کتاب کا نام….تاریخ ادب اردو
صفحہ…..12 تا 14
کورڈ نمبر…..5602
موضوع…..سراج اورنگ آبادی کی ادبی خدمات
مرتب کردہ……حسنٰی
سراج اورنگ آبادی کی ادبی خدمات
سید سراج الدین نام مگر سراج اورنگ آبادی کے نام سے دنیائے شعر میں معروف ہوئے۔ کلیات سراج کے مرتب پروفیسر عبد القادر سروری کے بموجب ان کے احوال کے بارے میں کوئی بہت زیادہ مستند کوائف نہیں ملتے۔ اورنگ آباد میں 1715ء ان کی پیدائش اور 1783ء 4 شوال 1177 ھ وفات کی تاریخ بیان کی جاتی ہے۔
قطب شاہی اور عادل شاہی دور میں اردو شاعری کے فروغ کا بڑا سبب خود ان خاندانوں کے بادشاہوں کی سخن پروری تھی۔ جس خاندان کا باد شاہ صاحب کلیات ہو یا جگت گردن بن کر ” نورس ” تصنیف کر رہا ہو تو ایسے عہد میں شعر و شاعری کی ترقی نہ ہو یہ باعث تعجب ہو سکتا تھا۔
ان مملکتوں کی عمر تقریبا دو سوبرس بنتی ہے اور کسی بھی زبان کی ترقی اور ادب کی ترویج کے لئے دو صدیاں کم نہیں۔
حقیقی اظہار کے لئے جہاں ذخیر و الفاظ میں اضافہ ہو اوہاں اسلوب کے جمالیاتی اوصاف میں بھی نکھار پیدا ہوا، جس کا اندازہ وجہی، غواصی اور نشاطی کے بعد رستمی اور نصرتی کے شاعرانہ اسلوب کے تجزیاتی مطالعہ سے ہو جاتا ہے اور پھر ان سب کے بعد سراج اورنگ آبادی کی شاعری ہے ،پیش رو شعراء کے مقابلہ میں جس کے اسلوب کا رنگ چوکھا ہوتا نظر آتا ہے۔
دکنی زبان نے دو سوبرس کے تخلیقی سفر میں آہستہ آہستہ ہندی پن ترک گیا۔ مقامی ولیوں کے اثرات سے چھٹکارا حاصل کیا۔ مقامی محاورات اور ضرب الامثال سے صرف فارسی کے مناسب الفاظ کے استعمال سے زبان کے حسن اور خوبی میں اضافہ کیا چنانچہ محمد قلی قطب شاہ کے مطالعہ میں نامانوس زبان جس طرح رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ سراج اورنگ آبادی کے مطالعہ میں بالعموم ایسا نہیں ہوتا۔ سراج کہتے ہیں۔
کب تلک طرز جفا ظالم مری فریاد سن
عمل تلخ جفا کی کان دھر روداد سن
یہ مفرس اسلوب اور اضافتیں غالب کی یاد دلاتی ہیں حالانکہ یہ اس سے ڈیڑھ دو صدیاں قبل کا ہے۔ دیکھا جائے تو سراج اورنگ آبادی بلحاظ شاعرانہ اسلوب جنوبی ہند اور شمالی ہند کے درمیان عبوری دور کے شاعر قرار پاتے ہیں۔ ان کی زبان مفرس ہو رہی تھی مگر اتنی نہیں جتنی دہلی کے شعراء کے ہاتھوں ہوئی ۔ہندی پن بھی ختم ہو رہا تھا مگر بتدریج سراج کا ایک مذہبی گھرانے سے تعلق تھاوالد سید درویش کٹر مذہبی انسان تھے ادھر بارہ تیر برس کا بیٹا عالم جذب و مستی میں تن من کی سدھ کھو بیٹھا تھا اور بقول مرتب کلیات
انہیں اپنے لخت جگر کو تادیب کی خاطر پایہ زنجیر کرتے بھی پس و پیش نہ ہو تا تھا
(کلیات سراج مرتبہ عبد القادر سروری تلقی و علی 1998 ء مهمی دوم م : 39)
اس عالم جذب و کیف میں ان کے منہ سے خود خود فارسی میں کلام موزوں خارج ہوتا تھا۔ عالم جزب سات برس تک رہا جب اردو اشعار کے تو قلیل عرصہ میں دیوان کیا پوری کلیات مرتب ہو گئی۔ 1739ء میں غزلیات دیوان کا مرتب ہو گیا مگر مرشد شاہ عبدالرحمن چشتی نے شعر گوئی سے منع کر دیا۔ بقیہ عمر روحانی
کیفیات میں بسر کی۔ اپنی وفات تک ایک نامور صوفی کے طور پر مشہور ہو چکے تھے۔ اشعار کے علاوہ انہوں نے فارسی اساتذہ کے کلام کا انتخاب بھی کیا ” منتخب دیوانہا (1755ء) کے نام ہے۔ اس کے دیباچہ میں انہوں نے اپنے بارے میں بھی کچھ لکھا ہے اس لئے اب یہ ان کے احوال کے لئے ایک اہم حوالہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
ان کی کلیات کی خاصی تعظیم ہے اور اس میں مثنوی غزل "رباعی ، قصیدہ ،مخمسات ترجیح پر مستزاد سب کچھ ملتا ہے۔ عبد القادر سروری کی مرتبہ کلیات (حیدر آباد دکن : 1940ء) ، تقریبا چھ سو صفحات پر مشتمل ہے۔ 1982ء میں دہلی سے اس کا نیا ایڈیشن طبع ہوا۔ اگر مرشد کے کہنے پر شعر گوئی ترک نہ کی ہوتی اور عمر اس شغل میں صرف کی ہوتی تو اشعار کی تعداد کے لحاظ سے میر تقی میر کا مقابلہ کر سکتے تھے لیکن اتنا ہے کہ اردو شاعری کو ایک زندہ شعر دے گئے۔
خیر تحیر عشق من نہ جنوں رہا نہ پری رہی
نہ تو تو رہا نہ تو میں رہا جو رہی سو بے خبری رہی
ایسا شعر صرف دہلی شاعر لکھ سکتا ہے جو ” بے خبری ” کی روحانی واردات کا رمز آشنا ہو یہ بات برائے بیت نہیں
مزید اشعار پیش ہیں۔
تجھے قبا پر ہے نرگسی بوٹا
گویا نرگس کا پھول ابھی ٹوٹا
گر آرزو ہے تجھ کو تالاب کا تماشا
کشتی میں چشم کی آ،دیکھ آب کا تماشا
اس پھول سے چہرے کوں جو کوئی یاد کرے گا
ہر آن میں سو سو چمن ایجاد کرے گا
نہ جنگل میں تسکین دل ہے میسر نہ دریا کوں دیکھےجی کوں خوشی حاصل
میری آہ س سوزاں و اشک رواں میں ہے خشکی کا سیر اور ندی کا تماشا
کبھی جو آہ کے مصرعے کوں یاد کرتا ہوں
خیال قد کو تیرا مستزاد کرتا ہوں