مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

اردو تنقید پر نفسیات کا غلبہ

تنقید پر نفسیات کا غلبہ: حلقہ ارباب ذوق کا تعارف اور اس کا طریق کار

ترقی پسندی کا رد عمل، تنقید پر نفسیات کا غلبہ

حلقہ ارباب ذوق کا تعارف

حلقہ ارباب ذوق کا پہلا نام بزم داستاں گویاں تھا۔ بزم داستاں گویاں کا پہلا جلسہ ۱۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء کو ہوا۔ جس میں نسیم حجازی نے اپنا افسانہ پڑھ کر سنایا۔

بزم داستان گویاں کے قیام کا مقصد واضح پتہ نہیں چلتا، بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ چند ادیب دوستوں نے مل کر ایک بزم سجانے کا فیصلہ کیا جس میں اپنی اپنی تخلیقات سنانے اور مل بیٹھنے کا بہانہ تلاش کیا گیا۔

چنانچہ ڈاکٹر یونس جاوید لکھتے ہیں:

شیر محمد اختر صاحب کے بقول شروع کرتے وقت ان لوگوں کے ذہنوں میں کوئی واضح نظریات و عقائد یا تعصبات نہ تھے۔ وہ قصہ سناتے ہیں کہ وہ اور حلقہ ارباب ذوق کے پہلے سیکرٹری سید نصیر احمد جامعی ایک روز میوہ منڈی کے قریب سر راہے ملے۔

نصیر احمد جامعی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ مل بیٹھنے کے لیے کسی انجمن کو تشکیل دیا جائے سو اختر صاحب نے جامعی کی تائید کی یہ گویا حلقہ ارباب ذوق کی عمارت کی بنیاد کی پہلی اینٹ تھی۔

بزم دوستان گویاں کا پہلا جلسہ ۱۲۹ اپریل ۱۹۳۹ء بروز شنبہ جناب حفیظ ہوشیار پوری کی صدارت میں منعقد ہوا۔

پہلے اجلاس میں شرکت کرنے والے حضرات

مندرجہ ذیل حضرات نے شرکت فرمائی:

  • جناب نسیم حجازی صاحب
  • تابش صدیقی صاحب
  • صاحب اقبال احمد
  • محمد فضل
  • محمد سعید صاحب
  • عبدالغنی صاحب
  • شیر محمد اختر صاحب

جناب نسیم حجازی نے ایک طبع زاد افسانہ "تلافی” پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد کافی دیر تک دلچسپ بحث اور تنقید کا سلسلہ جاری رہا۔ جس میں تقریباً سب حضرات نے حصہ لیا۔ محترم افسانہ نگار نے چند اعتراضات کے جواب بھی دیئے۔ فیصلہ ہوا کہ آئندہ جلسہ ۱۴ مئی کو ہوگا اور جناب محمد فاضل صاحب افسانہ پڑھیں گے۔ عبدالغنی ۱۴ مئی ۱۹۳۹ء سید نصیر احمد جامعی۔

اس پہلے جلسے کی کارروائی میں ہمیں افسانے پر کی گئی بحث اور تنقید کا پتہ نہیں چلتا۔ بہر حال اتنا اندازہ ضرور لگا سکتے ہیں کہ اس میں کسی خاص نقطہ نظر یا منشور کے بغیر تنقید کی گئی ہوگی کیونکہ یہ صرف مل بیٹھنے کا ایک بہانہ تھا اس میں ترقی پسندی کا منشور مد نظر نہیں ہوگا اور نہ ہی رومانوی انداز نقد اپنایا گیا ہوگا ۔

یہی سادگی اور بعد میں فنی و جمالیاتی نقطہ نظر اس بزم کا امتیازی وصف ٹھہرا۔ جس میں کسی اور تحریک کا اثر قبول کیا گیا اور نہ ہی کسی تحریک کا منشور اپنایا گیا اس میں شامل ہونے والے ادبیوں کا نقطہ نظر ہی اس کا منشور بنتا چلا گیا۔

ابتدا میں ہونے والی بحثوں اور تنقید میں آہستہ آہستہ نکھار آتا چلا گیا اور فنی و جمالیاتی پہلوؤں سے فن پارے کو جانچنے کا رواج ہوا۔ حلقہ ارباب ذوق نے باقاعدہ ایک طریق کار وضع کیا جس کے تحت یہ ایک تنظیم کی شکل میں ڈھل گیا اس طریق کار سے حلقے کے مزاج سے آشنائی ہوتی ہے حلقے کے داخلی مزاج کی جھلک ایک اقتباس سے واضح ہوتی ہے۔ جس کا ڈاکٹر محمد باقر کے انٹرویو سے پتہ چلتا ہے۔

حلقہ ارباب ذوق کا طریق کار

اقتباس درج ذیل ہے:

اول
حلقہ ارباب ذوق کا کوئی مستقل صدر نہیں ہوگا۔

دوسرا
حلقہ ارباب ذوق کا صرف ایک مستقل سیکرٹری ہوگا۔

تیسرا
رکن بننے کے لیے کوئی چندہ یا فیس نہیں لی جائے گی

چوتھا
ہر سال کے لیے سیکرٹری چنا جائے گا۔

پانچواں
حلقے کی رکنیت محدود رکھی جائے گی اور حلقہ کے ارکان کو اختیار ہو گا کہ جس کو چاہیں حلقے کا رکن بنا ئیں لیکن حلقے کے اجلاس ہر اس مرد اور عورت کے لیے کھلے ہوں گے جس کو اجلاس میں شامل ہونے کی دعوت دی جائے گی۔

چھٹا
حلقے کا جلسہ ہر ہفتے ایک رکن کے مکان پر ہوگا جس کے ذمے چائے پلانا ہوگا۔

ہفتم
حلقے کی ہر نشست میں کچھ مضامین اور نظمیں پڑھی جائیں گی جن کو سننے کے بعد ان پر بے لاگ تنقید کی جائے گی اور مضمون نگار یا شاعر کا فرض ہو گا کہ وہ ناراض ہونے کے بجائے خوش دلی سے ناقدین یا معترضین کی تنقید و اعتراض کو سنے اور اس کا جواب دے۔

حلقہ کی کارروائی حتی الوسع مشتہر کیا جائے گا۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں