اردو زبان کی نشوونما میں مسلم صوفیائے کرام کا حصہ

اردو زبان کی نشوونما میں مسلم صوفیائے کرام کا حصہ

The topic اردو زبان کی نشوونما میں مسلم صوفیائے کرام کا حصہ (The Contribution of Muslim Sufi Saints in the Development of the Urdu Language) was discussed in detail in the WhatsApp group. Participants, including

محترمہ ربیعہ نور بنت محمد, محترم سید اعجاز حسین عاجز اور محترم سید نور شیاب

provided valuable insights into the pivotal role played by Muslim Sufi saints in shaping and nurturing the Urdu language. This post brings together their thoughts, highlighting the cultural and spiritual impact of the Sufi contributions to the development of Urdu.

اردو زبان کی ترویج و ترقی میں مسلم صوفیا کرام نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ۔ مسلم صوفیا کرام نے اردو ادب کیلئے بیش بہا خدمات انجام دیں۔

جب عرب ممالک سے ہندوستان کی طرف آئے تو ان کا مقصد فقط مذہبی تبلیغ تھا ۔ چونکہ مسلمانوں نے اپنا پیغام و اسلام لوگوں تک پہنچانا تھا تو اس کیلئے ان کو کسی ایسی زبان کی ضرورت درپیش تھی جو کہ تمام عوام و خواص کی فہم و فراست میں آ سکے ۔ اور ان کا مقصد یعنی فروغِ اسلام پایہِ تکمیل کو پہنچے ۔

مزید یہ بھی پڑھیں: اردو زبان کی نشوونما میں صوفیا کرام کا حصہ/کردار از شیخ بو علی قلندر

کافی سوچ بچار کے بعد مسلمانوں نے اردو جو کہ اس وقت مختلف ناموں سے جانی جاتی تھی (ریختہ ، ہندی ، ہندوی ، گوجری وغیرہ ) کو ذریعہ کلام بنایا ۔ اس سے نہ صرف ان کی بات لوگ سمجھ پاتے بلکہ ان کا مقصد بھی باخوبی سر انجام پاتا ۔

مسلم صوفیا نے اسی زبان میں اپنے کلام لکھے اور عوام تک پہنچائے ۔ جن میں کافی ، بارہ ماسہ ، ملفوظات ، اقوال ، شعر و گیت، خطبات وغیرہ شامل ہیں ۔ شیخ بہاولدین زکریا ملتانی کے ملفوظات ” خلاصۃ العارفین کے نام سے ہیں ۔ خواجہ معین الدین چشتی نے اپنے مرشد خواجہ عثمان ہارونی کے ملفوظات” انیس الارواح ” لکھے ہیں اور دوسرے بزرگوں کے ملفوظات بھی سرِ فہرست ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں: اردو ناولوں میں صوفیانہ کرداروں کاتجزیہ | pdf

  ہندوستان میں آنے والے مسلم صوفیا نے اردو کو فقط اپنے مقصد کیلئے استعمال کیا جبکہ ادب کی خدمت غیر شعوری طور پر ہوئی ۔ صوفیا کرام اردو زبان کی ترقی میں ہندی اور فارسی مصرعوں کی آمیزش سے کلام لکھتے تھے ۔ جن میں امیر خسرو کا کلام 

زحالِ مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں لیہو گاہے لگائے چھتیاں

میر تقی میر نے اپنی کتاب ” نکات الشعراء” میں جہاں ریختہ کی مختلف اقسام کو بیان کیا ہے وہاں فارسی افعال آمیز ریختہ کو معیوب کہا ہے ۔

اس دور میں نہ صرف شعری اصناف سے ادب کو فروغ ملا بلکہ بیک وقت نثری اصناف بھی بغل گیر رہیں ۔ اس بات کا ثبوت شمس العشاق شاہ میاں جی سے ملتا ہے جو کہ مکہ میں پیدا ہوئے اور بارہ برس وہیں مقیم رہے پھر اک روز حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں زیارت کروائی اور ہندوستان کی طرف سفر کرنے کا حکم دیا ۔

آپ نے کہا کہ مجھے تو وہاں کی زبانوں پر عبور حاصل نہیں تو اس پر آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے نوید سنائی کہ تم جاؤ اور تمھیں عبور بھی حاصل ہو جائے گا ۔ پھر آپ ہندوستان کو آئے اور بہت جلد زبان ( ہندوی ) سیکھی اور دین کے فروغ کیلئے بہت سے رسائل و جریدے یادگار چھوڑے ۔

بیرون سے ہندوستان میں آنے والے مسلم صوفیا نے اردو کی ترویج و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ۔ اور اردو ادب میں اپنے قلم سے بہت سے نمونے یادگار چھوڑے ۔ ہندوستان میں مسلم صوفیا کی آمد کا دور 900 ہجری کے بعد سے شروع ہوتا ہے ۔ جو کہ پھر جاری ہی رہا ۔ اور اس طرح عربی ، فارسی ، ہندی زبانوں سے مل کر ایک مخلوط زبان تشکیل پائی جسے آج اردو کہا جاتا ہے ۔

برصغیر پاک و ہند میں خانقاہی نظام، اپنی اصل شکل میں، متنوع پہلوؤں سے نفع بخش رہا ہے۔ اردو زبان کا ارتقا بھی انھی میں سے ایک اہم اور نمایاں پہلو ہے۔ ہمیشہ معاشرے کا پسا ہوا طبقہ ان بزرگوں کی طرف رجوع کرتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو بولیاں بولتے ہیں۔ اور پھر ان بولیوں کے امتزاج سے نئی زبانیں جنم لیتی ہیں۔

اردو زبان کے ارتقاء میں مسلم صوفیا نے جو خدمات انجام دی ہیں ان میں سر فہرست جو نام ہیں وہ یہ ہیں شیخ فرید الدین شکرگنج ،شیخ شرف الدین بو علی قلندر، امیر خسرو، شیخ شرف الدین منیری ،شاہ برہان الدین غریب، برہان الدین عبداللہ قطب عالم، سید محمد جون پوری، شیخ بہاؤدین باجن، سید شاہ ہاشم حسنی العلوی، شمس العشاق شاہ میراں جی، شاہ برہان الدین جانم ،وغیرہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں