کتاب کا نام: تحریر و انشا،کوڈ : 9008،صفحہ: 159تا 160،موضوع: ترجمے کی مشکلات,مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
موضوعات کی فہرست
ترجمے کی مشکلات
تمہید
ترجمے کی روایت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تاریخ، یقین جب انسان نے پہلی بار کسی ایسے خطے میں ہجرت کی ہوگی ، جہاں اس کی زبان یا بولی سمجھنے والا کوئی نہ ہو گا تو اسے کسی ترجمان کی ضرورت پیش آئی ہوگی جو اس کا مافی الضمیر دوسروں تک پہنچائے ۔
یوں دنیا کا پہلا ترجمہ وجود میں آیا ہو گا ۔ بعینہ ، جب کسی شہ پارے یا تخلیق کردہ کلام منشوریا کلام منظوم کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہو گی تو اس فن پارے کا اسی زبان میں ترجمہ ہوا ہو گا ، جس زبان میں اس کی تفہیم و تعبیر مقصود ہوگی۔ یہ ترجمہ اصل فن پارے کے کتنا قریب ہے، اس کا انحصار مترجم کے استعداد و صلاحیت پر ہے کہ آیا ، مترجم اس فن پارے کی زبان اور اس کی باریکیوں پر کامل دسترس رکھتا ہے یا نہیں ، جس کا ترجمہ مقصود ہے۔
دوسری بات یہ کہ مترجم ترجمے ( بیانیہ) کے ساتھ کتنا سچا، دیانت دار اور مخلص ہے ، تب ہی دو ترجمہ اصل فن پارے سے زیادہ قریب ہو گا۔ یہاں ایک بات کی صراحت و وضاحت ضروری ہے کہ کسی بھی زبان میں لکھے گئے مقن پارے کا ہو بہو یا سو فی صد ترجمہ کسی دوسری زبان میں ممکن نہیں ۔
کیوں کہ ہر زبان کا اپنا الگ مزاج ، مذاق اور اپنے الگ قواعد وضوابط ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ ایک ہی زبان کے الفاظ کے معانی و متر اوقات بھی کلیتہ ایک جیسے مفاہیم و مطالب نہیں رکھتے اور نہ ہی ایک جیسے معانی رکھتے ہیں تو بے جانہ ہوگا۔ ذیل میں اردو کے صرف تین الفاظ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔
مثال نمبرا
اردو زبان کا ایک لفظ ” ” راہ نما ” ہے، جس کا مترادف لفظ "راوی” ہے۔ مگر ، راہ نما اور راوی میں بہت زیادہ فرق ہے۔ راہ نما سے مراد راستہ دکھانے والے کے ہیں، جب کہ راوی کے معنی ” منزل تک ساتھ چلنے والے کے ہیں۔
گویا، ایک ہی زبان کے الفاظ کے معانی و مطالب ، سوفیصد دوسرے مترادف الفاظ کا اظہار یہ با تر جمہ نہیں ہیں۔
مثال نمبر ۲
اسی طرح اردو زبان کا ایک لفظ "مصروف ہے، جس کے معنی مشغول“ کے ہیں ۔ مگر ، اہل علم جانتے ہیں کہ مصروف اور مشغول میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مصروف” کے حقیقی معنی مصرف کیا گیا ” یا ” کام پر لگایا گیا “ کے ہیں۔جب کہ مشغول کے حقیقی معنی "ایسے کام کی انجام دہی جس سے لطف اندوز ہوا جائے یا شغل یا مشغلے کے طور پر جس کام کو اپنایا جائے“ کے ہیں۔
اس کی مزید وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ کسی ادارے میں اگر کوئی مالی مادارے کے چمن زار کی تزئین و آرائش کرتا ہے تو وہ اپنے اس کام کا معاوضہ یا ماہر لیتا ہے ، لہذا اور اس کام میں مصروف رہتا ہے۔ جب کہ کوئی شخص اپنے گھر میں لگے با نیچے کی تزئین و آرائش کا کام سر انجام دیتا ہے تو وہ اس کام میں مشغول ہوتا ہے، یعنی اس شخص کا مشغلہ باغ بانی ہے۔
مثال نمبر ۳
اردو زبان میں ایک لفظ فخر” ہے، جس کے عمومی معنی مفرور اور گھمنڈ کے لیے جاتے ہیں لیکن دراصل خر” مثبت معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس کا درست مترادف ناز ہے، جب کہ اہل علم جانتے ہیں مغرور اور گھمنڈ منفی معنوں کا تاثر رکھتے ہیں جن سے رعونت مراد ہوتی ہے، مزید وضاحت کے لیے درج ذیل جملے ملاحظہ ہوں ۔
1-جامعہ کو اپنی فٹ بال کی ٹیم پر فخر ہے۔
2-جامعہ کو اپنی فٹ بال کی ٹیم پر غرور ہے۔
پس ، مذکورہ بالا مثالوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے، کہ جہاں ایک ہی زبان کے الفاظ کے مترادفات میں اتنی تفاوت پائی جاتی ہے ، وہاں ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے میں نہ صرف وقت پیش آتی ہو گی بل کہ یقینا اصل کے مقابلے میں ترجمہ دوسرے درجے کا متن ہوگا ۔ لہذا، یہ کہا جا سکتا ہے
کہ ایک زبان کا دوسری زبان میں ترجمہ صرف مفہوم کی حد تک درست ہوتا ہے جس سے مراد اصل متن کے معانی سے قریب تر ہونے کے ہیں نہ کہ اس کا متبادل کلی۔ یہاں ذہن میں چند سوالات جنم لیتے ہیں کہ
ترجمہ اصل میں کیا ہے؟
اس کے اصول وضوابط کیا ہیں ؟
ترجمے کے مسائل، معیارات اور مباحث کیا ہیں؟
لفظ ترجمہ کے معانی
ترجمه عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی، ایک زبان سے دوسرے زبان میں بیان کردہ لفظ یا عبارت کے ہیں ۔ اس کے ایک اور معنی "کسی کی زندگی کا مرقع یا خاکہ کے بھی ہیں۔ (1)
ترجمہ کے لیے انگریزی میں ٹرانسلیشن (Translation) کا لفظ استعمال ہوتا ہے ، جب کہ ہندی میں ترجمہ کو انو داؤ کہتے ہیں۔ (۲)
ان کے علاوہ بھی ترجمے کے لیے جو اصطلاحات وضع ہوئی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کا مفہوم ترسیل فکر و انتخاب خیال ہی ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی زبان میں تخلیق شدہ ادب کے تراجم کی دو اقسام ہیں:۔
ترجمے کی اقسام
الف: براہ راست ترجمه
پہلی قسم میں کسی بھی زبان میں تخلیق شدہ ادب کے دو تراجم شامل ہیں جن کا اصل متن سے براہ راست دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے ، اس لیے انھیں براہ راست ترجمہ ” کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں مترجم نہ صرف مذکورہ زبان کا درست فہم و اوراک رکھتا ہے مل کہ اس زبان کی تمام تہذیبی و ثقافتی روایات سے بھی کما حقہ شناسائی رکھتا ہے۔
ب بالواسطه ترجمه
بالواسطہ ترجمہ سے مراد، ترجمہ الترجمہ ہے، یعنی ایسا ترجمہ جو اصل متن کی بجائے اس کے ترجمے سے کسی اور زبان میں منتقل کیا جائے ۔ ایسی صورت میں مترجم کو لسانی کم مائیگی کے باعث اصل متن کی بجائے کسی دیگر زبان میں موجود تر تھے پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ اس سے ترجمے میں اصل خیال یا نظریے سے فکری بعد پیدا ہو سکتا ہے ، مگر ایسا مجبورا ہوتا ہے۔
براہ راست ترجمہ اور با لواسطہ ترجمہ کے علاوہ بھی ترجمے کی دیگر اقسام بھی موجود ہیں، جنھیں لفظی ترجمہ اور تخلیقی ترجمہ کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے تا ہم پروفیسر ظہور الدین نے اپنی کتاب علمی ترجمہ نگاری میں ترجمے کی اقسام کو دو بڑے زمروں میں رکھا ہے، جن میں موضوعاتی ترجمہ اور پیتی یا فی تراجم شامل ہیں۔ ان دو تر جمعے کی اقسام کو مزید ذیلی اقسام میں وہ یوں تقسیم کرتے ہیں:۔
موضوعاتی زمرے میں ترجمے کے جو اقسام شمار کیے جاسکتے ہیں وہ حسب ذیل ہیں :۔
ا علمی ترجمه ۲ ادبی ترجمہ – صحافتی ترجمه
اسی طرح کی زمرے میں حسب ذیل اقسام کو رکھ سکتے ہیں :۔
1علمی ترجمہ 2 -ادبی ترجمہ
3 -صحافتی ترجمہ
اس طرح ہیتی زمرے میں حسب ذیل اقسام کو رکھ سکتے ہیں ۔
1 -لفظی ترجمہ – 2 -آزا دترجمه
3- تحقیقی ترجمه (منظوم یا منشور ) (۳)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں