کتاب کا نام: اسالیب نثر اردو 2
کوڈ: 5609
صفحہ: 106 سے
موضوع: شبلی کا اسلوب بیان
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
شبلی کے اسلوب میں تحمل کا عنصر
شبلی کی نثر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں فکری قوت اور منطقی توانائی کے ساتھ ساتھ لطف اور اثر بھی پایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فکر کے خاکوں میں تخیل کا رنگ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مولا نا شیلی اور مولا نا محمد حسین آزاد دونوں اپنی نثر میں اثر آفرینی کے لیے شاعرانہ وسائل سے کام لیتے ہیں۔ ان دونوں بزرگوں کی تصانیف میں استعارہ و کنایہ کا استعمال بڑی کثرت اور تواتر سے ہے۔ استعارہ دراصل شاعری کی ملکیت ہے۔ مگر بعض نثر نگارنر میں تخیل کے ان معنوی یعنی تشہیہ تمثیل اور استعارہ سے اسی طرح کام لیتے ہیں، جس طرح شاعرانہ گل کاریوں کے لیے ان کا استعمال کرتا ہے۔ شیلی اور آزاد دونوں زبردست تخیل کے مالک ہیں ۔ مگر دونوں کے تخیل کی کار فرمائی اپنی اپنی افتاد طبع کے مطابق ظہور میں آتی ہے۔ چنانچہ ان دونوں بزرگوں کا استعاروں کا مطالعہ خود بخود داس فرق کو واضح کر دیتا ہے۔ شبلی خود شناس ہونے کے علاوہ بے حد ذ کی الحس بھی تھے۔ ان کی طبعیت انتہا پسند تھی اور وہ زندگی کی افراطی حالتوں اور کیفیتوں سے زیادہ متاثر ہوتے تھے۔ اس کا اثر ان کے استعاروں میں بھی نظر آتا ہے۔ جن میں سے بیشتر کی بنیاد مبالغہ پر ہے۔ مبالغہ شعر و شاعری میں جائز بلکہ بعض اوقات مسخن اور پسندیدہ ہوتا ہے مگر نر کے منطقی تانے بانے میں اگر اس کا عمل غیر معتدل ہو جاتا ہے تو نثر کو اس کے اصلی منصب سے یعنی معلومات اور حقائق کے ابلاغ سے بہت دور لے جاتا ہے مگر مولانا کی پر جوش طبیعت اس معاملہ میں مجبور تھی ۔ وہ مبالغے سے طبعتا بیچ نہیں سکتے تھے۔ ان کی زد اور انتہا پسندی ان کے طرزبیاں میں اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کا ذہن اور خیال ایسی تصویروں کا طرز بیان میں عجیب عجیب طریقوں سے ظاہر ہوتی اس کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کا رہن سہن اور خیال ایسی تصویروں کا دلدارہ ہے، جن میں بجلی کی سی سرعت یا رعد کی سی کڑک پائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے محاورے اور استعارے یہ بتاتے ہیں کہ ان کا ذہن زندگی کی نرم اور معتدل کیفیتوں کو دیکھ سکنے پر قادر نہیں۔ ان کے ذہن میں افراط اور تفریظ دونوں کی انتہائی حالتیں سا سکتی ہیں مگر درمیانی کیفیتیں اور صورتیں اور حالتیں ان کے تصور میں نہیں آسکتیں۔ اس کے علاوہ کرک کی سی شدید اور فوری حالت جس میں فوری انقلاب یا وقوع پایا جاتا ہو، ان کے ذہن کو بہت مرغوب ہوتا ہے۔ ان کا تخیل جھٹ پت فوراً سارے عالم پر محیط ہو سکتا ہے۔ یا پھر اتنی ہی تیزی کے ساتھ ایک چشم زدن میں ہمحیر العقول طور پر ایک سوئی کے ناکے میں بھی سما سکتا ہے ۔ ۔تصور کی یہ وسعت اور یہ تنگ دامانی منطق اور واقعات کی دنیا میں تو ممکن نہیں البتہ شاعر کے تخیل کی قلمرو اس سے زیادہ وسیع ہے۔ اس میں اس سے بھی زیادہ لچک ہے۔ وہ بال سے باریک تر اور تلوارسے تیز تر چیزوں کا تصور کر سکتا ہے۔ اس کی دنیا میں غولوں کے دانت اور یا قوت کے جھنڈے ہو سکتے ہیں اور اس کی فضاؤں میں ہر روز ہوا میں اڑتے دکھائی دیتے ہیں اور یا ہڈیوں کی تلاش میں عینک پوش ہو کر محیط زمین پر نظر ڈالتے نظر آتے ہیں۔ مگر کیا ایک مورخ کو اس قدر آزاداڑنے کی اجازت مل سکتی ہے؟ یہ بحث کسی دوسرے موقعے پر آئے گی۔ اس وقت مولانا کے تخیل سے اس پہلو سے ہے۔ جس کا تعلق
ان دریچے سے کبھی سر نکال کر؟تو مذہب کا افق غبار آلود نظر آتا ہے۔“
بھونچال اور بالکل نے جو تصور دلایا ہے۔ اس پر غور کیجیے )
ترک اپنے زور قوت کی وجہ سے تمام عالم پر چھا گئے ۔ ( علم الکلام ص ۵۵)
تمام عالم اور چھا گئے میں مبالغہ ملاحظہ ہو )
غرض ترکوں کا زور پکڑتا تھا کہ علم کلام میں ضعف آگیا۔
خیالات کی آزادی دفعت رک گئی اور عقلی روشنی بالکل ماند پڑ گئی ۔ (علم الکلام)
دفعتا کا نا قابل یقین اچانک پن اور بالکل کی نا قابل تصور وسعت پر نظر رکھیے۔)
اسلام ایک ابر کرم تھا، اور صلح خاک کے ایک ایک چے پر برسا (شعر النجم ، جاجا)
( شاعرانہ اعتبار سے یہ مبالغہ جائز مگر مورخانہ حقیقت نگائی کے منافی )
(ذیل کے فقرات میں فورا! اور دفعتاً کا استعمال اور اس کا نتیجہ دیکھیے )
فورا تمام عالم میں ان کی آواز پھیل جاتی تھی ۔۔۔۔ لیکن خاندان یا مانیہ نے دفعتاً زمین کو آسمان بنا دیا۔
( شعر النجم ص ۵)
۔۔۔۔ اسی وقت حکم دے دیا۔۔۔۔ (شعر العجم بض اجس (۱۹)
۔۔۔ اسی وقت سر اڑا دیا۔۔۔
ان کی تحریروں میں دفعتا اور بالکل کے استعمال کے ساتھ ساتھ اس قسم کے جملے اکثر ملتے ہیں۔
کم از کم پچاس ساٹھ لاکھ آدمی ایک دم سے فنا ہو گئے۔“
رزمیہ مثنویاں ہمیشہ کے لیے معدوم ہو گئیں ۔“
کی اس کی فہرست میں بات اچھی طرح واضح ہوجاتی ہےکہ مولا علی کی بعیت میں جلد متاثر ہونے اور ونے کا کتنا میلان موجود تھا۔ زندگی کی شدید، شوخ، مفرط اور انتہائی حالتوں اور کیفیتوں کے وہ بے حد دلدادہ تھر شوخی طراری ، سبحان اور فوری تاثر ان کے دل و دماغ کا خاصہ اولین معلوم ہوتا ہے۔ ان کا تخیل در اصل اس رجحان
فارسی شاعری کا گھر گھر چر چا پھیل گیا۔
گھر گھر عیش و نشاط کے چرچے تھے۔]
شاعرہ کے خیالات ساری دنیا پر چھا گئے ۔“
شاعری کی زبان بالکل قومی زبان بن گئی تھی
لیکن ہنگامہ تا تار نے دفعتنا وہ سارا دفتر بند کر دیا
اس صوصیت میں ایران تمام دنیا سے بڑھا ابتر کر دیا۔
اس خصوصیت میں ایران تمام دنیا سے بڑھا ہوا ہے۔“