موضوعات کی فہرست
تعارف
تسنیم سلیم چھتاری رومانی اسکول کے بے حد اہم افسانہ نگار ہیں۔ آپ ۱۸؍ جولائی ۱۹۲۶ء کو نینی تال میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد احمد سعید خاں علی گڑھ کے نواب تھے اور ان کی بہت شہرت تھی۔ تسنیم صاحبہ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہی ہوئی۔ آپ بچپن سے ہی علم و ادب کی طرف مائل تھیں۔ اُن کے بڑے بھائی راحت سعید نے ان کے علمی ذوق کو مزید حوصلہ بخشا۔ وہ ان کے لیے ناول و رسائل خرید کر لاتے تھے، جس سے ان میں لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ تحریروں میں پختگی پیدا کرنے کے لیے وہ ان کی تخلیقات پر تنقید بھی کیا کرتے تھے۔ تسنیم صاحبہ اکثر فرصت کے لمحات میں کتابیں پڑھتیں یا پھر افسانے لکھا کرتیں۔
تسنیم سلیم چھتاری کی اپنی زبانی
آپ خود فرماتی ہیں:
”میری زندگی میں کوئی ایسا سنہری ورق نہیں، جو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور میری داستانِ حیات صرف یہ ہے کہ ۱۹۲۶ء میں مَیں نے نواب صاحب چھتاری کے یہاں ۱۸؍ جولائی کو جنم لیا اور اُس دنسے آج تک بِلا مقصد زندگی گزار رہی ہوں۔ ابّا جان کا اپنا کاماور میرے پیار سے کہاں فرصت تھی، جو پڑھائی پر نظر ڈالتے اور امّاں جانکی باتوں پر کون توجہ دیتا تھا۔ وہ پھکنی اور اور دست پناہ کی تعریف کرتیں یا سوئی ڈورے کی تعریف کہتیں، ہم مستقل مزاجی سے سبق کے وقت افسانے پڑھتے اور ڈرامے لکھتے۔ بڑے بھائی صاحب راحت سعید اس ”نیک کام“ میں بہت مدد کرتے۔
بے چارے اپنی جیب خرچ سے ناول اور افسانے لاکر دیتے اور جو کچھ میں لکھتی اُس پر تنقید بھی کرتے۔ تاہَم مجھے اس امر کا شکوہ ضرور ہے کہ خود تو شاعر اور افسانہ نگار، مقرر اور نثّار سب کچھ بن گئے، جب کہ مجھ کم بخت کو ایسا بیچ میں لٹکایا کہ نہ تو گھر داری آتی ہے نہ صحیح معنوں میں کچھ لکھ سکتی ہوں۔ جب میں نے افسانے شروع کیے، تو میری عمر بمشکل دس گیارہ سال کی تھی، لیکن اُس وقت تک کوئی افسانہ مکمل نہ ہو سکا۔ ۱۹۴۱ء میں جب میری عمر ۱۵؍ سال کی تھی، میرا پہلا افسانہ ”جل پری“ چھپا، اِس سے ہمت کچھ بڑھ گئی۔
اماں جان کو یہ غیر ضروری مشاغل اتنے عجیب لگتے تھے کہ اُکتا کر میرے ماموں زاد بھائی سلیمسے سے میری شادی کر دی۔ نواب صاحب طالب نگر نے جو ماموں سے خُسر بن گئے ہیں، میری ہمت افزائی کی اور میں نے اطمینان سے آپ کا اور اپنا وقت ضائع کرنے کے لیے باقاعدہ افسانہ نگاری شروع کر دی۔“ (۱۳۶)
ابتدائی افسانے اور مجموعے
تسنیم سلیم چھتاری کا پہلا افسانہ ”جل پری“ ۱۹۴۱ء میں شائع ہوا۔ ماموں زاد بھائی سے شادی کے بعد ان کی تحریروں میں مزید نکھار پیدا ہوا، کیوں کہ ان کے ماموں جو اب خسر بھی بن چکے تھے، خود ایک علم دوست انسان تھے۔ وہ تسنیم کی علمی مشغلوں اور افسانہ نگاری میں ہر طرح سے مدد اور حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ ان کے افسانوں کے دو مجموعے ”کسک“ اور ”رقص شرر کے بعد“ (۱۹۴۲ء) یادگار ہیں۔
رومانیت اور حقیقت نگاری
تسلیمسلیمچھتاری نے جس دور میں افسانے لکھنے شروع کیے وہ رومانیت پرستی کا دور تھا۔ اُس دور میں رومانیت تمام افسانہ نگاروں کو توانائی اور اپنا پن دے رہی تھی۔ رومانیت ہی کے ذریعے کسی کے محبت بھرے جذبات اور تڑپکو کہانی کے روپ میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ اس دور کے زیادہ تر افسانہ نگاروں نے اپنے افسانوں میں زندگی کی تلخ حقیقت کو پیش کرنے کے بجائے محبت کے نرمونازک جذبات کو پیش کیا۔ تسنیم کے افسانوں میں صرف رومانیت ہی نظر نہیں آتی، بل کہ انھوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کی حقیقت کو رومانی انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔
افسانوں کے موضوعات اور احمد ندیم قاسمی کی رائے
تسنیم سلیمچھتاری کے افسانوں کا خاص موضوع معاشرے کے سفید پوش طبقے کے سماجی اور نفسیاتی مسائل رہے ہیں۔ متوسط اور اعلیٰ درجے کی روزمرہ زندگی کی پیشکش میں انھیں خاص ملکہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موضوعات میں رنگینی اور تنوّع نہ ہونے کے باوجود بھی ایک زمانے میں انھیں بے حد مقبولیت حاصل رہی ہے۔ تسنیم سلیمنے اپنے افسانوں کے لیے موضوعات اپنے گردوپیش سے اخذ کیے ہیں۔ اپنے ماحول اور آس پاس کی زندگی کو بے حد آسان اور سادہ انداز میں پیش کیا ہے۔ احمد ندیم قاسمی لکھتے ہیں:
”میں تسنیم کو کئی حیثیتوں کو مکمل افسانہ نگار سمجھتا ہوں۔ پہلی تو یہ کہ وہ موضوع کے انتخاب کے لیے اِدھر اُدھر نہیں بھٹکی، آس پاس کی زندگی میں سے ایسے بے شمار موضوع تلاش کر لیے ہیں جن میں اچھا افسانہ بننے کی صلاحیت ہے۔ دوسری خاص بات یہ ہے کہ تسنیم کا کوئی افسانہ پڑھ کر پڑھنے والا اپنے ذہن پر کسی قسمکا کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔ ہلکی پھلکی، سیدھی سادی شگفتہ فضا ہے اور ہلکے پھلکے، سیدھے سادے شگفتہ انداز میں اس کو پیش کر دیا گیا ہے۔ نہ کسی افسانہ کی رفتار میں بوجھل پن ہے نہ اس کے بیان میں۔“ (۱۳۷)
مشکل الفاظ کے معانی
علمی ذوق: علم سے دل چسپی
تنقید: خوبیاں اور خامیاں نکالنا
فرصت: فراغت، خالی وقت
پھکنی: بانس کی کھوکھلی پور جس میں سے پھونک مار کر آگ دہکاتے ہیں۔
دست پناہ: چمٹا
شکوہ: شکایت، گلہ
نثّار: نثر لکھنے والا
گھرداری: گھر کی رکھوالی
نکھار: خوب صورتی
رومانیت: عاشقانہ مزاج
تلخ: سخت
سفید پوش: شریف، بھلا مانس
تنوّع: رنگارنگی، کئی اقسام کی یکجائی
شگفتہ: مسرور، شاد
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: بیسویں صدی کی اہم افسانہ نگار خواتین
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: آمنہ خان
- نگران مقالہ: نہیں دیا گیا
- یونیورسٹی: جامعہ ملیہ اسلامیہ
- صفحہ نمبر: ۱۴۹ تا ۱۵۰
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مصطفی کمال