شاعری، فلسفیانہ شاعری اور اقبال
موضوعات کی فہرست
اقبال شعر و ادب اور فلسفیانہ تخلیق و تحقیق کے حوالے سے ایسے منظر میں ہیں جن پر تا حال لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔
ان کے کلام اور فن پر وارث علوی نے کئی صفحات پر مشتمل مضمون میں فلسفیانہ شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال کے نزدیک فلسفہ دماغ کا ہی نہیں، دل کا بھی معاملہ ہے۔ فلسفی میں قلیل دانشِ حاضر کی آگ میں فکر و نظر کے پھول کھلانے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔
فلسفے کی آمیزش اور اقبال کا وژن (شاعری، فلسفیانہ شاعری اور اقبال)
اقبال نے اپنی شاعری میں فلسفیانہ فکر کی آمیزش زندگی کی نئی معنویت پیدا کرنے کے لیے کی ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو بھی اس فکر میں سمویا ہے، ساتھ ہی مشرق و مغرب کے فطری سرچشموں سے بھی استفادہ کیا ہے۔
اسلام جو مکمل ضابطۂ حیات ہے، اس چشمے پر ان کا پختہ یقین ہے کہ یہ پوری کائنات کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں، اقبال دیگر مکاتبِ فکر کا اسلامی نظامِ فکر کی روشنی میں تجزیہ بھی کرتے ہیں۔
ناقدین اور فلسفے کا غلبہ (شاعری، فلسفیانہ شاعری اور اقبال)
اقبال کی شاعری فلسفہ، احساس اور تخیل میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وارث علوی کو اقبال کے ناقدین سے گلہ ہے کہ ان کی تنقیدی تحریروں میں کلامِ اقبال سے زیادہ فلسفہ نظر آتا ہے۔
اقبال کے ناقدین اکثر ادبی نقطۂ نظر کے حامل نہیں تھے۔ انہوں نے اقبال کے افکار کی تاویلات اور تشریحات تو کیں مگر جمالیاتی اور ادبی اصولوں کی روشنی میں کلام کا تجزیہ نہیں کیا۔ اس لیے اقبالیات پر کام کرنے والے ادبی پس منظر رکھنے والے کم ہیں، جب کہ اکثریت کا تعلق فلسفہ اور اسلامیات سے رہا ہے۔
قاری اور اصل اقبال
اس رویے کی وجہ سے قارئین اصل اقبال سے مکمل مستفید نہیں ہو پاتے۔ وہ کبھی فلسفیانہ تصورات اور کبھی تعصبات میں الجھ جاتے ہیں، نتیجتاً سیدھے سادے اشعار کو بھی ناقدین کے بنائے ہوئے تصورات کی روشنی میں پڑھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اقبال ایلیٹ کی طرح نہیں کہ جنہیں پڑھنے کے لیے ان کی تفسیر پر عبور ضروری ہو۔ اقبال کم فہمی کے محتاج نہیں، مگر ناقدین نے ان کے فلسفے پر غیر ضروری توانائی صرف کی اور قاری کو اس کے اسلوب سے دور رکھا۔
فلسفیانہ رنگ کا غلبہ
چونکہ اقبال کا کلام پیچیدہ نہیں، اس لیے ناقدین اور ماہرین نے اسے تختۂ مشق بنایا۔ نتیجتاً جس قدر غیر سنجیدہ اور غیر تحقیقی انداز میں اقبال کے کلام پر لکھا گیا، اس کی مثال ادب میں کم ملتی ہے۔
شاعری کا ہمہ گیر پہلو (شاعری، فلسفیانہ شاعری اور اقبال)
بلاشبہ اقبال کی شاعری میں مشرقی و مغربی پیچیدہ افکار، بصیرت بھرے خیالات اور فلسفہ شامل ہے۔ ان میں سے کئی افکار آج بحث سے خارج ہیں، مگر شاعری کا بڑا حصہ آج بھی ہماری توجہ کا مرکز ہے۔
"جبرائیل اور ابلیس کا مکالمہ” اقبال کی چند بہترین تخلیقات میں سے ہے۔ مختلف کرداروں پر لکھی ان کی نظمیں ڈرامائی انداز رکھتی ہیں۔ بعض میں شاعر اقبال، فلسفی اقبال پر حاوی دکھائی دیتا ہے۔
فنکارانہ طرز اور ناقدین کا ردعمل
اقبال نے کرداروں سے متعلق نظموں میں فنکارانہ طرز اپنایا ہے۔ سیاسی اور انتقادی خیالات کو نظریاتی رنگ دے کر ان کی اہمیت بڑھائی، مگر ناقدین نے خالص شاعرانہ انداز کو بھی فلسفیانہ رنگ دے دیا۔
وارث علوی بتاتے ہیں کہ اقبال کے اشعار میں محبت، انکساری، دانش مندی، بہادری، تجربات، مشاہدات اور صوفیانہ خیالات سب شامل ہیں۔ کچھ خیالات اہم اور کچھ کم اہم ہوتے ہیں، اور کم اہم خیالات شاعری کی عظمت کو کم نہیں کرتے۔
شاعری کا سحر اور اختلاف
جمہوریت، آزادیٔ نسواں یا رقص پر ان کے اشعار خالص شاعرانہ ہیں، فلسفیانہ نہیں۔ شاعر کے خیالات سے اختلاف، شاعری کے سحر اور حسنِ آفرینی کے جمالیاتی پہلو کو مجروح کرتا ہے۔
حوالہ جات
مقالے کا عنوان: وارث علوی بطور نقاد
محقق: ڈاکٹر تحسین فاطمہ
نگران: پروفیسر ڈاکٹر عزیزہ پروین
یونیورسٹی: شعبہ اردو، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد
سال: 2019