تحریر از پرائمری سکول ٹیچر جواد علی
ہر سال 5 اکتوبر کو دنیا بھر میں "عالمی یومِ اساتذہ” بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بچوں کے ہاتھوں میں پھول، اساتذہ کے لیے تہنیتی کارڈز، اور تقریباً ہر جگہ شکریہ کے الفاظ سنائی دیتے ہیں۔ گویا یہ ایک دن ہے جو اساتذہ کے کام کی عظمت اور ان کی محنت کا اعتراف کرنے کے لیے مختص ہے۔ بظاہر یہ ایک انتہائی خوشگوار اور محبت سے بھرپور دن دکھائی دیتا ہے، لیکن کیا واقعی یہ دن اساتذہ کے لیے خوشی کا باعث بنتا ہے؟ یا پھر یہ دن دراصل ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتا ہے؟
سچ یہ ہے کہ بہت سے اساتذہ اس دن سے خوش نہیں ہیں، اور کیوں ہوں؟ یہ دن معاشرے کے سامنے بس ایک نمائشی تقریب بن چکا ہے جس میں ان کی محنت اور قربانیوں کو خوبصورت الفاظ اور جھوٹے وعدوں کے پیچھے چھپا دیا جاتا ہے۔ جیسے سارا سال اساتذہ کی محنت و مشقت کو فراموش کر دیا جائے اور پھر ایک دن ان کے لیے کچھ خوبصورت الفاظ کہہ کر ہر چیز ٹھیک کر دی جائے۔
یہ دن ایک ایسی تصویر بن چکا ہے جو سجی سنوری تو نظر آتی ہے، مگر اندر سے کھوکھلی اور دکھ بھری ہے۔ اس دن کی حقیقت یہ ہے کہ یہ اساتذہ کے مسائل اور مشکلات کو نظرانداز کرنے کا ایک اور طریقہ ہے، گویا "یہ لو ایک دن تمہارے لیے!”، اور باقی سال وہی پرانی بے قدری، کم تنخواہیں، اضافی کام، اور بے حس رویہ۔ یومِ اساتذہ ایک دن کا میٹھا دھوکہ ہے، جو سماج اساتذہ کو دے کر مطمئن ہو جاتا ہے۔
تو کیا واقعی ہمیں اس دن کا جشن منانا چاہیے؟ یا پھر ہمیں اس دن کو ایک موقع سمجھ کر غور کرنا چاہیے کہ ہم نے ان اساتذہ کے ساتھ سال بھر کیا کیا؟ اس تمہید کے ساتھ، آئیں ہم ان اسباب پر بات کریں جن کی بنا پر اساتذہ "یومِ اساتذہ” سے خوش نہیں ہوتے۔
اساتذہ کو پڑھانے نہ دینا:
جب ہم سرکاری سکولوں کی بات کرتے ہیں، تو وہاں تعلیم کا حال ایسا ہے جیسے کوئی استاد روزانہ "کلاس روم” کے بجائے "تھانے” جا رہا ہو۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی کمی وہ مسئلہ ہے جسے نظرانداز کرنا اب قومی کھیل بن چکا ہے۔ جی ہاں، آپ صحیح سمجھے، وہی سکول جہاں "پڑھائی” کا لفظ سن کر سب ہنس دیتے ہیں، جیسے کسی نے بہت بڑا لطیفہ سنا دیا ہو۔ ہر سکول میں سو سو بچوں کے لیے کے لیے ایک استاد، اور وہ بیچارہ بھی زیادہ تر پڑھائی سے زیادہ دوسری غیر تعلیمی سرگرمیوں میں پھنسا ہوا۔
اساتذہ کی کمی کے باوجود، جو چند استاد بچ جاتے ہیں، انہیں مختلف سرکاری کاموں میں الجھانا تو گویا روایت بن چکا ہے۔ کبھی الیکشن کی ڈیوٹی، کبھی مردم شماری، کبھی پولیو مہم، اور کبھی کسی دفتر کے بے ہنگم کام۔ گویا استاد اب استاد نہیں، بلکہ "ہر کام کے ماہر” بن چکے ہیں۔
سکول کا ماحول ایسا ہو چکا ہے کہ بچے پڑھنے آئے ہیں یا وقت گزارنے، اس میں کوئی فرق نہیں۔ استاد بچارے صبح سکول پہنچتے ہیں اور کلاس کے بجائے دفتر کی فائلیں سنبھالنے لگتے ہیں۔ کبھی کوئی افسر دورہ کرنے آتا ہے تو استاد صاحب کو رپورٹیں تیار کرنے میں لگایا جاتا ہے۔ کلاس میں موجود بچے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ شاید آج استاد جی کچھ پڑھائیں گے، مگر انہیں کیا معلوم کہ استاد جی خود کسی اور "کلاس” میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اور یہ سب اس کے باوجود ہے کہ اساتذہ کی تعداد پہلے ہی ناکافی ہے۔ اگر کوئی استاد واقعی دل سے پڑھانا بھی چاہے، تو اسے موقع نہیں ملتا۔ وہ پڑھائے گا یا سرکاری کاغذوں کا حساب رکھے گا؟ تعلیم کے نام پر یہ مذاق جاری ہے، اور ہمارا تعلیمی نظام اسی طرح ڈگمگاتا ہوا چلتا رہتا ہے۔
اساتذہ کے ساتھ یہ سلوک نہ صرف ان کی بے عزتی ہے بلکہ پوری قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے کے مترادف ہے۔ جب تعلیم ہی مذاق بن جائے تو اساتذہ کیوں خوش ہوں؟ یومِ اساتذہ پر پھولوں کے ہار پہنائے جائیں یا نہیں، انہیں پڑھانے کا حق واپس دلانا اصل تحفہ ہوگا!
دور دراز کی تعیناتی: استاد پڑھائیں یا مسافر بنیں؟
ہمارے ملک میں اساتذہ کو دور دراز علاقوں میں تعینات کرنے کا جو نظام ہے، وہ گویا انہیں تعلیم کے بجائے سفر کرنے کا ماہر بنا رہا ہے۔ جب استاد کی تعیناتی ایسی جگہ پر ہو جہاں شہر کا نقشہ بھی دھندلا نظر آئے، وہاں وہ پڑھانے کا سوچے یا راستہ تلاش کرنے میں زندگی گزارے؟ دور دراز علاقوں میں تعیناتی، جہاں بنیادی سہولیات تک میسر نہیں، اساتذہ کے لیے ایک مسلسل ذہنی و جسمانی عذاب ہے۔
یقیناً، ٹرانسفر ایک امید کی کرن ہوتا ہے، لیکن یہاں ٹرانسفر بھی ایک مذاق سے کم نہیں۔ استاد سوچتا ہے کہ شاید چند سال بعد اسے کسی قریب کے علاقے میں تبادلہ مل جائے، لیکن ہوتا کیا ہے؟ فائلیں دفتروں میں دھول کھاتی رہتی ہیں، اور استاد صاحب پہاڑوں، جنگلوں، یا صحراؤں میں اپنی قسمت کو کوستے ہوئے زندگی کے بہترین سال گزار دیتے ہیں۔ ٹرانسفر کا نام سن کر اب تو اساتذہ ہنسی چھپا نہیں پاتے، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس "تبادلے” کی حقیقت وہی ہے جو برسوں سے ہے: یعنی کوئی تبادلہ نہیں ہوگا۔
ایسے دور دراز علاقوں میں، جہاں پہنچنے کے لیے گھنٹوں کا سفر درکار ہو، استاد روزانہ گھر سے نکلتے ہوئے یہ سوچتا ہے کہ آج پڑھانے کا وقت کب ملے گا؟ سفر کی تھکن، راستے کی مشکلات، اور جگہ جگہ رکاوٹیں اساتذہ کی جسمانی توانائی ختم کر دیتی ہیں۔ تھکے ہارے استاد جب سکول پہنچتے ہیں، تو ان کے چہرے پر نہ تو وہ چمک ہوتی ہے اور نہ ہی ان میں وہ توانائی باقی رہتی ہے جس سے وہ بچوں کو تعلیم دے سکیں۔
کیا تھکا ہارا استاد پڑھا سکتا ہے؟ جی نہیں! وہ جسمانی اور ذہنی طور پر اتنا بوجھل ہوتا ہے کہ پڑھانا تو دور، بیٹھنے کی جگہ مل جائے تو شکر کرتا ہے۔ کلاس روم میں بچوں کو تعلیم دینے کے بجائے وہ اپنی جسمانی مشقت کو سنبھالنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔ ایسے حالات میں تعلیم کا معیار کیا ہوگا؟ اساتذہ کی تخلیقی صلاحیتوں کا کیا ہوگا؟ اور سب سے بڑھ کر، بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
اساتذہ کا یہ حال اس نظام تعلیم کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ جب ایک استاد کو وہ ماحول اور سہولتیں فراہم نہیں کی جائیں گی جو اس کے کام کے لیے ضروری ہیں، تو ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ بہترین نتائج دے گا؟ تبادلے کے نام پر یہ مذاق بند ہونا چاہیے، اور اساتذہ کو ان کے قریب ترین علاقوں میں تعینات کیا جانا چاہیے تاکہ وہ اپنی توانائی بچوں کو تعلیم دینے میں صرف کر سکیں، نہ کہ سفر کی مشکلات میں۔
جب تک یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی، یومِ اساتذہ پر پھولوں کے گلدستے بے معنی رہیں گے۔ تھکے ہوئے استاد سے قوم کی تعمیر کا خواب دیکھنا نری حماقت ہے!
خواتین اساتذہ: تعلیم کی روشنی میں دبی صدائیں
خواتین اساتذہ کا ذکر کرتے ہی ایک ایسی تصویر ذہن میں آتی ہے جس میں علم کی شمعیں جلتی تو ہیں، لیکن ان شمعوں کے گرد اندھیروں کی دیواریں بھی بہت بلند ہیں۔ معاشرے میں استاد ہونا بذات خود ایک چیلنج ہے، لیکن جب یہ چیلنج ایک عورت کے لیے ہو تو اس کے مسائل کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ خواتین اساتذہ کو وہ مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں جن کا شاید مرد اساتذہ کو اندازہ بھی نہیں ہوتا۔
سب سے پہلا مسئلہ تو سفر کا ہے۔ عورت کے لیے دور دراز علاقوں میں جانا، وہ بھی ان جگہوں پر جہاں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہوں، بذات خود ایک کٹھن مرحلہ ہے۔ روزانہ کے سفر میں انہیں نہ صرف جسمانی تھکن برداشت کرنی پڑتی ہے، بلکہ وہ ذہنی دباؤ کا بھی شکار رہتی ہیں کہ سفر کے دوران ان کے ساتھ کچھ غیر متوقع نہ ہو جائے۔ ایک طرف معاشرے کی نظریں، دوسری طرف راستے کی مشکلات—یہ سب انہیں ذہنی اور جسمانی طور پر کمزور کر دیتا ہے۔
پھر آتا ہے گھر اور سکول کے درمیان توازن کا مسئلہ۔ ایک مرد استاد دن بھر سکول میں پڑھانے کے بعد گھر جا کر آرام کر سکتا ہے، لیکن ایک خاتون استانی کے لیے یہ ممکن نہیں ہوتا۔ اسے گھر پہنچتے ہی گھر کے کام، بچوں کی دیکھ بھال، اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں میں الجھنا پڑتا ہے۔ گویا وہ دن بھر دوہری مشقت کرتی ہے: ایک سکول میں، اور دوسری گھر میں۔ ایسے میں وہ پڑھائے گی یا اپنی توانائی بحال کرے گی؟
اس کے علاوہ، خواتین اساتذہ کو اکثر ایسے سکولوں میں تعینات کیا جاتا ہے جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہوتا ہے۔ نہ مناسب ٹوائلٹ ہوتے ہیں، نہ حفاظت کا کوئی معقول انتظام۔ ایسے ماحول میں ایک خاتون استانی کو اپنا وقار اور عزت برقرار رکھنے کے لیے ہر لمحہ جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ کیا یہ تعلیم دینے کا ماحول ہے؟ کیا ہم واقعی چاہتے ہیں کہ وہ خواتین جو ہماری نسلوں کو تعلیم دے رہی ہیں، ایسے حالات میں اپنا کام سرانجام دیں؟
معاشرتی دباؤ بھی خواتین اساتذہ کے لیے ایک مستقل درد سر ہے۔ گھر والے، رشتہ دار، اور معاشرہ ان سے وہ توقعات رکھتا ہے جو ان کی توانائیوں اور صلاحیتوں کے برعکس ہیں۔ انہیں اپنے کیریئر اور گھریلو ذمہ داریوں کے بیچ ایک ایسی جنگ لڑنی پڑتی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اور اس پر جب کبھی وہ چھٹی لینے کی کوشش کریں، تو سوالات کا انبار: "اتنی چھٹیاں کیوں؟” "یہ کام تو تمہاری ذمہ داری ہے!”۔
خواتین اساتذہ کو درپیش ان مسائل کا حل صرف "یومِ اساتذہ” پر پھولوں کے گلدستے دینے سے نہیں نکل سکتا۔ یہ پھول اس وقت بے معنی ہو جاتے ہیں جب ایک خاتون استانی کو اپنی عزت اور حفاظت کی فکر کرتے ہوئے تعلیم دینی پڑے۔ ہمیں ان کے لیے محفوظ، سہل، اور سہولتوں سے بھرپور ماحول فراہم کرنا ہوگا تاکہ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کے ساتھ بچوں کو تعلیم دے سکیں۔
یومِ اساتذہ کا اصل مقصد تب پورا ہوگا جب خواتین اساتذہ کو ان کے حقیقی مسائل سے نجات ملے گی، ورنہ یہ دن بھی بس ایک اور "مذاق” ہی رہ جائے گا۔
سکولز کی نجکاری: تعلیم کا سودا یا بہتر مستقبل؟
آج کل ایک نیا "شوق” جنم لے رہا ہے: سکولز کی نجکاری۔ حکومتی خزانے خالی، تعلیمی نظام بدحال، اور اس مسئلے کا حل ڈھونڈتے ہوئے ہماری حکومتوں نے سوچا کہ کیوں نہ تعلیم کو بھی ایک کاروبار بنا دیا جائے؟ اور یوں شروع ہوا سرکاری سکولوں کی نجکاری کا کھیل، جہاں تعلیم کا مقصد علم پھیلانا نہیں، بلکہ نفع کمانا بنتا جا رہا ہے۔
یہ ایسا کھیل ہے جس میں ہارنے والے ہمیشہ استاد اور طالب علم ہی ہیں۔ جب ایک سرکاری سکول کو نجی ادارے کے ہاتھوں بیچا جاتا ہے، تو سب سے پہلے وہاں سے اساتذہ کا وقار چھن جاتا ہے۔ وہ جو کبھی قوم کے معمار سمجھے جاتے تھے، اب "مزدور” بن جاتے ہیں جن سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جاتا ہے اور بدلے میں کم سے کم تنخواہیں دی جاتی ہیں۔ نجکاری کے بعد سکول کے معیار کو بہتر کرنے کے بجائے، اساتذہ سے وہ توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جو وہ وسائل کے بغیر پوری نہیں کر سکتے۔
اساتذہ جو کبھی بچوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرتے تھے، اب انہیں ایسے نجی اداروں کے مالکان کی خواہشات کے تابع ہونا پڑتا ہے جن کے لیے تعلیم کا مطلب پیسہ بنانا ہے۔ نصاب میں اضافہ ہو یا امتحانات کے نتائج، ہر چیز کا مقصد بچوں کی بہتری نہیں، بلکہ ادارے کی ساکھ اور منافع کو بڑھانا ہوتا ہے۔
اور کیا ہم یہ بھول سکتے ہیں کہ نجکاری کا سب سے بڑا نقصان بچوں کو پہنچتا ہے؟ جب سکول کا مقصد منافع بنانا ہو تو تعلیم ایک بوجھ بن جاتی ہے۔ والدین سے بھاری فیسیں وصول کی جاتی ہیں، لیکن ان کے بچوں کو وہ معیار نہیں ملتا جس کا وعدہ کیا گیا ہوتا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم تک رسائی دی جائے، تعلیم کو امیروں کا کھیل بنا دیا جاتا ہے۔ غریب طبقہ جس کے بچے پہلے ہی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں، اب سرکاری سکولوں میں جگہ نہ ملنے پر مزید محرومی کا سامنا کرتے ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا واقعی سکولز کی نجکاری تعلیم کو بہتر بنا رہی ہے؟ یا پھر یہ صرف ایک ایسا دھوکہ ہے جس میں تعلیم کو ایک کاروبار سمجھا جا رہا ہے؟ نجکاری کے بعد استاد کا مقام کم، اور منافع بڑھ جاتا ہے۔ جو ادارے تعلیم کی خدمت کے لیے بنے تھے، اب وہ نفع کی دوڑ میں شامل ہو چکے ہیں۔
اگر تعلیم کا مقصد واقعی قوم کی تعمیر ہے، تو ہمیں اس کاروباری روش کو ترک کرنا ہوگا۔ سکولوں کی نجکاری دراصل تعلیم کا سودا ہے، جس میں فائدہ صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جو اسے خریدتے اور بیچتے ہیں، جبکہ نقصان اساتذہ اور طلبا کا ہوتا ہے۔ یومِ اساتذہ پر تعلیم کے لیے احترام کے بجائے، اسے ایک کاروبار میں تبدیل کر دینا اساتذہ کے وقار کو خاک میں ملانے کے مترادف ہے۔
جب تک ہم تعلیم کو پیسوں کے ترازو میں تولتے رہیں گے، اس دن کے پھول اور تعریفیں صرف دکھاوا ہی رہیں گے۔
اساتذہ کی تنخواہیں اور الاؤنسز: معاشرے کے معمار یا بے بس مزدور؟
اساتذہ کو قوم کا معمار کہا جاتا ہے، لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ یہ معمار اپنی زندگی کن حالات میں بسر کرتے ہیں؟ جس قوم کی تعمیر کا بوجھ ان کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے، اسی قوم نے انہیں وہ بنیادی حقوق تک نہیں دیے جو ایک انسان کے لیے ضروری ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں اور الاؤنسز کم ہیں، کٹوتیاں ناجائز، اور قوانین میں ایسے غیر انسانی رد و بدل کیے جا رہے ہیں کہ آج کا استاد سراپا احتجاج ہے۔
اساتذہ کی تنخواہوں کا حال ایسا ہے جیسے انہیں ایک مزدور سمجھا گیا ہو جو اپنی خدمات تو فراہم کرے، مگر بدلے میں اسے اتنی رقم دی جائے کہ بس زندہ رہنے کے قابل ہو، نہ کہ عزت سے زندگی گزارنے کے قابل۔ جس قوم کو اساتذہ کی محنت اور علم کی بنیاد پر ترقی کرنی چاہیے، وہ قوم ان کو بھوکے پیٹ اور خالی جیب کام کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ہر ماہ کے آخر میں اساتذہ تنخواہ ملنے کا انتظار کرتے ہیں، اور جب وہ رقم ان کے ہاتھ میں آتی ہے، تو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی محنت کے ساتھ کتنا بڑا مذاق کیا جا رہا ہے۔
بات صرف تنخواہوں کی نہیں، الاؤنسز کا حال تو اس سے بھی برا ہے۔ سفر کا خرچہ، صحت کی سہولتیں، اور دیگر الاؤنسز ایسے دیے جاتے ہیں جیسے یہ کوئی خیرات ہو، نہ کہ ان کا حق۔ اور پھر ناجائز کٹوتیاں ایک الگ کہانی سناتی ہیں۔ ہر مہینے تنخواہ سے مختلف حیلے بہانوں سے پیسہ کاٹ لیا جاتا ہے، اور جب استاد سوال کرتا ہے تو اسے خاموش کر دیا جاتا ہے۔ گویا اساتذہ کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو مزدوروں کے ساتھ فیکٹریوں میں کیا جاتا ہے۔
اور اب قوانین میں غیر انسانی تبدیلیاں اساتذہ کی زندگی کو مزید مشکل بنا رہی ہیں۔ ان قوانین کا مقصد بظاہر تعلیمی نظام کی بہتری ہے، لیکن حقیقت میں یہ اساتذہ کو دبانے اور ان کے حقوق چھیننے کا ذریعہ بن چکے ہیں۔ ایک ایسا نظام جہاں استاد کے پاس کوئی طاقت نہ ہو، وہ کس طرح بچوں کو اچھی تعلیم فراہم کر سکتا ہے؟ قوانین کا یہ غیر منصفانہ کھیل اساتذہ کو احتجاج پر مجبور کر رہا ہے۔ وہ سڑکوں پر نکلتے ہیں، اپنے حقوق کی مانگ کرتے ہیں، لیکن ان کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔
آج کا استاد تعلیمی نظام کا غلام بن چکا ہے، جسے مسلسل دباؤ میں رکھا جا رہا ہے۔ وہ قوم کی تعمیر کا خواب کیسے دیکھے جب خود اس کی زندگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو؟ تنخواہیں اور الاؤنسز دینا حکومت کی ذمہ داری ہے، کوئی احسان نہیں۔ لیکن جس طرح سے یہ حقوق سلب کیے جا رہے ہیں، وہ اساتذہ کو معاشی اور نفسیاتی طور پر کمزور بنا رہا ہے۔
یومِ اساتذہ پر پھول اور تحسین کے بجائے، ان کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں انصاف کرنا سب سے بڑا تحفہ ہوگا۔ جب تک اساتذہ کو وہ حقوق نہیں ملتے جن کے وہ حقدار ہیں، تب تک تعلیم کا معیار بلند ہونے کی امید محض ایک سراب ہے۔
یومِ اساتذہ کے موقع پر اساتذہ کے لیے پھولوں کے ہار اور تحائف پیش کرنا ایک روایت ہے، لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ سطحی اقدار ان کی حقیقی محنت اور قربانیوں کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ اساتذہ کو عزت، مالی حقوق، اور مناسب کام کے حالات کی ضرورت ہے۔ جب تک ہم ان کے بنیادی مسائل کا حل نہیں نکالتے، تب تک یہ پھولوں کے ہار محض ایک دکھاوا ہوں گے۔
اساتذہ کی محنت کو تسلیم کرنا اور ان کے حقوق کی پاسداری کرنا سب سے بڑی ضرورت ہے۔ وہ علم کے چراغ ہیں، جو قوم کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمیں ان کے مسائل کی طرف توجہ دینی چاہیے اور حقیقی تبدیلی کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔ پھولوں کے ہار اور تحائف نہیں، بلکہ مسائل کے حل اور اساتذہ کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا چاہیے۔ صرف اسی صورت میں ہم حقیقی تبدیلی کا آغاز کر سکتے ہیں۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں