اردو ناول کا فن | The Art Of Urdu Navil
اس تحریر کے اہم مقامات:
- ڈینیلڈفو” کے نزدیک ناول کے فن کے لیے دو اجزاء کا ہونا ضروری اور لازمی ہے…
- آل احمد سرور: قصہ گوئی انسان کی ابتدا سے ملی ہے مگر ناول مہذب انسانوں کی ایجاد ہے۔۔۔۔
- رائف فاکس:ناول عہد جدید کا رزمیہ ہے۔۔۔
- ناول کاسب سےاہم عنصر کہانی ہے۔عام طور پر ناول کو محض کہانی ہی سمجھا جاتاہے۔۔۔
- چھوٹے چھوٹے کردار عام طور پر بڑےکرداروں کی شخصیت وسیرت نفسیات و فطرت کو اُجاگر اور منورکرنے کے لیے لائےجاتے ہیں۔۔۔۔
- یورپ میں ناول پر بےتحاشہ کام ہونے کے بعد انیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرے میں ناول پر ابتدائی تجربات ہونے لگے۔۔۔
موضوعات کی فہرست
ناول کا فن
ناول لفظ اطالوی زبان سے مشتق ہے۔ سب سے پہلے وہ لفظ جو چودہویں صدی عیسوی میں سامنے آیا یہ اصل لفظ ناویلا ہے۔یہکہانی کا مفہوم رکھتی ہے لیکن بعد میں ناول کا لفظ اس کہانی کے لیے مخصوص ہو گیا ہو نثر میں لکھیگئی ہو،
جس میں رومانوی اور معاشی اثرات ملے۔ اب تک تاریخی تحقیق کے مطابق ناول کا سلسلہ اطالوی زبان کےمذکورہ بالا اصطلاح سے ملتا ہے۔ "ڈینیلڈفو” کے نزدیک ناول کے فن کے لیے دو اجزاء کا ہونا ضروری اور لازمی ہے
یعنی حقیقت نگاری اور اخلاقی نقطۂ نظر در اصل ناول کا فن اس مخصوص کہانی ہیت اور ماہیت سے عبارت ہے جس نے کہانی کی پردہ سماجی شعور کی تنقیدوترجمانی زیادہ حقیقت پسندانہ انداز میں شروع کی، ناول کی سب سے بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ ناول سیاسی و سماجی کشمکش، آمیزش اور آمیزش کو زیادہ معروفیت اور حقیقت پسندی کے ساتھ پیش کرتا ہے۔
ناول کے سلسلے میں سماجی حقیقت نگاری اور طبقاتی تصادم کا بنیادی اور حقیقی مصادر اس لیے قرار پائےگئے کہ ان کا تعلق روح سے ہے یعنی داخلی اور فنیپیمانہ معنی ہے۔خارجی سطح پر ناول کئی دوسرے فنی اور جمالیاتی تقاضوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جن کے دائرے میں کردار نگاری ،واقعہ طرازی، پلاٹ وغیر ہ آتے ہیں۔
"بلا شعوری طور پر جمالیاتی اقدار کی نشاندہی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ قصہ گوئی انسان کی ابتدا سے ملی ہے مگر ناول مہذب انسانوں کی ایجاد ہے۔ سرمایہ داروں نے نظریہ سے دلچسپی پیدا کی اور اس دلچسپی نے ناول کو جنم دیا۔ "
"مسیح الزمان نے ناولکی باضابطہ تعریف تو نہیں کی ہے لیکن ناول کی تکنیک سے بحث کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ناول میں انسان کی معاشرتی زندگی کی تصویر پیش کی جاتی ہے۔ یہ تصویر واقعات ، حالات وافکار کے میل جول سے اس طرح مرتب کی جاتی ہے
کہ اس سے پڑھنے والے پر زندگی کا وہ نظر یہ یا تصور واضح ہو جائے جو ناول نگار کے ذہن میں ہے۔ ناول نگار انسانوں کی زندگی کو دیکھتا ہے وہ اس کی زندگی کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ اپنی جگہ سچی اور اصل ہونے کے ساتھ ساتھ مجموعی حیثیت سے بحث کرتے ہوئے مجموعی حقیقت ایسی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے پر ایک خاص اثرچھوڑ جاتی ہے۔”
قمرر ئیس:
” ناول کیصنفی حیثیت سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ناول اپنی موجود ہ فنی اور صنفی ہیت معنوی ہیت میں صنعتیدور کی تخلیق ہے۔ "
یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد جب علم و فن کی روشنی پھیلی اور سائنسی ترقی ہوئی ،مادی وسائل بدلے اور ایک نظام زندگی میں آیا۔ جس میں فرد یا عام انسان کی شخصیت، صلاحیت اور قوت نمایاں ہوئیں تو اس ترجمانی کے لیے ادب میں ناول جیسی صنف پیدا ہوئی۔ یہ نئی سائنسی، صنعتی اور سرمایہ دارانہ معاشرت اپنی ساری کشمکش اور گہماگہمی کے ساتھ جو جو ترقی کرتی گئی ناول کے فن میں نکھار آتا گیا۔
بقول رائف فاکس:
"ناول عہدجدیدکارزمیہ ہے۔جس میں فرد،سوسائٹیاورنیچرکےخلافبرسرپیکارنظرآتاہے۔یہصنفادبایکایسےمعاشرےمیںنشوونماپاسکتیہےجہاںفرداورسوسائٹیکےدرمیانتوازناٹھگیاہو۔”(٢)
ناول کےعناصرترکیبی
کہانی
ناول کاسب سےاہم عنصر کہانی ہے۔عام طور پر ناول کو محض کہانی ہی سمجھا جاتاہے اور عام ناول میں کہانی کےسوا کچھ ہوتا بھی نہیں مگراعلیٰ سے اعلی ناول بھی بغیر قصہ یعنی کہانی کے وجود میں نہیں آسکتا۔کہانی ہی ناول کو ناول کہلانے کا مستحق بناتا ہے۔
“مسٹر ای ایم خو سٹر“ جو بڑے کا میاب ناول نگار ہیں۔ اس نے خوب کہا کہ قصہ ہی نہیں ناول کی ریڑھ کیہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کہانی سے لطف اندوز ہونا ہماری فطرت میں شامل ہے انسان ہمیشہ کہانی میں دلچسپی لیتا ہے اورہمیشہ لیتا رہے گا۔
بعض قصے دلچسپ ہوتے ہیں اور بعض بے مزہ۔ بعض قصے ایسے ہوتے ہیں جن کے سننے کو دل چاہتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں ان کو سننے کو دل ہی نہیں کرتا۔
کہانی میں انتظار یا تجسس کے خلش خاص چیز ہے۔ جتنی زیادہ انتظار کی خلش ہو گی اتنی دلچسپ کہانی ہو گی۔ کہانی کو دلچسپ بنانے کا فن ہر کسی کو نہیں آتا نہ ہی ہر شخص سیکھ سکتا ہے۔ یہ بھی ایک خداداد نعمت ہے۔” مسٹر میر یاٹ“نے دنیا کے تمام قصوں کو محض تینقسموں میں تقسیم کیا ہے۔ ان کی رائے میں کچھ قصےخط مستقیم کی طرح ،کچھ مثلث کی طرح اور کچھدائرے کی طرح ہوتے ہیں۔
انگریزی زبان میں سب سے پہلے قصے کی کتاب جو ناول کہی گئی وہ”رچارڈسن“کی”پیملا“تھی اور اس میں نیاپن یہ تھا کہ اس سے ایک خادمہ پمیلا کے عشق کا قصہ بیان ہواتھا اور پریوں کی جگہ انسانی زندگی کی کہانی بیان کی گئی تھی۔
در اصل داستان،افسانہ اور ڈرامہ کی طرح ناول کے لیے بھی کہانی بنیادی چیز ہے۔ کہانی کے بغیر کوئی ناول ممکن نہیں۔
ناول میں تجسس ہی کہانی کے ذریعے پیدا ہوتا ہے۔ ناول میں جو کہانی پیش کی جائے اس کا حقیقت کے ساتھتعلق ہونا چاہیے ورنہ ناول پر داستان گوئی کا غلبہ رہے گا۔
پلاٹ
پلاٹ اس خاکے کا نام ہے جس میں ناولنگار کہانی کے آغاز ، ارتقاء ،تعمیر، بناوٹ، مختلف واقعات کی ترتیب مختلف واقعات کا آپس میں ربط ،ان کی اتار چڑھاؤ، کہانی کا عروج اور کہانی کے تکمیل و خاتمے کے متعلق اپنے طور پر بناتا ہے۔ ایک ناول نگار تبناول لکھنے کے قابل ہوتا ہے۔ا گر وہایک اچھا پلاٹ تیار کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
“پلاٹ بنانا ایک قسم کا فنی تعمیر ہے اور اچھے پلاٹ والے ناول کا ہر حصہ اس طرح تعمیر ہوتا ہے جسے کسی عمارت کے الگ الگ حصے۔ ایک سیدھے سے پلاٹ کے عموماً پانچ حصے ہوتے ہیں۔ پہلے حصے میں تمام کرداروں کا تعارف ہو جاتا ہے، دوسرے حصے میں ان کرداروں کے معاملات میں گھتیاں پڑھنے لگتی ہیں۔ تیسرے حصے میں یہ گھتیاں اس درجہ الجھ جاتی ہیں کہ ان کا سلجھنا محالمعلوم ہونے لگتا ہے۔ چوتھےحصے میں یہ سب گھتیاںسلجھنے لگتی میں اور پانچویں حصے میں تمام معاملات خاتمے پر پہنچ جاتے ہیں۔ الغرض پلاٹ کی بناوٹ جتنی زیادہ دلکش ہوگی اتنا ہی اچھا پلاٹ ہو گا۔”(۳)
کردار
جس طرح کہ میں نے شروع میں کہا کہ کوئی بھی ناول کہانی کے بغیر ممکن نہیں اس طرح کوئی بھی کہانی کرداروں کے بغیر لکھنا ممکن نہیں۔ چونکہ ناول معاشرے کی عکاسی کرتا ہے اس لیے اس کے کرداروں کا تعلق حقیقت سے ضرور ہوتا ہے ان کرداروں کے افعال و اعمال اور عمل در عمل سے ہی ناول کی تشکیل ہوتی ہے۔
عام طور پر قصوں میں دو طرح کے کردار ہوتےہیں۔ کچھ بڑے اور کچھ چھوٹے۔ بڑے کرداروں میں ہیرو، ہیروئن اور ویلین کا کردار شامل ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے کردار چھوٹے کرداروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ہیرو ہیروئن کا کردار زندگی کی صالح تعمیری انسانی اور اعلی قدروں کی نمائندگی کرتا ہے، اور ویلین کا کردار زندگی کے منفی پہلوؤںکا ترجمان ہوتا ہے۔ ان دونوں کرداروں کے تصادم اور ٹکراؤ سے واقعات سامنے آتے ہیں اور قصہ آگے بڑھتا ہے۔ اس لیے کردار نگاری بڑا مشکل فن ہے یہ واقعہ طرازی کو بھی متاثر کرتی ہے اور قصہ گوئی کو بھی۔
چھوٹے چھوٹے کردار عام طور پر بڑےکرداروں کی شخصیت وسیرت نفسیات و فطرت کو اُجاگر اور منورکرنے کے لیے لائےجاتے ہیں۔
“چونکہ کرداروں کے سہارے سے واقعات کی تخلیق ہوتی ہے اور ارتقائی منزلیں طے کرتا ہے۔ اس لیے کردار نگاری ہنر مند فنکارانہ شعور کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔”(۴)
ماحول
اکثر ناول نگار کسی جغرافیائی ماحول کو لے کر اسے ہر ناول میں اسی ماحول کے مختلف پہلوؤں کو پیش کرتے ہیں۔ کوئی کسی خاص طبقے کی ، کوئی کسی دیہات کی ، کوئی محض سیاسی کوئی اقتصادی وغیرہ زندگی کی عکس کشی کو اپنا دائرہ بنا لیتا ہے۔
بعض ناول نگار تمام ملکوں مجموعی حیثیت سے سامنے رکھ کر اس کی مکمل تصویر پیش کرتے ہیں ۔ناول نگار ناول میں ماحول دو طرح سے سامنے لاتا ہے ایک یہ کہ سماج کے نقشے، بازاروں، گلیوں ،سڑکوں وغیرہ کے حالات کو پیش کرتا ہے۔ دوسر ے یہ کہ دو مناظر قدرت کو پیش کرتے ہیں۔ جس میں جنگل و پہاڑوں ، دریاؤں وغیرہ کی تصویر یںلائی جاتی ہیں۔ اچھے ناول میں یہ قوت بہت نمایا ں ہوتی ہے اور اس کی مدد سے ناول نگار ماحول کو مکمل طور سے ہمارے سامنے پیش کر دیتا ہے۔
قدرتی مناظر پیش کرنے کے سلسلے میں عموماً دو طریقوں پرعمل کیا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ مناظر کی عکس منظر کی ظاہری خصوصیات ہے اور اس کے روشن و تاریک حصوں کو ہو بہو پیش کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ مناظر کو اس طر ح پیش کیا جائے کہ قصہ یاکر دار پر ان کا اثر نمایاں ہو جائے۔ناول میں ماحول سازی کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ قصہ کسی نہ کسی خاص عہد، طرز حیات، عصری زندگی اور سماجی اقدار و اخلاق اور رسومات و روایات سے متعلق ہوتا ہے۔ لہذا ناول میں قصہ ماحول کے پیشکش کا اہم مرحلہ ہے۔ اکثر ناول نگار اس کو اہمیت نہیں دیتے جس کے نتیجے میں ان کی تخلیق اثرو تاثیر کے اعتبار سے کمی کا شکار ہو جاتی ہے ۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی بھی ماحول اور پس منظر کو ایک سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ماحول اورمنظرنگاری میں بڑا فرق ہے۔ منظرنگاری فطرتی ہوتے ہوئے بھی فکار کی رجحانات و میلانات کے تابع ہے اور ماحول سازی میں فکار کو عصری زندگی کا تابع رہنا پڑتا ہے۔
ماحول در اصل عصری ، تہذیبی و تمدنی زندگی کے قدر و معیار کی ترجمانی اور نمائندگی سے عبارت ہے۔
"ماحول سازی کے لیے فنکار کو کم و بیش انہیں جمالیاتی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے جن سے وہ کردار نگاری، واقعہ طرازی وغیرہ میں گزرتا ہے۔ یعنی سماجی زندگی کی جانی پہچانی تصویر کشی انتخاب و ارتقاء اور حقیقت پسندی۔ حاصل گفتگو یہ ہے کہ مناسب ماحول سازی کی کمی بھی کسی ناول کی ناکامیابی کا سبب بن سکتی ہے۔ ” (۵)
منظر نگاری
منظر نگاری ایک مشکل مرحلہ فن ہے۔ یہ اصطلاح بڑی وسط اور نیرنگی کیحامل ہے۔ عام طور پر منظر نگاری کو بہت ہی سادہ انداز میں بیان کیا گیا ہے لیکن منظر نگاری وہ صفت ہے جو ناول کی روح سے متعلق ہوتی ہے۔ عالمی ادب میں منظر نگاری کی چارصورتیں ملتی ہیں۔
منظر نگاری عربی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی جائے نظر اور حد نظر ہے۔ منظر نگاری ناول کا بنیادی حصہ ہے۔ ایک ناول نگار گرد و پیش کے حالات کی تصویر کشی کرتا ہے۔ ایک باکمال فنکار منظر کشی کالازمی حصہ بنادیتا ہے اور اسی کی مددسے کرداروں کی فطرت،سیرت،جذبات اور احساسات کے مختلف گوشوں کو بے نقاب کرتا ہے اور قدرتی مناظر کی ایسی تصویر تیار کرتا ہے جو قصہ کے ساتھ جذبات سے مکمل ہم آہنگ ہوں۔
جب ایک تخلیقی فنکار مختلف مناظر پیش کرتا ہے اور کا ئنات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ تو اپنی نئی بصیرت سے ایسے مرقے پیش کرتے ہیں جس سے قاری متاثر ہوتاہے اور اپنے آپ کو ان ماحول میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عبداللیث صدیقی رقم طراز ہے:
“ ناول میں اس حقیقت نگاری کے حصول کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اسے آسان اور فطری انداز میں ہر واقعہ، منظر یا حالت کو پیش کیا جائے کہ وہ بلکل حقیقی لگے”
منظر نگاری ناول کے عناصر تر کیبی میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ اکثر ناقدین ادب میں منظر کشی کو ناول کی فنی مبادیات کا ایک ضروری حصہ قرار دیتے ہیں۔منظر نگاری میں مختلف علاقوں کی ثقافت،شادی بیاہ کے تقریبات، جلسے جلوس کی منظر کشی ہوتی ہے۔لہذا ناول نگار کومطالعہ اسلوب اور انداز تحریر پر گرفت حاصل ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں علی عباس حسینی لکھتے ہیں کہ :
"ناول کا پانچواں عنصر منظر نگاری ہے۔ اس کی وجہ سے زمان و مکان کا تعین ہوتا ہے اور اوقات اور موسموں کا بیان اور مکانوں کے خاکے آبادیوں کے نقشے ،اسباب ضرور ت و ذہنی ہے۔ ناول نگار کو چاہیے کہ وہ ان امور کو سلیقہ انداز سے بیان کرے کہ پڑھنے والے کے سامنے تصویر کھینچ جائے ۔” (۶)
موضوع
ناول کی کامیابی کا انحصار بڑی حد تک موضوع پر ہے۔ موضوع کوئی فرد بھی ہو سکتا ہے اور افراد کا مجموعہ بھی ۔ یہ سچ ہے کہ آپ بیتیوں اور سوانح خاکوں کا تعلق انسانی زندگی سے ہوتا ہے اور یہ بھی قاری کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکنچونکہ ان کا موضوع فرد ہوتا ہے اس لیے یہ تاثیر یا نتائج کا حامل نہیں ہوتا۔ لیکن جن موضوعات میں آفاقی اقدار اور عام انسانی زندگی کے نقوش کو ایک اکائی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ چنانچہ وہی ناول معیاری قرار پاتے ہیں۔ اردو ناول کی ارتقاء پر روشنی ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا سے ہمارے ناولوں میں زندگی اور سماج کو کسی نہ کسی حد تک عکاسی کی گئی ہے ۔
چونکہ انسانی تہذیب اور اس کے اقدار تغیر پذیر ہیں اس لیے ہم انہیں آج کے پیمانوں سے نہیں ناپ سکتے ۔ ہمیں ان ناولوں کے موضوعات کو اس موجودہ دور کے ناول نگاروں نے چونکہ اپنے عہد کے تقاضوں سے روگردانی نہیں کی اس لیے ان کے یہاں زندگی اپنی حقیقی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ زندگی حسیں بھی ہے اور بدنما بھی اس میں کانٹوں کے کھٹک بھی ہے اور پھولوں کی مہک بھی ۔ ناولوں کے کرداروں میں ہر طرح کے انسان نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر سلام سندیلوی نے ایک اچھے ناول کی خصوصیات سے بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
"ناول کا پلاٹ چاہے غریب طبقہ سے لیا جائے یا امیر طبقہ سے اس کا تعلق چاہے ماضی سے ہو چاہے حال سے ہو لیکن اس کے پلاٹ میں زندگی کی پرچھائیاں ضرور ہو ں گیچنانچہ اچھے ناول نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندگی کی ان تمام پرچھائیوں کو اپنے ناول کا موضوع بنائے۔”(۷)
مکالمہ نگاری
مکالمہ نگاری بھی ناول کا ایک اہم جزو ہے۔ یہ وہ الہ ہے جس کے ذریعے ناول نگار اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتا ہے۔ مکالمہ ایک قسم کی ڈرامہ نگاری ہے۔جو تصویر کشی سے یقینا زیادہ بہتر اور دلچسپ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے یونان میں سقراط نے اس کی اہمیت کو واضح کیا اور کہا کہ اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ مکالموں میں آمد ہو اور تکلف سے پرہیز لازمی ہے ۔
ڈاکٹر سلام سندیلوی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ:
"مکالمہ نگاری میں کمال حاصل کرنا آسان کام نہیں یہ ایک فن ہے جو ریاضت کے ساتھ ایک خاص ذوق کا طالب ہے۔”
"ادبی ناول میں کردار نگاری پر اس کا خاص اثر ہوتا ہے اس کے ذریعے کرداروں کے جذبات واحساساتی ترجمانی ہوتی ہے۔ مکالمہ کا فطری ہونا ضروری ہے ۔زبان و بیان کی خوبی بھی مکالمہ نگاری میں بڑی اہمیت رکھتی ہے ۔جو کردار جس طبقے سے تعلق رکھتا ہو۔ناول نگار کو اس طبقے کی زبان کو استعمال کرنا چاہیے مگر اس میں کچھ نہ کچھ ادبی شان کا بھی لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔” (۸)
ناول نگاری کی کی مختصر روایت
زمانہ قدیم میں وقت گزاری کے لیے قصہ داستان کی شکل میں ہمارے پاس موجود تھا۔ داستان تخیل پرست قصہ گوئی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق یا واسطہ نہیں تھا ۔
سائنسی علوم اور تحقیق سے پہلی زندگی میں دیو،پریوں،جادوگر اور طلسمی تخیل اور غیبی امداد پر ہر انسان ایمان لے آتا تھا۔ وہ ایسا دور تھا جب لوگ فرصت سے تھے اور کم علمی رکھتے تھے۔ پھر زمانہ بدلا اور شعوری فضا پیدا ہوئی۔ زندگی پیچیدہ مسائل اور پیچیدہ زاویوں کی حامل ہوئی ۔ تو گویا داستان گوئی کا تخلیقی اظہار بھی حقیقت کے مرحلے میں داخل ہو گیا۔بیہوہ زمانہ تھا جب انگریز معاشرہ جاگردارانہ نظام سے نکل کر سرمایہ دارانہ نظام میں ڈھلرہا تھا۔نئے علوم، نئی دریافتیں اور نئےافکار زندگی کو بدل رہے تھے جس کے نتیجے میں مصروفیات بڑھ گئیں اور وقت کی قلت کے باعث داستان زوال پذیر ہونے لگیں۔ اسی طرح لوگوں کو داستان گوئی میں دلچسپی کم ہوگئی ۔
داستان کی طوالت کو سمیٹا گیا ،دیومالائی کرداروں کی جگہ انسانی کردار سامنے لائے گئے ،زندگی کی ترجمانی حقائق کی بنیادوں پر ہونے لگی۔ تخیل پرست اور من گھڑت قصے کی جگہ حقیقی زندگی کے مصائب اصولوں اور غم اور خوشیوں کے موضوعات کو لے کر ناول کا سورج طلوع ہوا۔ جس کی ابتدائی کر نیں مغرب میں اور بعد ازاں مشرق میں پھیلیں۔
یورپ میں ناول پر بےتحاشہ کام ہونے کے بعد انیسویں صدی میں ہندوستانی معاشرے میں ناول پر ابتدائی تجربات ہونے لگے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں