ترجمہ: ترجمہ بھی کوئی الگ "صنف ” نہیں البتہ اسے ایک فن کی حیثیت ضرور حاصل ہے ۔ ترجمہ نگاری کو کسی زبان کی ترقی میں زبر دست دخل ہوتا ہے۔ دیگر زبانوں کے بلند پایہ علمی وادبی تحقیقی و تنقیدی اور دیگر فنی شاہکاروں کو اپنی زبان میں منتقل کرنا بڑی علمی خدمت ہے ۔ اس سے کسی قوم کا علمی ذخیرہ بڑھتا ہے ۔ اور قومی سطح پر فکر کو جلا اور ذہن کونشو نما ملتی ہے ۔
کسی غیر زبان سے اپنی زبان میں ترجمہ کرنا آسان کام نہیں بلکہ بعض اوقات ترجمہ کر نا طبع زاد تخلیق کرنے سے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے ۔مترجم (ترجمہ نگار) کو دونوں زبانوں پر پورا پورا عبور حاصل نہ ہو وہ دونوں زبانوں کے اسالیب بیان ، لفظی اور معنوی خوبیوں ، محاورات و تشبیهات لسانی پس منظر اور زیر ترجمہ نثر پارے کے مصنف اور موضوع سے پوری طرح واقفیت نہ رکھتا ہو۔
ترجمہ نگاری میں کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا محض لفظی ترجمہ بسا اوقات بیکارہ ثابت ہوتا ہے ۔ جس فن پارے کا ترجمہ کرنا مقصود ہو، اس کی اصل روح تک پہنچ کر ہی اس کے مفہوم کو اپنی زبان میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔اُردو میں تراجم کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہی ہو چکا تھا۔ فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے مصنفوں نے بلند پایہ اور معیاری ترجمے کیے۔ داستانوں کا ذخیرہ مذکورہ کالج اور بیرون کالج کے قدیم مترجمین کی مساعی کا مرہون منت ہے ۔
داستانوں کے علاوہ تصوف ، مذہب اور تاریخ وغیرہ کے موضوعات سے متعلق بے مثال شمار عربی اور فارسی کتابوں کے ترجمے بھی ہوئے۔ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ہی مغربی لٹریچر اردو میں منتقل ہونا شروع ہوا۔ دہلی کالج قیام ۱۸۷۹) نے بھی ایک مجلس ترجمہ قائم کی تھی۔
جس نے بعض مفید اور اہم کتابوں کے ترجھے کیسے نیرنگ خیال (محمد حسین آزاد) کے بیشتر مضامین، انگریزی مضامین کا آزادانہ ترجمہ ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کو ترجمہ کرنے کی بڑی مہارت حاصل تھی ۔ انھوں نے متعدد سرکاری قوانین اور دفتری ضابطوں کے تراجم کیے ۔ انگریزی اصلاحات قانونی کے جو ترجمے انھوں نے کیے ان میں سے بعض آج بھی پانچ ہیں ۔
انجمن ترقی اردو ہند ( قیام، ۱۹۰۳ ) نے عربی، انگریزی ، فارسی اور فرانسیسی زبانوں کی قیمتی اور اہم کتابوں کے اردو ترجمے کرا کر شایع کیے۔ مولوی عنایت اللہ دہلوی کو فن ترجمہ میں خداداد ملکہ حاصل تھا۔ ان کے ترجموں کا ذخیرہ بہت وسیع ہے اور کسی قدر معیاری اور بلند پایہ بھی۔ عثمانیہ یو نیورسٹی حیدر آباد دکن کے "دار الترجمہ”نے جدید علوم و فنون سے متعلقہ کتب کے معیاری تراجم پیش کیے۔ دور جدید میں ل – احمد اکبر آبادی اور ظ –
انصاری نے روسی زبان سے ، محمد حسن عسکری اور نسیم ہمدانی نے فرانسیسی زبان سے ، حبیب اشعر دہلوی ، محمد احمد پانی پتی اور خلیل احمد حامدی نے عربی سے، اور غلام رسول مهر، آبادشاہ پوری ، قاسم محمود، صلاح الدین محمود – محمد سلیم الرحمن، محمد سہیل عمر ، وارث سرہندی اور تحسین فراقی نے انگریزی زبان سے عمدہ ترجمے کیے ہیں ۔انتباہ ۔کمپوزنگ کی غلطیاں ممکن ہیں ۔
ماخذ: اصناف ادب
اسائنمنٹ,پریزینٹیشن, خاکے , تھیسیز اور آرٹیکلز لکھنے اور کمپوزنگ کرنے یا اردو ادب وٹسپ گروپ میں شمولیت کے لیے وٹسپ پر رابطہ کریں_ 03498323464
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں