صوفیہ بیدار کے افسانوی مجموعے رنگریز کا فنی و فکری جائزہ | Sofia Bedar ke Afsanvi Majmue "Rangrez” ka Fanni wa Fikri Jaiza
موضوعات کی فہرست
صوفیہ بیدار کے افسانوی مجموعے رنگریز کا فنی و فکری جائزہ
فکری جائزہ
صوفیہ بیدارکےافسانوی مجموعےمیں ہمیں فنی و فکری رنگارنگیاں نظرآتی ہیں۔اس مجموعےکانام بھی معنویت کا حامل ہے،’’رنگریز‘‘(رنگائی کرنےوالا،رنگنےوالا)لفظ خوداپنےہاں جہانِ معنی لیےہوئےہیں۔اس مجموعےمیں کل چودہ (۱۴) افسانے شامل ہیں اوراس کی صفحات کی تعداد۱۵۹ ہے۔اس باب میں ان کےافسانوی مجموعے’’رنگریز‘‘کافنی و فکری جائزہ پیش کیا جائےگا۔
رومانویت
بطوراصطلاح رومانویت کالفظ بہت وسیع ہے،یہ کئی چیزوں کا احاطہ کرتاہے۔اس مجموعےمیں رومانویت موجودہےبلکہ زیادہ افسانوں میں ہی رومانویت نظرآتی ہے۔رومان ان کےہرافسانےکا تقریباًحصہ ہے۔کہیں پرظاہری طورپراس کااظہارکیاگیاہےتوکہیں علامتی اندازمیں۔اس مجموعےکاپہلاافسانہ’’پچھواڑے۔۔۔‘‘ہے۔اس افسانہ کا بنیادی موضوع محبت ہے، لیکن ساتھ ساتھ محبت کی معنویت،وسعت اوراس کےمعجزات پربھی روشنی ڈالی گئی ہے۔افسانےمیں یہ بات سامنے لائی گئی ہےکہ محبت کرنےوالےایک دوسرےکی روح کا ملاپ چاہتےہیں۔وہ اس کےمتمنی ہوتےہیں کہ خواہ جسموں کاملاپ ہویانہ ہولیکن روح کا ملاپ ضروری ہے۔مصنفہ کےبارےمیں اسی افسانوی مجموعےکےدیباچہ سےقبل کہاگیاہےکہ ان کےہاں محبت مجازی ہونےکےبجائےحقیقی حدوں کو چھولیتی ہے۔ان کےہاں جسموں کے بجائے روحوں کا ملاپ چاہتی ہے۔ان کی محبت روحانی ہے۔یہی چیزہمیں زیرنظرمطالعہ میں بھی نظرآتی ہے۔
افسانےکی شروعات یوں ہےکہ نورےجوکہ فرازکی محبت میں گرفتارہے،ہسپتال میں بیمارپڑی ہےاوراس کااپنڈکس آپریشن ہورہاہے۔اس کےساتھ اس کےتمام گھروالےبھی ہسپتال آئےہوئےہیں۔سب گھبرائے ہوئے ہیں۔ماں،باپ،بہن اورجملہ رشتہ داران کو ان کےبچنےکی کوئی امیدنہیں ہےلیکن اس کے باوجود فراز کویقین ہےاورمستحکم یقین ہےکہ نورےبچ جائےگی۔نورےکےساتھ زیادہ مکالمہ شانزےکا ہوتاہےجوکہ نورے کی چھوٹی بہن ہے۔دونوں محبت کےموضوع پرکافی بحث کرتےہیں۔ان کی بحث سےیہ پتہ چل جاتاہےکہ نورےمحبت کےحق میں ہےجب کہ شانزےبھی محبت کو تسلیم کرتی ہےلیکن اسے دھوکے باز اور فراڈ عاشقوں سےسخت نفرت ہےاورنورےکاعاشق بھی اسی صف میں شامل ہے۔یہی وجہ ہےکہ شانزےنورےسےکہتی ہےکہ تمھیں اس فراڈ کوکبھی معاف نہیں کرناچاہیے کیوں کہ اس نےتم ہروقت اورہرلمحہ تاریکی میں رکھااورتمھیں گمراہ کرنے کی بھرپورکوشش کی۔نورےکوپتہ ہےکہ فرازاسےدھوکہ دےرہاہےاوراس کے ساتھ فراڈکررہاہےلیکن وہ اس کےباوجوداسےبہت عزیزرکھتی ہیں۔کیوں کہ اسےمعلوم ہےکہ میری اورمیرےعاشق کی محبت کوئی دنیاوی محبت نہیں اورنہ ہی یہ محبت جسموں تک محدودہےبلکہ یہ محبت روحانی سطح پرہے، اسے دنیا والے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس لیےتونورےفلسفیانہ اندازمیں محبت لفظ کی معنویت اوراس کی وسعت کاا ندازہ لگاتی ہےلیکن اس کی وسعت اورلامحدودیت اس کےذہن سےبالاترہوتی ہے۔یہی وجہ ہےکہ وہ اسےکہتی ہےکہ معمہ ہےنہ سمجھنےکانہ سمجھانے کا، اسےوہی محسوس کرسکتاہےجواس کےحقیقی معنوں تک اوراصل حدودتک پہنچ جائے۔وہ محبت کے بارےمیں مختلف سوالات اٹھاتی ہے۔اس حوالےسےافسانےسےاقتباس ملاحظہ ہو:
’’کس لیے؟اس محبت کےاطراف کا زمانہ کیوں؟اس کی میری زندگی میں کیاضرورت تھی؟وہ راستہ جس پرمیں کچھ دیرچلی تھی،اُس کےآگےاوراس کے پہلےکےتمام راستےبےمعنی تھے۔تمام پگڈنڈیاں بےکار تھیں ۔ ۔ ۔ جو ’’گٹھری‘‘میں سرپراُٹھارکھی تھی اس کےعلاوہ تمام اسباب بےمطلب تھے۔دراصل وہ ہی میرااحداثاثہ تھی۔۔۔ایک سوال میرےدل کی رکھوالی کیاکرتا،وہ یہ کہ تمھارےہجرکازمانہ پھیکے،بےمزہ موسم جیساسہی مگراس لحاظ سےمحترم ہےکہ اس میں تمھاری نارسائی کی خوشبوہے،کہیں کہیں یادوں سےشہدٹپکتاہےجب کہ تم سےقبل کا زمانہ کس قطاروشمارمیں ہے؟عرصۂ جاں کس لیے۔۔۔؟۔‘‘(۱)
شانزےنورےکےبرعکس خیالات رکھتی ہے،اس کےخیال میں بعض مردگھٹیاہوتےہیں،عورتوں سےانہیں سرپرچڑھارکھاہے۔اوربعدمیں یہی مردعورت کودھوکہ دےدیتےہیں۔اس افسانےمیں ظاہری طور پر مجازی محبت کی بات ہورہی ہوتی ہےلیکن انجام تک پہنچتےپہنچتےقاری سمجھ جاتاہےکہ مصنفہ نےحقیقی محبت کومجازی محبت کےلبادےمیں سمیٹ لیاہے۔
نورےجب ہسپتال میں ہوتی ہےتواس کی زندہ بچنےکی امیدتقریباًمفقودہوجاتی ہیں،اورڈاکٹر،رشتہ دار،گھروالےوغیرہ سمجھتےہیں کہ اب نورےزندہ بچنےوالوں میں سےنہیں رہےگی۔لیکن افسانہ نگارکےمطابق محبت میں اتنی طاقت ہوتی ہےکہ وہ مردےکوزندہ کردیتی ہے،محبت ناممکن کو ممکن بنادیتی ہے۔ان کےخیال میں محبت ہی وہ طاقت ہےجوسب کچھ کرنےپرانسان کوآمادہ کرتی ہے۔ان کےمطابق زندگی میں محبت کاہونالازمی ہے،محبت کےبغیرزندگی کچھ بھی نہیں ہے۔ایک طرف نورےکاآپریشن ہورہاہےیعنی وہ زندگی اورموت کی لڑائی لررہی ہےاوردوسری جانب اسےیہ بھی معلوم ہوگیاہےکہ دنیامیں وہ جس سےسب سےزیادہ چاہتی تھی وہ فراڈی اوردھوکےبازہے،اس حوالےسےچاہیےتویہ تھاکہ وہ پہلےہی مرچکی ہوتی یعنی اس کی دل کی دنیاپہلےسےاجڑی ہوتی لیکن ایساہرگزنہیں ہوتااوراسےپکایقین ہوتاہےکہ فرازاس کےپاس ضرورآئےگااوروہ اس کےلیےمنت مانگنےبھی گیاہوگالیکن لوگوں کویقین نہیں ہوتا۔فرازکوجیل لےجائےجاتاہےکیوں کہ اس کےکرتوت ہی ایسےتھے۔ جاوید اسےپکڑےہوئےہسپتال لاتاہےاوراسےدیکھ کرنورےکی جان میں جان آجاتی ہے۔وہ سمجھتی ہےکہ اسےوہ حیات مل گئی جس کی اس نےتمام عمرتمناکی تھی۔اسےوہ مل گیاجس کی خواہش ہرایک عاشق کوہوتی ہے۔لیکن دوسری طرف اس کی صحت نہایت نازک ہوتی ہے۔ڈاکٹرزجب اسےآپریشن تھیٹرمیں لے جاتے ہیں، توخون کی ضرورت محسوس کی جاتی ہےلہٰذاسب لوگوں کاخون فرازسمیت مختلف ہوتاہےلیکن فرازمحبت کی پاسداری کاثبوت دیتاہےاورخون کابندوبست کرلیتاہے،پھروہاں ایک عجیب واقعہ پیش آتاہےکہ وہ بےہوش ہوجاتی ہےاور ڈاکٹرز کے مطابق وہ اب زندہ بچنےوالی نہیں۔لیکن آپریشن سےقبل فرازاس سے ملتاہےاوراس کی کلائی پردھاگہ باندھ لیتا ہے اور تاکیدکرتاہےکہ اس دھاگےکونہ اتارےکیوں کہ یہ دھاگہ اس کی حفاظت کرےگا،لیکن آپریشن کےدوران اس دھاگےکواتارلیاجاتاہے۔اس کےبعدچمکتارہوجاتاہےکیوں کہ فرازکوجب پتہ چلتاہےکہ نورےکی حالت انتہائی خراب ہےتووہ اندرجاکراس کی کلائی پردھاگہ باندھ لیتاہےاوریوں نورےہوش میں آجاتی ہےاوراس کاآپریشن کامیاب ہوجاتاہے۔یہ اصل میں دھاگےکاکمال نہیں کہ نورےکوموت کےمنہ سےنکال لیتاہےاورنہ ہی فرازکاکمال ہےبلکہ اس جذبےکاکمال ہےجسےمحبت سےتعبیرکیاجاتاہے۔
مصنفہ چوں کہ جدیددورکی لکھاری ہےلیکن جدیددورمیں محبت محض مادہ پرستی،خودغرضی اورلالچ کے سوا کچھ نہ رہی لہٰذامصنفہ نےمحبت کی اصل روح اورحقیقت کوسامنےلاکرمحبت کی ایک قسم کی تجدیدکردی ہے۔ انھوں نےقارئین کولفظ محبت کےحقیقی روپ اوراصل معنوں سےروشناس کیاہے۔افسانےکایہ اقتباس معنویت سے پُر ہے کیوں کہ افسانےکابنیادی خیال اوروحدت تاثربھی اسےاقتباس سے روبرو ہوکر سامنے آتا ہے۔ اقتباس کچھ یوں ہے:
’’جاویدبھائی اکثرپولیس کی وردی میں ملبوس ہاتھ میں چھڑی پکڑےاشارےسےگھرکی تقسیم کرتے ہوئے کہا کرتے، گھرکااگلاحصہ شانزے اور پچھواڑا نورے کا ہے۔ شانزے جدیدہےاورنورےقدیم ہے ۔ ۔۔‘‘(۲)
جب نورےکےہاں آخری سرگوشی ہوئی کہ اسےاب کون دوبارہ ہوش میں لائےگاتواس نےجواب دیا:
’’کلائیوں پردعائیں بندھی تھیں،جسم کسی کے،دھڑکن کی رفتاربڑھارہاہے،آخری سرگوشی کون دوبارہ ہوش میں لائےگا؟ایک یقین۔۔۔ایک خیال۔۔۔ایک دعا۔۔۔ایک دھیان۔۔۔ایک آرزو۔۔۔ہاں فقط ایک آرزو۔۔۔اس لیےنیندمیری ترجیح تھی۔۔۔پھرکوئی لمس،کوئی مہک،کوئی آیت مجھےمیرےگھرکےمانوس پچھواڑےلےگئی،جہاں زندگی تھی،خوشی تھی،سرسراہٹ تھی،میں جسےسن رہی تھی،غورسےسنناچاہتی تھی،دھیان لگاکراسی لیےکوشاں ہوگئی بہت غورسے،بہت لگن سے،بہت چاہت سے،بہت محبت سے۔۔۔اورآنکھیں کھول دیں،خوشگوارمسکراہٹیں بکھرگئیں۔‘‘(۳)
جب نورےموت کےمنہ میں جاکرواپس آتی ہےتواس سےپوچھاجاتاہےکہ آپ کوکیاہوگیاتھا؟اورآپ کیسےبچ پائی؟توتب اسےمحسوس ہوتاہےکہ محبت کیانہیں کرسکتی لیکن اگریہ حقیقی ہو۔اس میں خلوص،سچائی اورباہمی لگن ہوتویہ سب کچھ کرسکتی ہے۔اس لیےکہ کائنات کاوجوداورکائنات میں رونق دونق اسی کی وجہ سےقائم ہے۔محبت زندگی ہےاورزندگی محبت ہے۔
محبت کایہ جذبہ یاتصورپورےمجموعےکےافسانوں میں غالب موضوع کےطورپرسامنےآتاہے۔اس حوالےسےان کا افسانہ’’چھولینےدو۔۔۔‘‘بھی قابل ذکرہےجس میں دوپیارکرنےوالےوصل کی حسین لمحات میں جی رہےہیں اورکہتےہیں کہ سماج،مذہب،روسم،روایات وغیرہ کی محبت کےسامنےکوئی غالبیت نہیں بلکہ ہرجگہ محبت ہی کی جیت ہوتی ہے۔وہ بناکسی ڈرکےایک دوسرےسےملاقات کرتےہیں اوراپنی شعریات اورسماجی اقتداروروایات وغیرہ کو چھوڑدیتےہیں۔اس کےعلاوہ بعض افسانوں میں محبت مجازی نظرآتی ہےاوربعض میں الوہی سطح تک پہنچ جاتی ہے۔
تانیثیت
تانیثیت ایک فکری تحریک ہےجس میں عورتوں کےحقوق کےلیےآوازاٹھائی جاتی ہے۔صوفیہ بیدار کے ہاں ہمیں تانیثیت نظرآتی ہے۔وہ عورتوں کوانسان کادرجہ دینےکی خواہاں ہیں۔افسا نہ’’ملک سوہنا‘‘میں اساسی حوالےسےعورت کےحقوق کےبارےمیں آوازاٹھائی گئی ہے۔کہ عورت محض کھلونا نہیں ہے،نہ ہی یہ ایک مٹی کاپتلاہےجسےجب چاہےاستعمال کریں اورپھرپھینک دیاجائے۔بلکہ عورت بھی مردکی طرح اپنےحقوق رکھتی ہےجس سےاسےمردمحروم رکھ رہاہے۔اس افسانےکاتجزیہ تانیثیت کےحوالےسےبہت عمدہ ہوسکتاہےکیوں کہ یہ افسانہ مکمل طورپرتانیثیت پرمبنی ہے۔تانیثیت دراصل عورت کےحقوق اوران کی متعین کردہ آزادی کےحق میں ایک تحریک ہےجس میں کی جدت پسندی اوراعتدال روی سےسیاسی،سماجی،اخلاقی اوراقتصادی حوالےسےجنسی تخصیص وتشخص کےبرخلاف برابری قائم کرنا،ظلم و استبدادسےآزدزندگی فراہم کرنااورانہیں انسانی حیثیت دےکرسماج میں رشتوں کا افتراق ختم کرناہے۔تانیثیت کےمطابق عورت کااستحصال ہر حوالے سے کیا جارہا ہے، مرد یہ استحصال نہ کرے،ظلم،دہشت،غیرمساوی حقوق،جنسی تشدد،گھریلوخاندانی ناچاقی،عورت کی کم مائیگی وغیرہ کو ختم کیاجائےوغیرہ۔صوفیہ بیدارکےمذکورہ افسانےمیں عورت کےاستحصال کوتہذیبی حوالےسےپیش کیاگیاہےکہ ہرتہذیب خواہ وہ مشرقی ہویامغربی میں عورت کااستحصال ہورہاہے۔اسلامی تہذیب میں اسےماں کا درجہ دیاگیاہے،اسےبہن،بھابی،بیوی اوربیٹی وغیرہ کی اشکال میں اپنےاپنےحقوق فراہم کیےگئےہیں۔لیکن مسلمان نےاسلامی قوانین و اصولوں کوعملاًابھی تک اپنی زندگی میں نہیں برتااوروہ عملاًاسےاس کےحقوق نہیں دےرہا۔ماں کےحوالےسےافسانےمیں تانیثیت اورعورت کی آزادی و حقوق کا خوب صورت تجزیہ کیاگیاہےکہ کس طرح یہ لوگ مکاری اورعیاری سےاسےماں کا روپ دیتےہیں۔حالاں کہ ہرایک بچہ اپنی ماں کو وہ مقام دیاہےجواس کےشایانِ شان ہو،لیکن مصنفہ کےہاں ہمیں ہاں شدت پسندی نظرآتی ہےاورانھوں نےاسےبالکل نظراندازکیاہے۔البتہ انھوں نےبعض حقائق کوسامنےلانےکی بھرپورسعی کی ہے۔ان کےہاں حقیقت پسندی کا عنصرنمایاں ہے۔ان کےمطابق جب مرد عورت سےشادی کرتاہےاوروہ امیرہوتاہےاوراسےیہ عورت پسندنہ آئی،لیکن اس سےاس کی اولاد ہوئی ہوتی ہےتوپھروہ یہ حربہ استعمال کرتاہےکہ اس عورت کوتن و تنہاچھوڑکردوسری شادی کرلیتاہے،اسےعورت کےجذبات واحساسات سےکھیلتےہوئےمزہ آتاہے۔مصنفہ کےخیال میں یہ عورت کی تذلیل کےسواکچھ نہیں۔ان کےمطابق عورت اگرخدانخواستہ بیمارہوجائےتومعاشرہ اسےہرگزقبول نہیں کرتا۔وہ کہتی ہیں کہ عورت محض ایک اشتہاربن چکی ہےجوخریدوفروخت کی شےہےاوربس ۔افسانہ نگارکاموقف یہ ہےکہ عورت کواگرمردنےکچھ حقوق بھی دیےہیں یاوہ جب اس کی عزت وتکریم کرتاہےتواس میں بھی مرداپنےفائدےڈھونڈتاہےکیوں کہ مفادپرستی کےعلاوہ مردکاعورت سےکوئی علاقہ نہیں۔اس افسانےمیں یہ احساس بھی دلایاگیاہےکہ مردعورت کوجنسی ارتفاع کےلیےبھی استعمال کرتاہے۔وہ اسےاستعمال کرکےپھینک دیتاہےاورمعاشرےمیں بگاڑخودہی پیداکرتاہے۔عورت سب کچھ کرنے کےلیے مجبور ہوتی ہےکیوں کہ اگروہ یہ سب کچھ نہ کریں توپھراسےکوئی کسی بھی جگہ یاکسی بھی چیزکالائق نہیں سمجھتا۔مردنےمعاشرہ خودتشکیل دیااوریہ ایک پدری معاشرہ ہے۔تہذیب اورمذاہب کےحوالےسےان کاخیال ہےکہ عورت کیاحیثیت ہے۔اقتباس ملاحظہ ہو:
’’دعاؤں والی چوکی پربیٹھی عظمت کی پوٹ بنی بیمارعورت نظرآؤ۔زیادہ صحت مندعورت کومعاشرہ اچھی نظرسےنہیں دیکھتا۔ماں جی کاعہدہ حاصل کرنےکےلیےمن کومارناضروری ہے۔۔۔مگریہ ہم کس عورت کاذکرکررہےہیں۔یہ جوپیکج دوتین مذہبوں اورعلاقائی رسموں کارہین ہےخالص تونہیں پروہ علاقہ جس کا مذہب اورکلچرpureہےہروہ خطہ جہاں فاتحین اپنی طاقت اپنےمذاہب اپنےخداؤں کی پوجاپاٹ لاتےگئےوہاں کےحقیقی بت پاش پاش ہوگئے۔مفتوحین کےخداؤں کو بھی مفتوح ہوناپڑا۔‘‘(۴)
اسی افسانےمیں مصنفہ اپنےخیالات کا اظہارایک اورصفحہ پرکچھ یوں کرتی ہیں:
’’جی حقیقی تہذیب جس میں پالن ہارکوگھرسےباہرنہیں نکالتے۔۔۔جس میں ماؤں کودہلیزوں سےباہرکھڑانہیں کردیتے۔آپ نےکبھی سناماں باپ نےبچےگھرسےنکال دیے۔۔۔مگرمردجب ملک صاحب دوسری عورت کےچکرمیں ہوتاہےتومائیں بچوں سمیت نکال دیتاہے۔۔۔جی میڈیم اگربچےچھوٹےہوں تو۔۔۔۔۔پلےپلائےبچےوہ اپنےہم خیال بنالیتاہےبیٹی کوشوہرکےمقابل نکاح کےموقع پرسسرال میں گرفت کےلیےمری مُکی ماں نہیں باپ چاہیےہوتاہے۔۔۔۔ماہیےشاعری کی وفات کےبعدیادکرنےیاوالدہ صاحبہ کہلانےکےلیےہوتی ہے؟وہ معاشرتی گفتگوکاحصہ ہےمحض ناگزیرحصہ نہیں بیٹی باپ کاانتخاب کرتی ہےاوربیٹاتوہوتاہی باپ کاسانجھےدارویساہی بدمعاش طاقت کاتمنائی وہ توموقع ملنےپرباپ کونہ چھوڑےماں اس کےلیےدوستوں عزیزوں میں غیرت والاطعنہ حدیثوں میں کوٹیشن اوربعدازمرگ نموشی،غیرت سےآزادی ہےماں دفناکروہ معاشرےکےسامنے سرخرواورباپ دفناکرطاقتورہوجاتاہے۔یہ دنیامردکی ہےاس کاجگراہے۔‘‘(۵)
اس اقتباس سےافسانہ کھل کرسامنےآجاتاہے۔مصنفہ کےہاں رمزوکنایہ کااندازدکھائی دیتاہے۔وہ مجاز مرسل کےپردےمیں مردوں پرطنزوتشنیک کےوارکرتی نظرآتی ہیں۔وہ جزوکہہ کرکل مرادلیتی ہیں اورکل کہہ کرجزوکی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ان کےہاں ہمیں عالم گیریت کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔وہ مقامیت سے بلند ہوکر آفاقی حوالےسےسوچنےکی صلاحیت رکھتی ہے۔ان کےافسانوں میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجودہیں۔انھوں نےاس افسانےمیں ماں کےحوالےسےتمام عورتوں کی دل کی آوازبلندکی اوران کےحقوق کےبارےمیں احتجاجیہ لہجہ اپنایاہے۔لیکن ان کےبعض افکارسےاختلاف بھی کیاجاسکتاہےچوں کہ وہ ایک عورت ہےلہٰذاوہ اس جدیددورمیں بھی عورت کومظلوم اوراستحصال زدہ قراردیتی ہیں،لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو جدید دورمیں عورت اتنی اسیرنظرنہیں آتی جتنامردان کےچنگل میں چلاجارہاہےاورقیاس کیاجاسکتاہےکہ آئندہ مردپروہی بیتےگئی جواس سےقبل عورت پربیتی۔
مجموعی لحاظ سےاس افسانےمیں عورت کےحقوق کےحوالےسےذکرکیاگیاہےاورباقاعدہ احتجاج کیاگیا ہے۔مصنفہ کوفن کردارنگاری پربھی عبورحاصل ہے۔انھوں نےاس افسانےمیں چندکرداروں کےتعارف سےافسانےکاآغازکیاہےاورآخرتک تجزیاتی اندازمیں افسانےکولایاگیاہے۔ان کےہاں ہمیں شاعرانہ لب ولہجہ اورباریک بینی بھی نظرآتی ہے۔ان کےافکارمیں گہرائی اورفنی ندرت پائی جاتی ہے۔
وجودیت
افسانہ ’’اےمیری تنہائی‘‘جدیدافکاروخیالات سےپُرافسانہ ہے۔اس افسانےمیں وجودیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وجودیت دراصل بحرانی دور کی پیداوار ہے یہ فکر و نظر کی ایک ایسی تحریک ہے جس نے نہ صرف اذہانِ مغرب کو اپنے طلسم میں گرفتار کیا بل کہ تقریباً دنیا کے تمام اہلِ فکر و نظر اس سے متاثر ہوئے۔اسی وجہ سے ہر اس خطہ کے باشعور لوگ اس تحریک سے متاثر ہوئےجہاں کے معروضی حالات میں انتشار و افتراق موجود تھا۔جہاں فرد کو آزادی نہیں مل رہی تھی۔انیسویں صدی کا ایک بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ سائنسی ترقی نے فرد کو تعقل پرست بنا دیا جس کی وجہ سے فرد کے اندر جذبے اور احساس کا ایک خلا پیدا ہوگیا۔ماضی کی دو صدیوں پر نظر ڈالنے کے بعد ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان مسلسل کرب و اذیت کا شکار رہا ہے۔سماجی بد حالی،ذہنی خلفشار،معاشی تنگ دستی،عدم انصاف،بے چینی،اکتاہٹ،امنِ عامہ کی تباہی،استحصال،عدم انسانیت وغیرہ ایسی وجوہات تھیں،جن کی بدولت تبدیلی اور انقلاب ناگزیرتھا۔اس دور میں انسانیت کی شکل مسخ ہوچکی تھی ۔معاشرہ سماجی لحاظ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکارتھا۔فرد تنہائی،اداسی،نااُمیدی،بے چینی،اضطراب،کش مکش اور اجنبیت سے مملو تھا۔مذہب میں پناہ لینے کے بعد فرد نے مذہب کو بھی مذاق سمجھ لیا تھا۔
وجودیت کی توسیع و ترویج جنگ عظیم اول و جنگ عظیم دوم کے دوران ہوئی۔لہٰذا اس کا سراغ ان جنگوں کے دوران معاشی سیاسی سماجی معاشرتی،مذہبی اور تہذیبی بحران، خوف، اضطراب، کشمکش، ہلچل، بےچینی، انتشار، مایوسی، محرومی اور مظلومی کے احساسات میں لگایا جاسکتا ہے۔پہلی جنگ عظیم کے دوران لوگوں نے اپنے عزیز و اقارب کو خون میں لت پت دیکھا۔لوگ اپنی دولت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ہر طرف آگ ہی آگ لگی ہوئی تھی۔بموں کی صدائیں،فضا میں پھیلا ہوا سیاہ دھواں،ہوائی جہازوں کے حملے،آسمان سے برستی ہوئی آگ،لاشوں کی ڈھیر،اشیائے خوردونوش بل کہ اشیائے ضروریہ کی قلت،سائرن کی آواز اور انہی متعدد مسائل کے بیچ یہ انسان پل کر جوان ہوا۔
جنگ عظیم اول کا آغاز ۱۹۱۴ء میں ہوا۔اس جنگ کی تباہ کاریوں کی وجہ سے زندگی سسکتی رہ گئی،معیشت تباہ ہوگئی۔سیاسی رویے اور سماجی اقدار پامال ہوگئے۔’’ایک لاکھ امریکی ،دس لاکھ برطانوی ،دس لاکھ سے زائد فرانسیسی اور ہنگری کے باشندے اور روس اور جرمن کے تقریباً 20 لاکھ آدمی لقمہ اجل بن گئے۔‘‘ اس قسم کی صورت حال میں اعتماد کا تو نام و نشان بھی نہ رہا۔۱۹۳۸ء میں صنعت کے میدان میں بے پناہ توسیع ہوئی۔صرف موٹر کاروں کی تعداد’’امریکہ میں 30ملین،برطانیہ میں2.50 ملین،فرانس میں 2.25 ملین اور جرمنی میں.50ملین‘‘ صنعت و حرفت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
پہلی جنگ عظیم کا جب اختتام ہوا تو دنیا کو اجتماعی موت اور خوف ناک تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔جس نے مستقبل میں اور بھی جنگوں کےلیے راہ ہموار کی اور یوں انسان اور جھگڑوں میں پھنس گیا۔یہ وہ جنگ تھی جس نےکسی بھی مسئلہ کا مستقل حل نہ نکلا بل کہ مسائل کوور فروغ ملا۔جنگ کے بعد عالمی انسان کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑا کہ جس کے تصور سے ہی جسم پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔معاشی نظام اپاہج ہو گیا،بے روزگاری عام ہوئی اور غریبی کا ایک اور سخت پہاڑ سامنے آ کھڑا ہوا۔جن کو ہم عالمی مندی کا نام دے سکتے ہیں۔اسی عالمی مندی کا اثر عام زندگی پر بھی پڑا۔صنعت و حرفت کی ترقی نے نئی تباہ کاریوں اور بربادیوں کا آغاز کیا۔اسلحہ ساز فیکٹریاں دن دوگنی رات چوگنی اسلحہ بنانے میں منہمک ہوئیں۔ایٹمی ریسرچ کا آغاز ہوا ۔ایٹم بم کی وحشت،تباہی،بربادی اور ہولناکی اپنے مثال آپ تھی۔
لوگوں کے پاس سوچنےکےلیے جنگ کے علاوہ کوئی اور موضوع نہ رہا۔ویران گلیاں،خوف و دہشت،ڈرے اور سہمے ہوئے لوگ،سنسان پڑی ہوئی دکانیں،المختصر ایک قیامت کا منظر تھا۔نا ترس فوجیں انسانوں کا خون نہ صرف چوس بل کہ مچھروں کی طرح انسانوں کو مار رہی تھیں۔پہلی جنگ عظیم میں جن بیواؤں نے اپنے شوہر کھوئے تھے اب ان کے لاڈلوں کو جام اجل نوش کرنا تھا۔جنگ کی خوفناکی ،دہشت،ہولناکی،تباہی اور بربادیوں نے انسانی زندگی کی حیوانیت،خودغرضی،بہیمیت اور شیطانیت کا پردہ ایسا فاش کیا کہ آدمیت اور انسانیت پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا۔چہار سو خوف،ہراس،نااُمیدی،محرومی،مایوسی،تنہائی،اداسی اور دہشت کی فضا چھائی ہوئی تھی۔فکر کی تمام اقدار،زندگی اور ادب کی قدریں غیر متعین ہوگئیں۔جنگ کے بعد انسانوں کے پاس صرف ان کا وجود رہ گیا۔باقی تمام چیزوں سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا تھا۔چناچہ اس نے اپنے وجود کے سہارے سے ہی مسائل زیست کی گھتیاں سلجھانے کی ٹھان لی۔ایک نیا انسان وجود میں آیا۔اور اس کے علاوہ اس احساس نے بھی زور پکڑا کہ انسان خود میں ہی معنی خیز اور قیمتی ہے اور اپنی داخلی بصیرت و قوت سے اپنی راہ متعین کرسکتا ہے۔داخل کی طرف سفر شروع ہوا۔اس انسان کی مثال بعینہٖ اُس شتر مرغ جیسی ہوگئی جو محض چند لمحے کےلیے اپنے فکری ریگستان میں اپنے سر کو چھپالیتا ہے کہ وہ طوفان اور تیز آندھیوں سے محفوظ ہو جائے گا مگر ہیچ۔۔۔کیوں کہ اس انسان کو ایسی تلخ حقیقت کا سامنا کرنا تھا جس کی تہوں میں مایوسی،ناامیدی،اندھیرا اور محرومی کی بھیانک موجیں موجزن تھیں۔اسی تلخ اور کڑوی حقیقت نے وجودیت کے احساس کو عام کیا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد سانسیں ارزاں ہوگئیں۔بستیاں اجڑ گئیں۔خاندانون کا شیرازہ بکھر گیا۔مذہب اور اخلاقیات کی اہمیت و افادیت ختم ہوگئی۔مذکورہ تمام واقعات اورحالات کی وجہ سےوجودیت کی اصطلاح ادب میں بھی پروان چڑھنےلگی۔
اس افسانےمیں ہمیں مصنفہ کےہاں وجودی افکارواضح طورپرنظرآتےہیں۔کبھی وہ فردکی کم مائیگی کی بات کرتی،توکبھی اپنےوجودکوٹٹولنےکی کوشش۔کبھی اسےخودایک عورت محسوس ہوتی ہے،ایک عورت،ایک بیٹی،ایک محبوبہ،ایک ماں توکبھی اسےاپنی ذات ہیچ نظرآتی ہے۔وہ دنیاکےرشتوں،رسموں اوررواجوں سےدوربھاگ کراپنےوجودکی تلاش کرناچاہتی ہے۔وہ عجیب خیالات تلےگاڑی میں سوارہوکرتمام دنیااوردنیاوالوں کاجائزہ لیتی ہے،پھراپنےوجودمیں غوطہ ہوتی ہےاورنفرتوں،قربتوں،محفلوں،رسموں اوررواجوں پرنگاہ ڈالتی ہوئی کہتی ہےکہ:
’’تمام عمر’’ستی‘‘کی رسم اداہوتی ہے۔۔۔سارےتماشبین گھروں کو چلےجاتےہیں اور۔۔۔رہ۔۔۔جاتےہیں دو آزاد وجودغلامی کےاندھیروں میں ڈوبنے ابھرنے کےلیے۔الگ سوچ،الگ معیار،الگ منطق۔۔۔اندھیرےاجالےوقتی قربتیں، معاشرتی پریشر،دینی فریضے،یکبارگی نفرتوں پرگوٹےکناری والی بھاری چُنی ڈال دیتےہیں۔۔۔لشکدارچُنی کبھی گلےمیں پھندہ بن کرپھنستی ہےتوکبھی منہ چھپادیتی ہے۔‘‘(۶)
اس افسانےمیں ہمیں شاعرانہ لب ولہجہ بھی نظرآتاہےاورساتھ ساتھ خوب صورت لفظیات کااستعمال بھی کیاگیاہے۔چوں کہ وہ خودایک شاعرہ تھیں لہٰذاان کےنثرمیں بھی جگہ جگہ شاعرانہ اندازبیان چھلکتاہے۔انھیں منظرکشی اورجزئیات پربھی عبورحاصل ہے۔اس افسانےمیں بھی ہمیں خوب صورت منظرکشی نظرآتی ہے۔اس حوالےسےاقتباس ملاحظہ ہو:
’’۔۔۔نگاہ پلٹ کےجوبیک وقت مررپرپڑی توایک جہانِ آدم بسوں،ٹرکوں،ویگنوں پرلداجارہاتھا۔ٹریکٹرٹرالیاں اورنورجہاں کےگانےفضاؤں میں انڈیلتی ہوئی گزررہی تھیں۔چھوٹی چھوٹی سوزوکیوں میں مڈل کلاس عورتیں سرکی پشت پربالوں کو الٹا سیدھا باندھےبغیراےسی کی گاڑیوں میں جھلائی ہوئیں بچوں کوچھٹی ٹائم اسکولوں سےلیےہونق بنی گزررہی تھیں۔‘‘(۷)
ان کےاس افسانےمیں عورت کی کم مائیگی کےحوالےسےبھی بحث کی گئی ہےکہ معاشرےمیں عورت کوہمیشہ کم ترسمجھاگیاہے۔عورت جب شادی کرتی ہےتواس کےبعداس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔اسےذمہ داری کےبوجھ تلےدبادیاجاتاہے۔اسےگھرباراوربچوں کےساتھ شوہرکی پسندناپسندوغیرہ کومدنظررکھناہوتاہے۔وہ اتنےانسانوں کےدرمیان رہ کربھی تنہاہوتی ہے۔اسی لیےاس تنہائی کےدوران اس کےذہن میں طرح طرح کے سوالات اٹھتےہیں:
’’یکایک مجھےلگامجھےمیں بسترمیں دھنستی جارہی ہوں۔میری آنکھوں کےحلقےیکایک گہرےہورہےہیں۔اطراف میں پڑےبال مجھےڈرارہےہیں۔۔۔کیامیں اس کمرےسےبیاہی گئی ہوں۔۔۔؟یہ بسترکب تک میری میت اٹھائےگا۔۔۔؟میتیں توامانتیں ہوتی ہیں۔۔۔انہیں مٹی میں ڈال آناچاہیے۔میرےچاروں کہارکب آئیں گے۔۔۔؟‘‘(۸)
اس اقتباس سےبھی بخوبی واضح ہوجاتاہےکہ کرداراپنےوجودکےکرب میں مبتلاہے۔اسےیہ مسٔلہ درپیش کیاہےکہ وہ اپنےوجودمصدقہ کوپانےکی کوشش کررہاہےلیکن اس کےہاں انتخاب کےنہ ہونےسےوہ اپنےاصل وجودکوپانےسےقاصرہے۔یہی وجہ ہےکہ وہ سوالات کابھرمارکرتانظرآتاہے۔وہ اس کش مکش اور کرب سےنکلنےکی سعی کررہاہےکہ صحیح فیصلہ کرکےوجودمصدقہ کوپالے۔اس افسانےمیں وجودی افکارگہرائی کےساتھ موجودہیں۔وجودی جذبی کیفیات کی طرف بھی توجہ کی گئی ہےلیکن ان کیفیات میں سب سےواضح کیفیت یہاں تصور موت ہےجسےسامنےلایاگیاہےکہ کردارموت کوگلےلگاکرایک اورحقیقت کوجان لینےکامتمنی ہےاوروہ اپنےاصل وجودکوپانےکی تگ ودومیں ہے۔
شناخت کی گم شدگی
اس کےعلاوہ ان کےہاں فردکی شناخت کی گم شدگی بھی نظرآتی ہےجوجدیدلکھاریوں کااہم موضوع ہے۔ انھوں نےسوالات اٹھائےہیں کہ میں کون ہوں؟میری شناخت کیاہے؟اورمیری جڑیں کہاں ہیں۔اس افسانےموت کاذکربھی کیاگیاہےکہ جدیدفردموت کی طرف بہت جلدمائل ہوجاتاہے
اورمختلف جائزوناجائزطریقوں سےموت کوگلےلگاتاہے۔مصنفہ نےاس کی بنیادی وجہ بھی بتائی ہےکہ جدیدفردکی زندگی موت سےبدترہے۔وہ اس کرب،دہشت،بےگانگی و مغائرت،اذیت اورمایوسی وغیرہ سےاکتاجاتاہےاس لیےموت کوخوشی خوشی قبول کرلیتا ہے۔اس حوالےسےاقتباس ملاحظہ ہو:
’’میری ڈولی کب رخصت ہوگی۔۔۔؟زندگی میں دوسری رخصتی بڑی رومینٹک ہوتی ہے۔نہ چاہنےوالےبھی روتےہیں میں بھی خشک آنکھوں میں سیلاب دیکھناچاہتی ہوں۔میں لمحۂ آخرمیں عزت افزائی چاہتی ہوں،خودکوسرفرازکرناچاہتی ہوں۔۔۔‘‘(۹)
شناخت کی گم شدگی کاموضوع سب سےپہلےہمیں انتظارحسین کےہاں واضح اندازمیں نظر آتا ہے۔ انتظار حسین نےاپنےافسانوں میں تہذیبی اورزمینی تصادم سےپیداہونےوالی صورت حال کوپیش کیاہےاوریہ بتایاہےکہ کس طرح تقسیم کی وجہ سےفرداپنی تہذیبی جڑوں سےدورہوگیاہےاوراس کےہاں شناخت کی گم شدگی کےمسٔلےنےجنم لیا۔صوفیہ بیدارکےہاں بھی ہمیں شناخت کی یہی گم شدگی نظرآتی ہےکہ کس طرح جدیدفردشناخت کےمسٔلہ میں پھنساہواہے۔اسےمعلوم نہیں کہ اس کی اصل کیاہے؟۔اس حوالےسےزیرتحقیق مجموعےمیں شناخت کےمسٔلےکےحوالےسےمختلف قسم کےسوالات اٹھائےگئےہیں جن سےبخوبی عیاں ہوجاتاہےکہ جدیدفرداپنی شناخت کھوچکاہے۔اس لیےوہ کبھی اپنےآپ کوسپرمین کی شکل دیتاہے،کبھی مکھی اورکبھی خود کوکسی بےجان چیزسےمماثل کرتاہے۔بالخصوص جدیددورمیں یہ مسٔلہ اوربھی پروان چڑھ رہاہےاورفردمادہ پرستی میں مبتلاہوکراپنی اصلیت بھول چکاہےاوراپنی شناخت کھوچکاہے۔چوں کہ وہ ایک جدیدافسانہ نگارہیں لیکن انھیں معلوم ہےکہ تقسیم کی بناپرکون کون سےمسائل پروان چڑھ چکےہیں۔تقسیم تو۱۹۴۷ءمیں ہوئی ہےلیکن ۲۰۲۳ءمیں سانس لینےوالاپاکستانی کی تہذیبی جڑوں کی بنیادپرااس پراب بھی وہ مسائل اثراندازہورہےہیں،کیوں کہ کسی شےکےاثرات صدیوں تک کسی خطےاوراس کےاقوام پرہوتےرہتےہیں۔اس بات سےبھی مفرممکن نہیں کہ پاکستانی ہرایک فردشناخت کی گم شدگی کاشکارنظرآتاہےبلکہ عالم گیرسطح پردیکھاجائےتوعالمی انسان ہی اس مسٔلےکےلپیٹ میں آچکاہے۔انسان کی معنویت ختم ہوچکی ہےاورتمام ترتوجہ مادےاورمشینوں پرمرتکزہوچکی ہے۔یہی انسانی معدومیت انسان کو خوف میں مبتلا کردیتی ہےاوراسےاپناوجوداوراپنی ذات عدم محسوس ہوتی ہے۔
صوفیہ بیدارنےیہ سوال بھی اٹھایاہےکہ فردکی شناخت کامسٔلہ ایک معنوں میں اس کا خوداختراعی بھی ہے۔کیوں کہ وہ اپنی اصل کی بجائےمغربی ترقی اورچکاچوندکی اندھی تقلیدمیں مبتلاہوچکاہےاوراسےیہ نہیں معلوم کہ اس کی مذہبی افکارکیاہیں؟اس کا مذہب کیادرس دیتاہے؟وغیرہ ۔اگروہ ان باتوں سےآگاہ ہوجائےتواس کا یہ مسٔلہ بہت جلد حل ہوجائےگا۔افسانہ نگارمذکورہ افسانےمیں خوداسی اذیت میں مبتلانظرآتی ہیں۔وہ اپنےوجودکی کھوج میں مگن ہےکہ آیامیں کیاہوں؟میں کون ہوں؟میری اصلیت کیاہے؟وغیرہ۔وہ اس قسم کےسوالات اٹھاتی ہےاوراپنےوجودمیں غوطہ زن ہوتی ہیں۔
مجموعی طوراس افسانےمیں وجودیت،عورت کی کم مائیگی،فردکی شناخت کی گم شدگی، تصور موت، جدید فرد اورمختلف قسم کےسوالات اٹھائے گئےہیں۔جدیدحوالےسےیہ افسانہ معنویت کاحامل ہےجس میں عالمی انسان کےکرب،اکتاہٹ،موت،مایوسی اوراضطراب و کش مکش جیسی وجودی کیفیات کوسامنےلایاگیاہےکہ کس طرح جدیدفردجنگ عظیم اول و دوم اورانقلابات کےساتھ سائنسی ترقی کی وجہ سےان کیفیات کاشکارہواہےاوروہ ان سےچھٹکاراحاصل کرکےایک اورکیفیت میں داخل ہوناچاہتاہےجوفردکی آزادی ہے۔لہٰذاوہ انتخاب کرکےآزادی کوپالےگا۔
اس کےعلاوہ ان کےتقریباًہرافسانےمیں وجودی افکارکی جھلک دکھائی دیتی ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ جدیددورمیں فردکی معنویت مکمل طورپرختم ہوگئی ہےاورتمام توجہ سائنس،ٹیکنالوجی اورمادےکودی گئی ہےلہٰذافردکونظراندازکرنےسےفردانفرادیت کی طرف سفرکرنےلگاہےاوروہ سوچتاہےکہ اصل کیاہے؟اوراس کی شناخت کیا ہے؟لہٰذاوہ اپنےآپ کی طرف متوجہ ہوااوریوں دھیرےدھیرےوجودی ہونےلگا۔
فلسفیانہ سوالات
فلسفہ کو ایک علاحدہ اور واضح علمی سرگرمی کی کوئی شاخ قراردینا آسان نہیں۔فلاسفہ بھی آج تک اس کی ایک تعریف پر متفق نہیں ۔یہ بذاتِ خود ایک فلسفیانہ سوال ہے۔البتہ فلسفے کو شروع ہی سے تمام علوم کے سرچشمے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔تاریخ انسانی پر نگاہ ڈالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تین ہزار سال کی مدت میں دنیا دو سو سے زیادہ فلاسفہ پیدا نہ کرسکی۔آدمی پیدائشی فلسفی ہے۔انسان کی فطرت میں یہ چیز موجود ہے کہ وہ ہر شے کے بارے میں سوچتا ہے،غور و فکر کرتا ہے،زیست میں رونما ہونے والے مسائل کی بنا پر وہ ان جملہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے،بعض مسائل ایسے نوع کے ہوتے ہیں جن کا حل اسے مل جاتا ہے لیکن بعض مسائل ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسان شک میں پڑتا ہے اور ان تمام چیزوں (معلوم سے نامعلوم کی طرف جانا،مستقبل کی سرگرمیوں کی تلاش،خواب دیکھنا،محبت کرنا،نفرت کرنا وغیرہ)کےلیے اعلیٰ ذہنی اپج اور دانشمندی کی ضرورت ہوتی ہے اور جن سے انسان کام لیتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ انسان کو زندگی کے نشیب و فراز کا حل تلاش کرنےاور زندگی کی پیچیدہ صورت حال پر حیرت و شک کا سامنا کرنا بھی پڑتا ہے۔البتہ یہ انسان شک و حیرت اور فکر و منصوبہ بندی جیسی فطری چیزوں سے اپنا دامن نہیں چھڑا سکتا۔
چنانچہ بالا تصریحات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان پیدائشی فلسفی ہے۔البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ افراد صلاحیت،قابلیت،ذہانت،شخصیت اور استعداد میں ایک دوسرے سے متمیز ہوتے ہیں۔اور یہ بھی کوئی حیرت کی بات نہیں کہ افراد فکر و استدلال میں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔
صوفیہ بیدارکےافسانوی مجموعے’’رنگریز‘‘میں ہمیں فلسفیانہ سوالات بھی نظرآتےہیں۔انھوں نےاس مجموعےمیں مختلف قسم کےسوالات اٹھائےہیں،جن میں فردکی شناخت کےحوالےسے،زندگی کی معنویت و حقیقت، انسانی تشخص،اپنےوجود اور کائنات کی حقیقت وغیرہ جیسےسوالات اٹھائےہوئےہیں۔جس طرح فلسفیوں نےابتداسےلےکرآج تک کائنات اوراس کی حقیقت وماہیت کےبارےمیں سولات اٹھائےاوراسےمختلف چیزوں(مادہ اورجوہر)سےتعبیرکیاہے۔اسی طرح ادبامیں سےبھی شاذونادرنےفلسفہ میں طبع آزمائی کی ہے۔اورفلسفیانہ سولات وغیرہ اٹھائےہیں۔صوفیہ بیدارکےہاں ہمیں مختلف قسم کےسوالات نظرآتےہیں،اس حوالےسےانھوں نےاپنی اصل اوراپنےوجودکےبارےمیں سوالات اٹھائےہیں اورخانگی زندگی،رشتوں،رسوم و رواج،تہذیب و ثقافت اور روایات وغیرہ کےحوالےسےان کےزیرتحقیق مجموعےمیں سوالات کیے گئےہیں۔کہ یہ رشتےکیاہیں؟ان کی اصل کیاہے؟عورت کیاہےبلکہ انسان کیاہے؟اس کی حقیقت کیاہے؟۔اس کےعلاوہ کبھی وہ زندگی اورموت کےمابین فرق سمجھانےکی کوشش کرتی ہےکہ زندگی موت سےبہترہےیاموت زندگی سے۔ اور بالآخراس نتیجےپرپہنچتی ہےکہ موت زندگی سےبہترہےکیوں کہ زندگی جن اذیتوں سےگزارتی ہےموت اس سے ہزارہابہترہے۔یہی وجہ ہےکہ وہ کہتی ہے:
’’زندگی اورموت میں کیافرق ہوتاہے،میں کبھی سمجھ نہیں پائی۔مجھےتویہ دونوں سہیلیاں لگیں ایک جیسی۔ ۔ ۔ اگر بات گناہوں ثوابوں کی ہوتودوسری والی زیادہ مہربان ہے،اپنی آغوش میں چھپاکراوپرمٹی کی مہین چادرڈال دیتی ہے،سب کچھ برابرہوجاتاہے۔‘‘(۱۰)
ایک اورجگہ زندگی پرموت کی غالبیت کااندازاپناتی ہوئی کہتی ہیں:
’’اےمری شب گزیدہ زندگی !کیاتوچھوڑکےجارہی ہے؟یہ سنسناہٹیں کیسی ہیں؟یہ پھڑپھڑاہٹ کیسی ہے۔۔۔؟میں کہاں ہوں۔۔۔؟میں کہاں۔۔۔ہوں؟‘‘(۱۱)
الغرض پورےمجموعےمیں موجودافسانوں میں زیادہ ترافسانوں میں ہمیں فلسفیانہ سوالات نظر آتے ہیں۔ جن میں کائنات،وجود،فطرت،انسانی اصلیت،انسانی تشخص،انسانی زندگی اورموت وغیرہ کےمتعلق استفہامیہ روش اپنائی گئی ہے۔
فنی جائزہ
کسی فن پارے کی تخلیق کی اہمیت کا اندازہ اس کے فکروفن سے لگایا جاسکتا ہے۔فکری لوازمات کے ساتھ ساتھ فنِ لوازمات کے امتزاج ہر تخلیق کےلیےاس طرح ضروری ہے جیسے کہ جسم کےلیے روح۔صوفیہ بیدار کےافسانوی مجموعے ’’رنگریز‘‘کا فکری جائزہ پیش کیا جاچکا ہے جس سے اس مجموعےکے مطابق صوفیہ بیدار کے افکار واضح ہوچکے ہیں۔اب محقق اس کے فنی نکتوں کو سامنے لانے کی کوشش کرے گا۔جس سے اس مجموعے میں جن فنی لوازمات سے کام لیا گیا ہے
وہ باآسانی سامنے آجائیں گے۔صوفیہ بیدارجدیدافسانہ نگاروں کی صف میں شامل ہیں انھوں نے اپنے مجموعے کو فنی لحاظ خوب صورت بنانےکی کاوش کی ہے۔ان کا یہ مجموعہ فکری لحاظ سے بہت سے موضوعات کو اپنے اندر سمویا ہوا ہے اسی طرح فنی حوالے سے بھی کچھ کم نہیں۔اگر ایک طرف ادب میں فکر کو اہمیت حاصل ہے تو دوسری طرف فن کو بھی اہمیت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
جس طرح ورڈزورتھ اور کالرج نے کہا تھا کہ شاعری میں موزوں الفاظ کےبہترین انتخاب اورترتیب سے بہترین شاعری وجود میں آتی ہےاورالفاظ کاانتخاب نثرہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ فن کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔فن کا تعلق ڈھانچے سے ہوتا ہے جس طرح کسی عمارت یا چیز کی شکل اسی طرح فن پارے میں فن کی حیثیت ہے۔المختصر کسی فن پارے کی مقبولیت میں جتنا حصہ فکر کا ہوتا ہے اتنا ہی فن کا بھی ہوتا ہے۔
اسلوب (Style)
اسلوب انگریزی لفظ ’’ Style‘‘کے مترادف ہے۔اس کےلیے عربی میں ’’اسلوب‘‘اور فارسی میں ’’سبک‘‘استعمال ہوتا ہے۔یونانی میں’’Stylos‘‘اور لاطینی میں اسٹائیلس اسلوب کے ہم معنی الفاظ ہیں۔لفظ اسلوب عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی طرز،روش،طریقہ اور صورت کے ہیں۔اردو میں لفظ اسلوب عربی زبان سے آیا ہے۔
فیروزاللغات کے مطابق:
’’اسلوب(ع۔ا۔مذ۔)طریقہ،طرز،روش،جمع اسالیب۔‘‘(۱۲)
قومی انگریزی اردو لغت کے الفاظ:
’’ادب میں موضوع سے زیادہ اسلوب پر زور دینے والا یاا س سے تعلق رکھنے والا کسی ادیب یا ادیبوں کے گروہ کا شناختی اسلوب،فنون میں خارجی اسلوب،روش یا انداز کوئی مخصوص طرز ادا۔۔۔‘‘(۱۳)
فرہنگ آصفیہ کے مطابق:
’’اسلوب(ع۔مذ) طرز،ڈھنگ،طریقہ،وضع،انداز۔‘‘(۱۴)
فرہنگ عامرہ میں اسلوب کے معنی:
’’اسلوب۔اس،لوب(اس۔لوب):طریقہ،طرز،روش،جمع اسالیب۔‘‘(۱۵)
اسلوب تحریر یا طریقہ تحریر قلم اور مصنف کے ذاتیات سے منسلک کیا جاتا ہے۔اسلوب صرف طرزتحریر کے معنوں میں مستعمل نہیں ہے بل کہ اس کا تعلق براہ راست فنون لطیفہ کے دوسرے ضابطوں سے بھی ہوتا ہے۔
اسلوب کیا ہے؟کیا اسلوب سیا ل شے ہے یا ٹھوس یا پھر محض محسوسات کی چیز ہے۔کیا یہ غیرمروی چیز ہے یا یہ مادی صورت رکھتا ہے۔اسلوب ہر لکھاری کےلیے اہم ہے یا انفرادی لوگوں کےلیے ہے۔ان سوالات کا دو ٹوک جواب نہیں ملتا ہے۔بعض لوگ اسلوب کو لفظیات تک محدود رکھتے ہیں۔
کلاسیکی لاطینی ادب میں اسلوب ابتدا میں طرزتحریر کے معنوں میں استعمال ہوتا رہا۔بعد میں تحریر و تقدیر میں اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا نام اسلوب قرار دیا گیا۔فرانسیسی ادب میں اسلوب شخصیت کےلیے موزوں اظہار کے مفہوم میں رائج ہے۔افلاطون کے خیال میں اسلوب کےلیے ذہن اور روح کی کارفرمائی ضروری ہے۔ارسطو نےطریقہ ادائیگی کو اسلوب قرار دیا ہے۔ٹینی سن نے اس بات پر زور دیا کہ قابل توجہ بات یہ نہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں بل کہ یہ ہے کہ کس طرح کہہ رہے ہیں۔ اسلوب کے حوالے سے اعجاز راہی لکھتے ہیں:
’’خارج میں رونما ہونے والی تبدیلی ہی نئے زمانے کا تعین کرتی اور نئے اسلوب کی بازیافت کا بار اٹھاتی ہے اور اس طرح نیا زمانہ نئے اسلوب کے ہمرکاب اپنی شناخت کراتا ہے۔یعنی اسلوب ہی وہ بنیادی شے ہے جو ایک زمانے کو دوسرے زمانےتک ایک شے کو دوسری شے سے الگ کرتا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ اسلوب خود کیا ہے؟کیا اسلوب خود زمانہ ہے؟شے ہے کچھ اور؟اسلوب کا وجود ہوتا ہے؟یا مختلف پھولوں کی خوشبو کی طرح اپنی شناخت کراتا ہے؟۔‘‘(۱۶)
اعجاز راہی کے اس اقتباس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلوب اور زمانے دونوں میں گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔جب زمانہ تبدیل ہوتا ہے تو اسالیب بھی اس کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں۔بقول سید عابد علی:
’’اسلوب سے مراد کسی لکھنے والے کی وہ انفرادی طرز نگارش ہےجس کی بنا پر وہ دوسرے لکھنے والوں سے متمیز ہوجاتا ہے۔اس انفرادیت میں بہت سے عناصر شامل ہوتے ہیں۔‘‘(۱۷)
اسلوب ایک ادیب کی مسلسل ریاضت ایک خاص طرز کے فقرے اس کے مخصوص لفظیات،اس کی ذات کا حسن،موضوع کے ساتھ وابستگی(کمیٹمنٹ)کمپوزیشن کا محسوس طرز اور پھر باربار اس کا استعمال رفتہ رفتہ ایک طرز کو جنم دیتا ہےاور یہی اسلوب بن کر شخصیت کے ظہور کا پہلو بن جاتا ہے۔
اسلوب کی اقسام
کسی شاعر یا ادیب کا اسلوب یا تو نثر کے ذریعے یا شعر کے ذریعے واضح ہوتا ہے۔اس لیے اسلوب کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں۔۱۔نثری اسلوب ۲۔شعری اسلوب
۔نثری اسلوب
نثری اسلوب سے ظاہر ہوتا ہے اس میں خیالات کے ذریعے پر زور دیا جاتا ہے۔ادائے خیال سے مراد ہے مصنف کی ذہنی تجربات بلاکم و کاست راست طور پر قاری کے ذہن تک منتقل ہوجائے۔اس کو ابلاغ بھی کہا جاتا ہے اس وجہ سے ادیب کو وہی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے جو واضح اور قطعی ہو۔اس میں شعریت،مبالغہ آرائی، استعاروں، اشاروں کا استعمال نہ ہو۔
شعری اسلوب
شعری اسلوب شاعری میں اظہار جذبات کے ساتھ مخصوص ہے۔اس میں بلیغ ابہام اور لطیف نغمگی ہوتی ہے۔ایسی ماورائی کیفیت جو قاری کےلیے وجدان کا تاثر پیدا کرتی ہے۔اگر شاعری میں لطیف اور مترنم اسلوب اختیار نہ کیا گیا تو شاعر کو کامیابی ملنے کے امکانات کم ہوتے ہیں۔
اسلوب کی تشکیل کے عناصر
اسلوب شعری ہو یا نثری اس کی تشکیل کے عام طور پر تین عناصر ہوتے ہیں۔
۱)مصنف کی انفرادیت ۲)عام انسانی رویہ ۳)خیال اور زبان کی خصوصیت۔
اسلوب طرز تحریر سے نہیں بل کہ مصنف کی انفرادی فکر اور زوایہ نظر سے پیدا ہوتا ہے۔طرز تحریر کو Manne Rismکہا جاتا ہے۔اسلوب نہیں Manne Rismکا مفہوم اسلوب میں شامل ہے۔اسلوب Manne Rismسے جامع لفظ ہے۔یہ دراصل ایک مخصوص ومنفرد اصطلاح ہے جس کے بغیر مصنف کا تصور نہیں کرسکتے۔
صوفیہ بیدار بھی نہ صرف یہ کہ نفیس مضمون کے پیچ وخم کو سمجھتی ہیں بل کہ ان کا اسلوب زبان وبیان کی شیفتگی و شگفتگی سے آراستہ ہوتا ہے۔وہ الفاظ کی نفسیات اور ان کے مزاج سے ایک طبیب کی طرح واقف ہیں۔جو اپنے مریضوں کے مزاج اور ان کی کیفیت سے آگاہی رکھتا ہوں۔وہ الفاظ سے یوں بےتکلف ہوتی ہیں کہ ان کی بناوٹ سادہ معلوم ہوتی ہے۔وہ جو بھی کہتی ہیں بڑی آسانی سے کہتی ہیں۔بات بڑی ہوتی ہے لیکن قاری سمجھتا ہے کہ اس کے کہنے کےلیے مصنف کو کسی غوروفکر اور تکلف کی زیادہ ضرورت نہ رہی ہوگی۔ایک اور بات یہ بھی ہے کہ وہ منفرد الفاظ استعمال کرتی ہیں جس کےلیے قاری کو غوروفکر کی ضرورت بھی ہوتی ہے۔ان کےاسلوب کی ایک خصوصیت یہ ہےکہ چوں کہ وہ شاعرہ تھیں،لہٰذانثرمیں بھی ہمیں شاعرانہ رنگ نظرآتاہے۔ان کےہاں تشبیہات و استعارات کےعلاوہ علامتی انداز،رمزوکنایہ اوراستفہامیہ اندازوغیرہ بھی نظرآتاہے۔ان کےاسلوب میں شائستگی اورشیرینی نظرآتی ہے۔ان کےاسلوب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہےکہ بعض اوقات وہ جوبات اداکررہی ہوتی ہیں اسےصرف خودتک محدودرکھتی ہیں اوردوسروں کوسمجھانانہیں چاہتی لہٰذاان کےہاں ابہام درآتاہے۔افسانہ ’’رنگریز‘‘میں انھوں نےجواسلوب استعمال کی ہے،اس میں بہت سی خصوصیات وا ہوجاتی ہیں۔اسی افسانےسےایک اقتباس ملاحظہ ہوں:
’’۔۔۔باتیں بیان سےباہر۔۔۔جملےج کا نہ سرنہ پیر۔۔۔لفظ۔۔۔کسی کہانی میں نہ ڈھلنےوالےبس خوشگوارصبح و شاموں کوگہن لگاتی ہوئی باتیں۔۔۔ہنستےہوئےاپنی شکل بیگانی لگتی آوازپہچانی نہ جاتی۔۔۔مگردوزردآنسوگدلےسےمیلےسے۔۔۔ساری میل دھوگئے۔۔۔مدتوں کی جمی ہوئی کائی سبزےمیں بدلنےلگی ۔۔۔‘‘(۱۸)
اس سےبخوبی اندازہ ہوسکتاہےکہ ان کااسلوب شاعرانہ مزاج کاحامل ہے۔ان کےنثرپاروں میں بھی لسانی شعری آمیزش نظرآتی ہے۔ صوفیہ بیدار کے اسلوب کو اگر بہ نظرعمیق دیکھا جائے تو ان کے اسلوب کی ایک خصوصیت انفرادیت ہے۔ان کا اسلوب انفرادیت کا حامل ہے۔ان کے اسلوب میں ٹھہراؤ موجود ہے۔ان کا اسلوب خوب صورت ہے۔لفظیات کا انتخاب انھوں نےبہت ہی عمیق نظری سے کیا ہے۔
بیانیہ انداز
ان کےوہ افسانےجن میں موضوعات ٹھوس ہیں اورجن میں زندگی کےاصل حقائق کو موضوع بنایاگیاہے۔ان افسانوں میں ہمیں ان کےاسلوب میں بیانیہ اندازدکھائی دیتاہے۔زندگی جس کا ڈھانچہ سیاسی،معاشی،معاشرتی،تمدنی،مذہبی اوراخلاقی قدروں سےتشکیل پاتاہے۔اس زندگی کا ہرزاویہ اسلوب کی رنگارنگ جہتوں کےساتھ نمایاں ہے۔کہیں اخلاقی زوال کی بات ہےتوکہیں معاشرتی ناہمواریاں،کہیں معاشی تنگ دستی پریشان کی ہوئی ہےتوکہیں ذاتی مسائل اپنےکرب سےگزارتاہے۔ہرجگہ اسلوب میں موضوعات کیم ایک نئی دنیااورموضوعاتی حوالےسےاسلوب میں جدت نظرآتی ہے۔ایک فکری لہربھی ان کےاس بیانیہ اندازکےساتھ غیرمحسوساتی طورپروابستہ ہے۔جوشاعرانہ آہنگ کےساتھ بیانیہ کو چھوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
استفہامیہ انداز
استفہام سے عام طور پر کسی چیز کی حقیقت اور اصلیت جاننے کےلیے سوال پوچھنا مراد ہوتا ہے۔روزمرہ زندگی میں مختلف موضوعات پر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔اسی طرح انسان ان سوالات کے جوابات دیتے ہوئے اور ڈھونڈتے ہوئے ذہن کو تسلی کا سامان مہیا کرتا ہے۔ساتھ ساتھ انسان علم کے خزانوں سے بہرہ ور ہوجاتا ہے۔
شعروشاعری میں استفہامیہ انداز ایک طرف ظاہری دوسری طرف باطنی حسن کا باعث بنتا ہے۔استفہامیہ انداز میں اختصار ہوتا ہے تو شعر کہیں سے کہیں پہنچ جاتا ہے۔شعر وشاعری میں استفہامیہ انداز کا استعمال ایک مشکل فن ہوتا ہے۔اگر استفہامیہ انداز کو شعر میں پوری فن کاری کے ساتھ استعمال نہ کیا جاسکے تو شعر میں حسن وخوبی کے بجائے عیب معلوم ہوتا ہے۔اردوشاعری میں استفہام ایک عام قسم کی چیز ہے۔ہر شاعر کے ہاں مختلف مواقع کے تحت استفہامیہ انداز پیدا ہوتا ہے۔لیکن نثرمیں زیادہ تراستفہامیہ اندازکےبجائےواضح اندازمیں بات کی جائےلیکن جب دورایساہوکہ اپنےخیالات کوپیش کرنےمیں دقت اور مشکل محسوس ہورہی ہوتوادیب استفہامیہ انداز اپنانے پر مجبور ہوجاتاہےاوروہ ایسےسوالات اٹھاتاہےجوادبی لوگوں کےذہن اورطبع کےموافق جنھیں وہ سمجھ سکےیعنی مخصوص طبقہ ان سولات کےجوابات دےسکے۔صوفیہ بیدار کے ہاں استفہامیہ لہجہ موجود ہے۔جس سے ان کی فن کاری کا ثبوت ملتا ہے۔وہ کلمات استفہام کو تاثیر اور گہرائی کے تحت سامنے لانے کی کوشش کرتی ہیں۔ استفہامیہ اندازان کےاسلوب کی ایک اورخصوصیت ہے۔اس حوالےسےان کی فکری خصوصیت’’فلسفیانہ سولات‘‘میں مثالیں پیش کی گئی ہیں کہ وہ کس طرح سوالیہ اندازمیں اپنامطلب سمجھاتی ہیں کہ عام قاری کی اس تک رسائی ممکن نہیں لیکن ایک خاص مزاج کا قاری ان سوالات تک رسائی حاصل کرسکتاہے۔
منظرکشی
ان کےہاں جہاں بیانیہ اندازموضوعات اوراسلوب کےحوالےسےنمایاں ہےوہی پران کےہاں منظرکشی کاخارجی عنصربھی غالب نظرآتاہے۔فطرت،مناظر فطرت اوراس کا حسن وغیرہ کےعناصرنمایاں ہیں۔بعض اوقات ان کےہاں حقیقت اورتخیل گھل مل جاتےہیں۔وہ منظرکشی میں حقیقت اورتخیل دونوں سےکام لیتی ہیں۔زمانوں کا ردوبدل اسی دوران کبھی کبھارخاموشی سےہوجاتاہے۔
یہاں تخلیقی تسلسل ایک روکی مانندبہتانظرآتاہے۔ایک جانب ایک انٹلیکچول دنیاہےتودوسری طرف کہانی کےروایتی قاری کےلیےبےحوصلگی کی صورت بھی پیداہوجاتی ہے۔ایک وقت میں بےپناہ مناظرکی دید،لمحہ بھرمیں ذات سےکائنات تک کاسفر،حقیقت سےخیال،خیال سےماورا،پھرآوازیں،ٹوٹ پھوٹ کاشور،عصری انتشار،دہشت،خوف،تاریک راستے،شوروغیرہ یہاں قاری کی ضرورت یقیناً انٹلیکچول حوالوں سےابھرتی ہے۔ان کی منظرکشی سےاکثردیکھنےکی قوت کوتقویت نہیں ملتی ہےبلکہ بہت سی حسیں جاگ اٹھتی ہیں۔حسیات کی یہ سطح ایک بارپھرتجرباتی سطح سےمتصادم ہوکرتکمیل سےہمکنارہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
’’بڑےبرانڈکی گاڑیوں میں بیگم صاحبہ ٹائپ عورتیں،ٹائیوں والےمرداردگردسےبیزارگردنیں اکڑائےدرائیونگ کی دقتوں سے بیزار گزر رہے تھے۔ایسےمیں کوئی نہایت بےچین شوخ رنگ گاڑی بریکیں چرچراتی شاکس پراچھلتی بوفر(Buffer)ڈیک کی پرشورآوازمیں زگ زیگ میں اڑتی ہوئی ماحول کی سنجیدگی کامذاق اڑاتی گزرجاتی۔ سائلنسر کی آوازاورگاڑھادھواں بےسمت جوانی اورانجان مستقبل کےنشان ثبت کردیتا۔۔۔‘‘(۱۹)
ان کےیہاں اکثرخیال،جذبہ اورمنظرکشی ایک دوسرےسےگھلےملےہوئےہوتےہیں،نہ صرف گھلے ملے ہوتےہیں بلکہ ایک دوسرےمیں بری طرح پیوست بھی ہوتے ہیں۔یہ ان کےاسلوب کےخارج و داخل کی ایک مخصوص جہت بھی ہےاورفکروفن کی ایک اکائی بھی۔اسی کی بناپران کاتخلیقی عمل جاری و ساری رہتاہےاوراسی کی وجہ سےان کےاسلوب میں معنویت پائی جاتی ہے۔
علامت نگاری
علامت کو انگریزی میں Symbol کہا جاتا ہے۔جس کے معنی ہے ایک ساتھ دو چیزیں رکھنا۔عام طور پر لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے حقیقی اور مجازی۔مثلاً شیر کے حقیقی معنی ایک جانور کے ہیں۔مجازی معنوں میں یہ لفظ بہادر آدمی کےلیے استعمال ہوتا ہے۔جب تشبیہ ذرا آگے بڑھ جاتی ہے یعنی مشکل ہوجاتی ہے اور سمجھ سے ذرا باہر ہوجاتی ہے تو استعارہ بنتا ہے۔جب استعارہ ذرا آگے بڑھ جاتا ہے اور سمجھ میں آنے میں دقیق ہوجاتا ہے تو علامت وجود میں آتی ہے۔بالفاظ دیگر علامت استعارہ کی توسیع ہے۔
’’چاند ‘‘ایک لفظ ہے یہ لفظ خوب صورتی کے معنوں میں مستعمل ہوتا ہے،لیکن علامت نگار شعرا اسے اور معنوں میں لیتے ہیں۔’’صحرا‘‘ بظاہر وحشت کےلیے استعمال ہوتا ہے،لیکن ن۔م راشؔد نے اسےفطری آزادی کےلیے استعمال کیا ہے۔اسی طرح ’’سمندر‘‘کو راشؔد نے انسانی لاشعور کےلیے جبکہ میراجؔی نے اسےجنسی جذبے کےلیے استعمال کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات استعارہ اور علامت کو الگ الگ کرنا مشکل ہوجاتاہے۔
اقباؔل کے ’’شاؔہین‘‘کے بارے میں کوئی کہتا ہے کہ استعارہ ہے توکوئی کہتا ہے کہ علامت ہے۔علامت کی کوئی قطعی مراد نہیں لی جاسکتی۔اکبرالہ آبادی ’’گائے‘‘کو ہندوؤں کےلیے استعمال کرتے ہیں اور اونٹ ان کے ہاں مسلمانوں کی علامت ہے۔دوسرے شعرا ان علامات کو الگ الگ معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔علامت میں قطعیت نہیں ہوتی بل کہ تکثیر معنی ہوتی ہے۔شاعری میں علامات کا استعمال قوت اور اثرآفرینی پیدا کرتی ہیں۔شاعری کا لطف یہی ہے کہ قاری کا ذہن علامت کے پردے میں پوشیدہ خیال سے ربط پیدا کرے۔ڈاکٹر وزیر آغاکےمطابق:
’’علامت شے کو اس کے مخفی تصور سے منسلک کرتی ہے بل کہ یوں کہیے کہ جب شے علامت کا روپ اختیار کرتی ہے تو قاری کے ذہن کو اپنے مخفی تصور کی طرف موڑ دیتی ہے۔جب شاعر کسی شے یا لفظ کو علامت کے طور پر استعمال کرتا ہے تو اپنی تخلیقی جست کی مدد سے اس شے اور اس کے مخفی معنی میں ایک ربط دریافت کرتا ہے ۔شاعر کا سارا جمالیاتی خط اس کی اسی جست کے باعث ہے۔‘‘(۲۰)
عارف عبدالمتین علامت کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’علامت کےلغوی معنی ہیں نشان یا سراغ اور اس لفظ کی توجیح یوں کی جاسکتی ہے کہ علامت کسی بھی نوعیت کی اس چیز کو کہتے ہیں جوکسی بھی نوعیت دوسری چیز کی نشان دہی کرے یا اس کا سراغ مہیا کرے۔بہ الفاظ دیگر علامت اس پر معنی وجود کا نام ہے جس کی معنویت اس نباتاتی وجود میں پوشیدہ ہے جوکہ سرخ سرنگ کی نرم ونازک پتیوں پر مشتمل پیکر کےلیے اپنی خوشبو سے باغ کے گوشے کو مہکا رہا ہو۔اسی طرح بلبل کا لفظ ایک علامت ہے۔اس کی معنویت کا راز حیواناتی وجود میں پنہاں ہے جو اپنے خوشنما اور دیدہ زیب رنگوں والے پروں کے ساتھ باغ میں اڑتا اور گلوں پر کمال شیفتگی سے منڈلاتا ہے۔‘‘(۲۱)
علامت کا زیادہ استعمال شاعری میں ہوتاہےلیکن نثرمیں بھی اس کےاستعمال پرکوئی قدغن نہیں البتہ نثرکاآسان ہونااسےخوب صورت بناتاہےاوریہ خوبی سمجھی جاتی ہے۔صوفیہ بیدارکےزیرتحقیق مجموعے ’’زنگریز‘‘کےبعض افسانوں میں علامات کا استعمال ہواہے۔رات،تاریکی اوردھندوغیرہ کی علامتیں ۷۰کی دہائی میں اردوافسانےمیں نظرآتی ہیں۔ابتدامیں یہ الفاظ علامتوں کےبجائےسادہ معنوں میں مستعمل رہےلیکن بعدمیں یہ سطحیت سے بالا ہوکر گہری علامتی اندازمیں استعمال ہونےلگے۔صوفیہ بیدارنےبھی انےافسانوں میں علامتی نظام قائم کیاہے۔انھوں نےایک افسانےمیں رنگوں کوبطورعلامت استعمال کیاہےزندگی کےلیے۔
’’۔۔۔مگردوزردآنسوگدلےسےمیلےسے۔۔۔ساری میل دھوگئے۔۔۔۔مدتوں کی جمی ہوئی کائی سبزےمیں بدلنےلگی اسےیادآیاکابل کاایک دریاجوکب سےسوکھ کرخشک کنکرہوچکاتھااورجس میں دہشت گردوں نےاسلحےچھپارکھےتھےبارودکاذخیرہ بن چکاتھا۔۔۔حیرت۔۔۔دریاسوکھ کربھی اپناراستہ نہ بھولاتھاجب اچانک بہہ نکلاتوسارابارودسارااسلحہ سطح آب پرتیرنےلگا۔‘‘(۲۲)
انھوں نےرنگوں کی مناسبت سےانھیں مخصوص معنوں کاحامل بنایاہے۔نیلا،سرخ،سبزاورکالا وغیرہ سب کوانھوں نےعلامتی طرزبخشاہے۔اسی طرح ریت اورسائےکوبھی انھوں نےبطورعلامات اپنےافسانوں میں پیش کیاہے۔
اس کےعلاوہ ان کےاس مجموعےمیں شعری وسائل(نثرمیں نظم کی کرافٹنگ)،انگریزی زبان کےالفاظ کااستعمال،متحرک اورمترنم الفاظ کااستعمال،مکالمہ نگاری اورکردارنگاری(مقامی اورحقیقی کردار،بےنام کردار،صیغہ واحدمتکلم)وغیرہ جیسی فنی خصوصیات کااستعمال کیاگیاہے۔
حوالہ جات
۱۔صوفیہ بیدار،رنگریز،عکس پبلشرز،گراؤنڈفلورمین چیمبر ۳۔ٹیمپل روڈلاہور ،۲۰۲۲ء،ص ۱۳،۱۴
۲۔ایضاً،ص ۱۹
۳۔ ایضاً،ص ۲۴،۲۶
۴۔ ایضاً،ص ۳۴
۵۔ ایضاً،ص ۳۶،۳۷
۶۔ ایضاً،ص ۴۱
۷۔ ایضاً،ص ۳۹
۸۔ ایضاً،ص ۴۶
۹۔ ایضاً،ص ۴۶
۱۰۔ ایضاً،ص۴۵
۱۱۔ ایضاً،ص ۴۶
۱۲۔فیروزالدین،مولوی،’’فیروزاللغات۔اردو جامع‘‘(نیا ایڈیشن)،فیروز سنز لمیٹڈ،لاہور،ص ۹۴
۱۳۔جمیل جالبی،ڈاکٹر،قومی انگلش اردوڈکشنری،۱۹۸۲ء،ص ۱۰۴۶
۱۴۔سید احمد دہلوی،مولوی،فرہنگ آصفیہ(جلد اول)،سنگ میل پبلی کیشنز۔لاہور،۱۹۸۶ء،ص ۱۲۰
۱۵۔محمد عبداللہ خویشگی،فرہنگ عامرہ،ممقتدرہ قومی زبان،اسلام آباد،طبع اول جون ۱۹۸۹ء،ص ۳۶
۱۶۔اعجاز راہی،ڈاکٹر،اردو افسانے میں اسلوب کا آہنگ،ریز پبلی کیشنز،راولپنڈی،طبع اول جون ۲۰۰۳ء،ص ۱۲،۱۳
۱۷۔سید عابد علی عابد،اسلوب،مجلس ترقی ادب لاہور،طبع دوم ۱۹۹۶ء،ص ۴۱
۱۸۔ صوفیہ بیدار،رنگریز،عکس پبلشرز،گراؤنڈفلورمین چیمبر ۳۔ٹیمپل روڈلاہور ،۲۰۲۲ء،ص ۱۱۸،۱۱۹
۱۹۔ایضاً،ص ۳۹،۴۰
۲۰۔ وزیرآغا،ڈاکٹڑ،اردوشاعری کا مزاج،مکتبہ عالیہ،لاہور ۱۹۷۸ء،ص ۴۳
۲۱۔عبدالمتین عارف،امکانات،لاہور،ٹیکنیکل پبلشرز،اردو بازار ۱۹۷۵ء،ص ۱۳۵
۲۲۔ صوفیہ بیدار،رنگریز،عکس پبلشرز،گراؤنڈفلورمین چیمبر ۳۔ٹیمپل روڈلاہور،۲۰۲۲ء،ص ۱۱۹
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں