مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

تبسم فاطمہ نسائی ادب کی ایک منفرد افسانہ نگار

تعارف

۱۹۸۰ کے بعد ابھرنے والی افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام تبسم فاطمہ کا بھی ہے۔ وہ نسائی ادب کی ایک ایسی تخلیق کار ہیں جن کے قلم میں احتجاجی رنگ اپنی ہم عصر خواتین افسانہ نگاروں میں سب سے زیادہ شوخ ہے۔ وہ اپنی بات کو قلم کی دھار سے اٹھاتی ہیں اور دوٹوک ہو کر اس کا اظہار کرتی ہیں۔

ولادت و ابتدائی تعلیم

تبسم فاطمہ ۱۹۶۸ میں بمقام آره (بہار) میں پیدا ہوئیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم پٹنہ میں ہوئی۔ بی۔ اے آنرس کے بعد جرنلزم کی تعلیم حاصل کی اور وہ صحافت سے جڑ گئیں۔ تبسم فاطمہ اوائل عمری سے ہی ادب کی طرف مائل ہوئیں ۔ اس طرح ان کی ابتدائی کہانیوں میں ہی ان کے شعور کی پختگی نظر آنے لگی۔ انھیں اردو ہندی دونوں زبانوں سے یکساں شغف ہے۔ وہ اردو کی کئی کتابوں کا ہندی میں ترجمہ کر چکی ہیں۔ تبسم فاطمہ اردو ادب کی معروف افسانہ نگار مشرف عالم ذوقی کی بیوی ہیں۔

اردو ادب کی خدمت اور افسانوی مجموعے

تبسم فاطمہ ۱۹۸۰ سے اردو ادب کی خدمت کر رہی ہیں۔ ان کے بہت سے افسانے ملک کے مختلف جرائد میں چھپ چکے ہیں۔ وہ کافی غور و فکر کے بعد افسانے تحریر کرتی ہیں۔ اب تک ان کے دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں ۔

لیکن جزیرہ نہیں، تبسم فاطمہ کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے جو تخلیق کار پبلشرز کی جانب سے ۱۹۹۵ میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے سبھی افسانوں کو ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ اس میں جملہ چودہ افسانے کوئی کسی قبر میں نہیں ، خوف ، لیکن جزیرہ نہیں، جرم، نیا قانون، اندر اتری ہوئی دہشت، ندامت ، حصار، شب کا طلسم ، فلسفے کا کوئی گھر تو نہیں ہوتا ، کتھا ، کل نفس ذائقۃ الموت، سنو کھنڈر تم سوچکے ہو ہی میں اور ایک دن سب پرندے اڑ جائیں گے، وغیرہ شامل ہیں۔

ابتدائی کہانیوں پر جدیدیت کا اثر

تبسم فاطمہ اپنی ابتدائی کہانیوں میں جدیدیت سے زیادہ متاثر نظر آتی ہیں۔ ان کے پہلے مجموعے کے زیادہ تر افسانے اس بات کا ثبوت ہیں۔ وہ اپنے پہلے افسانوی مجموعے لیکن جزیرہ نہیں، میں خود اس بات کا اعتراف کرتی ہیں:
"اس میں شامل تمام تر کہانیاں اس دور کی کہانیاں ہیں جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا۔ میں ہر گز نہیں چاہتی تھی کہ میری یہ کہانیاں مجموعہ میں شامل ہوں کیونکہ یہ اس وقت کی کہانیاں ہیں جب پوری نئی نسل پر جدیدیت طاری تھا۔ علامتی کہانیوں کا بول بالا تھا۔ جو کہانی جتنی زیادہ الجھی اور نہ سمجھ میں آنے والی ہوتی وہ شاید اتنی ہی بڑی کہانی سمجھی جاتی اور پتہ نہیں کب اور کیسے میں بھی ان رنگوں میں رنگتی چلی گئی ۔۔۔۔۔۔”

دوسرا افسانوی مجموعہ اور نسائی فکر

تبسم فاطمہ کا دوسرا افسانوی مجموعہ تاروں کی آخری منزل ۲۰۱۲ میں منظر عام پر آیا جس میں کل سترہ افسانے شامل ہیں۔ ان سبھی افسانوں میں تانیثی فکر بہت نمایاں ہے جس کو خاندانی زندگی کے توسط سے اجاگر کیا گیا ہے۔ تبسم فاطمہ صحافت اور دور درشن سے منسلک رہی ہیں اس لیے ان کی تخلیقی گرفت بہت مضبوط ہے۔

دیگر خواتین افسانہ نگاروں کی طرح تبسم فاطمہ کے افسانوں کا محور بھی عورت ہے لیکن ان کے یہاں عورتوں کے روایتی یا بنیادی مسائل مثلاً جہیز، طلاق ، سسرال یا شوہر کی زیادتی کے مسائل جیسے موضوعات نہیں ہیں ، بلکہ ان کے یہاں عورت کا ایک الگ ہی تصور ہے۔ وہ عورت کو اس کی طاقت کا احساس دلانا چاہتی ہیں جس سے کام لے کر وہ سماج ، معاشرے اور پوری دنیا کو بدل سکتی ہیں۔ یہی فکر تبسم فاطمہ کو دوسری افسانہ نگار خواتین سے منفرد بنا کر انھیں امتیاز بخشتی ہے۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں