مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ترنم ریاض ایک منفرد تانیثی افسانہ نگار اور ادبی خدمات

تعارف

ترنم ریاض بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی میں تانیثی ادب کی ایک معتبر و معروف آواز ہیں۔ ان کا نام اردو میں فکشن کے حوالے سے بہت اہم ہے۔ انھوں نے بہت تیزی سے شہرت و مقبولیت حاصل کی، اور ان کی تخلیقات نے بہت جلد ادب کے سنجیدہ قارئین کے دلوں میں اپنی جگہ بنالی۔ عموماً بہت کم قلم کار ایسے نظر آتے ہیں جنھوں نے اتنے کم وقت میں ادب کے اکابرین سے اپنے آپ کو منوالیا ہو۔ جدید افسانوی ادب کی نمائندگی کرنے والی اس مصنفہ کے افسانے عورت کے استحصال اور سماج میں اس کی ثانوی حیثیت کے رد عمل کے طور پر تشکیل پاتے ہیں۔

ولادت اور خاندانی پس منظر

ترنم ریاض کی ولادت ۹ اگست ۱۹۶۳ کو بمقام سری نگر (کشمیر) میں ہوئی۔ ان کی والدہ کا نام ثریا خان اور والد کا نام چودھری محمد اختر خان ہے جو اردو، عربی، فارسی اور انگریزی کے جید عالم تھے۔ وطن سیالکوٹ (پاکستان) تھا۔ ان کے دادا خدا بخش خان ملازمت کی غرض سے کشمیر آئے اور ان کا خاندان یہیں آباد ہو گیا۔

تعلیم اور پیشہ ورانہ زندگی

ابتدائی تعلیم کے بعد ترنم ریاض نے ایم۔ اے (اردو، ایجوکیشن )، ایم۔ ایڈ اور پی۔ ایچ۔ ڈی (ایجوکیشن) کی ڈگری حاصل کی۔ ترنم ریاض برقی میڈیا سے وابستہ تھیں وہ ریڈیو اور ٹی وی پر خبریں پڑھتی تھیں۔ اس کے علاوہ ادبی صحافت میں بھی دلچسپی رکھتی ہیں اور درس و تدریس سے منسلک ہیں۔ ان کے شوہر ریاض پنجابی (سابق وائس چانسلر آف کشمیر یونیورسٹی ) بھی ایک افسانہ نگار ہیں اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور آکسفورڈ میں وزیٹنگ پروفیسر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ International Center for Peace Studies کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان دنوں دہلی میں قیام پذیر ہیں اور ادبی طور پر بے حد فعال ہیں۔

ترنم ریاض وادی کشمیر کی ایک ایسی ادیبہ ہیں جو اپنی مادری زبان کشمیری کے ساتھ ساتھ اردو، ہندی، انگریزی ، پنجابی اور پہاڑی زبان سے تخلیقی سطح پر استفادہ کر سکنے کی حد تک واقف ہیں۔

ادبی سفر کا آغاز اور رجحانات

انھوں نے محض دس سال کی عمر میں ہی اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا۔ اپنی پہلی کہانی ” مصور ۱۹۷۵ میں ریڈیو کشمیر سری نگر میں ترنم ریاض نے خود پڑھی تھی اور اسی سال یہ کہانی رسالہ آفتاب میں شائع بھی ہوئی تھی۔ اس بابت ترنم ریاضیہ تنگ زمین“ کے ابتدا میں لکھتی ہیں:

"بچپن میں کہانیاں سنی تھیں۔ پڑھی بھی تھیں مگر کہانی سے میرا باقاعدہ تعارف تب ہوا تھا جب میری آپا میٹرک میں پڑھتی تھیں۔ ان کی اردو نصابی کتاب میں میں نے منشی پریم چند کی دو کہانیاں پڑھی تھیں۔ انھی دنوں میں نے اپنی پہلی کہانی ”مصور“ لکھی تھی۔ اس وقت میں ریڈیو کشمیر سری نگر میں بچوں کے پروگرام کی باقاعدہ آرٹسٹ تھی لیکن یہ کہانی مجھ سے نو جوانوں کے پروگرام میں پڑھوائی گئی تھی۔ جس کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ کہانی کے ذریعے بہت سی باتیں کی جاسکتی ہیں، سمجھائی جاسکتی ہیں۔ میرے والد اردو، فارسی اور انگریزی کے جید عالم تھے۔ انھوں نے میری حوصلہ افزائی کی اور میرا افسانہ نگاری کا سلسلہ چل نکلا، مگر کبھی بے قاعدگی کے ساتھ اور کبھی باقاعدگی کے ساتھ۔ (۲۱)”

صنف افسانہ میں ترنم ریاض کی ادبی حیثیت مسلم و انفرادی ہے۔ افسانے کے علاوہ انھوں نے دوسرے اصناف پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اردو ادب میں وہ ایک شاعرہ، ناول نگار، افسانہ نگار اور محقق و نقاد کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ ان کی تصانیف اعلیٰ ادبی معیار کی حامل ہیں۔

تصانیف: افسانوی مجموعے، ناول اور تحقیقی کتب

ترنم ریاض کی جو تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں ان میں چار افسانوی مجموعے:

  • یہ تنگ زمین (۱۹۹۸)
  • ابابیلیں لوٹ آئیں گی (۲۰۰۰)
  • یمبر زل (۲۰۰۴)
  • اور میرا رخت سفر (۲۰۰۸)
    ناول ”صحرا ہماری آنکھوں میں، مورتی“ اور برف آشنا پرندے شامل ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی کتابیں بیسویں صدی میں خواتین کا اردو ادب، چشم نقش قدم اور تراجم پر مبنی کتابیں سنو کہانی“ (ہندی سے ترجمہ )، ہاؤس بوٹ پر تلی (انگریزی سے ترجمہ )، گوسائیں باغ کا بھوت (ہندی سے ترجمہ ) کے علاوہ چاندلر کی (نظمیں)، نرگس کے پھول (ناولٹ) وغیرہ شامل ہیں جن کو ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل ہو چکی ہے۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں