کتاب کا نام۔۔۔۔ اسالیب نثر اردو
کوڈ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔5609
موضوع : شبلی کی نثر میں شعریت
صفحہ نمبر : 110 تا 113
مرتب کردہ۔۔۔ سمیہ
شبلی کی نثر میں شعریت
ہے۔ ان کی نثر میں ایجاز کی تکمیل کا ایک ذریعہ روز مرہ محاورہ کا استعمال ہے۔ محاورہ ان کی عبارت میں چستی اور چمک پیدا کرتا ہے۔ مگر وہ جوش کی حالت میں مبالغہ واطناب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ مثلا شعر انجم کی یہ عبارت ملاحظہ ہو : شاعری سے اگر صرف خاص مقصود ہو تو مبالغہ کام آسکتا ہے لیکن وہ شاعری جو ایک طاقت ہے جو قوموں کو زیرو زیر کر سکتی ہے جو ملک میں ہلچل ڈال سکتی ہے جس سے عرب قبائل میں آگ لگا دیتے تھے جس سے توجہ کے وقت درودیوار کے آنسو نکل پڑتے تھے، وہ واقعیت اور اصلیت سے خالی ہو کر تو کچھ کام نہیں کر سکتی ۔اس بیان میں جو اطناب ہے، وہ واضح ہے۔ مصنف کا مقصد اسی قدر ہے کہ شاعری میں واقعیت اور اصلیت ہونی چاہیے، ورنہ وہ بے کار ہے۔ مگر طبعیت کی طبعی جوش پسندی اور مقصد کے اعتبار سے دانستہ جوش انگیزی نے مصنف کے طریق اظہار کو معمولی سے زیادہ طویل بنا دیا ہے۔
شبلی کی نثر میں شعریت
مولانا شبلی کی تاریخی اور تنقیدی تصانیف کے غائر مطالعے سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر مولانا شبلی کسی دوسرے ماحول یا کسی دوسرے زمانے میں اس دل و دماغ کے ساتھ پیدا ہوتے تو شاید اردو یا فارسی کے بہت بڑے شاعر ہوتے۔ ان کے نفس اور فطرت کی بیشتر خصوصیات وہ ہیں جو کسی میر تقی میر کسی فغانی یا کسی غالب کی ہو سکتی ہیں۔ شدید احساس زبردست شاعرانہ تخیل اور غزل گو شعروں کی کی جال پسندی ( جو شدید اور فوری تاثر کالازمی نتیجہ ہے ) ان کے تماش ذہنی کے عناصر ترکیبی ہیں ۔ مگرا کی تعلیم تربیت اور ان کے ماحول اور عصر کے اثرات اور تقاضوں نے انھیں نثر نگاری پر مجبور کیا اور نثر میں بھی انھوں نے تاریخ فلسفہ کو اپنا موضوع بنایا۔ بایں ہمہ اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کی نثری تحریروں میں ایک شاعر کی صریر خامہ سنائی دیتی ہے۔ ان کی نثر کی تاثیر کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ وہ نثر میں (جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ) شاعرانہ ذرائع اور وسائل سے کام لیتے ہیں۔ ان کی نظر میں تخیل کا عصر نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے استعارے اور کنایے، شاعرانہ الفاظ ، جذبات انگیز تراکیب اور تصویر دار جملے اور فقرے بیشتر اس قسم کے ہیں جو نٹر سے کہیں زیادہ شاعری کی دنیا سے مخصوص ہیں ۔ مولانا شبلی استعارہ سے جو کام لیتے ہیں ، اس کا تذکرہ سطور بالا میں ہو چکا ہے۔ ان کی تصانیف میں تخیل کو ابھار نے والے جذ بہ انگیز لفظوں اور حسین ترکیبوں میں جو شان ہے، وہ شاید اردو کے کسی اور مصنف کی تصانیف میں نہ ہوگی ۔ یہ لفظ انھوں نے فارسی شاعری کی حسین و دلکش قلمرو سے حاصل کیے ہیں۔ یہ ایسے الفاظ ہیں جو ان ہی کے بقول فارسی شاعر کیجان ہیں۔ ان کی نثر میں شعرائے فاری کے کلام کا جو ہر اور اس کی روح موجود ہے۔ انتخاب الفاظ اور تراکیب کے اعتبار سے شعر انجم یا بعض مقالات کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ گویا ان کی نثر متاخرین شعراء نے فارسی کے دواوین کا عکس ہے۔ لطیف، خوش آواز ، شیریں ، سبک ، جذ بہ انگیز اور حسین ترکیبیں، جوانی و شباب عشق و بے خودی، شراب و مستی، بہار اور گل و گلزار کی دنیا سے حاصل کیے ہوئے استعارے اور کنایے جب شبلی کی تصانیف میں سلیقہ مندی اور خوش مذاقی سے اپنی بہار آخریں اور حسن خیز کیفیتوں کے ساتھ نظر افروز اور خیال انگیز ہوتے ہیں تو قاری کا دماغ تصورات کی خیال انگیز اور حسین دنیا میں جا پہنچتا ہے ۔ ” شعر النجم ” کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو: یہ یقینی بات ہے کہ ملک کی آب و ہوا، سرسبزی کا اثر خیالات پر پڑتا ہے اور اس ذریعے سے انشا پردازی اور شاعری تک پہنچتا ہے۔ عرب جاہلیت کا کلام دیکھو تو پہاڑہ، صحرا، جنگل، بیابان، دشوار گذار راستے ، مٹے ہوئے کھنڈر، بولوں کے جھنڈ ، پہاڑی جھاڑیاں یہ چیزیں ان کی شاعری کا سرمایہ ہیں۔ لیکن یہی عرب جب بغداد میں پہنچے تو ان کا کلام چمنستان اور سیستان بن گیا۔ ایران ایک قدرتی چمن زار ہے۔ ملک پھولوں سے بھرا پڑا ہے۔ قدم قدم پر آب رواں، سبزہ زار اور آبشاریں ہیں۔ بہار آئ اور سرزمین تخت مردی بن گیا سحر کے جھو کے خوشبو کی پٹ ہنزہ کی لیک بالوں کی چک، طاؤس کی جھنکار آبشاروں کا شور وہ سماں ہے جو ایران کے سوا کہیں اور نظر نہیں آسکتا ۔” (شعر الحجم، ج ۴ ہیں (۱۸۴)
کتنی حسین اور دلکش تصویر ہے، کتنے دل آویز الفاظ اور خوش آواز ترکیبیں ہیں۔ سوا اس کے کہ عروضی وزن موجود ہیں۔ باقی تمام باتیں اس میں ایسی ہیں جو شاعری سے مخصوص ہیں۔ مولانا آزاد بھی نشر میں شاعری کا یہ انداز اختیار کرتے ہیں۔ مگر ان کے ہاں جزئیات کی تفصیل اور کثرت ہوتی ہے۔ مولانا شبلی کی نثر شاعری کا رنگ حسین تر ہے۔ اس سے ان کی نشر میں دلکشی اور دلاویزی کا بڑا سامان پیدا ہو گیا ہے۔ ہم اس کو پڑھ کر بے حد محظوظ ہوتے ہیں اور تادیر ہمارا خیال گل زمین ایران کی خیالی وادیوں میں گل گشت کرتا رہتا ہے اور اس کی حسین فضا سے خیالی مسرت حاصل کرتا رہتا ہے۔ حالانکہ اس بیان میں اکثر باتیں ( ہر چند کہ شاعرانہ صداقت کی رو سے درست بھی ہوں گی ) حقیقت خارجی کے خلاف ہیں۔ نہ ایران ایک قدرتی چمن زار ہے نہ ملک پھولوں سے بھرا پڑا ہے نہ قدم قدم پر آب رواں ہے اور نہ یہ ایسا سماں ہے جو ایران کے سوا اور کہیں نظر نہیں آتا بایں ہمہ کے انتظار ہو سکتا ہے کہ مولانا شبلی کے شاعرانہ انداز بیان اور خیالی پیرائیہ اظہار کی وجہ سے ایران کی یہ خوبیاں مسلمات میں شمار ہو رہی ہیں اور کوئی تعجب نہیں کہ بعض قارئین راقم کی ان سطور کوبھی منی بر حقیقت خیال نہ کریں۔ حالانکہ میں نے جو کچھ لکھا ہے ایران کے طبعی حالات یہی ہیں۔
شاعرانہ ترکیبوں اور لفظوں کی ایک مختصر فہرست ملاحظہ کیجیے:
غزنین اور سرقلیہ وغیرہ کے شعراء پختہ گو اور سادہ گو ہیں۔ بخلاف اس کے شیراز وغیرہ کے شعراء کا کلام اور لطافت اور نزاکت کے اعتبار سے گو یا عروس و رعنا ہوتا ہے۔( شعر انجم، ج ۴)
یہ عام قاعدہ ہے کہ جب کسی ملک میں تمدن کا جوش شباب پر ہوتا ہے تو ہر قسم کی قو تیں بڑے زور و شور سے ابھرتی ہیں۔ (شعر انجم، ج ۴،
( ۱۷
پانچویں اور چھٹی صدی ہجری میں فاری شاعری کا عہد شباب ہے۔ (شعر النجم – ج ۲ ص ۱۷۸)
لیکن یہ چیزیں اگر مٹ جائیں تو دفعتا سناٹا ہوجائے اور دنیا قالب بے جان ، شراب بے کیف گل بے رنگ اور گوہر ہے آپ ہو کر رہ جائے۔ (شعر الحجم، ج ۴، ص ۸۹)
عرب میں شاعری کا اوج شباب جاہلیت کا زمانہ خیال کیا جاتا ہے۔ (شعر النجم ، ج ۳، ص ۸۶)
ساتویں صدی کا چمن اپنی بلبلوں کے زمزموں سے گونج رہا تھا۔ (شعر النجم ، ج ۳) گھر گھر میں ونشاط کے چرچے تھے اور شیر از باغ ارم بن گیا تھا۔ (شعر انجم، ج ۴)
لیکن افسوس ہے کہ قدسی پیکر کی غرض و غایت لوگوں نے صرف نفس پرستی سمجھی۔ یہ نہ سجھے کہ جنس لطیف چہرہ کائنات کا آب و رنگ ہے۔ (شعر انجم، ج ۴)
"سعدی کی یہ تمام نقش آرائیاں خیال ہی کے مرقع کا عکس ہیں۔
ابونو اس شراب کا جان دادہ ہے (۱) اور فارسی میں خیام دور جام کا ستم زدہ ہے (۲) ان شعروں میں عشقیہ شاعری کی تمام ادائیں ہیں۔
۔ وہی شراب ہے جو دوبارہ کھنچ کر تیز ہوگئی ۔
عالمگیر کے وہی الزامات افسانہ بزم وانجمن ہیں
اس شراب کو اس قدر تیز کر دیا کہ ” حریفان را نہ سر ماندنہ دستار ” آخر سب چھوڑ چھاڑ کر ایک کملی پہن بغداد سے نکلے۔ دشت پیمائی کی ۔۔۔ مدت کے بعد بزم راز تک رسائی پائی ۔۔۔۔۔ مست ہو کر تمام عالم سے بے خبر بن جاتے
لیکن۔
بیاد آر حریفان بادہ پیمارا "پر نظر پڑی ( یہ امام غزالی کا ذکر ہے )
سب یہ ہے کہ یہ کتاب (احیاء العلوم ) جس زمانے میں لکھی گئی خود امام صاحب تاثیر کے نشے میں سرشار تھے۔(الغزالی ص ۶۳)
سلجوقیوں کی حکومت ، انتہائے شباب تک پہنچ گئی۔ ( الغزالی ص۱۲)
شاعرانہ فضا کا اہتمام:
مولا نا شیلی کو شاعرانہ فضا پیدا کرنے کا اتنا خیال رہتا ہے کہ وہ استعارہ و کنایہ اور فارسی شاعری کے دلکش لفظوں اور ترکیبوں کے علاوہ جابجا اشعار ( خصوصاً فارسی کے برمحل اشعار ) لانے کے عادی ہیں۔ نٹر میں گھری عنصر کی وجہ سے جو معمولی سی خشکی پیدا ہو جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لئے وہ فارسی کا کوئی عمدہ شعر ضرور لے آتے ہیں جس سے نثر کا رنگ اور مزا بہت کچھ بدل جاتا ہے .ان کی بہت سی کتا میں اشعار سے شروع ہوتی ہیں اور اشعار پر ختم ہوتی ہیں۔
۔الغزالی کا آغاز :
ما طفل کم سواد و سبق قصہ ہائے دوست
صد بار خوانده و دگر از سر گرفته ایم!!
علم الکلام کا آغاز :
حد حسن تو بادراک نشاید دانست
این سخن نیز باندازه ادراک من است
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں