اور انہوں نے مقامی لوگوں سے ان کی زبان میں معاملات طے کیے۔
سبکتگین نے بھی ہندوستان میں فتح کے جھنڈے گاڑے تو کئی مبلغین اس کے ساتھ آئے۔ اس طرح ان کے میل ملاپ سے ایک نئی زبان کی بنیادیں استوار ہونا شروع ہوئیں ۔
بہمنی سلطنت کے خاتمے کے بعد وہ پانچ ریاستوں میں تقسیم ہو گئی جن میں بیجا پور اور گولکنڈہ اہم ہیں کیونکہ ان علاقوں میں علم و ادب کو فروغ حاصل ہوا۔یہاں میراں جی شمس العشاق، برہان الدین جانم، خواجہ بندہ نواز گیسو دراز، ملک خوشنود، رستمی، شاہی، نصرتی،ملا وجہی،غواصی، نشاطی،عبدل،صنعتی، حسن شوقی سر فہرست ہیں ۔
اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں صوفیائے کرام کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ اردو کی خوش نصیبی رہی کہ ابتدا ہی سے اسے صوفیائے کرام کی سرپرستی حاصل ہوئی۔ جب سلطنتوں کے درباروں اور امراء کے حلقوں میں اردو کو زیادہ پذیرائی نہ ملی، صوفیاء نے اسے عوام الناس میں مقبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔اردو زبان کی ترویج و اشاعت میں علماء و صوفیاء کا کردار
احتشام حسین کا یہ قول کہ "اردو کو بادشاہوں اور امیروں نے منہ نہ لگایا اور نہ ہی اسے تہذیبی زبان کا درجہ دیا” اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ اردو کا آغاز اشرافیہ سے نہیں، بلکہ صوفیاء اور فقیر طبقے سے ہوا۔ صوفیاء نے اردو کو محض اپنی روحانی تبلیغ کا ذریعہ بنایا، بلکہ اسے ایک ایسی عوامی زبان میں ڈھالا جس نے دلوں میں محبت اور اخلاص کے بیج بوئے۔
مولوی عبدالحق، جو "بابائے اردو” کہلائے جاتے ہیں، اپنی تصنیف "اردو کے ابتدائی نشونما میں صوفیائے کرام کا حصہ” میں فرماتے ہیں کہ اردو کی ابتدائی نشونما فقیروں کی خانقاہوں اور صوفیوں کے تکیوں میں ہوئی۔ بادشاہوں اور امراء کے درباروں سے دور رہ کر، صوفیاء نے اس زبان کو عام لوگوں کی زبان بننے میں مدد دی، اور یوں اردو کو مقبولیت، وسعت اور شہرت نصیب ہوئی۔
صوفیاء کرام جیسے شیخ فرید الدین گنج شکر، امیر خسرو، بندہ نواز گیسو دراز، اور شاہ برہان نے اردو زبان کی ابتدائی تشکیل اور فروغ میں غیرمعمولی کردار ادا کیا۔ ان بزرگانِ دین کا فلسفہ یہ تھا کہ عوام تک اپنے پیغام کو پہنچانے کے لیے ان کی مقامی زبانوں میں بات کی جائے۔ انہوں نے فارسی اور عربی زبانوں کے بجائے مقامی بولیوں کو اپنایا اور ان کے امتزاج سے اردو کی بنیاد رکھی۔
صوفیائے کرام کی زبان میں سادگی اور خلوص تھا، اور یہی سادگی اردو کی خوبصورتی بنی۔ ان کے ملفوظات اور تصانیف نے اردو کو ایک ایسی زبان بنایا جو دلوں کو چھوتی اور فکری اور روحانی دنیا کے دروازے کھولتی تھی۔ اردو کا ارتقاء اس کی عوامی مقبولیت میں پنہاں ہے، اور اس کا سہرا ان صوفیاء کے سر ہے جنہوں نے دین کی تبلیغ اور اخلاقیات کے فروغ کے لیے اردو کو اپنی آواز بنایا۔
یوں، صوفیائے کرام کے اس عمل نے اردو کو نہ صرف لسانی طور پر مضبوط کیا بلکہ اسے ہندوستانی معاشرت اور تہذیب کا ایک لازمی حصہ بنا دیا۔ ان کا اثر آج بھی اردو زبان کی ہمہ گیریت اور مقبولیت میں جھلکتا ہے۔
Title: اردو کی ابتدائی نشو و نما اور صوفیائے کرام
Contributors: اریبہ کلسوم، جواد علی
About:
یہ مضمون اردو زبان کی ابتدائی ترقی اور صوفیائے کرام کے کردار پر روشنی ڈالتا ہے۔ صوفیاء کرام نے اپنی تعلیمات اور پیغام کو عام کرنے کے لیے اردو زبان کا استعمال کیا، جس کی بدولت اردو کو فروغ ملا اور یہ عوامی زبان بنی۔ اس مضمون میں صوفیائے کرام کی کاوشوں کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے اور ان کی اردو زبان کی ترقی میں خدمات کو نمایاں کیا گیا ہے۔