شاہ جہان مقبل کی خدمت
اپنی ایک پنجابی تصنیف ” جنگ نامہ کے حوالے سے حافظ شاہجہان مقبل ، محمد شاہ کے عہد کا شاعر معلوم ہوتا ہے۔ اس نے جس وقت ہیر رانجھا کا قصہ لکھا اس وقت احمد گوجر کی تصنیف ”ہیر رانجھا کی گونج ابھی فضا میں موجود ہوگی اور مقبل کا وہی بحر اختیار کرنا بتاتا ہے
موضوعات کی فہرست
کہ شاعر کے سامنے وہ منظوم داستان اپنی مقبولیت کے ساتھ موجود تھی اور اسے اسی نظم نے عام روش سے تھوڑا سا ہٹ کر چار مصرعوں کی صورت میں لکھنے پر اکسایا ہوگا۔ بہر حال حق یہ ہے کہ اس انداز نے اس کی تخلیق کو اپنے پیش رو سے زیادہ دلپذیر کر دیا۔ انجام کار ہیر اور رانجھے کو مقبل نے بھی عازم مکہ ہی کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجابی شاعری میں فلسفہ وحدت الوجود pdf
وہ آخر میں کہتا ہے کہ کوئی آکھدائے اج تک جیوندے نہیں رکھے موت تیں بچا میاں ، یعنی لوگ کہتے ہیں وہ ابھی تک جیتے ہیں اور رب نے انھیں موت سے محفوظ رکھا ہے۔ یہ گویا اس تصور کی تکرار ہے کہ ہرگز نمرد آنکہ دلش زنده شد بعش ( عشق نے جن کے دل زندہ کر دے وہ کبھی نہیں مرتے ) ۔
یہ بھی پڑھیں: پنجابی شاعری اور دمورد
دمودر اور احمد کی طرح مقبل کے ہاں بھی کیدو کا منفی کردار ابھرتا ہوا نہیں ملتا بلکہ مقبل کا "ملاں” بھی وارث شاہ کے برعکس رانجھے کے ساتھ وضع داری اور اخلاق سے پیش آتا ہے ۔ فنی لحاظ سے اس کے کمال کا اعتراف اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ اس کے متعدد مصرعے وارث شاہ نے اپنی تصنیف کا حصہ بنا لئے ۔ پھر معاملات محبت کو جس سادگی اور بے تکلفی سے اس نے بیان کیا ہے وہ اس کا حصہ ہے۔
نمونے کے طور پر کلام کا ترجمہ ملاحظہ ہو
ہیر نے کہا اے رانجھا فکر نہ کر ۔ فکر تیری بلا کرے۔ میں سولیوں اور پھانسیوں سے نہیں گھبراتی اور شرع کے قاضی کے پاس جا کر تیرے لیے جھگڑوں گی ۔ جو پیش آئے گی اسے خود جھیلوں گی لیکن تجھے گرم ہوا تک نہیں لگنے دوں گی۔ میں مقبل کی جگہ اپنی جان دوں گی اور میرے حال پر میرا خدا شاہد ہے۔
لکھنے کو مقبل نے جنگ نامہ لکھا جس میں کربلا میں ہوئے مظالم و مصائب کا ذکر ہے لیکن وہاں شاعر کا قلم تا ثیر آشنا ہو سکا ہے نہ گداز آفریں۔
[ پاکستانی ادب ]
ترجمه کلام
رانجھا جھنگ سیال کو چل پڑا اور بھائی تخت ہزارے کو لوٹ آئے ۔ پھر بھائی بہت غم ناک ہوئے۔ افسوس کرتے رہے اور کھانا تک انھوں نے نہ کھایا۔ خدا سے یہی دعا مانگتے تھے کہ رانجھا ان کو دوبارہ جلد مل جائے ۔ اسے مقبل یار بچھڑے زمانے ہو گئے ۔ عاشق کونج کی طرح چیختے ہیں۔
کبھی عمر بھر اسے سفر سے واسطہ نہ پڑا تھا چنانچہ راستہ میں رانجھا نے بہت تکلیف دیکھی ۔ اس کے پاؤں کو ببول کے کانٹے چبھتے رہے، چھالے پڑ پڑ گئے ۔ کمزوری کا پسینہ آنے لگا اور بھوک اپنی شدت دکھانے لگی ۔ تپتی ریت میں چکر کھا کر گر پڑا۔ جب دکھ آئیں تو ماں یاد آتی ہے ۔ لیکن اے مقبل جو تقدیر میں ہو کاٹنی پڑتی ہے ہر چند کسی کے ساتھ کوئی مقابلہ نہیں ہے
پروف ریڈر: محمد عرفان ہاشمی
حواشی
کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب, 2،کوڈ: 1856،صفحہ نمبر:189, 2، 3،موضوع شاہ جہان مقبل کی خدمت،مرتب کردہ: زائرہ تسنیم