طارق محمود مرزا کی شخصیت اور فن | Tariq Mahmood Mirza ki Shakhsiyat aur Fan
موضوعات کی فہرست
طارق محمود مرزا کی شخصیت اور فن
خاندانی پس منظر
طارق محمود مرزا کے والد کا نام ’’محمد افسر‘‘تھا ۔ ان کے دادا کا نام ’’فیروز خان‘‘ تھا۔ فیروز خان کے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ بیٹوں کے نام محمد شاہ سوار، محمد شفیع اور محمد افسر اور بیٹیوں کے نام فضل نشا، کرم نشااور زیور نسا تھا۔
محمد افسر بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ اس زمانے میں رواج تھا کہ جو بیٹا سب سے چھوٹا ہوتا تھا۔ آبائی گھر اس کے حصے میں آتا تھا۔ طارق محمود مرزا کے والد اس بات کا فخر کیا کرتے تھے۔ کہ ان کو آخری دم تک اپنے والد کی خدمت کرنے کا موقع ملا۔
یہ بھی پڑھیں: طارق محمود مرزا کی ادبی خدمات اور اعزازات
محمد افسر اپنی اولاد سے بے حد محبت کرتے تھے ۔ وہ بچو پر سختی کے خلاف تھے۔ ان کی شفقت کا سایہ بچوں پر زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا ۔ بچے ابھی جوان نہیں ہوئے تھے کہ محمد افسر دنیا فانی سے رخصت ہوگئے۔ ۲۶ جولائی ۱۹۷۴ء کو طارق محمود مرزا کے والد کا انتقال ہوا تھا۔ اس وقت مرزا کی عمر پندرہ سال تھی۔ اور وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے ۔
طارق مرزا کے دل میں ان کے والد جو علم کی شمع جلا کر گئےوہ آج تک روشن ہے۔ والد کے انتقال کے بعد تینوں بھائیوں نے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ طارق محمود مرزا کی والدہ کا انتقال ۲۰۰۳ء میں ہوا۔ والد کی نسبت والدہ تینوں کو بلند مقام پر فائز دیکھ کر اس دنیا سے رخصت ہوئی۔
اصل نام اور تاریخ ولادت
ان کا اصل نام ’’طارق محمود مرزا‘‘ ہے آپ رولپنڈی کی تحصیل گوجرخان کھرالی متیالی کے ایک دیہی علاقے کنگریلہ میں ایک جون ۱۹۶۱ء میں پیدا ہوئے ۔ گوجر خان کو بہادروں ، شاعروں اور دانشوروں کی نرسری بھی کہا جاتا ہے۔ روز نامہ میٹروو اچ کے ایڈیٹر زاہد فاروق ملک بیان کرتے ہیں :
’’طارق محمود مرزا پہلی جون ۱۹۶۱ء کو گوجرخان کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔‘‘(۱)
ابتدائی تعلیم
طارق مرزا نے اپنے آبائی گاؤں کھرالی کے پرائمری سکول سے سے پانچویں تک تعلیم حاصل کی۔ ان کا سکول بنیادی سہولتوں سے محروم تھا ان کے استاد بہت اچھے تھے وہ ان کو بہت محنت سے پڑھاتے تھے۔ اس کی بدولت انھوں نے پانچویں جماعت میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ طارق مرزا نے پانچویں جماعت کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول کو نتریلہ میں داخلہ لیا اور وہاں سے 1977ء میں میٹرک کے امتحان میں سائنس کے ساتھ نمایاں کامیابی حاصل کی۔
انہوں نے ۱۹۷۷ء میں راولپنڈی کے ایک مقامی سکول سے میٹرک کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا۔
اعلیٰ تعلیم
طارق مرزا میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کراچی چلے گئے۔ انہوں نے ایک نجی یونیورسٹی سے ۱۹۸۳ء میں مکینیکل انجنیئرنگ میں ڈپلومہ کا امتحان پاس کیا۔انھوں نے چار برس میں مکینیکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ مزید علم کی پیاس بجھانے کے لیے علامہ اقبال کالج سے پہلے ایف۔اے کیا،پھر بی۔ اے کا امتحان پاس کیا ،بی۔ اے میں ان کے مضامین میں انگریزی ، معاشیات ، اردو ، عمرانیات، تاریخ اور سیاسیات شامل تھے ۔
طارق مرزا کو دینی تعلیم سے بہت لگاؤ تھا ان کی پرورش بھی ایک دین دار گھرانے میں ہوئی ہے۔ انھوں نے بی اے کے بعد کراچی کی ایک نجی یونی ورسٹی سے ایم۔ اے اسلامیات کا امتحان 1988 ءمیں پاس کیا ۔ طارق مرزا اسلامیات میں پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے کا جذبہ بھی رکھتے تھے مگر جب سلطنت عمان میں ان کو اچھی ملازمت ملی تو وہ سب کچھ ترک کر کے وہاں چلے گئے
جس کی بدولت ان کی یہ تمنا پوری نہ ہو سکی۔ یہاں سے طارق مرزا کے سفر کا آغاز ہوتا ہے جو آج تک جاری ہے ۔ اپنی کتاب دنیا رنگ رنگیلی میں لکھتے ہیں۔
؎کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گیا منزل
کوئی ہماری طرح عمر بھر سفر میں رہا
سلطنت عمان میں طارق مرزا اپنی ملازمت کے حوالے سے اپنی کتاب ’’تلاش راہ‘‘ میں یوں لکھتے ہیں۔ :
’’میری جاب میں چھاؤنی میں موجود میکینیکل انجینئرنگ سے متعلق مشینری پر مامور عملے کی ڈیوٹیاں لگانا اور ان کے کام پر نظر رکھنا تھا۔ یہ کام مشکل نہیں تھا نہیں تھا ۔‘‘(۲)
ریختہ میں ان کی تعلیم کے حوالے سے یہ لکھا ہے:
’’۱۹۸۳ء میں مکنیکل انجنئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا اور ۱۹۸۸ء میں کراچی یونی ورسٹی سے اسلامک اسٹڈیز میں ایم۔اے کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا‘‘‘(۳)
ملازمت
طارق محمود مرزا نے مکینیکل انجیرنگ میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد محکمہ وزارت دفاع میں ملازمت اختیار کر لی۔ ان کی یہ ملازمت کی کچھ عرصہ ہی جاری رہی۔ اس کے بعد آپ ۱۹۸۸ء سے ۱۹۹۲ء تک ’’سلطنت عمان‘‘ میں محکمہ وزات دفاع میں اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔
۱۹۹۲ء میں وطن واپس آئے، اور اسلام آباد کے ایک کالج میں معلم کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ ۱۹۹۴ء میں یہ ملازمت بھی ترک کردی۔ ان کی ملازمت کے حوالے سے روزنامہ میٹر وواچ کے ایڈیٹر لکھتے ہیں:
’’۱۹۸۳ء میں وزارت دفاع میں ملازمت ا اختیار کی اور پھر ۱۹۹۲۔۱۸۹۸۸ء تک سلطنت عمان میں وزارت دفاع میں اپنی خدمات انجام دیں‘‘(۴)
بیرونی ممالک کے سفر کا آغاز
طارق محمود مرزا نے ۱۹۸۸ء میں ملازمت کے سلسلے میں ’ ’ سلطنت عمان‘‘ سے اپنے بیرونِ ممالک کے سفر کا آغاز کیا ۔ عمان چونکہ مغربی ایشیا میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال میں متحدہ عرب امارت سے ملی ہیں۔ اس ملک کا دفتری نام ’’سلطنت عمان‘‘ ہے اور مسقط اس ملک کا دارالحکومت ہے۔
۱۹۹۴ء میں آسٹریلوی حکام کی طرف سے جب انھیں امیگریشن ملا تو آپ اپنی زوجہ محترمہ اور تین بچوں کے ہمراہ آسٹر یلیامنتقل ہوگئے۔ پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین کو انٹرویو دیتے ہوئے طارق محمود مررزا کے ملک چھوڑنے کے حوالے سے کہتے ہیں:
’’جب مجھے امیگریشن مل رہی تھی تو میں نے فیصلہ کیا اور یہاں منتقل ہوگیا لیکن یہاں آنے کے بعد دیکھا کہ یہ کوئی آسان زندگی نہیں ہوتی ہے۔ اپنا ملک چھوڑنا، اپنے لوگ چھوڑنا، اپنا کلچر اپنی زبان اور بہت سارے مسائل ہوتے ہیں۔ کسی اور ملک میں جا کر اپنے آپ کو سیٹ کرنا یہ کوئی آسان بات نہیں ہوتی ہے۔‘‘(۵)
تخلیقی سفر کا آغاز
میرے تخلیقی سفر کا آغاز زمانہ طالب علمی سے ہوا۔ میرا ایک دوست اس میں لکھا کرتا تھا۔ میرے لکھنے کا آغاز بھی بہت دلچسپ ہے اس حوالے سے طارق محمود مرزا روزنامہ سرگرم میں ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں۔
’’ماہا نامہ ڈائجسٹ آداب عرض حصے میں ایک واقعہ لکھنے سے یہ سلسلہ شروع ہوا اس کا واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے میرے ایک ہم جماعت کا ایک واقعہ اس ڈائجسٹ میں شائع ہوا تو اس نے اس بارے میں میری رائے جاننا چاہی جوانی میں جذبات کا رواج ہوتا ہے
میں نے کہا یہ واقعہ اس سے بہتر انداز میں لکھا جا سکتا تھا دوست خفا ہو گیا اس نے چیلنج کیا کہ اپنی کوئی تحریر شائع کروا کر دیکھاؤ میں نے اسی شب ایک واقعی تحریر کیا اور حوالہ ڈاک کر دیا جو اتفاق سے اگلے ہی ماہ شائع ہو گیا ابتدائی چند برس ڈائجسٹ کی نظر ہو گئے اس کے بعد خالصتا ادبی رسائل میں لکھنا شروع کیا جس کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔‘‘(۶)
طارق محمود مرزا نے زمانہ طالب علمی سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ آپ نے کالج کے زمانے میں ڈائجسٹ سے لکھنے کا آغاز کیا۔طارق محمود مرزا نے پانچ کتابیں لکھی ہیں۔ آپ کو سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔ آپ تقریباً پورا یورپ گھومے ہیں۔ آپ مختلف اخبارات اور رسائل میں بھی کالم لکھتےرہتے ہیں ۔ آپ خود کو کہانی نویس تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ ان کی سفر نامو ں کی بھی چار کتابیں منظر عام پرآچکی ہیں۔ وہ اپنے افسانوی مجموعہ ’’تلاش راہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’یوں تو میں نے اخباری کالم، سماجی، سیاسی، معاشرتی فکاہیہ اور طنزیہ مضامین، سفر نامہ، ڈارمہ اور شاعری سمیت مختلف ادبی میدانومیں طبع آزمائی کی ہے لیکن بنیادی طور پر میں ایک کہانی نویس ہوں سب سے پہلے میں نے کہانیاں لکھناہی شروع کیا تھا۔ میرا سفر نامہ ’’خوشبو کا سفر ‘‘میں بھی روایتی سفر ناموں سے ہٹ کر مختلف کرداروں اور ان کی کہانیاں شامل ہیں۔ جس سے یہ سفر نامہ عام سفرناموں سے مختلف اور مقبول ثابت ہوا۔‘‘(۷)
طارق محمود مرزا کی دوسری کتاب ۲۰۱۴ء میں مکتبہ خواتین میگزین،منصورہ ملتان روڈ لاہور سے شائع ہوئی۔’’تلاش راہ‘’‘’افسانوں پر مشتمل ایک کتاب ہے۔ اس میں طارق محمود مرزا کی کچھ کہانیوں کا حجم چھوٹا ہے اور اس میں کچھ کہانیوں کا حجم بڑا ہے۔ یہ کہانیاں اردو ڈائجسٹ ، نوائے آسٹریلیا، بنیاد، زاویہ اور دیگر ادبی رسالوں اور ویب سائٹس پر بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اس کو کتابی شکل میں بہت سے پبلیشرز نے شائع کیا ہے۔جس میں کچھ کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
اسلامک پبلی کیشنز، منصورہ ، ملتان روڈ لاہور
ادارہ معارف اسلامی منصورہ ملتان روڈ لاہور
مکتبہ تعمیر انسانیت اردو بازار لاہور
اکیڈمی بک سنٹر،شاہراہ کراچی
ادارہ نور حق، شاہرہ قائدین کراچی
طارق محمود مرزا اپنی کتاب ’’تلاش راہ‘‘ کے بارے میں کھتے ہیں :
’’تلاش راہ‘‘ میں طارق محمود مرزا کی اپنی سرگزشت بھی شامل ہے جس میں وہ ’’سلطنت عمان ‘‘میں دوران ملازمت پیش آنے والے ایک ایک واقعے کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ان کا ایک قریبی دوست رفاقت علی ہیں۔ طارق محمود مرزا اپنی اس سرگزشت کے بارے میں ’’تلاش راہ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’میں مدتوں سے اس کہانی پر ناول لکھنا چاہتا تھا لیکن تنگی وقت آڑے آتا رہا ، بالاآخر تین ماہ پہلے میں نے اس کو کہانی کی شکل دے کر اس کتاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ بھی آسان کام نہیں تھا اس کہانی کو مکمل کرنے کے لیے تین ماہ صرف ہوئےاور کئی راتوں کی نیند بھی قربان کرنی پڑی۔‘‘(۸)
طارق محمود مرزا بیرونِ ملک کام کرنے والے پاکستانیوں کی صورت حال کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ کہ وہ لوگ وہاں پر بہت زیادہ تکلیف میں ہوتے ہیں۔ اور ان کے عزیز و اقارب بہت پرسکون زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کو اس بات کی پرواہ تک نہیں ہوتی کہ وہاں وہ کس قسم کے حالات سے گزر رہے ہیں۔
طارق محمود مرزا اپنے پاکستانی بھائیوں کے لیے بہت محبت اور ہمدردی کے جذبات رکھتے ہیں۔ تلاش راہ میں جب طارق اور ان کا دوست صحرا میں پھنس گئے تھے۔ ان کے دوست کا تو وہاں انتقال ہو جاتا ہے لیکن طارق مرزا جسمانی لحاظ سے مضبوط ہونے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں۔ اس کے متعلق وہ اپنی کتاب تلاش راہ میں لکھتے ہیں:
’’ہمارے گھر والے اپنے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے ہوں گے انھیں علم ہی نہیں ہوگا کہ ہم کتنی بڑی مصیبت میں گرفتار ہیں وہ جب فریج کا ٹھنڈا پانی پی کر پنکھے کی ٹھنڈی ہوا تلے آرام سے بیٹھے ہوں گے عین اسی وقت ان کے بیٹے صحرا میں پیاس سے جاں بلب ہوں گے، اس کا انھیں گمان بھی نہیں ہوگا بعض اوقات لاعلمی بھی کتنی بڑی نعمت ہوتی ہے۔‘‘(۹)
’’تلاش راہ ‘‘ میں طارق محمود مرزا کے دس افسانے اور ایک سرگزشت شامل ہے۔ طارق مرزا کے زیادہ تر افسانے ان کے تجربات پر ہی مبنی ہیں۔
ان کی یہ کہانیاں حقیقی زندگی میں پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہوتی ہیں، ان کہانیوں میں بہت سے کرداروں سے طارق محمود مرزا خود بھی ملے ہیں۔ اس وجہ سے ان کی کہانیاں دوسرے افسانہ نگاروں سے یکسر مختلف اور جدا ہیں۔ طارق محمود مرزا ’’تلاش راہ‘‘ میں اپنی کہانیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’دو ایسے کردار اور کہانیاں ہمارے اِردگرد بکھرے ہیں انھیں سمیٹنے اور مربوط کرنے کے لیے عمیق مشاہدہ کرنے والی آنکھ، احساس دل اور سوچنے والا ذہن درکار ہوتا ہے۔ خود کو کہانی کے کردار کی جگہ رکھ کے اس کا درد اپنے دل میں محسوس کرنا پڑتا ہے۔ یہ کہانیاں لکھتے ہوئے کئی دفعہ میرے ہی آنسوؤں نے میری تحریر کو بھگو دیا۔‘‘(۱۰)
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں