افسانہ : فحاشی اور ہمارا سماج | Short Story: Obscenity and Our Society
مصنف طــاہــــــر قــــرار
شکیلہ جلدی سے اٹھو، گھر کے صفاٸی کرنی ہے کچھ ہی دیر میں مہمان آنے والے ہے سو طرح کے کام پڑے ہیں اور میں اکیلے یہ سب کچھ نہیں کرسکتی۔
شکیلہ انتہاٸی دل جمی سے اٹھ گٸی۔ اس کو پتہ تھا۔ کہ اس سے پہلے بھی کٸی رشتے آٸے تھے اور سبھی انکار کرکے چلے گٸے تھے۔ بدکردار اور فحاش عورت سے بلا کون بیاہ کرےگا؟؟ لیکن شکیلہ نے امی کی بات مان لی پہلے گھر کی صفاٸی کی صفاٸی سے فارغ ہوکر اپنے چھوٹے بھاٸی کو بھی نہلا دھلا کر تیار کیا اس کے بعد خود بھی دلہن کی طرح سج گٸی گویا کہ جیسے آج عید کا دن ہو۔شکیلہ کی ماں کو بہت زیادہ خوشی تھی کیونکہ اس مرتبہ اس نے شکیلہ کے رشتے کے لیے خدا سے خوب دعائیں مانگی تھی، پر اس بیچاری کو کیا معلوم کہ آج بھی وہی ہونے والا ہے جو پہلے سے ہوتا آرہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ پرامید تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ بیٹی کے ساتھ انتہائی مستعدی کے ساتھ گھر کی سجاوٹ میں مصروف تھی۔
اچانک دروازے پر دستک ہوئی شکیلہ کی ماں کے اوسان خطا ہو گٸے گویا کوٸی اچانک حادثہ ہوجاۓ۔شکیلہ شرمائی اور کمرے کی طرف بھاگی، ماں نے دروازہ کھولا اور مہمانوں کو خوش آمدید کہہ کر انتہائی عزت افزائی کے ساتھ گھر کے اندر لے گئی ۔مہمانوں کے بیٹھنے کے بعد شکیلہ کی ماں ان کی خیریت دریافت کرنے لگی کچھ دیر رسمی گفتگو کرنے کے بعد شکیلہ کی ماں نے شکیلہ کو آواز دی وہ شرماتی ہوئی چائے کا ٹرے ہاتھ میں لیے مہمانوں کے سامنے آئی، سلام کیا اور سب کو چائے دے کر خود بھی بیٹھ گئی، دیر تک مہمان اس سے باتیں کرتے رہے اس سے اس کی روزمرہ زندگی اور مشاغل کے بارے میں پوچھتے رہے باتوں کے ساتھ چائے کی چسکیوں کا سلسلہ دیر تک جاری رہا آخر میں مہمانوں نے یہ کہہ کر شکیلہ کی ماں سے واپس جانے کی اجازت لی کہ ہم کچھ دنوں میں آپ کو جواب دے دیں گے۔ مہمانوں کو رخصت کرنے کے بعد ماں نے شکیلہ کا ماتھا چوم کر امید بھرے لہجے میں کہا ” اس بار بات بنے گی ان شإاللہ "۔لیکن شکیلہ مطمئن نہیں تھی اس کے چہرے پر وہی مایوسی اور افسردگی تھی۔
دو دن بعد ایک شام کو شکیلا کے چھوٹے بھاٸی نے گھر آکر امی کو بتایا کہ وہ آدمی جو پرسوں شکیلہ کا ہاتھ مانگنے اپنی فیملی کے ساتھ ہمارے گھر آیا تھا وہ آج خان صاحب کے بڑے بیٹے کے پاس بیھٹا تھا وہ دونوں آپا سے متعلق بات کر رہے تھے۔
خان صاحب کے بیٹے نے اس کو کہا ” جمشید تو پاگل ہوگیا ہے کیا؟ دنیا میں یہی لڑکی تمہیں نظر آئی؟ ارے اس لڑکی کے متعلق گاوں میں طرح طرح کی باتیں مشہور ہے یہ کردار کی ڈھیلی معلوم ہوتی ہے تم خود سوچو باپ اس کا بوڑھا اور معذور ہے کوئی بڑا بھائی ہے نہیں جو کما کر لائے پھر ان کے گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہوں گے؟ ” اس کے بعد خان کے بیٹے نے شکیلا سے متعلق جو کہا وہ سن کر ماں کی پیروں سے زمین نکل گئی اس نے سر سے چادر گرا کر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائی اور کرب ناک لہجے میں کہنے لگی
” یا پرورگار تم ہم لاچار اور غریب لوگوں کو تم جانتے ہو اور صرف تم ہی ہمارا آسرا ہو اے میرے رب ان لوگوں کو تباہ و برباد کردے جس نے میری پاک دامن بیٹی کے کردار پر سوال اٹھایا "
نا تو شکیلہ پیدایشی بدکردار تھی اور نا فحاش، یہی لوگ تھے جنہونے اسے ایک بدکردار عورت بنا دیا تھا۔ چونکہ وہ خان کے گھر میں رہتے تھے اس لیے شکیلہ نے سوچا کہ اگر وہ خان کے بیٹے کی بات ٹال دے تو وہ انھیں گھر سے نکال دیں گے شکیلہ نے سوچا پھر ہم کدھر جائیں گے ہماری مجبوری سے یہ لوگ فاٸدہ اٹھا رہے ہیں ہمارا استحصال ہورہا ہے ۔ایک دفعہ خان کی بات نا مانی تو خان صاحب نے جرگہ بلایا اور مسجد کے مولوی کو کہا کہ گاٶں میں بدکرداری اب ختم کرنی چاہۓ۔تو مولوی صاحب ہمارے گھر آۓ اور کہا کہ خان صاحب بتا رہے تھے کہ شکیلہ کی ماں کو صاف صاف کہو کہ یا تو میری بات مانے یا پھر گھر خالی کرے مولوی نے یہ بھی بتایا کہ خان صاحب کی بھی بات مان لیا کرے اور کبھی کبھی میری بھی خان میری بات نہیں ٹال سکتے۔
صبح کاوقت تھا ۔ دروازے پر دستک ہوئی مولوی صاحب بتا رہےتھےکہ خان شکیلہ کو بلا رہا ہے مہمان آنے والے ہے اس کے لیے چاۓ وغیرہ کا بندوبست کرنا ہے۔ خیر مولوی چلا گیا شکیلہ تھوڑی دیر بعد برقعہ پہن کر خان کے حجرے کی طرف چل پڑی۔تقریباً بیس تیس منٹ بعد شکیلہ کا بھاٸی دوڑتے ہوۓ ماں کے پاس آیا اور کہا کہ امی امی آپا کو خان صاحب اور بڑے مسجد کے مولوی صاحب نے اکیلے حجرے میں رکھا ہےمیں نے دروازے کے سوراخ سے دیکھ لیا پہلے خان صاحب کمرے میں داخل ہوا ۔پھر خان کے بعد مولوی صاحب داخل ہوا۔ مولوی بیس منٹ بعد نکل آیا اور ساتھ میری آپا بھی تھی شکیلہ کے بھائی نے ابھی بات ختم ہی کی تھی کہ شکیلہ گھر میں داخل ہوئی اور روتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چل پڑی
۔