کتاب کا نام…. تاریخ اُردو ادب 1
صفحہ نمبر ۔۔۔۔۔۔۔۔85…87
موضوع …..شاہ بہا الدین باجن 1388/1506…..
مرتب کردہ۔۔۔۔۔۔ الیانا کلیم
شاہ بہاء الدین با جن ( 1506ء – 1388ء)
بہاء الدین با جن کو گجری ادب کا معمار اول قرار دیا جا سکتا ہے انہوں نے گجری زبان کو ایک بول کی سطح سے اٹھا کر ایک ارفع ادبی زبان بنانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ ہا جن 1388ء کو احمد آباد میں پیدا ہوئے اور 7-1506ء میں وفات پائی۔ باجن کے مجموعہ کلام کا نام خزائن رحمتہ اللہ ہے اس کلام میں انہوں نے اس زبان کو بھی گجری کہا تو بھی گجراتی ۔ اس طرح وہ اس زبان کو ہندی یا ہندوی بھی قرار دیتے ہیں۔
شاہ بہاء الدین با جن کی شاعری جہاں ایک طرف صوفیانہ روایت کا پس منظر رکھتی ہے تو دوسری طرف اضاف محور اور طرز ادا کے معاملے میں مقامیت کی گجری چھاپ بھی ان کے کلام میں نظر آتی ہے۔ باجن کی شاعری میں ہندوستانی دانش کا نہایت عمدہ اظہار مقامی پیرائے بیان میں کثرت سے ملتا ہے۔
ہاجن نے گیت ، دوہرے، متفرق قطعات کے علاوہ گجری ادب کی خاص صنف جکری کو اظہار کا وسیلہ بنایا۔ جبکری ذکری کی گجری شکل ہے۔ اس صنف کا ماخذ ذکر ہے اس نظم میں ذکر خدا ، ذکر رسول ذکر مرشد کے بیان کے ساتھ ساتھ ناصحانہ مضامین بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ ایسی نظمیں بنیادی طور پر گا کر پیش کرنے کے علاوہ رقم کی جاتی ہیں اس لئے جگری کسی نہ کسی راگ میں رقم کی جاتی ہے۔
قاضی محمود دریائی (1534ء )
گجری ادب کی مقبول صنف سخن جکری کے نامور شاعر قاضی محمود دریائی میر پور گجرات کے معروف صوفی خانوادے سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے والد محترم قاضی حمید المعروف شاہ چالندھا سے بیعت تھے۔ ھاسے
ما محمود دریائی با عمل محمود دریائی کے مزاج اور اس اور اسلوب حیات صنف سخن جکری کے موضوعات سے ہم آہنگ تھا ۔ کے صوفی شمار کئے جاتے تھے جذب و شوق اور استغراق عمومی کیفیات تھیں ۔ سمجھ لیں باطنی تجربات اور روحانی واردات جکری کے آہنگ و اسلوب میں نظم کرتے اور یوں ان کی بکریاں نہ صرف صوفیا کی توجہ کا مرکز بنہیں بلکہ اس دور میں سرود و آهنگ سے وابستہ طبقے کے لئے بھی ان میں بڑی کشش تھی ۔ شاہ ہا جن کی طرح لیکن با جن سے بہت زیادہ محمود دریائی کے کلام میں مقامی اور ہندستانی اثرات نظر آتے ہیں محمود دوریائی کی صوفیانہ واردات و مشاہدات کا اساسی تعلق مسلم تقوف کی بصیرت افروز روایت کے ساتھ ہے لیکن واردات و مشاہدات کا ابلاغ کرتے ہوئے وہ مقامی لغت ، مقامی روایت اور مقامی دیو مالا کو فنکارانہ مہارت سے اس طرح استعمال کرتے ہیں کہ بے حد دقیق مطالب بڑے آسان پیرائے میں نظم ہو جاتے ہیں یہ محمود دریائی کی بنیادی خوبی ہے۔
شاہ علی محمد جیو گام دھنی (1565ء)
شاہ جیو گام دھنی گجری ادب کے اولین معماروں میں سے ایک ہیں شاہ با جن اور محمود دریائی کی طرح شاہ علی محمد جید گام دھنی کی زبان اور اس کا اسلوب و آہنگ با جن اور محمود دریائی سے بہت مختلف نہیں ہے لیکن ایک واضح فرق جو جیو گام دھنی کو دیگر سے ممتاز کرتا ہے وہ عربی اور فارسی لفظیات و اصطلاحات کا استعمال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اس عہد کے گجری شعراء شعوری طور پر عربی اور فارسی لغت سے گریز اور مقامی لغت اور روایت کی طرف رغبت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان شعراء کی اسی روش نے گجری زبان کو ادبی زبان بنا دیا لیکن گجری ادب میں مقامی روایت میں توسیع کے ساتھ ساتھ جیو گام دھنی فارسی تہذیبی آہنگ اور فنی اسلوب کو بھی پیش نظر رکھتے تھے اور یہی جیو گا مردھنی کی انفرادیت بھی ہے۔
خوب محمد چشتی (م: 1614ء)
با جن محمود دریائی اور جیو گام دھنی کے تسلسل میں خوب محمد چشتی گجری ادب کے چوتھے بڑے معمار ہیں گجری بولی کو ایک ادبی زبان بنانے میں خوب محمد چشتی کی خدمات قابل ذکر ہیں ۔ گجری ادب کی ایک واضح شناخت مقامی لغت اور مقامی روایت کی پاسداری ہے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ گجری کو ادبی زبان کا روپ دینے والے شعراء فارسی زبان اور اس کے وسیلے سے فارسی تہذیب سے گہری واقفیت رکھتے تھے پھر تصوف ایک عملی تجربے کے طور پر بھی گجری شعراء کے ہاں نظر آتا ہے تو گویا متصوفانہ خیالات، مقامی طرز احساس اور مقامی جمالیات اور فارسی عربی ذہنی پس منظر یہ سب مل کر گجری ادب کے اساسی رویئے اور شکل وصورت کو طے کرتے ہیں۔ خوب محمد چشتی اساس رویے کی عمدہ نمائندگی کرتے ہیں۔ خوب محمد چشتی کی دو تصانیف نمایاں ہیں ایک مثنوی خوب ترنگ ہے۔ یہ متصوفانہ موضوعات پر مشتمل اور مقامی کے ساتھ فاری لغت کی حامل تصنیف ہے دوسری معروف تصنیف چھند چھنداں ہے جو فاری اور ان کے تعارف کے لئے گجری یا ہندی میں تحریر کی گئی۔ اس تالیف نے گھری زبان کے مقامی رنگ و آہنگ کی جگہ فارسی کے اسلوب کو رواج دینے کی کامیاب کوشش کی۔۔۔۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں