تانیثیت کا پس منظر | Taneesiyat Ka Pas-e-Manzar
تانیثیت کا پس منظر
——->تانیثی تھیوری یا ادب کا تانیشی مطالعہ کن سوالوں کے ساتھ ادب کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے؟
کیا تانیثیت کے وہی فکری اہداف ہیں جن کا ذکر ادب میں تانیثی تھیوری کی بحثوں میں ملتا ہے؟
تانیشی مطالعات نے ان معروضات کی تشفی کے لیے تاریخ کے باطن سے راہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
ادبی تھیوری جو ادب کے تشکیل معنی کے نظام کو گرفت میں لینے کا مطالعہ ہے تانیثی تجزیوں کے لیے راہ ہموار کرتی ہے۔
گزشتہ صدی کی چھٹی دہائی میں جب ادبی تھیوری کا چلن عام ہوا تو اس کے ساتھ ہی ادب کے موضوعاتی مطالعات کو بھی راہ ملی ۔
مابعد نو آبادیاتی اور تانیشی مطالعات کو نظریہ بنانے کے پیچھے مابعد جدید فکر کا وہی بنیادی اصول کار فرما تھا کہ وہ تمام اشیا جو مرکزی کبھی جا رہی ہیں وہ اُن اشیا سے بدلی (Replace) جاسکتی ہیں
جو متن مرکز نہیں یا جنھیں حاشیے پر سمجھا جا رہا ہے۔ اصل میں کسی بھی شے کو حتمی نہیں کہا جاسکتا۔ جو جتنا حاضر ہے اُتنا ہی غائب ہے۔ یوں حاشیے پر موجود اشیا کا بھی مرکزی دعوے کا اتنا ہی حق ہے جتنا مرکزی متن پر موجود فکروں یا اشیا کا۔
جو مرکزی ہونے کا دعوی کر رہی ہے وہ مکمل بتائی جا ہی ہے ورنہ وہ بھی ادھوری ہے ۔ اُسی طرح ادھوری جس طرح حاشیے پر موجود فکروں اور اشیا کو ادھورا یا خام ہونے کا سچ پہنا دیا جاتا ہے۔
مابعد جدید فکر نے ایک اور زاویے سے بھی اشیا کی ترتیب الٹنے کی کوشش کی ہے کہ سماجیاتی تشکیلات کی حیثیت تبدیل کی جاسکتی ہے کیوں کہ وہ ایک تشکیل کی حالت میں ہوتی ہیں جو جبر (Oppressions) کی وجہ سے وہ ہیئت دکھا رہی ہوتی ہیں جو دکھانے کی کوشش کی جائے۔
اگر سماجیاتی تشکیلات کا کوئی رخ متعین کر دیا جائے تو وہ اسی رخ کو سچائی بنا کر پیش کر دیں گی۔ یعنی سماجی تشکیل پانے والی اشیاء یا فکروں کی کوئی ایک حتمی شکل نہیں ہوتی
اور نہ ہی وہ جبر سے ماورا ہو سکتی ہیں۔ ان کی تمام شکلوں کو سامنے رکھنے اور اُن کی حیثیت کو ماننے کا نام ہی مابعد جدیدیت ہے۔
مابعد جدیدیت نے نو آبادیاتی فکر کا پردہ چاک کیا اور دکھانے کی کوشش کی ہے کہ کس طرح معصوم قرات ان حقائق کو چھپا لیتی ہے جو اصل میں کوئی اور روپ دھارے ہوتے ہیں ،
آثاریاتی قرآت ہی دونوں اطراف دیکھنے کی اہلیت رکھتی ہے، جس کی رو سے ہر فکر متن مرکز ہوسکتی ہے اور دبائی گئی سچائیاں جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
تانیثیت نے بھی مابعد جدید عہد کے ساتھ ہی تا نیشی مطالعوں کو نظرپایا اور تاریخ کے آئینے میں عورت کے مجموعی کردار اور اہلیت کو ماپنے کی کوشش کی۔ یوں عورت تاریخ کے حاشیے سے مرکز متن بنائی جانے لگی۔
——->تانیثیت* کو سمجھنے کی طرف پہلا بنیادی تھیںوری یورپ میں پیش ہوا مگر یہ تھیںوری عورت (Feminine) اور مرد (Masculanity) کے درمیان برابری کے مسئلے کو اجاگر کرتا تھا۔ اس میں کسی خطے کے کلچر یا کسی سیاسی مسئلے کو بنیاد نہیں بنایا گیا
عورت کیوں مرد سے حقیر تر ہے اور عورتوں کو وہ سماجی حقوق کیوں میسر نہیں جو صرف مرد ہونے کی وجہ سے مرد کو عطا کر دیے جاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا پہلا سوال تھا جو باقاعدہ تا نیثی تحریک (Feminist Movement) کے آغاز کا موجب بنا۔
——>تانیثی تھیوری* کے حوالے سے اُردو میں بہت کم مقالات میں تانیثیت کو نظریا ماننمنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تانیشی تھیوری جس کی بنیاد پر ادب کی تانیثی تنقید وجود میں آئی، بنیادی طور پر تین حصوں پر مشتمل ہے:
——>{1} عورت معاشرے کے تناظر میں، یعنی عورت کے معاشرتی حقوق کی جنگ، عورت کو سماجی طور پر مرد کے مقابلے میں مساوی حقوق دیے جانے کی جدو جہد۔
——>{2} عورت مرد کے تناظر میں یعنی مرد نے عورت کو کس طرح دیکھا یا اپنی تحریروں میں دکھایا ہے۔
عورت مرد کے مقابلے میں مرتبہ، درجہ اور حیثیت میں کہاں کھڑی ہے؟ اگر کوئی نا انصافی کی گئی ہے تو کیوں کی گئی اور اُس کے محرکات کیا تھے؟ عورتوں کی دانشورانہ حیثیت مردوں کے تناظر سے کہاں متعین ہوتی ہے۔
——-{3} عورت عورت کے تناظر میں یعنی عورت کو عورت کے تناظر میں دیکھا یا پڑھا جائے ۔
عورت ایک صنف (Gender Self) میں مرد کی محتاج نہیں بلکہ مرد عورت کو سمجھ ہی نہیں سکتا عورت ہی عورت کو سمجھ سکتی ہے۔ یوں عورت کو عورت کے مسائل کے ساتھ سامنے لایا جائے کہ عورت کی سماجی ، سیاسی ، حیاتیاتی اور نفسیاتی درجہ بندی عورت کے تناظر ہی سے متعین کی جائے۔
—–>تانیثیت کے حوالے سے مغربی تاریخ میں انقلاب فرانس کے بعد سے اس موضوع کو اہمیت دی جانے لگی ہے اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب جان اسٹورٹ مل کی The Subjugation of Women ہے۔
جس نے تانیشی حقوق کی آواز کو اس شدت سے اُٹھایا کہ اس کے خیالات کو لبرل فیمنزم کا نام دیا جانے لگا۔ بیسویں صدی میں تانیثی تحریک کا سارا مواد ور جینا وولف کی کتاب A Room of One’s Own ، ڈور تھی رچرڈسن کا ناول Pilgrimage اور سیمون
دی بواء کی کتاب The second sex نے فراہم کیا۔ تانیشی تحریک کا ادب کے اندر مضبوط اظہار کی ایک وجہ ان کتابوں کی اشاعت بھی تھی جنھوں نے تانیثیت کو ایک علمی وقار سے پیش کیا۔۔
تانیشی تحریک ادبی تحریک بن گئی جس نے عورت کے مقدمے کی فلسفیانہ حیثیت کو منوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں انتقاد لسوال (Gynocriticism) کا اسکول سامنے آیا ، جس کا نفسیات کے ساتھ بھی گہرا تعلق تھا۔
خصوصاً فرائڈ کے جنسی نظریات نے عورت اور مرد کے باہمی تعلق کو سمجھنے کی طرف کئی ایک اشارے فراہم کئے تھے۔
——–>تانیثی ناقدین* نے فرائڈ کے ہاں عورت اور مرد کے جسمانی تفاوت کی بحثوں کو اپنے تھیس میں پیش کیا۔
فرائڈ نے کہا تھا کہ عورت مرد کے مقابلے میں ایک قسم کی نفسیاتی کمی کا شکار ہوتی ہے۔
اُس کے جسم کی ساخت مرد جیسی نہیں، یہی احساس عورت کے اندر رشک اور احساسِ کمتری کارجحان پیدا کرتا ہے جو بڑی حد تک دانش ورانہ کمتری کا موجب بنتا ہے۔ عورت کے جسمانی طور پر مرد کی نفسیاتی برتری قبول کرنے کے نظریے نے تانیثی ناقدین کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
حواشی:
(موضوع)،{تانیثیت}}،[کتاب کا نام]،{{{ادبی اصطلاحات}}}،{کوڈ کورس :—–> : 9015}،{صفحہ نمبر { 165تا 168 }،{مرتب کرده…مسکان محمد زمان}
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں