طنز و مزاح کی تعریف

موضع۔۔۔ طنز و مزاح کی تعریف،
کتاب کا نام۔۔ بنیادی اردو۔۔ کورس کوڈ 9001،
پیج۔ 83…84،
مرتب کردہ۔۔۔ منظور احمد۔
+++++++++++++++++++++++++++++

طنز و مزاح کی تعریف

طنز سے مراد ہے، چبھتا ہوا مذاق ، تمسخر آمیز تنقید۔ طنز میں کسی کی تحقیر کا عنصر موجود ہوتا ہے جب کہ مزاح خوش طبعی یا ظرافت پیدا کرتا ہے۔ گویا دونوں کی حدود مختلف ہیں۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی دونوں کا فرق بتاتے ہوئے لکھتے ہیں: عام طور پر طنز اور مزاح“ کے الفاظ کو ملا کر بطور ایک مرکب کے استعمال کیا جاتا ہے مگر یہ دو مختلف المعانی الفاظ ہیں۔ مزاح کے لفظی معنی ہنسی مذاق ، جب کہ طنز کے معنی طعنہ یا چھیڑ کے ہیں۔“

اصناف ادب، سنگ میل پبلشرز لاہور ، ۲۰۰۸، ص ۸۱)

یہ بھی پڑھیں: اردو نثر میں طنز و مزاح نگاری کا سیاسی و سماجی پس منظر | pdf

مزاح نگاری زندگی کی ناہمواریوں کا بیان ہے جسے نثر میں شگفتہ انداز سے پیش کیا جاتا ہے۔ مزاح نگار معاشرے کا حساس فرد ہوتا ہے جو زندگی میں ناہموار سطحوں کو محسوس بھی کرتا ہے اور فنی سطح پر اس طرح پیش کرنے پر قادر ہوتا ہے کہ اُس کی محسوس کیے ہوئے تجربات کو بیان بھی کر سکے۔ مزاح نگاری کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہنسی ہنسی میں زندگی کے ان گوشوں کو سامنے لے آتا ہے جسے سنجیدہ انداز سے بیان کرنا مشکل ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انشائیہ اور طنز و مزاح میں فرق

محمد عارف اپنی کتاب ” مزاحیہ غزل کے خدو خال “ میں لکھتے ہیں: طنز ایک طرح کی تنقید ہے۔ ادب میں طنز کی اہمیت اس کی مقصدیت کے باعث ہے، اسی باعث اس کی تلخی گوارا کر لی جاتی ہے۔ مقصد کے بغیر طنز و مزاح کی تخلیق ممکن نہیں کہ خالص مزاح سے تو صرف ہنسی ، دل لگی یا مذاق وغیرہ کا کام ہی لیا جا سکتا ہے

اور یہ مزاح کی عمومی سطح ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس کی کوئی واضح سمت نہیں ہوتی مزاح اسی وقت سمت آشنا ہوتا ہے جب اس میں طنز شامل ہو۔ گویا طنز ہی مزاح کی سمت متعین کرتا ہے۔ ایک مزاح نگار معاشرے میں موجود بُرائیوں اور ناہمواریوں پر اس انداز سے چوٹ کرتا ہے کہ ہنسی کے ساتھ ساتھ ان معاملات پر غور وفکر کی دعوت بھی ملتی ہے۔“

طنز و مزاح سے محظوظ ہونے کے لیے انسان میں اس صفت کا ہونا ضروری ہے، جو اسے حیوان ظریف کے مقام پر فائز کرتی ہے۔ مزاح صرف عیب جوئی ، طعن و تشنیع یا فقرے بازی کا نام نہیں بل کہ ہم آہنگی ، تضاد میں امتیاز ، نامعقولیت اور ناہمواریوں کو ایسے دل پذیر انداز میں اجاگر کرنے کا نام ہے کہ سننے والا قائل ہو جائے۔

طنز اور مزاح اکٹھے ہوں یا الگ الگ، ان کی تخلیق اور اظہار کے لیے جو حربے استعمال کیے جاتے ہیں ان کو سمجھے بغیر طنز و مزاح کو سمجھنا مشکل ہے، جیسے موازنہ و تضاد میں بہ یک وقت دو مختلف چیزوں سے مشابہت اور تضاد کا موازنہ کر کے بہنسی کو بیدار کیا جاتا ہے۔

دیگر زبانوں کے ادب کی طرح اردو ادب میں بھی مزاح کے اس حربے سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے۔ تاہم موازنے کے لیے ناموزونیت اور بے ڈھنگے پن کا مشاہدے میں آنا ضروری ہے۔ اردو مزاحیہ نظم و نثر میں اس کی کامیاب مثالیں ملتی ہیں ۔

مزاحیہ صورت حال طنز و مزاح کا ایک اہم اور مشکل حربہ ہے اس کی وجہ زبان و بیان اور الفاظ کی سلاست و بلاغت کے خیال کے ساتھ ساتھ مضحکہ خیز صورت حال کی پیدائش بھی ہے۔ یہ خالص مزاح کی معیاری قسم ہے، جیسے ” کیلے کا چھلکا میں کیلے کے چھلکے سے پھسلنے سے جو مضحک صورت حال کی عکاسی کی گئی ہے، اس پر بے اختیار ہنسی آجاتی ہے۔

مزاحیہ کردار طنز و مزاح کی تخلیق کا اہم جزو ہیں ۔ مزاحیہ کردار کی تخلیق میں مبالغہ آرائی سے کام لے کر اس کے انداز و اطوار کی ایسی تصویر کشی کی جاتی ہے کہ مضحک صورت حال پیدا ہو کر طنز و مزاح کا باعث بنتی ہے ۔ مزاحیہ کرداراس لیے بھی مشکل ہے کہ تخلیق کردہ کردار سامنے آتے ہی قاری یا سامع کے چہرے پر ہنسی کی لہر دوڑ جانا ضروری ہے ۔

اردو نثر میں رتن ناتھ سرشار کا ” خوجی ، ڈپٹی نذیر احمد کا ظاہر دار بیگ ، پطرس بخاری کا ”مرزا صاحب ، شفیق الرحمان کا شیطان محمد خالد اختر کا چچا عبدالباقی اور مشتاق احمد یوسفی کا ”مرزا عبد الودود وغیرہ اس کی کام یاب مثالیں ہیں۔ اُردو مزاحیہ شاعری میں مجید لاہوری نے ”مولوی گل شیر خان اور ٹیوب جی ٹائر جی“ اور سید ضمیر جعفری کر کے انھیں بطور کردار متعارف کرانے کی کوشش کی لیکن جان خال اسلام آباد، ۲۰۱۵، ص۲۳)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں