مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

صغرا ہمایوں مرزا: حیدرآباد کی ایک علم دوست خاتون افسانہ نگار اور سماجی کارکن

ابتدائی زندگی اور خاندانی پس منظر

صغرا ہمایوں مرزا نے ۳ دسمبر ۱۸۸۳ کو حیدرآباد کے ایک تعلیم یافتہ اور معزز خاندان میں آنکھیں کھولیں۔ ان کا ننھیال ایران اور ددھیال ترکی میں ہے۔ ان کے والد ڈاکٹر سید صفدر علی مرزا حیدرآباد کی نظام حکومت کی افواج میں سرجن کیپٹن کے عہدہ پر فائز تھے۔ وہ ایک مشرب بزرگ تھے اور تصنیف و تالیف کا شغف رکھتے تھے۔ صغرا ہمایوں مرزا کی والدہ مریم بیگم بنت سید علی رضا بھی فارسی و عربی کی عالمہ، نیک طبع، سلیقہ شعار، مخیر و فیاض خاتون تھیں۔ وہ تعلیم نسواں کے مسائل و اشاعت میں بڑی دلچسپی لیتی تھیں اور لڑکیوں کو علم و ہنر کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے کوشاں رہتی تھیں۔

تعلیم اور ازدواجی زندگی

علم و دانش کے اس گہوارے میں صغرا ہمایوں مرزا کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت ہوئی۔ خاندانی روایات کے مطابق انہیں اردو و فارسی کی تعلیم خانگی طور پر دی گئی۔ وہ عہد طفولیت سے ہی ذہین و تیز طبع تھیں۔ ان کی نسبت عظیم آباد کے ایک اعلیٰ خاندان میں سید عاشق حسین المعروف بہ سید ہمایوں مرزا سے طے پائی اور دسمبر ۱۹۰۱ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئیں۔

شخصیت اور ذاتی دکھ

صغرا ہمایوں مرزا ذکی و فہیم اور دانشور خاتون تھیں۔ ظاہری حسن و جمال کے ساتھ ساتھ باطنی خوبیوں سے بھی مالا مال تھیں۔ کم عمری میں ہی والدین کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے چھوٹے بھائی بہنوں کی تربیت کا بار اٹھایا اور دوراندیشی و دانشمندی سے اس فرض کو انجام دیا۔ ۱۹۰۴ میں ان کے یہاں ایک بیٹی ہوئی جو ایک سال بعد ہی داغ مفارقت دے گئی۔ اس غم کو انہوں نے انتہائی صبر و حوصلہ سے برداشت کیا اور پھر تاحیات وہ نعمت اولاد سے محروم رہیں۔ اپنے شوہر کے ہمراہ ہندوستان کے مختلف مقامات اور یورپ کی سیر و سیاحت بھی کرتی رہیں۔ شوہر کی حوصلہ افزائی اور علم دوستی نے لکھنے پڑھنے کے شوق کو مزید تقویت بخشی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے امور خانہ داری اور مہمان نوازی کے لیے خود کو وقف کر دیا۔ ۷۵ سال کی عمر میں دسمبر ۱۹۵۸ میں وہ اس دار فانی سے کوچ کر گئیں۔

ادبی خدمات اور صحافت

صغرا ہمایوں مرزا کی ادبی شخصیت کئی جہتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے شاعری بھی کی ہے اور اصلاحی و اخلاقی مضامین بھی لکھے ہیں۔ سفرنامے بھی قلم بند کیے ہیں اور کئی مختصر افسانے اور ناول بھی اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ وہ بچپن ہی سے شعر و ادب کا ذوق رکھتی تھیں۔ ابتدا میں وہ اصلاحی و اخلاقی مضامین اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھتی تھیں۔ ان کی تحریریں خواتین کے رسائل میں صغرا بیگم کے نام سے شائع ہوتی تھیں لیکن ان کے ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز ۱۹۰۳ میں ہوا اور وہ اردو دنیا میں صغرا ہمایوں مرزا کے قلمی نام سے مشہور ہوئیں۔ ان کی نگارشات عام طور پر رسالہ تہذیب نسواں لاہور، خاتون علی گڑھ اور عصمت دہلی میں کثرت سے چھپتی تھیں۔

پروفیسر ارتضی کریم فرماتے ہیں:
"سیدۃ النساء کا افسانہ شریف بی بی کے عنوان سے رسالہ تہذیب نسواں (مدیر محمدی بیگم) کے ۱۳ نومبر ۱۹۰۹ کے شمارے میں شائع ہوا تھا۔ اس زمانے کی ایک اور خاتون، صغرا ہمایوں مرزا بھی تھیں جن کے بارے میں نصیر الدین ہاشمی نے اپنی کتاب حیدرآباد کی نسوانی دنیا میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے نہ صرف تعلیم نسواں کے لیے عملی طور پر کام کیے بلکہ خود افسانے بھی لکھے، مضامین اور افسانے بھی۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ "مشیر نسواں” کے نام سے ۱۹۰۴ء میں منظر عام پر آ چکا تھا۔”

افسانہ و ناول کے علاوہ صحافت میں بھی صغرا ہمایوں مرزا نے اہم مقام حاصل کیا ہے۔ وہ ہندوستان کی ان چند خواتین میں سے ہیں جنہوں نے عرصہ دراز تک خواتین کے لیے قابل قدر علمی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۱۹ میں جب انہوں نے یتیموں، ناداروں، معذوروں اور بیواؤں کے لیے "انجمن خواتین دکن” قائم کی، تو اس کے مقاصد کی ترویج و اشاعت اور فروغ کے لیے ۱۹۲۰ میں خواتین کا رسالہ "النساء” جاری کیا۔ "النساء” کے علاوہ تہذیب نسواں اور دیگر زنانہ رسائل کی ادارت سے بھی وہ وابستہ رہیں۔

تصانیف اور شعری مجموعے

نثر نگاری کے علاوہ صغرا ہمایوں مرزا کو شاعری سے بھی شغف تھا۔ وہ "حیا” تخلص کرتی تھیں۔ ان کی تصنیف کردہ ۹ کتابوں کا سراغ ملتا ہے، جن میں آٹھ سفر نامے اور روزنامچے کا درجہ رکھتی ہیں اور بعض کتابیں تاریخی نوعیت کی حامل ہیں۔ پانچ ناول اور دو شعری مجموعوں کے علاوہ ان کے مضامین کا مجموعہ "مقالات صغرا” اور ان کے نام مشاہیر و اکابرین کے خطوط کا مجموعہ "میرے موسوم خطوط” بھی ان کی یادگار ہیں۔ علاوہ ازیں انہوں نے اپنے رفیق حیات سید ہمایوں مرزا کی خود نوشت سوانح عمری "میری کہانی میری زبانی” ان کی وفات کے بعد اپنے دیباچے کے ساتھ ۱۹۳۹ میں شائع کی۔

اہم ناول اور افسانے

صغرا ہمایوں مرزا کی اولین تصنیف "مشیر نسواں” ہے جو ۱۸۴۰ میں لکھی گئی اور ۱۹۰۴ میں اشاعت پذیر ہوئی۔ یہ ایک اخلاقی ناول ہے، اس کا محرک طبقہ نسواں کی جہالت و گمراہی اور حصول تعلیم و تربیت کی کمی کا احساس ہے۔ "مشیر نسواں” کی کہانی بہت مقبول ہوئی اور اس کے ایڈیشن ۱۹۱۱ اور ۱۹۳۱ میں بھی نکل چکے ہیں۔ ناول "مشیر نسواں” کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں طبقہ نسواں کے لیے مفید و کارآمد پند و نصائح کے ذخیرے ہیں جو خواتین کی معاشرتی زندگی میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بقول سید سلیمان ندوی:
"ہندوستان کی کسی مسلمان خاتون نے آج تک ایسی کتاب نہیں لکھی۔”

دوسرے ناول "سرگزشت ہاجرہ” کا موضوع خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے عورت کی تعلیم و تربیت ہے۔ اس کی پہلی اشاعت ۱۹۲۶ میں ہوئی۔ اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۰ میں شائع ہوا۔ یہ ناول چار سو صفحات پر مشتمل ہے۔ اس میں ایک کامیاب و خوشگوار زندگی کا لائحہ عمل پیش کیا گیا ہے۔

صغرا ہمایوں مرزا کا تیسرا ناول "مونی” ہے جو پہلی بار دسمبر ۱۹۲۹ میں منظر عام پر آیا۔ قصہ نگار نے اپنے دیباچہ میں دعوی کیا ہے کہ اس کہانی میں تصوف کا رنگ ہے۔ لیکن درحقیقت تصوف کی رنگ آمیزی کے پردے میں ایرانی معاشرت کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ یہ مستورات کے لیے ایک دلچسپ اور سبق آموز اخلاقی ناول ہے۔

صغرا ہمایوں مرزا کی کہانی "بی بی طوری کا خواب” کو افسانوی مجموعوں میں شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ مختصر کی تصنیف ۱۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ جو پہلی بار ۱۹۵۲ میں اشاعت پذیر ہوئی۔ یہ ایک اخلاقی و اصلاحی افسانہ ہے، جس میں واقعات کو اصلاح کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ یہ قصہ افسانے کی تکنیک پر پورا نہیں اترتا بلکہ ایک حکایت یا واقعہ معلوم ہوتا ہے، جس میں صغرا مہدی نے خواتین کو خواب غفلت سے بیدار کیا ہے۔

بقول ترنم ریاض:
"صغرا ہمایوں مرزا کی بیشتر تحریریں اب تقریباً نایاب ہیں۔ ان کے کچھ افسانوں کا انگریزی میں ترجمہ ہوا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آجکل نئی دہلی (ستمبر ۱۹۹۸) میں ڈاکٹر ناز قادری کا ایک تحقیقی مقالہ صغرا ہمایوں مرزا سے متعلق شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کے مطابق (صغرا ہمایوں مرزا کا پہلا ناول مشیر نسوان ۱۹۰۶) میں شائع ہوا اور اس کے دوسرے ایڈیشن ۱۹۱۱ اور ۱۹۱۳ میں شائع ہوئے۔ بقول ناز قادری "مشیر نسواں” کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں طبقہ نسواں کے مفید و کارآمد پند و نصائح کا ذخیرہ ہے جو خواتین کی معاشرتی زندگی میں مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ صغرا ہمایوں مرزا نے کئی سفر نامے اور پانچ ناول تحریر کیے۔ ان کے افسانے بی بی طوری کا خواب کا ترجمہ دوسری زبانوں میں بھی ہوا ہے۔”

صغرا ہمایوں مرزا کا ایک بہترین افسانہ "چیونٹیوں کی فتح” ہے جو رسالہ عصمت میں جون ۱۹۲۷ کو شائع ہوا۔ یہ ایک علامتی کہانی ہے۔ اس میں چیونٹیاں ایک دن مکوڑے کے سردار کی لاش کو اٹھا کر لاتی ہیں۔ جب چیونٹیوں کے بادشاہ نے اسے دیکھا تو باعزت دفنانے کا حکم دے دیا۔ لیکن جب مکوڑے کے وزیر کو پتہ چلا تو اس نے بغیر چیونٹیوں کی بات سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ اس پر چیونٹیوں کے سردار نے ایک دن کی مہلت مانگی اور رات کو مکوڑے کی فوج کو ختم کروا دیا۔ یہ کہانی ۱۹۱۷ میں ہوئے روسی انقلاب کی طرف اشارہ کرتی ہے، جب اعلیٰ طبقہ، ادنی طبقے کی محنت و جفاکشی کو نہیں سمجھتا تو ایک دن ایسا آتا ہے کہ ادنی طبقہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور سرمایہ دارانہ طبقے کے خلاف بغاوت کر بیٹھتا ہے۔

سفرنامے اور دیگر تصانیف

صغرا ہمایوں مرزا نے اپنے رفیق حیات کے ہم سفری میں ملک اور بیرون ملک کے مختلف مقامات کی سیر و سیاحت بھی کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے قصہ کہانی کے علاوہ آٹھ سفر نامے بھی لکھے ہیں۔ یہ سارے سفر نامے ۱۹۰۶ سے ۱۹۲۸ تک کے درمیانی عرصے میں اشاعت پذیر ہوئے ہیں۔ یہ سفرنامے تاریخی نوعیت کے حامل ہیں۔ اس عرصہ میں انہوں نے بہار، بنگال، بھوپال، دہلی، آگرہ، مدراس، گلبرگہ، کشمیر، پونہ کے علاوہ عراق، والٹیر اور یورپ کے مختلف مقامات کی سیر کی ہے۔

مذکورہ بالا نثری تصانیف کے علاوہ صغرا ہمایوں مرزا نے "تحریر النساء”، "آواز غیب” اور "مجموعہ نصائح” (۱۹۲۱) بھی اپنی یادگار چھوڑا ہے۔ پند و نصائح کے مجموعوں کے بارے میں خواجہ حسن نظامی فرماتے ہیں:
"بیگم صاحبہ ہمایوں مرزا نے ایک دلچسپ اور مفید سلسلہ حکایت جمع کیا ہے۔ اس میں ملک کے ممتاز بزرگوں، درویشوں، اوتاروں کی نصیحت آمیز کہانیاں نہایت سلیقے سے ترتیب دی گئی ہیں، جن کے اندر ایک خاص جذبہ پایا جاتا ہے۔”

صغرا ہمایوں مرزا کے دو شعری مجموعے "سفینہ نجات” (مطبوعہ ۱۹۴۰) اور "انوار پریشاں” (مطبوعہ ۱۹۴۹) ہیں۔

اردو افسانہ نگاری میں مقام

اب تک جو مواد حاصل ہو سکا ہے اس کے مطابق افسانوی ادب کا نقطہ آغاز صغرا ہمایوں مرزا کی تحریروں سے ہوتا ہے جنہوں نے زیادہ تر ناول، حکایت، مرثیہ، خطوط اور سفرنامے وغیرہ لکھے ہیں۔ انہیں حیدرآباد کی پہلی اردو کی خاتون ناول و افسانہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان کے ذریعہ اردو میں خواتین کی افسانہ نگاری کا آغاز زندگی کی نئی حقیقتوں کی ترجمانی کا مظہر ہے۔ انہیں کے زمانے میں افسانوں میں اردو تراجم کا آغاز بھی ہوا۔ بقول خورشید زہرا عابدی:

"صغرا ہمایوں مرزا صفدر علی مرزا کی بیٹی، ہمایوں مرزا کی بیوی کئی تصانیف کی مالک ہیں حالانکہ ان کی رسائی کا دائرہ بہت محدود تھا اور وہ مسلمانوں کے مخصوص طبقے کی آئینہ داری سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس کے باوجود ان کے افسانے حقیقی زندگی کی تصویر پیش کرتے رہے اور یہ ان کی بڑی ایماندارانہ کوشش تھی جس میں اس عہد کا شعور پنہا تھا۔ اس عصری شعور کے پیچھے ایک بہتر زندگی کا خواب بھی پوشیدہ تھا جو عرصہ دراز تک افسانوی ادب پر حاوی رہا۔ ان کے افسانوں کا مقصد عورتوں کی آزادی اور معاشرے کی اصلاح تھا۔”

سماجی و رفاہی خدمات

صغرا ہمایوں مرزا نے تصنیف و تالیف کے علاوہ عملی طور پر نمایاں سماجی و رفاہی کارنامے انجام دیے ہیں۔ قومی و ملی اور ادبی و عملی خدمات کا جذبہ والدین کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔ ان کے دل میں بھی اپنی والدہ کی طرح طبقہ نسواں کی تعلیم و تربیت کا شوق اور جدید تہذیب و تمدن سے آراستہ کرنے کا جذبہ موجزن تھا۔ چنانچہ ان کے رشحات قلم بھی اسی جذبہ و فکر کے آئینہ دار ہیں۔ خواتین کی فلاح و بہبود اور عروج و ترقی کے لیے انہوں نے عملی و تحریری دونوں سطح پر قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ بقول ڈاکٹر ناہید ظفر:

"صغرا بیگم دردمندانہ دل رکھتی تھیں انہوں نے زندگی بھر لوگوں کا بھلا چاہا اور ان کے دکھ سکھ میں برابر شریک رہیں۔ دوسروں کی مدد کرنا، ان کی زندگیاں اپنا فرض تصور کرتی تھیں۔ اپنے افسانوں میں بھی انہوں نے خواتین و مرد کو مخلوق خدا کو فیض پہنچانے کا درس دیا ہے۔”

صغرا ہمایوں مرزا کئی علمی و ادبی اور تہذیبی و ثقافتی اداروں سے منسلک تھیں۔ ۱۹۲۰ میں حیدرآباد میں ٹیکسٹ بک کمپنی اور انڈین برانچ آف دی انٹرنیشنل کانگریس مورل ایجوکیشن لندن اور ۱۹۲۳ میں رائل ایشیاٹک سوسائٹی آف لندن کی ممبر منتخب ہوئیں۔ لیڈی واکر کی زنانہ سوشل ایسوسی ایشن سے بھی وابستہ رہیں۔ دہلی میں مولانا راشد الخیری کی قائم کردہ طبقہ نسواں کی تربیت گاہ "تربیت النساء” کی نسیج پر صغرا ہمایوں مرزا نے حیدرآباد میں خواتین کے عروج و ترقی، تعلیم و تربیت اور تہذیب و شائستگی کے لیے ۱۹۳۴ میں ایک زنانہ مدرسہ قائم کیا، جس میں علم و ہنر کے ساتھ صنعت و حرفت بھی سکھائی جاتی تھی۔ صغرا ہمایوں مرزا نے نقد رقم کے علاوہ اپنی ایک بڑی جائیداد اس کے لیے وقف فرمائی۔ یہ مدرسہ آج بھی "صفدریہ گرلز ہائی اسکول” کے نام سے ہمایوں نگر میں قائم ہے اور اسے سرکاری مراعات بھی حاصل ہیں۔ یہاں کثیر تعداد میں لڑکیاں تعلیم پاتی ہیں۔ اپنے رفیق حیات سید ہمایوں مرزا کے انتقال کے بعد ان کی یاد میں مذکورہ اسکول سے متصل عظیم الشان مقبرے کی تعمیر کرائی۔ اس عمارت میں صغرا ہمایوں مرزا کا بھی مقبرہ ہے۔ بلاشبہ ان کی قومی، ملی، علمی و ادبی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں