سندھ میں اردو

سندھ میں اردو کارومنڈل، مالابار اور جنوبی ہند کے بعض دوسرے ساحلی علاقوں میں مسلمانوں کی آمد ورفت سے قطع نظر، سب سے پہلے مسلمان بڑی تعداد میں محمد بن قاسم کی قیادت میں شمال مغرب کے بحری راستے سے ہندوستان میں داخل ہوئے اور 711ء میں سندھ کو فتح کر کے اسے اسلامی حکومت کا ایک صوبہ بنا لیا۔ یہ مسلمان عرب تھے اور جو زبان بولتے ہوئے وہ یہاں آئے تھے وہ عربی تھی ۔ چند وجوہات کے باعث وہ پورے ملک میں نہ پھیل سکے اور تقریباً تین سو سال تک وادی سندھ ہی میں مقیم رہے۔ اس طویل عرصے کے دوران عربوں اور مقامی باشندوں کے درمیان میل جول اور سماجی روابط بڑھتے رہے، یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی (1884-1953) اپنی تصنیف نقوش سلیمانی (اعظم گڑھ 1939) میں اردو کی جائے پیدائش سندھ قرار دیتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں : (ترمیم شدہ)”مسلمان ہندوستان میں سب پہلے سندھ میں اترے، اس لئے قیاس کی جاسکتی ہے کہ جس زبان کو آج اردو کہتے ہیں اس کا ہیولی سندھ میں ہی تیار ہوا ہو گا ۔” اگر خالص علمی اور لسانیاتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اس بیان میں ذرا بھی صداقت نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں نے سندھ کی تہذیب و معاشرت کے علاوہ وہاں کی زبان کو بھی متاثر کیا، لیکن وہ زبان اردو نہ تھی، بلکہ وہ اس زبان کی قدیم شکل تھی جو آج سندھی کہلاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سندھی زبان میں ہمیں عربی کے بے شمار الفاظ ملتے ہیں۔ اس زبان پر عربی کا اثر یہیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس نے عربی زبان کے رسم الخط کو بھی اپنا لیا۔ علمی اعتبار سے ہم بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ عربوں نے وادی سندھ میں اپنے قیام کے دوران کسی نئی زبان کو جنم نہیں دیا ، ہاں اس خطہ ارض میں بولی جانے والی زبان کو متاثر ضرور کیا۔

حوالہ جات:تاریخ ادب اردو ،محمد سہیل بھٹی سید سلیمان ندوی، نقوش سلیمانی (اعظم گڑھ: دارالمصنفین ، 1939 ء ) ص 31۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

1 خیال ”سندھ میں اردو“ پر

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں