کتاب کا نام: اسالیب نثر اردو
عنوان:سر سید احمد خان حیات وتصانیف
صفحہ نمبر:79تا81
مرتب کردہ ارحم _
سرسید احمد خان حیات و تصانیف
سر سید کا رنگ نہایت سرخ و سفید پیشانی بلند سر بڑا اور مسوڑوں بھویں جدا جدا آنکھیں روشن نہ بہت بڑی نہ چھوٹی ناک نسبتا چھوٹی کان دراز جسم بہت فربہ قد لمبا ہڈی چکلی سینہ چوڑا ہاتھ پاؤں اور تمام اعضاء نہایت قوی اور زبردست وزن ساڑھے تین من تھا بڑھاپے کی وجاہت صاف دلالت ساتھ کرتی تھے کہ جوانی میں بہت خوبصورت ہوں گے ان سے ملنے والے ان کی شکل و صورت سے بہت متاثر تھے دن یارات لکھنے پڑھنے کا کام جوانوں کی طرح بلا تھکان کرتے تھے آخری ایام میں بیمار رہنے لگے تھے اس نے بیٹھنے میں دشواری پیش انے لگی تھی نسیان بھی بڑھ گیا تھا مراق گھٹ گئی تھی تاہم اپنے کام میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے سرسید کہیے سراپہ مولانا حالی نے حیات جاوید میں بیان کیا ہے ان کی کام کرنے کی دھن کا یہ عالم تھا کہ ان کے خیالات سے سخت اختلاف رکھنے والے اکبر الہبادی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے تھے ہماری باتیں کی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا نہ پوچھو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں سید احمد خان کے علمی ادبی مذہبی سیاسی اور قومی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے انہوں نے اس خطے کے مسلمانوں کی بہتری کے لیے خوش آئندہ مستقبل کے لیے باقاعدہ تحریک چلائی اور مسلمانوں کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیمی میدان میں تیار کیا ان کی تعلیمی خدمات کا منہ بولتا ثبوت آج بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی صورت میں جیتا جاگتا موجود ہے جس کے ایک گوشہ میں سر سید بھی اسودہ خاک ہیں ان کی خدمات کا جائزہ لینے سے بشتر آئیے ایک نظر اس عظیم شخصیت کی سوانح پر ڈالتے ہیں۔
حیات سر سید احمد خان نام سر خطاب تھا 17 اکتوبر 1817 کو دہلی میں پیدا ہوئے ان قاسم امام نام امام محمد تقی علیہ السلام تک پہنچتا ہے اس لیے وہ تقوی سید کہلاتے تھے سر سید کے بزرگ شاہجہاں کے عہد میں ہندوستان ائے اور ان کا تعلق ہمیشہ دربار سے رہا ان کا گھر انا علم الفاضل رشد و ہدایت اور حسب نسب کے لحاظ سے ہمیشہ ممتاز رہا سر سید فارسی کے شاعر تھے اور سر سید کے قول کے مطابق ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا دیوان سر سید کے پاس موجود تھا جو جنگ ازادی کے ہنگاموں میں تلف ہو گیا سر سید کے والد سید متقی کی بھی مغلیہ دربار میں بڑی رسائی تھی مولانا حالی نے حیات جاوید میں سبزید کے حوالے سے لکھا کہ سر سید کہتے تھے میں بارہا اپنے والد کے ساتھ اور پھر تنہا بھی اس خاص دربار میں گیا ہوں سسیت کے ننیال کا تعلق میر درد کے خاندان سے تھا ان کے نانا خواجہ فرید الدین احمد خواجہ محمد یوسف امدانی کی اولاد میں سے تھے غرض دھدیال اور ننھیال دونوں طرف سے سردیت نجیب طرفین اور خاندانی تھے اس دور کے رواج کے مطابق سرسید کی تعلیم گھر پر اس کے علاوہ انہوں نے علم و تب کی بھی تحصیل کی اپنے ماموں نواب زین العابدین سے ریاضی بھی پڑی خاندانی رواج کے مطابق انہیں دربار سے وابستہ ہونا چاہیے تھا مگر انہوں نے دربار سے وابستگی پر ملازمت کو ترجیح دے انہوں نے 1838 میں سرکاری ملازمت کا اغاز دہلی میں سر رشتہ دار کے ملازمت سے کیا 1839 میں نائب میر منشی ہو گئے 1820 میں انہوں نے منصف کا امتحان پاس کر لیا اور منصف بن گئے 1864 سے 1854 تک دلی میں صدر امین کے عہدے پر فائرز رہے 1856 میں تبدیلی ہو کر بجنور چلے گئے1857 میں جنگ ازادی کے ہنگامے کے دوران میں مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور مغلیہ سلطنت کے سوال سے دل برداشتہ ہو کر ترقی وطن کر کے مصر جانے کا ارادہ کر لیا تھا مگر جلد ہی مسلمانوں کو اس حال میں چھوڑ کر خود گوشہ عافیت میں پناہ ڈھونڈنے کے ارادے کو بدل کر قوم کی رہنمائی کے لیے ہندوستان میں رہ کر قومی خدمات انجام دینے کا عزم کر 1858 میں صدر الصدر کے عہدے پر ترقی پا کر مراد اباد چلے گئے
1861 میں ان کی بیوی کا انتقال ہو گیا سر سید احمد خان سید محمود اور ایک کمسن بیٹی کی پرورش کی ذمہ داری اب تن تنہا سر سید کے کندھوں پر ا پڑی جن کی عمر اس وقت صرف 44 برس تھی
چنانچہ اس ذمہ داری کو بھی انہوں نے احسن طریقے سے پورا کیا اور بقیہ تمام زندگی تجرد میں گزاری اور دوسری شادی نہ کی مئی 1862 میں وہ غازی پور تبدیل ہو گئے یہ سالن کی زندگی کا اہم سال ہے اسی سال انہوں نے سائنٹیفک سوسائٹی قائم کی جب ان کا الگ گھر تبادلہ ہو گیا تو سائنٹیفک سوسائٹی کا وقت اور عملہ بھی ساتھ لے گئے اسی سال لندن کی سوسائٹی کے رکن منتخب کیے گئے اگست 1867 میں ان کی ترقی بطور جج ہو گئی اور وہ علی گڑھ سے بنارس چلے گئے اپریل میں رخصت لے کر 1869 میں رخصت ہو کر انگلستان کا سفر کیا اس سفر میں جہاں انہوں نے گلستان کے علوم و فنون کے مراکز کا مطالعاتیں دورہ کیا وہاں اپنی ناز تصنیف خطبات احمدیہ بھی ترتیب دے کر شائع کی یہاں انہوں نے گلستان کے معروف سوشل ریفارمر مجلوں کے طرز پر تہذیب اور اخلاق کے اجرا کا فیصلہ بھی کیا لندن میں سر سید کو ایس ائی کا خطاب تحفہ بھی کیا گیا اور ملک برطانیہ کی دعوت میں شرکت اور یہاں انہیں ان سے ملاقات کا موقع بھی ملا سر سید نے علی گڑھ میں قومی خدمات کی انجام دہی میں گزارش ان کی قومی خدمات کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وفا سے صرف اٹھ روز بیشتر اپنے ہاتھ سے حکومت وقت کو خط لکھے جن میں اردو رسم الخط کی حمایت اور یوناگری کی پرزور مخالفت کی 22 مارچ 1898 کو مرض الموت میں مبتلا ہوئے چار دن کی علالت کے بعد بالاخر 27 مارچ 1898 کو جان جان افرین کے سپردگی اگلے دن بنگلو اور نیشنل کالج علی گڑھ کی مسجد کے پہلو میں دفن ہوئے اور اس طرح اور دو ادب کا یہ ستارہ اپنی تابانی دکھا کر ڈوب گیا
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں