شام کی منڈیر سے کا تنقیدی جائزہ | shaam-ki-mandeer-se-ka-tanqeedi-jaiza
وزیر آغا کی خود نوشت شام کی منڈیر سے کا تنقیدی جائزہ
شام کی منڈیر سے وزیر آغا کی خود نوشت حیات ہے جو کہ پہلی بار 1988 ء شائع میں ہوئی۔ اس کتاب کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ خود نوشت میں پیش کئے گئے زیادہ تر واقعات دیہات اور شہر کے حالات پر مبنی ہیں۔ اس میں تقابل اور تضاد بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر آغار کی انشائیہ نگاری
۔ ان کو دیہات سے بہت لگاؤ تھا جو کہ آخر تک رہا۔ گاؤں کا ماحول تعمیر و ترقی اور جاگیردار نظام کی عکاسی کا ذکر انہوں نے تفصیل سے کیا ہے۔ اپنے خاندان، بچپن ، لڑکپن، جوانی کی کہانی کے علاوہ یہ خود نوشت ان مشکلات اور مصائب کی روداد بھی ہے جو وزیر آغا کو سہنے پڑے۔ کتاب میں اپنے گھر کے حالات قلمبند کرتے ہوئے اس طرح لکھتے ہیں:
جب ہر چھ ماہ کے بعد مالیہ آبیجا نہ ادا کرنے کا وقت آتا تو گھر میں گھسر پھسر شروع ہو جاتی اور پھر گھر کی کسی نہ کسی خاتون کا کوئی زیور بیچ دیا جاتا تا کہ مالیہ آبیعانہ ادا ہو سکے ۔ یہ دراصل ۱۹۲۹ء کے عالمی بحران کے فورا بعد کے ایام تھے۔ بہت سے کاشتکار مالیہ بیعانہ کی عدم ادائیگی کے باعث جیل یا ترا بھی کر آئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر وزیر آغا کے انشائیوں میں تہذیبی عناصر | pdf
وزیر آغا کئی شہروں میں رہے مگر اپنے گاؤں کو ہمیشہ یاد کرتے تھے۔ لاہور میں رہ کر بھی اپنے گاؤں کے بارے میں ہی سوچتے رہے۔ اس حوالے سے شام کی منڈیر میں سے ایک اقتباس درج ذیل ہیں:
مجھے یوں لگتا ہے جیسے شہر کے باسی چھوٹے چھوٹے لا تعدا د نقطوں کی طرح شیشے کے ایک بڑے مرتبان میں ہمہ وقت ملنے اور بچھڑنے کے عمل میں مبتلا ہیں۔ کبھی ایک دوسرے کے اتنے قریب آجاتے ہیں کہ ایک سیاہ دھبہ بن جاتے ہیں ۔ کبھی اتنے بکھر جاتے ہیں کہ پورا مرتبان چا پورا مرتبان چیچک زدہ چہرے کی طرح دکھائی دینے لگتا ہے۔ مجھے محسوس ہوتا جیسے میں بھی ایک نقطہ ہوں اور نقطوں کے اس جم غفیر میں شامل ہوں ۔
دراصل لاہور شہر کے باسی کسی پر اسرار آواز پر ہر دم لبیک کہنے کے عادی تھے۔شہر میں رہ کر سارے تقاضوں اور مطالبوں کو انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے پورا کیا۔ کبھی کسی کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ مصنف شہر کی کسی بھی شخصیت کو کبھی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا۔ صرف وہاں کے طرز عمل کو وہ ناپسند کرتے تھے۔ وزیرکوٹ کی مناسبت سے ہی انہوں نے اپنا نام ”وزیر آغا“ کہلوانا پسند کیا۔
شام کی منڈیر سے ہمیں مصنف نے بڑے فلسفیانہ انداز میں گفتگو کی ہے۔ ان کو فطرت سے بہت لگاؤ تھا انسانی رشتوں کے علاوہ زمین، چرند پرند اور پیڑ پودوں سے الگ رشتہ استوار ہو گیا تھا۔ کتاب میں لکھتے ہیں کی ساری تخلیقات انسانوں کی طرح غم اور خوشی محسوس کرتے ہیں۔ خوشی میں گنگناتے ہیں اور غم میں ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ اگر ہم ان کے ساتھ دوستی کا رشتہ بنا لیتے ہیں تو یہ ہمارے ساتھ سکھ دکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ شہنائیوں میں اور قہقہوں میں یہ تالیاں بجاتے ہیں۔
وزیر آغا اردو کے ان ادیبوں میں شمار کیے جاتے ہیں جن میں نثر نگاری کو ایک فن کے طور پر اپنایا۔ مولانا صلاح الدین نے اس حوالے سے ان کی رہنمائی کی۔ وزیر آغا کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اسلوب اور تصور کے جو تجربات کیے اس کی روشنی ان کے بعد کی نسل میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے مارکسی نقط و نظر کا ذکر تفصیل سے کیا ہے۔
یہ خود نوشت محض ایک عہد کی یا ایک شخص کی خود نوشت ہی نہیں بلکہ انسان کی اجتماعی سوچ اور ذہنی کاوشوں کا خلاصہ ہے۔ صنعتی دور کی منافقتیں ، رشتوں کی ناپائیداری، زندگی کی پیچیدگیاں، قدروں کا زوال، سیاست کی فریب کاریاں الغرض صنعتی دور کی ایک تصویر دکھائی گئی ہے۔
خود نوشت میں مصنف نے اپنے انگریزی شاعری کے چند نمونے پیش کئے ہیں۔ اس کے علاوہ اپنی پہلی نظم جو نصرت آرا نصرت کے فرضی نام سے شائع ہوئی تھی کو درج کیا ہے ساتھ ہی نظم کے پس منظر کو بھی واضح کیا ہے۔
اس کے علاوہ آدھی صدی کے بعد ، حیات نو ، میں اور تو ، بے وفا لے جاؤ اس روشنی کو، بانجھ ، پیش گوئی ، مڑے ہوئے ناخنوں والے عفریب، مان، انندھی کالی رات کا دھبہ ، دھوپ وغیرہ نظموں کا ذکر خاص طور پر مصنف نے اس کو خود نوشت میں کیا ہے۔ زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے وہ ان نظموں کے محرکات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ نظم پیار کے پس منظر کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں :
عزیزوں کی طوطا چشمی اور پھر ان کی کار کردگی نے مجھے بڑا دکھ پہنچایا۔ دکھ کا کارن یہ تھا کہ مجھے پیار اور مروت کے رشتے کچے دھاگوں کی طرح نظر آنےلگے تھے۔ میں سوچتا کہ اتنے مضبوط رشتے اگر پل بھر میں ٹوٹ سکتے ہیں تو پھر پیار کے نئے رشتے استوار کرنے کا فائدہ؟ اور اگر پیار کا رشتہ دائمی نہیں ہے تو پھر اس کا ئنات میں کون سی شئے دائی ہے؟ انھیں دنوں میں نے نظم ” پیار لکھی جس سے مجھے آج بھی بڑا پیار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انشائیہ کے خدو خال از وزیر آغآ pdf
شام کی منڈیر سے میں وزیر آغا نے اپنی تصنیف کی تحریک، پس منظر، انداز فکر اور مقصد و مدعا پر بڑی تفصیل آپ نے ڈالی ہے تخلیقی عمل مسرت کی تلاش اور شاعری کا مزاج ، اقبال کا نظریہ عشق و خرد یہ ساری تصانیف ان کے تجربے میں سے عمل تک کے ذہنی سفر کی بے کم و کاست روداد ہے۔
وزیر آغا علمی اعتبار سے دو ہستیوں سے بہت متاثر تھے۔ ایک ان کے استاد مولا نا صلاح الدین احمد اور دوسرے ان کے والد و ۔ ع ۔ خ ( مست علی خان ) شروع شروع میں ان کو اپنے والد سخت گیر نظر آتے تھے۔ بعد میں طالب علمی کے دور میں انہیں احساس ہوا ان کے والد تصوف اور ویدانت کے اسکالر ہیں۔
وزیر کا کہنا ہے کہ و۔ ع۔ خ کی گفتگو معرفت کا ایک سمندر ہوتی تھی۔ جو حکایت اور کہانیوں کے انداز میں بڑے بڑے پیچیدہ مسائل کو حل کرتی چلی جاتی ہے۔ ان کا مطالعہ علم نہایت ہی وسیع تھا۔ مولا نا صلاح الدین کی ذات وزیر آغا کے لئے مشعل راہ رہی۔ انہوں نے قدم قدم پر ان کی رہنمائی کی۔ اس کتاب میں مصنف نے دیرینہ رفیقوں انورسدید، غلام جیلانی اصغر اور غلام تقلین تقوی کی جھلکیاں بی دکھائی ہیں۔
شام کی منڈیر سے ایک فرد کی داستان سے زیادہ ایک دانشور کے فکری ارتقاء کی روداد ہے۔ اس لئے ضروری تھا کہ اس میں مشکل اصطلاحات، خالصتان علمی پیرائے اظہار اور دقیق مباحث در آتے ۔ ایسا ہوا ہے مگر اس کے باوجود بھی قاری کہیں الجھن کا شکار نہیں ہوتا تاہم اس میں انگریزی الفاظ کا زیادہ استعمال کیا گیا۔ اسلوب کے حوالے سے جمیل احمد عدیل اس طرح رقم طراز ہیں:
اس آپ بیتی میں بلا شبہ علم کی قوت سمندر کی مانند موجزن ہے ۔ ثقالت کا عیب کہیں بھی اس کتاب کی نثر میں موجود نہیں ۔۔۔۔ حسب موقع آغا صاحب نے کیفیات اور جذبات کے بیان کے لیے ایسے موزوں الفاظ اور ایسا پرکشش پیرا یہ منتخب کیا ہے کہ قاری اس کے ظاہری حسن اور معنوی گہرائی سے بیک وقت
محظوظ ہوتا ہے ۔
زیر بحث خود نوشت میں مصنف نے کہیں کہیں طنز و مزاح سے بھی کام لیا ہے۔ اس تصنیف میں مصنف کی شخصیت سے زیادہ ان کی ذہنی اور انداز فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہیں۔ یہ تحریر جہاں فنی تو ازن کی حامل ہے وہاں یہ کرہ ارض پر انسانی زندگی کے بصیرت افروز تصورات کو بھی لیے ہوئے ہیں۔ یہ اردو کی واحد خود نوشت ہے جو مصنف کے فنی تخلیقی خصائص کی بدرجہ اتم علم بردار ہے۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں