تحقیق کے اصول و ضوابط | Osool e Tahqeeq
موضوعات کی فہرست
تحقیق کے اصول و ضوابط
اصول تحقیق سے مراد تجربات اور مہارتوں کا مظاہرہ کرنا ہے، جن کی مدد سے مقاصد کا حصول آسان ہو جاتا ہے اور کام میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے ذریعہ کم وقت میں زیادہ نتائج اور فوائد حاصل ہوتے ہیں ۔ یہ نظر یہ صرف تحقیق کے اصول سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اصناف اور ان کے اسالیب و طریق کار کے لیے یکساں طور پر مؤثر اور مفید ہے۔
یعنی ہر وہ کام جو کسی طریق کار یا اصول کے زیر اثر تجربات اور کامیابیوں کے ہمراہ انجام پاتا ہے، اس کے اندر افادیت کا عصر یقین کی حد تک پایا جاتا ہے۔اور جن لوگوں میں طریق کار اور اسلوب کے استعمال کا فن بہتر صورت میں موجود ہوتا ہے علمی میدان میں ان کا شمار کامیاب ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی پیروی کرنے والے مبتدی محققین بھی ان کے نقش قدم پر چل کر نسبتا جلدی نتائج تک پہنچ جاتے ہیں۔
ڈاکٹر عندلیب شادانی نے تحقیق کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے چار بنیادی اصولوں پر زور دیا ہے، جو تحقیق کے سلسلے میں اختیار کیے جانے چاہیے:
1۔ موضوع کا انتخاب اور اس کی حد بندی۔
2۔ ماخذوں کا تعین اور ان کی فہرست مرتب کرنا۔
3۔ مقالے کا خاکہ تیار کرنا۔
4۔ ماخذ کا مطالعہ اور ان سے مفید مطلب مواد کا انتخاب۔
کسی بھی موضوع کی تحقیق کے لیے چاہے وہ دینی ہو یا ادبی ہو یا علمی ہو، چند باتو کار موقت پیش نظر رکھنا ضروری ہے، ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جا رہا ہے:
موضوع کا تعین:
تحقیق کے میدان میں پہلا قدم موضوع کا انتخاب اور تعین ہے محقق کو کام شروع کرنے سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہئے کہ کس شے کی تلاش میں وہ نکل رہا ہے؟ اس کی تحقیق کا موضوع کیا ہے ؟ اور اس کے حدود کیا ہیں ؟ اس لیے موضوع کا انتخاب کرتے وقت محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھے:
الف: موضوع سے اس کی دلچپسی تعلق اور لگاؤ کیسا اور کتنا ہے۔
ب: وہ موضوع کا حق ادا کر پائے گا یا نہیں ؟ اس کے اندر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی استعداد ہے یا نہیں؟
ج: سماج و معاشرے کی ضروریات پوری کرنے میں اس کا کردار کتنا اور کیسا ہوگا ؟ کیا ان تحقیقات اور موضوعات سے معاشرہ کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا نہیں ؟
د: اس موضوع پر تحقیق کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ تحقیق کرنے کی صورت میں اس کے لوازمات ، منابع اور دیگر اشیاء آسانی سے فراہم ہو جائیں گی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو ہیں کہ حقیقی کام نصف تک پہنچ کر رک جائے اور کوشش نا تمام رہ جائے۔
ھ: اگر محقق تحقیق کے میدان میں نو وارد اور مبتدی ہے تو موضوع کا دائرہ مختصر اور محدود ہو۔
عنوان موضوع کی تقسیم
تمام کلی موضوعات کو ذیلی عناوین مختصر اجزاء اور چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم تعیین کر دینے سے تحقیق کا کام آسان ہو جاتا ہے۔ ایک موضوع کو متعدد حصوں اور مختلف اجزاء میں باننے کے لیے ذوق و شوق اور تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہے اور اس موضوع سے متعلق عام و خاص معلومات کا ہونا بھی لازم ہے۔ ایک موضوع کے ذیلی عناوین جتنی زیادہ تعداد میں تقسیم ہوتے چلے جائیں اتناہی بہتر ہے۔ کیوں کہ اس سے اس موضوع کی تمام جہات کی تفہیم تعبیر میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔
منصوبہ بندی
تحقیق عملی صورت دینے کے لیے منصوبہ بند طریق کار اپنانا ضروری ہے۔ مثلا تحقیق کی کیفیت کیا ہو گی، اس کے کام کا دائرہ اور طریقہ کیا ہو گا تحقیق کہاں سے شروع ہو گا کس نکتہ پر اختتام پذیر ہو اور اس کا مقصد اور نتیج بھی روشن ہو۔ اس لیے ذہن میں پہلے سے اس کا خا کہ اور نقشہ موجود ہونا چاہئے کہ کس طرح اور کن مراحل سے گزر کر مطلوبہ نتیجہ تک پہنچا جائے۔
پچھلے کاموں سے آگاہی
ماضی میں انجام پاچکے امور سے محقق کا آگاہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس کے متعدد فوائد ہیں مثلاً ہو چکے کام کی تکرار سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعہ انجام دیا جانے والا کام پختہ مستند اور متحکام ہو گا محقق کو اسلاف کے تجربات اور کاموں سے سیکھنے میں مدد ملے گی۔ البتہ جدید تحقیقی امور کہ جس پر اب تک کوئی کام نہ ہوا ہو اور نہ اس کی کوئی مثال یا نمونہ موجود ہو، اس کے لیے اس جیسے پچھلے کاموں سے سہار ا لینا کوئی ضروری نہیں ہے۔ لہذا ہر زیر تحقیق موضوع کے لیے پچھلی مثالوں، نمونوں اور ان کے طریقکار سے باخبر اور آشنا ہونا بہتر ہے ۔
مثلاً اگر کوئی غالب ، اقبال ، سرسید ، مولانا آزاد ، متعدد تحریکات ، مختلف دبستان و غیرہ سے متعلق تحقیقی کام انجام دینا چاہے تو اس پر فرض ہے کہ اس سلسلہ میں پہلے سے جو کام انجام پاچکے ہیں ، ان کتابوں ، مقالات اور منابع کا سہارا لے۔ یعنی ان کا اسلوب ، طریق کار اور انداز تحریر کیسا ہے، اس پر غور کرے تا کہ وہ خود اپنی تحریر میں ان چیزوں کا استعمال کر کے اسے بہتر مفید ، موثر اور کارآمد بنا سکے۔
تاخذ سے آگاہی
تمام اصناف سخن میں ہر موضوع سے متعلق تقریبا اہم منابع و مصادر اور جامع و مانع اور اولی مآخذ موجود ہیں، جن سے معتبر ، موثق اور مستند معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ہو سکتی ہیں ۔ ایک محقق کی ذمہ داری ہے کہ متعلقہ موضوعات کے سلسلے میں ان منابع و مآخذ سے آشنا ہو ۔ یہ منابع و مصادر قدیم بھی ہو سکتے ہیں ، جدید بھی۔ بعض کتا ہیں جیسے انسائیکلو پیڈیا وغیرہ بالخصوص اس مقصد سے تحریر بھی کی گئی ہیں ۔ اور بعض کرتا ہیں اصل منابع تک رسائی کے لیے رہنما کا فریضہ انجام دیتی ہیں جیسے رسائل کے اشاریے وغیرہ۔
منابع و مآخذ کی کتا ہیں جو ترتیب تعظیم کے ساتھ مختلف میدانات مثلا علمی ، ادبی، تاریخی، سماجی وغیرہ سے متعلق تحریر و تدوین کی گئی ہیں ، ان سے دقیقی اور فوری اطلاعات تھوڑے غور و فکر کے بعد بہم ہو جاتی ہیں ۔ مثلاً عام اطلاعات ، انسائیکلو پیڈیا ، ذخیرہ الفاظ ولغات ، سوانح حیات، سالانہ رپورٹس ، اشاریے ، فہرست، فہرست مقالات و مضامین وغیرہ قبل کی کتابیں منابع و مآخذ کے زمرے میں آتی ہیں۔
مآخذ و منابع کے دو خارجی وجود ہوتے ہیں ۔ پہلا کتا بیں تحریریں، مقالات و مضامین وغیرہ یعنی جو تحریری شکل و صورت میں ہو۔ دوسرا زندہ منابع جیسے محققین ، صاحبان نظر، آگاہ افراد وغیرہ کہ ان کے پاس مختلف موضوعات کے سلسلہ میں دقیق اور قیمتی معلومات ہوتی ہیں اور افراد بھی سارے تحقیقی امور میں تاخذ و منابع کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسر اوجود بھی ہے مثلاً تصویر میں فلمیں، سماعت و بصارت سے متعلق مواد، ویڈیوز ، آڈیوز ، ایم پی تھری وفور ، ریڈیو وغیرہ کہ جو کتاب یا تحریری شکل میں نہ ہوں ۔
اس زاویہ سے محقق اور صاحبان نظر افراد کو بھی اس تیسرے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ محقق کی ذمہ داری ہے کہ مختلف منابع و مآخذ کی اہمیت ، قدر و قیمت اور اعتبار واستناد کی طرف بھی متوجہ رہے اور موضوع سے متعلق دسیوں منابع کے درمیان یہ امتیاز قائم کرنے کی استعداد رکھتا ہو کہ ان میں کون سا منیع و تأخذ مستند و معتبر ہے اور کس کا اعتبار و اہمیت نسبتا کم ہے۔ فلاں کتاب کے مصنف کے کیاافکار و خیالات ہیں اور اس نے اس کتاب کی تیاری میں کیا طریق کار اپنایا ہے؟
اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کتاب سے مطالب کے حصول اور نتیجہ گیری میں آسانی پیدا ہوگی اور اس کی تاثیر بھی زیادہ ہوگی۔ کیوں کہ یہاں جو بات پیش کی جائے گی اس میں حد درجہ وثوق اور یقین شامل ہوگا۔
مربوط موضوعات سے آگاہی
تحقیقی میدان میں اگر محقق کے ذہن میں یہ صلاحیت وقوت ہے کہ آپس میں مربوط مختلف موضوعات کو سمجھ سکے اور ان کے درمیان موجود ارتباط کو کشف کرسکے تو تحقیق کا نتیجہ منفرد اور اچھا ہوگا ۔ مثلاً اگر کوئی تخت سلیمانی “ کے بارے میں تحقیق کرنے کا ارادہ بنائے تو اس کے لیے انبیاء اور ان کے معجزات کے بارے میں مطالعہ کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔ تمام موضوعات میں رابطوں کی تلاش اور حصول کا فائدہ یہ ہے کہ محقق کے لیے معلومات کے نئے دریچے کھلتے ہیں اور منابع و مآخذ کے بارے میں بھی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے نقل کا چند چیزوں کا حامل ہونا ضروری ہے:
1۔ عام معلومات اور اطلاعات۔
2۔ ضرورتوں ، تقاضوں اور خلا کے موارد کام اور سمجھتا۔
3۔ ذہن کا فورا مطلوب ہے اور ضرورت کی جگہ پر منتقل ہونا اور مسلسل حرکت و عمل میں مصروف رہنا۔
4۔ مطلوب اشیاء کے جمع کرنے اور ان سے نتیجہ حاصل کرنے کی مہارت اور قدرت ہونا وغیرہ۔
غور و فکر
تحقیق کا ایک اہم منبع اور تاخذ ، انسان کے اپنے افکار و خیالات، حافظے اور غور وفکر سے حاصل ہونے والے نتائج و ذخائر سے ہر وقت استفادہ کرنا بھی ہے۔ تحقیق میں صرف مطالعہ پر تعمیر نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کام کے لیے غور و فکر کا بھی ایک حصہ اور جگہ معین ہونا چاہیے ۔ انسان کے افکار و خیالات بھی ایسے خالص اور پر بہار خزانے ہوتے ہیں جو مختلف اور متعدد مسائل کا منبع بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جتنا ان سے استفادہ کیا جائے گا اور ان کا استعمال کر کے انھیں مسلسل مصروف عمل رکھا جائے گا، اتناہی ان سے فائدہ ہوگا اور نتائج و معلومات کا انبار بڑھتا جائے گا۔
مثلاً ایک کنویں سے اگر مسلسل پانی نکالا جاتا رہے تو اس کے ابال اور جوش میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اگر اسے استعمال میں نہ لایا جائے اور یوں ہی خاموش وجود کی شکل میں چھوڑ دیا جائے تو ممکن ہے مرور زمانہ کے ساتھ وہ خشک بھی ہو جائے۔
حافظہ بھی ایک بھولا بسرا منبع کی مانند ہوتا ہے۔ یہ عام بات ہے کہ بہت سی چیزیں پہلے سے پڑھی یا سنی ہوئی ہوتی ہیں اور حافظہ میں کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہیں لیکن ہمارے شعور و احساس کی پہنچ سے دور دور رہتی ہیں اور ایک ہلکی پھلکی یاد دہانی سے وہ نکل کر سامنے آجاتی ہیں۔
یادداشت
اسناد و منابع مصادر و مآخذ کی شکل میں موجود کتابوں کا مطالعہ اور تحقیق کرتے وقت یا سماج و معاشرہ میں وقوع پذیر حالات و حادثات اور محسوس اشیاء کی نقل اتارنے ، یا کوئی اطلاع یا خبر تیار کرنے یا واقعات و مشاہدات تحریر کرنے میں اگر اپنے زیر تحقیق موضوع سے متعلق کچھ مطالب مل جائیں تو انھیں نوٹ کرتا جائے ۔ کیوں کہ موضوع کی تحقیق میں ان سے کافی مدد حاصل ہوگی ۔ البتہ نوٹ بک کے ہر صفحہ پر اوپر نیچے یا کنارے ضروری معلومات لکھنا نہ بھولے مثلاً موضوع، اس کے ذیلی عناوین، مدرک و منبع کی مکمل تفصیل اور نوٹس لکھنے کی تاریخ و نمبر شار و غیر ۔
اس سلسلہ میں مختصر علامات اور اشارات کا بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ محقق کے پاس سیکڑوں اور ہزاروں اور اق نوٹس بک کی شکل میں موجود ہوں جن کو الگ الگ اہداف و مقاصد اور جدا جدا موضوعات کے اعتبار سے تیار کیا گیا ہولیکن وہ معلومات ، اطلاعات اور نوٹس تحقیقی کام میں مفید ہیں کہ جن میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہوں:
1۔ گہرائی،وقت 2۔ تفصیل ، وضاحت 3- طمانیت تسکین 4۔ کفایت ، بے نیازی ۔
یاد داشتوں میں بہم کی جانے والی معلومات اور اطلاعات منظم و مرتب ہونی چاہئے ۔ ظاہری اعظم و ترتیب کا بھی خیال رکھا گیا ہوا اور باطنی و معنوی تہذیب بھی پائی جاتی ہو ۔ کیوں کہ نمبر شمار مختصر علامات ، حاصل شدہ معلومات وغیرہ کو منظم طریقہ سے مرتب کرنے سے وقت ضرورت اس سے استفادہ کرتے ہیں آسانی ہو جائے گی اور تحقیقی کام میں مدد ملے گی۔
نظم و ترتیب
کام کے آخری مرحلہ میں تحقیقی نوٹس کے مجموعے اور مکمل مطالب کو قابل قبول صورت عطا کر کے اسے پیش کرنے کے لائق بنایا جائے ، اس کا نام منظم و ترتیب ہے۔ایک اچھی نظم اور خوبصورت ترتیب کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ اطلاعات و معلومات کو مختلف گروہ اور حصوں میں تقسیم کر لیں۔
2۔ ہر گروہ اور حصہ کو مناسب جگہ پر رکھیں۔
3۔ غیر ضروری یا غیر مربوط معلومات اور اطلاعات بہم کرنے کے لیے الگ سے کوئی فضیات کا باب قائم نہ کیا جائے۔
اگر مطالب کی گروہ بندی نہ کی جائے اور انھیں مختلف حصوں میں تقسیم نہ کیا جائے اور آپس میں سب خلط ملط ہو جائیں تو محققین اور قارئین دونوں کے لیے خستگی اور الجھن کا سبب بن جاتا ہے۔ اور مطالب کو بے جا استعمال کرنے سے بھی اس کی اہمیت وافادیت اور قدرو قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
غیر ضروری اور غیر مربوط مطالب کے بیان اور نقل میں زبردستی کے اضافہ سے صرف کتاب یا تحریر کا حجم زیادہ ہو جاتا ہے بچوں سے کشش میں کمی واقع ہوتی ہے اور کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں ہوتا ۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ تنظیم و ترتیب کے مرحلہ میں تحریر و نگارش کا مسئلہ بھی درپیش ہوتا کہ جس کا اپنا الگ اور منفر د طریق کار اور اصول ہے ، جس کے یہاں بیان کی گنجائش نہیں ہے بلکہ مستقل ایک الگ بحث ہے جو اپنا مقام رکھتی ہے۔ البتہ اتنا بیان کر دینا ضروری ہے کہ جمع کیے ہوئے مطالب اور حاصل کی گئی اطلاعات و معلومات کی نظم و ترتیب سے عالم وجود میں آنے والی تحریر کا خاکہ اس طرح ہو کہ اس میں کم سے کم تین درج ذیل چیزیں پائی جاتی ہوں:
(۱۔ مقدمہ ۲ متن ، اصل موضوع ۳۔ نتیجہ ) اور اس میں یہ صلاحیت ہو کہ تحقیقی میدان میں دریافت شدہ حقائق بلیغ و قابل قبول صورت میں دوسروں تک منتقل کر سکے۔
پروفیسر عبد الستار دلوی نے اپنے مضمون تحقیقی عمل کے مراحل میں محقق کے اوصاف میں مندرجہ ذیل قوی کو لازم قرار دیا ہے:
1۔ قوت استدلال: اخذیاتی اور تخلیقی
2۔ قوت حافظہ: ادراکی، مفصل اور مبنی بر دلائل۔
3۔ مراقبہ: (ارتکاز فکر) مضبوط اور طویل۔
4۔ ذہنی صداقت: اپنی جانب اور موضوع کی جانب
5۔ شوق اور حوصلہ: بنیادی تخلیقی عمل سے متعلق۔
6۔ تجسس: مستعد اور فعال
پی ڈی ایف سے تحریر از محمد شیراز شیرازیؔ
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں