سخت سردی کا موسم ،چاروں طرف دھوٸیں کی لپیٹ میں احسن اپنے دونوں ہاتھ اپنی بادامی آنکھوں پر رکھ کر کانپتا ہوا دکھاٸی دیا۔اس کی آنکھوں سے شدید پانی بہہ رہا تھا۔اس نے دھوٸیں سے نکلنے کی بھرپور کوشش کی مگر بے اختیار رہا اور علی کو آواز دی۔
احسن۔ علی دوست جلدی آٶ میری آنکھوں میں دھواں چلا گیا ہے جس کی وجہ سے آنکھوں سے پانی بہہ رہا ہے ۔آپ میری مدد کریں مجھے اس دھوٸیں سے باہر نکالیں ۔ علی۔ اچھا احسن میں آ رہا ہوں آپ پریشان نہ ہوں۔
اتنے میں علی احسن کو دھوٸیں سے نکالنے کے لیے دوڑا اس کو دھوٸیں سے نکال کر باہر لایا ۔احسن کی عمر بارہ سال تھی وہ ہمیشہ اپنے ہم عمر دوستوں کے ساتھ کھیلتا تھا۔احسن اور ثریا دو بہن بھاٸی تھے ۔
والدین نے تمام امیدیں احسن کے ساتھ وابستہ کی ہوٸیں تھیں ۔ احسن جب گھر آیا تو اس کی حالت دیکھ کر ثریا نے اس سے پوچھا کہ احسن آپ نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے۔ احسن۔کچھ نہیں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا سردی بہت زیادہ تھی عدیل نے باہر کوڑا کرکٹ اکٹھا کر کے آگ جلاٸی تاکہ ہم آگ سلگ سکیں ۔
ثریا۔ وہ بات تو ٹھیک ہے مگر آگ ایک خطرناک کھیل ہے آپ اس سے دور ہی رہیں تو بہتر ہو گا ورنہ اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ احسن۔ لیکن عدیل تو ہر وقت اسی کھیل میں مگن رہتا ہے اور اس کھیل میں ہمیں بھی ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہے ۔ہم سب دوست جب مل کر کھیلتے ہیں تو ہمیں بہت مزا آتا ہے۔ ثریا۔ ضروری تو نہیں ہے کہ صرف آگ سے ہی کھیلا جاۓ۔ احسن۔ اچھا باجی میں اب احتیاط کروں گا۔ ثریا۔ ٹھیک ہے۔
احسن ،علی،عدیل،رمضان اور اشفاق ایک دوسرے کے گہرے دوست تھے کھیل میں اس قدر مگن رہتے تھے کہ صبح نکلتے تو شام کو گھر آتے تھے ثریا اور اس کے بوڑھے والدین احسن کی ان حرکات سے بہت تنگ آگۓ تھے ہر روز اس کی یہی حالت ہوتی تھی احسن کو روکنے کے باوجود بھی وہ کسی کی نہیں سنتا تھا۔ احسن کے ماں باپ چاہتے تھے کہ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ کر ہمارا سہارا بنے گااور ہمارے برے حالات بالکل ختم ہو جاٸیں گےہم ایک خوشحال زندگی بسر کریں گے۔
مگر احسن پر اس طرح کے آثار نظر نہیں آرہے تھے۔وہ سکول کا کام تو کرتا لیکن فقط والدین کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کے لیے تاکہ وہ سمجھیں کہ میں سکول کا کام کر رہا ہوں۔ایک دن ثریا نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے آج سکول کا کام کیا ہے؟تو احسن نے کہا ہاں بالکل کیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس تھی ۔ثریا نے کہا چلو اچھی بات ہے۔ بہت دنوں بعد معمول کے مطابق احسن گھر سے کھیلنے کی غرض سے نکلا اور اپنے دوستوں کے پاس جا پہنچا ۔
دسمبر کی سخت سردی تھی ہر طرف دھند ہی دھند نظر آ رہی تھی اس دھند میں دوسرے آدمی کا ہاتھ تک دکھاٸی نہیں دیتا تھا ۔عدیل کے ہاتھ میں ماچس تھی اس نے سب دوستوں کو ساتھ لیا اور محلے کی دوسری گلی کی طرف چل دیے۔ ان سب کو سامنے رحمان بابا جانوروں کو چارہ ڈالتے ہوۓ نظر آیا تو سب اک دم خاموش ہوگۓ۔ رحمان بابا نے ان سب کو اپنی طرف بلایا تو سب خاموشی سے اس کے سامنے آ کر کھڑے ہو گۓ ۔
سب دوستوں کو ڈر تھا کہ رحمان بابا ہم سے برے انداز سے پیش آۓ گا کیونکہ جب ہم شرلیاں اور پٹاخوں سے کھیلتے تھے تو رحمان بابا کے جانور ڈر کے مارے ادھر ادھر دوڑنا شروع کر دیتے تھے اس کی وجہ سے رحمان بابا بہت پریشان دکھاٸی دیتا تھا سب بچوں کے چہرے پر خوف طاری تھا۔رحمان بابا نے عدیل سے پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ عدیل۔کچھ نہیں بابا بس کھیلنے جا رہے ہیں اور کہاں جانا ہم نے۔ رحمان بابا۔ میں آپ سب سے تنگ آ چکا ہوں آپ ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتے۔
عدیل۔ بابا اب ہم نے کیا کیا ہے؟ رحمان بابا۔ ابھی بھی پوچھتے ہو کہ ہم نے کیاکیا ہے ٹھہر تجھے بتاتاہوں۔ رحمان بابا غصے کی حالت میں ہاتھ میں لاٹھی لیے ان کے پیچھے دوڑ پڑا اور زور زور سے کہنے لگا کہ ابھی تک تو آپ نے کچھ بھی نہیں کیا آپ لوگوں نے ہمارا جینا حرام کر دیا ہےپھر پوچھتا ہے کہ اب ہم نے کیا کیا ہے؟سب دوست رحمان بابا سے اپنی جان بچا کر بھاگ نکلے ان سب کے ہاتھ سخت سردی کی وجہ سے بہت ٹھنڈے ہو چکے تھے
عدیل نے سوچا کہ کیوں نہ ہم کچھ گھاس پھوس اکٹھا کر کے آگ جلا کر گراپنے ہاتھ گرم کر لیں۔ سب دوستوں نے کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنا شروع کر دیا اور آگ جلا کر ایک ساتھ بیٹھ گۓ اور ایک دوسرے سے باتوں میں مگن ہوگۓ۔اتنے میں احسن بولا۔ احسن۔عدیل دیکھو محلے واے ہم سے کتنا تنگ آ چکے ہیں کیوں نہ ہم اس کھیل کو چھوڑ دیں یہ تو بہت ہی خطرناک کھیل ہے۔
عدیل ذرا مسکرایا اور بولا ارے پاگل جو مزا اس کھیل میں ہے کسی اور کھیل میں کہاں ہے تو آج کیسی باتیں کر رہا ہے ؟ احسن۔یار مزا تو ہے لیکن یہ بہت خطرناک کھیل ہے میری باجی مجھے روکتی ہے کہ آپ ایسا کھیل کبھی نہ کھیلا کریں ۔ عدیل۔چھوڑ یار گھر والے تو پھر روکتے ہی رہتے ہیں پھر ہم گھر والوں کی بات کہاں مانتے ہیں ۔ احسن۔اچھا آپ غصہ کیوں ہو رہے ہو؟ عدیل۔یار تونے بات ہی ایسی کی ہے تو پھر غصہ تو آنا ہی تھا ۔ احسن۔ اچھا چل چھوڑ۔
احسن رات بہت دیر سے گھر آیا گھر والے بہت پریشان تھے کہ پتہ نہیں احسن کہاں ہے احسن کی ماں نے غصہ کی حالت میں اسے ایک تھپڑ رسید کیا تو وہ رونے لگا ۔ثریا نے اس کو چپ کروایا کھانا وانا کھلایا اور سلا دیا ۔باپ نے ڈانٹا کہ اس نے بہت برے دوستوں کی صحبت اختیار کر لی ہے کیا یہ وقت ہے اس کے گھر آنے کا۔ثریا نے کہا اچھا بابا چھوڑیں سب بچے تھے کھلتے رہے ہوں گے۔ چند روز کے لیے احسن پر پابندی لگا دی گٸ کہ یہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا ۔احسن گھر سے نکلنے کی بہت کوشش کرتا لیکن سب کوششیں بے کار رہ جاتی تھیں ۔
ایک دن وہ کسی ذریعے سے باہر نکل گیا اور اپنے دوستوں سے جا ملا ۔سب دوست ایک جگہ بیٹھ گۓ اور حال احوال پوچھنے لگے۔ عدیل۔ احسن یار تو اتنے دن کہاں غاٸب رہا ہے؟بالکل نظر ہی نہیں آیا۔ احسن۔یار پچھلی دفعہ جب میں گھر لیٹ سے گیا تھا تو امی اور ابو نے بہت ڈانٹا بھی اور تھپڑ بھی لگاۓ وہ مجھے گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتے تھے۔ عدیل۔اوہ اچھا کوٸی بات نہیں۔
احسن کے والدین بہت پریشان تھے انھوں نے بہت تلاش کیا مگر نہیں ملا۔اچانک ثریا کے ہاتھ سے دودھ کا گلاس زمین پر گرا تو ماں نے اس کی طرف دیکھا اور کہا کہ دودھ کا زمین پر گرنااچھا تصور نہیں کیا جاتا اے اللہ ہر طرف سے خیر کی خبر سنا میرا دل بہت گھبرا رہا ہے۔ ثریا ۔امی یہ آپ کیا کہہ رہے ہو؟ ماں۔بیٹا دودھ کا زمین پر گرنا خیر کی علامت نہیں ہوتی۔ ثریا۔اللہ خیر کرے گا آپ پریشان نہ ہوں ۔
ادھر سب دوست آگ لگانے کی غرض سے گھاس پھوس اکٹھا کرنے لگے سب دوست سردی سے بری طرح متاثر ہو رہے تھے احسن نے عدیل کی طرف دیکھا اور کہا۔ احسن ۔ہر دفعہ تم ہی آگ جلاتے ہو اس دفعہ میں آگ جلاٶں گا ۔ عدیل۔اگر آپ کہتے ہو تو ٹھیک ہے ۔ احسن نے عدیل سے ماچس لی اس سے ایک تیلی نکالی اسے ماچس سے جلا کر کوڑاکرکٹ میں پھینک دیا آہستہ آہستہ آگ تیز ہونے لگی سب دوست آگ کے قریب قریب ہو کر بیٹھے تھے
کہ اچانک آگ کے شعلے نے اشفاق کے دامن کو چھو لیا سب شور مچانے لگے کہ یہ کیا ہو گیا ہے ان کی آواز کو سنا تو باہر آکر دیکھا تو برتنوں میں پانی بھرنے کے لیے دوڑنے لگے اشفاق بری طرح جل چکا تھا جب لوگ پانی لے کر پہنچے تو اشفاق کی چند سانسیں چل رہی تھیں لوگوں نےپانی کے ذریعے آگ کو بجھایا اشفاق زمین پر پڑا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا ۔
اشفاق کے گھر والوں کو پتہ چلا تو سب دوڑتے ہوۓ اس کے پاس پہنچے مگر ان کے بس میں اب کچھ نہ تھا ۔اشفاق کی چند سانسوں کے نکلنے کے بعد اس کی سانسیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گٸیں ۔لوگوں نے عدیل اور اس کے دوستوں کو ساتھ لیا اور احسن کے گھر آگۓ عدیل نے ساراواقعہ سنایا کہ اشفاق کی موت کیسے واقع ہوٸی۔اس کی موت کا ذمہ دار آپ کا بیٹا احسن ہے ۔ہم آپ کو کبھی معاف نہیں کریں گے ۔
احسن کے گھر میں ماتم برپا ہوگیا کہ اچانک یہ کیا ہوگیا ہے۔ماں باپ کے بڑھاپے کا سہارا احسن خوف زدہ دوسروں کی طرف دیکھتا رہا بوڑھے ماں باپ کے خواب ادھورے رہ گۓ سب لوگ احسن کو پکڑ کر قاضی کے پاس لے کر چلے گۓ ۔ثریا اپنے ماں باپ کے گلے لگ کر زاروقطار رونے لگی اور اس کی لمبی عمر کی دعاٸیں کرنے لگی۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں