تنقید اور تحقیق کا تعلق

تنقید اور تحقیق کا تعلق | Tanqeed aur Tehqeeq ka taluq

تنقید اور تحقیق کا تعلق

بلا شبہ تنقید اور تحقیق کا باہمی رشتہ ہونا چاہیے؛ مگر اردو تحقیق و تنقید میں یہ سوالات کم اٹھائے گئے ہیں کہ یہ رشتہ کسی نوعیت کا ہونا چاہیے ؟ اردو میں تنقید اور تحقیق کے باہمی رشتے کی صورت حال ہے کیا ؟ اردو تحقیق ، تنقید کے ساتھ کسی قسم کا سلوک روا رکھتی ہے؟ یعنی اردو تحقیق میں تنقیدی شعور کی کارفرمائی کس حد تک نظر آتی ہے؟

اردو تحقیق کا بیشتر حصہ محض رسمیات تحقیق سے متعلق ہے یا پھر اردو تحقیق کی اول و آخر منزل حقیقت تک رسائی ہے۔ متون کی صحت کے ساتھ ترتیب و تدوین، شاعروں کی درست تاریخ پیدائش و وفات ، کون سا شعر کس شاعر کا ہے؟ کون سی کتاب کس سن میں چھپی ؟ کون سا واقعہ کب کس کے ساتھ پیش آیا؟ اسی نوعیت کے معاملات و مسائل سے اردو تحقیق کو خاص رغبت ہے۔ اردو تحقیق علم کی یافت کرتی ہے، مگر علم تخلیق نہیں کرتی ۔ اردو تحقیق خود تنقید کی ضرورت محسوس نہیں کرتی ؛ تاہم تنقید کے لیے تحقیق کو لازمی گردانتی ہے ۔ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اپنے مضمون ” اردو تحقیق کے پیرا ڈائم پر ایک نظر: سماجی سائنسوں کے پیراڈائم کی روشنی میں تحقیق کے عالمی تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو تحقیق میں پیراڈائم شفٹ کی ضرورت محسوس کرتے ہیں ۔ وہ تحقیق کو علم کی تخلیق کا ذریعہ قرار دیتے ہیں؟ نیز اس اہم سوال کا جواب بھی دیتے ہیں کہ تحقیق اور تنقید کے رشتے کی نوعیت کیا ہونی چاہیے:

تنقید کے لیے موجودہ اردو تحقیق کے پیراڈائم میں کوئی جگہ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک تحقیق کی بنیاد، کسی عمرانی، تہذیبی ، فلسفیانہ، جمالیاتی سوال پر نہ رکھی جائے اور تاریخی و بیانیہ تحقیق کے متوازی سماجی سائنسوں میں رائج تحقیق سے مدد نہ لی جائے ۔ ظاہر ہے اس کے لیے پیرا ڈائم شفٹ کی ضرورت ہے ۔‘۱۰

۷۔ تنقید کی ذمہ داریاں

تنقید درج ذیل چار قسم کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے:

ا تشریح ۲- تجزیه ۳- تعبیر ۴- محاکمه یا تعین قدر

دنیا کا تمام اعلا ادب علامتی یا بالواسطہ ہوتا ہے۔ اس لیے آسانی سے سمجھ میں نہیں آتا۔ ہرفن پارے میں کچھ کہا کچھ ان کہا گیا ہوتا ہے۔ شعری یا نثری متن میں ڈھکے چھپے انداز میں کہی گئی باتوں کو کھول کر بیان کرنا تنقید کی اولین ذمہ داری ہے۔ یعنی کسی شعر یا فکشن پارے میں آنے والے تمام اہم فنی وفکری پہلوؤں کی وضاحت متن میں موجود خالی جگہوں کو پر کرنا۔

ان رموز پر روشنی ڈالنا جن کی طرف عام قارئین کا دھیان نہیں جاتا تنقید کی ابتدائی خصوصیت ہے ؟ مگر یاد رہے کہ متن کی شرح کرنا ، اس کو کھولنا یہی کامل تنقید نہیں ہے۔ اگر کوئی اسکالر خود کو متن کی شرح کرنے تک محدود کر لیتا ہے تو وہ جان لے کہ تنقید کی ذمہ داری کو نبھانے میں غفلت برت رہا ہے۔ جامعات میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی اردو کے محقق اپنے موضوعات کے تحقیقی و تنقیدی جائزے لینے کے نام پر تخلیقی متون کے محض خلاصے یا تشریح کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ اس سے آگے بڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔

فن پارے کا تجزیہ کرنا تنقید کا دوسرا اہم وصف ہے۔ ادب پارے کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ہر ٹکڑے کو الگ سے دیکھنا اور تقسیم شدہ ان تمام حصوں میں ربط پیدا کرنا تجزیہ کہلاتا ہے۔ تجزیے کے دوران فن پارے کی بنیادی ساخت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً افسانے کا تجزیہ کرتے ہوئے اس کے پلاٹ (واقعات کا مجموعہ ) کو دیکھا جائے گا کہ وہ ڈھیلا ہے یا چست؟ پلاٹ کے واقعات ، کردار، کرداروں کی زبان اور ان کی حیثیت کا جائزہ لیا جائے گا۔

واقعات کے بیان (Description) کا معاملہ کیسا ہے؟ کبیری (Protagonist ) اور ضمنی کردار کون سے ہیں؟ خارجی اور داخلی Focalizer کون ہیں؟ بیان کننده (Narrator) واحد متکلم ہے یا واحد غائب؟ بیان کنندہ کردار ہے تو افسانے میں اس کی شناخت کیا ہے؟ افسانے کا آغاز یا اس کے اختتامیہ جملوں کی معنویت کیا ہے؟ افسانے کی تہہ میں وہ تصادم (Conflict) کیا ہے جو کہانی کو آگے لے کے چلتا ہے؟

افسانے میں بیان کی گئی زبان کے تجزیے سے مراد یہ ہے کہ زبان کہانی کے کرداروں کی حیثیت کے مطابق ہے یا نہیں۔ اگر کرداروں کی زبان ان کی ذہنی سطح اور حیثیت کے مطابق ہوگی تو وہ کامیاب زبان سمجھی جائے گی۔ کرداروں کی شناخت یا نیت سے مراد یہ ہے کہ کسی کردار کی خاندانی یا سماجی حیثیت باپ کی ہے، ماں کی یا استاد اور ڈاکٹر وغیرہ کی ۔

فکشن سے متعلق روایتی تنقید کے علاوہ فکشن کی نی تنقید کا علم یعنی علم بیانیات (Narratology) کو بھی نقاد دوران تجزیہ پیش نظر رکھے تو زیادہ بہتر تجزیہ کر سکتا ہے۔ یعنی وہ قارئین کی توجہ اس نکتے کی طرف بھی دلا سکتا ہے کہ افسانے میں معنی کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ افسانے کا Motif ( کسی قسم کا مرکزی یا بار بار آنے والا خیال یا تصور ) کیا ہے؛ نیز Focalizer کے نکتہ نظر کو سمجھنے اور اس کا ابلاغ کرنے کی کوشش بھی کی جاسکتی ہے۔

تجزیے میں یہ بھی دیکھا جا سکتا کہ افسانے کا آغاز کیسا ہے؟ افسانے کے اختتامیہ جملے غیر متوقع (Dramatic) ہیں یا قاری کی توقع کے مطابق ۔ افسانے کے جملوں میں معنی خیزی (Suggestiveness) ہے یا راوی ہر ایک بات کھول کھول کر بیان کر رہا ہے؟ افسانے میں وہ کون سا مسئلہ، جھگڑایا تصادم (Conflict) اسے آگے لے کے چلتا، اس میں تجس پیدا کرتا ہے؟ افسانے میں کہانی پن کا عنصر ہے یا نہیں۔ کرداروں کے ساتھ ہونے والے اتفاقات فطری معلوم ہوتے ہیں یا غیر فطری؟ افسانے کا کردار نہ ہونے کے باوجود را وی افسانے میں خود تو نہیں آٹپکتا ؟ فکشن میں کون کون سی تکنیک استعمال ہوئی ہے؟ ابواب فلیش بیک ، شعور کی رو، مکالمه یا خود کلامی؟ فکشن پرانے واقعات کی محض نقل نگاری (Mimesis) تک محدود رہا ہے یا فکشن پارے میں کچھ نیا اختراع کرنے کا تجربہ بھی ہوا ہے؟ فکشن کے تانے بانے سے لے کے اس کی تاثیر تک کے تمام اجزاء و عناصر کا جائزہ لینا تنقید کا خاصہ ہے۔ انھی باتوں کے پیش نظر ناقد اندازہ لگاتا ہے کہ فن پارہ کامیاب ہے یا ادبی معیارات سے پست۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ فن پارہ جن عناصر سے مل کر تشکیل پاتا ہے ان پر تفصیلاً روشنی ڈالنا تجزیہ کہلاتا ہے۔

تنقید کی اگلی امتیازی خصوصیت فن پارے کے معانی کی تعبیر بیان کرنا ہے۔ فرہنگ آصفیہ میں تعبیر کے لغوی معنی

درج ذیل بیان کیے گئے ہیں :

(۱) بیان کرنا۔ عبارت میں لانا (۲) خواب کا نتیجہ بتانا، نتیجہ خواب ۱۱

تعبیر کو Interpretation کے معانوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تعبیر کے ذریعے متن کے مرادی معنی تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ علم تعبیر (Hermeneutics) میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی متن کی تعبیر کیسے کرنی ہے۔ تعبیر اور تشریح میں فرق کو بالخصوص ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ تشریح میں متن کے معنی بیان کیے جاتے ہیں؛ جبکہ تعبیر میں متن کی معنویت Significanc) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی اپنی کتاب ” تعبیر کی شرح میں تعبیر اور شرح کے فرق کی وضاحت کرتے ہیں:

دو تعبیر کا کام معنی کو بیان کرنا ہے لیکن کیا معنی اور معنویت میں فرق کیا جا سکتا ہے؟ یعنی کیا معنی کو بیان کرنے اور معنی کی اہمیت، اس کا دوسری چیزوں سے تعلق وغیرہ بیان کرنے میں کوئی فرق نہیں ؟ اس سوال کا جواب اگر یہ ہے کہ معنی اور معنویت میں فرق ہے تو شاید شرح اور تعبیر میں بھی فرق قائم ہو سکتا ہے۔ کم از کم ہرش (E.D.Hirisch) کا تو یہی خیال ہے کہ شارح کی اپنی ذات کے لیے جو معنی ہیں وہ محض معنی ہیں اور وہی معنی جب کسی اور شے کے تعلق سے بیان کیے جائیں تو معنویت کہلائیں گے۔ لہذا اگر ہم معنی بیان کریں تو شارح ہیں اور اگر معنویت بیان کریں تو معبر ہیں ۔ ۱۲

فن پارے کی تعبیر کرتے ہوئے متن کے اصل جو ہر تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی اگر کوئی فکشن پارہ ہے تو اس کے تقسیم کا سراغ پانا بھی اس کی تعبیر جاننے کے ہم معانی ہی ہوگا۔ جس طرح معبر خوابوں کی حقیقت تک پہنچتا ہے ؛ اسی طرح نقاد بھی متن پر ایک خواب کی مانند توجہ دیتا ہے اور متن کے مرکزی ، باطنی حقیقی معنی کو دریافت کرنے کی کاوش کرتا ہے۔ تعبیر سے متعلق بنیادی نکتہ یہی ہے کہ تعبیر کا عمل متن کی شرح نہیں؛ بلکہ اس کی روح تک رسائی حاصل کرنے کی جستجو سے عبارت ہے۔ محمد منصور عالم کے نزدیک تعبیر کا مفہوم درج ذیل ہے:

جب ہم کلام با متن کی تعبیر جیسی ترکیب استعمال کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں کلام با متن کی تشریح کا مفہوم نہیں آتا بلکہ ان کے اصلی معنی ، مطلب مفہوم ، نکتہ، خیال کا عکس آتا ہے۔ ۱۳

تنقید کی چوتھی ذمہ داری ادب پارے کا مطالعہ کر کے اس کا تعین قدر کرنے کی ہے۔ محاکمہ یا تعین قدر کرنے کے بغیر تنقید کا کوئی جواز نہیں ہے۔ متن سے متعلق فیصلہ کرتے ہوئے منصف ( نقاد) اس طرح کے سوالات کو سامنے رکھے گا کہ فن پارہ جس صنف میں لکھا گیا ہے وہ اس صنف کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں ؟ فن پارہ فنی وسائل کو جس انداز سے بروئے کار لاتا ہے اس سے اس کا حسن بڑھتا ہے یا کم ہوتا ہے؟ کوئی بھی ادب پارہ آئیڈیا لوجی کی بنیاد پر وجود میں آتا ہے یا تھیم کی بنا پہ؟ کون سامتن خود کلامیہ (Monological) ہے اور کون سا آزاد کلامیہ (Dialogica)؟ مثلاً ڈپٹی نذیر احمد کے چند خود سوانحی ناول خود کلامیہ اور قرۃ العین حیدر کے بیشتر غیر سوانحی قسم کے ناول آزاد کلامیہ کی مثال ہیں۔ بعض تحریر میں کمزور ہوتی ہیں تو بعض شاہکار ، محاکمے کا تعلق مختلف اصناف میں لکھی گئی تحریروں کی ادبی حیثیت کا فیصلہ کرنے سے ہے۔

محاکمے کے بغیر تنقیدی سرگرمی نامکمل ہے۔ نقاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی رائے دیتے ہوئے غیر جانبداری کا اظہار کرے؛ اور نہ تنقیدی سرگرمی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں