مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

صغرا مہدی ایک ہمہ جہت افسانہ نگار اور ادبی خدمات

صغرا مہدی: اردو ادب کی نمایاں شخصیت

صغرا مہدی اردو ادب کی ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت ہیں جنھوں نے اپنے مخصوص علمی نظریے اور دلکش اسلوب کے تحت اردو کی خواتین افسانہ نگاروں میں ایک خاص مقام حاصل کیا ہے۔ ان کا ایک اہم مقام اس لیے بھی ہے کہ وہ ہمیشہ عورتوں کی بہتر زندگی اور سماج میں ان کی حیثیت کے تئیں بیدار رہی ہیں۔ صغرا مہدی نے اردو ادب سے لگاؤ وراثت میں پایا۔ اردو کے مشہور ادیب، دانشور اور مفکر ڈاکٹر عابد حسین ان کے ماموں تھے، اور مشہور ناول اور افسانہ نگار صالحہ عابد حسین ان کی ممانی تھیں۔ صغرا مہدی بچپن سے ہی ان لوگوں کے ساتھ رہیں اور انھیں کی تربیت و حوصلہ افزائی کا نتیجہ ہے کہ آج ان کا شمار اردو کی مشہور و معروف ادیباؤں میں ہوتا ہے۔

ولادت و ابتدائی زندگی

صغرا مہدی ۱۸ اگست ۱۹۳۸ کو بھوپال میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد میاں سید علی مہدی انسپکٹر تھے۔ صغرا مہدی کا اصل نام امامت فاطمہ تھا۔ ان کا بچپن مشترکہ خاندان میں گزرا اور پھر حصول تعلیم کے لیے وہ اپنے ماموں (ڈاکٹر عابد حسین) کے پاس دہلی آگئیں۔

اعلیٰ تعلیم اور ادبی سفر کا آغاز

جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی۔ اے اور بی۔ ایڈ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۷ میں انھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم۔ اے کیا۔ علی گڑھ کا کھلا ماحول انھیں نہ صرف راس آیا بلکہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اجاگر ہونے میں بہت سازگار ثابت ہوا، اور وہ باقاعدہ افسانے لکھنے لگیں ۔ ۱۹۷۷ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے صغرا مہدی کو ان کے مقالے، اکبرالہ آبادی کی مزاحیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ پر پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔

صغرا مہدی خداداد صلاحیتوں اور کثیر الجہات شخصیت کی مالک تھیں وہ جس خانوادے کی چشم و چراغ تھیں، جس نامور ہستیوں کے زیر سایہ ان کی پرورش ہوئی اور جو کچھ انھیں ورثے میں ملا اس کے تمام اوصاف ان میں کوٹ کوٹ کر بھرے تھے۔ ان کا نڈر پن، بے باکانہ انداز گفتگو ، ضد، انصاف پسندی اور صاف گوئی کے علاوہ خوشامد ، منافقت، فرقہ پروری اور زمانہ سازی سے دور وہ نئی اور پرانی تہذیب کا ایسا سنگم تھیں جن کے بہت سے مداح تھے۔

بطور استاد اور سماجی کارکن

صغرا مہدی ایک سخت مگر مشفق استاد کی حیثیت سے بھی جانی جاتی ہیں۔ وہ بحیثیت معلم شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تدریسی کام انجام دیا، اور پروفیسر کے عہدے پر پہنچ کر ۱۹ اگست ۱۹۹۷ کو وظیفہ حسن خدمات سے سبکدوش ہوئیں۔ صغرا مہدی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس ادارے سے منسلک ہو کر گزارا ہے۔ انھیں جامعہ ملیہ کے ماحول اور وہاں کی ادبی سرگرمیوں سے دلی لگاؤ تھا اور اس والہانہ لگاؤ کا ثبوت انھوں نے "اردو زبان وادب کے فروغ میں جامعہ ملیہ کا حصہ” کے عنوان سے ایک کتاب کو ترتیب دے کر پیش کیا۔

صغرا مہدی مسلم ویمن فورم کی نائب صدر بھی تھیں اور سماجی وفلاحی کاموں میں بے حد مصروف رہتی تھیں۔

صغرا مہدی کا شمار اردو ادب کی ان مایہ ناز خواتین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے آزادی کے بعد اپنی منفرد شناخت قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی۔

پہلی کہانی اور باقاعدہ افسانوی سفر

انھوں نے اپنی پہلی کہانی بچوں کے رسالے کھلونے کے لیے لکھی۔ جس کا عنوان تھا ” ہمت کا پھل۔ اس وقت وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھیں اور اس کہانی پر انھیں دوسرا انعام بھی ملا تھا۔ لیکن صغرا مہدی نے اپنے افسانوی سفر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۶۰ کے آس پاس کیا۔ اس کے بعد ان کی تخلیقات کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ صغرا مہدی بیک وقت ناول و افسانہ نگار، تنقید و مضمون نگار ، طنز و مزاح اور سفر نامہ نگار بھی ہیں۔ ناول و افسانوی مجموعوں کے علاوہ ان کی تصنیفات، تالیفات ، تراجم اور بچوں کے ادب پر پچیس سے بھی زائد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔

ناول اور افسانوی مجموعے

صغرا مہدی کا پہلا ناول ” پابہ جولان مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے ۱۹۷۳ میں شائع ہوا ۔ اس کے علاوہ ان کا ناول ” دھند ۱۹۷۶، پروائی ۱۹۷۸، راگ بھوپالی ۱۹۸۵ اور بچے ہیں جو سنگ سمیٹ لو ۱۹۹۰ میں منظر عام پر آیا۔ افسانوی مجموعوں میں پتھر کا شہزادہ ۱۹۷۵ میں مکتبہ جامعہ سے، جو میرا وہ راجہ کا نہیں ۱۹۷۸ میں مکتبہ جامعہ سے، پہچان ۱۹۹۵ میں ادب پبلی کیشن سے اور پیش گوئی ۲۰۰۵ موڈرن پبلشنگ ہاؤس سے شائع ہو چکے ہیں۔ ان مجموعوں میں پتھر کا شہزادہ اور جو میرا وہ راجا کا نہیں“ کو کافی شہرت ملی ہے۔ ایک افسانوی مجموعہ ہندی میں ” گلابوں والا باغ“ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ مصنفہ کی کئی کہانیوں کے تراجم انگریزی، تیلگو اور ہندی میں ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی تین تنقیدی کتابیں اکبرالہ آبادی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ۱۹۸۹، ساہتیہ اکادمی کے لیے مونوگراف ”اکبرالہ آبادی ۱۹۹۵ میں اور اردو ناولوں میں عورت کی سماجی حیثیت ۲۰۰۲ میں شائع ہو چکی ہیں۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں