ناول آنگن کا خلاصہ اور تنقیدی جائزہ | Summary and Critical Analysis of the Novel Aangan
تحریر از پروفیسر برکت علی
آنگن خدیجہ مستور کا وہ ناول ہے جس نے بحیثیت ناول نگار ان کی پہچان قائم کی۔
تقسیم ملک اور ہجرت کے حوالے سے دونوں ملکوں کے اجڑے ہوئے لوگوں کے جذباتی بحران اور نفسیاتی انتشار کو اس ناول میں بڑے ہی فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
خدیجہ مستور نے یہ ناول ۱۹۶۰ء میں لکھا تھا لیکن اس کی اشاعت ۱۹۶۲ء میں ہوئی۔
” آنگن ۱۹۶۲ء کے آس پاس لکھے گئے ناولوں میں اہم ناول شمار ہوتا ہے اس پر بات کرتے ہوئے ٹالسٹائی کا مشہور ناول وار اینڈ ہیں War and peace زمین میں در آتا ہے۔
کیونکہ دونوں ناولوں میں افراد کی زندگیوں کے بحرانی لمحات کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
وار اینڈ پیس کے کردار ، جنگ اور دیگر خارجی حالات کے محض تماشائی نہیں بلکہ ان کے اثرات ان کی داخلی زندگی میں محسوس کئے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ناول آنگن از خدیجہ مستور میں تانیثی حسیت | pdf
یہ اثرات اتنے واضح ہیں کہ محبت، نفرت خلوص کے جذبات پر ان کے سائے چھائے ہوئے ہیں۔
بعینہ یہ ہی کیفیت ” آنگن میں بھی ملتی ہے۔ یہاں بھی آزادی سے قبل کے بحرانی حالات کے اثرات افراد محسوس کر رہے ہیں۔
آنگن ناول pdf download خدیجہ مستور
ان کا عمل اور ان کی سوچ بھی خارجی حالات کے تابع نظر آتی ہے یہاں وار اینڈ پیس” کا تذکرہ کر کے آنگن کو اس کی فکر کا ناول قرار دینا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے۔
کہ دونوں ناول اس بنیاد پر یکساں ہیں کہ دونوں میں افراد کی نفسیاتی تحلیل کا منبع وہ خارجی بحران ہے جس کے گرداب میں وہ اول تا آخر گرفتار رہتے ہیں۔
ناول آنگن کے قصے کا آغاز وہاں سے ہوتا ہے جہاں برصغیر کے عوام بدلتے ہوئے حالات کے چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں صدیوں کی … غلامی کا دور اپنے اختتام کی جانب رواں ہے۔
اور آزادی کے حصول کے لیے سیاسی جدو جہد میں مصروف ہیں۔ افراد کی وفاداریاں بٹ چکی ہیں ۔
ایک طبقہ محض آزادی کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے اور دوسرا آزادی کو ایک نئے ملک کی تخلیق کی طرف بڑا قدم تصور کرتا ہے۔
اپنے اپنے مقصد کے حصول کے لیے ان افراد نے مسلم لیگ اور کانگریس کے پلیٹ فارموں سے جد و جہد شروع کی ہوئی ہے۔
بڑے چچا کانگریسی ہیں اور اس کے اصولوں کے لیے انہوں نے پورے گھر کو داؤں پر لگا دیا ہے۔
وہ گھر کے اندر رہنے والوں میں دیکھی نہیں رکھتے جو معاشی بحران تلے دبے ہوئے ہیں اور اس دور کو یاد کر کے روتے ہیں ۔ جب جاگیر دارانہ سماج میں انھیں دولت اور عزت سب کچھ حاصل تھا۔
اس کے برعکس چھوٹے چاچا مسلم لیگ کی محبت اور انگریز دشمنی میں اس قدر سرشار ہیں کہ اپنے ایک انگریز افسر کاسر پھوڑ کر جیل کو چلے جاتے ہیں۔ اور مر کر ہی باہر نکلتے ہیں ۔
اس پورے سیاسی پس منظر کی اوٹ میں پوری زوال پذیر تہذیب اخلاقی پستی اور مکروہ روایات کی اسیر مسلم قوم ہے ۔
دادی جان اس تہذیب کی نمائندہ کردار ہیں۔ جو جاگیردارانہ آمریت سے اپنا پیچھا نہیں چھڑا پاتی ہیں۔
وہ آزادی کے پس منظر میں اس نئی سوچ کو جنم لیتے نہیں دیکھ سکتیں جو ان کی مرتی ہوئی تہذیب کے قبرستان پر اپنا وجود تشکیل دے رہی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شوہر کی ایک نا جائز اولا د اسرار میاں سے مفاہمت نہیں کر سکتیں۔
البتہ بڑے چچا اتنے زیادہ اعلیٰ ظرف ہیں کہ انہوں نے اسرار میاں کو اپنی ڈیوڑھی میں جگہ دے رکھی ہے۔
اسرار میاں کا کردار جا گیر دارانہ تہذیب کی اس پستی کی علامت ہے جہاں تاریکی میں بڑے بڑے نام نہاد عزت دار مجبور و بے۔
کسی لڑکیوں کو اپنی ہوس کے پھندے میں پھانس کر ناجائز اولادوں کی تخلیق کو باعث فخر سمجھتے تھے اور اپنی اپنی پگڑیاں اونچی رکھ کر اپنے گھناؤنے افعال کے ان نمونوں کو سماج کی گود میں پھینک کر بے فکر ہو جاتے تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ہندو روایات بھی ہیں جنہوں نے عورت ذات کو دکھوں میں جتلا کیا ہوا تھا۔
نوجوان بیوہ کسم دیدی جب اپنے شوہر کو یاد کر کے گاتی ہے … جو میں جانتی چھوڑت ہو پیا۔ گھنگھوں میں آگ لگا دیتی تو سفنے والوں کے دل پر چوٹ لگتی ہے۔ کسم دیدی مظلومیت کا سمبل ہے۔
اور اس کی موت معاشرے کے ضمیر کے لیے ایک کھلا ہوا چیلنج .. ناول کی کہانی کے بین السطور ہندوستان میں رہنے والی دونوں قوموں کے درمیان اپنے اپنے مفادات کے ٹکراو کی داستان بھی ہے۔
پاکستان کا حامی طبقہ مذہبی تحفظ میں اپنے سیاسی ، سماجی و اقتصادی مسائل کے حل کا متلاشی ہے۔
اس کے برعکس دوسرا طبقہ محض آزادی کو اپنے لیے بڑی نعمت تصور کرتا ہے اس کے پیش نظر کوئی منظم ضابطہ حیات نہیں …. وہ صرف اتنا جانتا ہے
کہ آزادی آنے کے بعد ہر چیز اپنے مخصوص سانچوں میں ڈھل کر انہیں مسرت عطا کر دے گی۔
بڑے چچا کاذہن یہی تاثر دیتا ہے البتہ ان کا لڑکا جمیل برصغیر کے ان لوگوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
جنہوں نے نیا ملک بنانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی …. خدیجہ مستور کا کمال یہ ہے کہ سیاسی کشمکش کی کہانی میں انھوں نے مکمل غیر جانبداری کا ثبوت دیا ہے۔
حالانکہ سیاسی پس منظر میں کردار کو تخلیق کر کے کہانی کاراکثر جانب دار بنا دیتے ہیں لیکن خدیجہ اس بھنور سے نکل گئیں اور وہ یہ کہ دکھانے میں کامیاب ہو گئیں۔
کہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے لوگ جب معاشرے میں تبدیلی چاہتے ہیں تو اس عمل سے ان کے اندر میں کیا تبدیلیاں ظہور پذیر ہوتی ہیں۔
آنگن کے کرداروں کا وجود سیاسی وابستگی سے ریزہ ریزہ ہو کر رہ گیا ہے۔
ایک طرف پر خطر خارجی حالات ہیں جنہوں نے انھیں مسائل کی بھٹی میں جھونک دیا ہے دوسری جانب ان کا داخلی انتشار و کرب ہے جس نے انھیں یاسیت اور محرومی کے احساس سے دو چار کر رکھا ہے۔
اس صورت حال میں ہر کردار کسی خاص آئیڈیل کا خواب دیکھتا ہے۔ جمیل اقتصادی خوشحالی چاہتا ہے لیکن پیچیدہ سیاسی حالات کی دُھند میں ہاتھ پاؤں مار رہا ہے۔
بڑے چچا آزادی مانگتے ہیں خواہ اس کے لیے ان سے وابستہ تمام افراد قربان ہو جائیں۔
شکیل تعلیم کے لیے روپیہ مانگتا ہے جو اسے نہیں ملتا تو وہ بمبئی بھاگ جاتا ہے اور آخر میں پاکستان میں نمودار ہوتا ہے ۔
صفدر جو کمیونزم کے فروغ کی خاطر زیر زمین کام کرتا ہے مجبور ہو کر رو پیہ۔ کوٹھی اور عیش کا طلب گار بن جاتا ہے۔
اور عالیہ کا آدرش ہے ایک پرفیکٹ شخص جس کی مثال ملنا محال ہو۔
یہ آئیڈیلزم سیاسی سطح پر دونوں مذکورہ بالا سیاسی پارٹیوں کے نعروں سے ہم آہنگ ہے لیکن خدیجہ مستور کی نظر سماجی حقائق اور اس تناظر میں انسانی رد عمل پر بہت گہری نظر آتی ہے۔
اس کی مثال نئی مادی تہذیب کے آغاز کے وہ اشارے ہیں جو پاکستان بننے کے بعد کے حالات سے جنم لیتے ہیں ۔
صفدر جو اپنی طویل جد و جہد میں آدرشی ہے تھکن کا اظہار کر کے مادیت پسند بنے کو ترجیح دیتا ہے اور عالیہ کی ماں جو کوٹھی والی بن کر خود غرضی ، بے حسی ، بناوٹ اور بے مروتی کی علامت بن جاتی ہے۔
اس طرح خدیجہ نے دونوں تہذیبوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لاکھڑا کیا ہے۔ اور ماضی اور حال کے بیان سے مستقبل کے انسان کے معاشرتی رویوں کی جو نشاندہی کی ہے وہ ان کی فنی و فکری بلندی کی نشاندہی کرتی ہے۔
ناول لکھنا ایک بڑا فن ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ ایک بہت ہی بڑا فن تو بہتر ہوگا۔
دنیا کے ادب پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دیگر اصناف ادب کے مقابلے میں اچھے ناول کم سے کم تخلیق ہوئے ہیں۔
ناول لکھنا کسی گہری اور بالائی سطح پر طویل و عریض خندق پر جست لگانے کا فن ہے اس میں محض تجربے، مشاہدے، فکر و فلسفے ہی کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ کہانی کے بیان کے کرب سے گزرنا ایک مسئلہ ہوتا ہے۔
یہاں کیا کہا جائے اور کیسے کہا جائے کی تکرار ملتی ہے جو اچھے ناول کو عصری وابدی صداقتوں کا ترجمان بناڈالتی ہے۔
خدیجہ مستور کے یہاں وہ سب مکینیکی وفنی صلاحیتیں ملتی ہیں جو اچھے ناول کی تخلیق کا باعث ہوتی ہیں۔
در اصل وہ کہانی بیان کرنے پر قدرت رکھتی ہیں ان کا بیانیہ سادہ اور ابہام سے پاک ہے ۔ وہ شروع ہی میں قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں۔
اس مقصد کے لیے وہ زندگی سے اٹھائے ہوئے وہ کردار تخلیق کرتی ہیں جو قاری کے آس پاس موجود ہیں اور جن کے اندون میں جھانکنے کے لیے وہ بے تاب ہے ۔
انسان کے دُکھ سکھ اور خواب کہانی کے وہ عناصر ہیں جو ازل سے کہانی سنے اور پڑھنے والوں کو جبلی طور پر اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
خدیجہ کردار کی نفسیات کے دروازے ایک ایک کر کے واکرتی چلی جاتی ہیں اور کہانی کسی چھوٹی ندی کے بہاؤ کی طرحآگے بڑھتی ہوئی کسی گہرے سمندر میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: آنگن فنی فکری جائزہ pdf
خدیجہ مستور کا کہانی کہنے کا انداز ڈراما پیش کرنے کی طرح ہے جو پہلے منظر ہی سے دیکھنے والے کو بے چین کر دیتا ہے اس کے احساس کو جھنجھوڑتا ہے
اور زندگی کے فلسفیانہ پہلو اس کا شعور بخشتا ہوا اختتام تک لے آتا ہے۔ خدیجہ مستور نے آنگن میں نہ صرف کہانی کے تمام لوازمات ایک اکائی میں پرونے کا عمل بخوبی انجام دیا ہے
بلکہ برصغیر کی اس کہانی کو جو ہنگامہ خیزی اور متعدد بحرانوں سے عبارت تھی اسے انتہائی حسن وسلیقے سے ایک اہم ناول بنا دیا ہے ۔
یہ بھی پڑھیں: آنگن ناول کا تنقیدی جائزہ pdf
” آنگن ۱۹۶۰ء کے آس پاس تک تخلیق شدہ ناولوں میں سے ایک اہم ناول ہے اور کمتری کے احساس کے بغیر یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ
” آنگن کو ترجمے کے بعد دنیا کی مختلف زبانوں میں لکھے گئے اچھے ناولوں کے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔”
بشکریہ: اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں