کتاب کا نام: اردو شاعری 1
صفحہ: 208
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
سحر البیان میں فطرت نگاری اور منظر نگاری
بہت سے ناقدین نے میر حسن کے اس پہلو پر انہیں داد دی ہے اور ان کی مہارت کا اعتراف کیا ہے۔ میر حسن جب کسی منظر کو بیان کرتے ہیں یا کسی جگہ کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ تو اس کی ہو بہو تصویر سامنے آ جاتی ہے، بلکہ مجون گورکھپوری تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس طرح کی کامیاب مصوری اگر کوئی شاعر جانتے ہیں، تو وہ یا تو میر حسن ہیں یا ان کے پوتے میرا نہیں ہیں۔ میر حسن نے جب باغ کا منظر دکھایا ہے ، تو وہاں وہ تصویر میں ہی بکھیرتے چلے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں بادشاہ کے باغ لگانے کا جو حال ہے، وہ نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ باغ کے درخت، پھول، پرندے، نہریں ، آبجوئیں، چشمے یہ تمام مرقعے اتنی مہارت سے دکھائے گئے ہیں کہ پوری تصویر ہمارے سامنے گھوم جاتی ہے۔ جزئیات نگاری میں میر حسن ویسے ہی کامیاب ہیں، لیکن فطرت کا ماحول بھی نمایاں کرنے کے لیے وہ جزئیات نگاری سے کام لیتے ہیں۔ مثنوی سحر البیان میں چاندنی رات کا منظر اور میر حسن کی تصویر کشی اردو ادب میں ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرتی ہے۔ میر حسن منظر نگاری کے ڈانڈے جذبات نگاری کے ساتھ ملاتے ہیں اور اس طرح کہ دونوں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ میر حسن باغ کو سجاتے ہیں ، جیسے ایک تختہ گل ہمارے سامنے ہو۔ نہر کے کنارے پھولوں کا جھومنا ، سرو کے درختوں پر قمریوں کے چیچے ، ہرے بھرے باغ فطرت کے خوبصورت مناظر پیش کرتے ہیں۔ میر حسن نے اپنی اس مثنوی میں شام و سحر کے کتنے ہی مناظر محفوظ کر دیئے ہیں۔ کہیں شاموں کے حسین نظارے لہرا رہے ہیں۔ تو کہیں چاندنی کا نور چھن رہا ہے۔ ناچ گانے کی محفلیں، شہزادے کی سواری کی تیاری ، شادی بیاہ کی رسوم، درباریوں کی دربار داریاں ، نجومیوں جیوتشوں کے جھگڑے، کنیزوں کی چہلیں ، موسیقی کے کمالات ان تمام مناظر کی تصویر کشی میر حسن کے ذہین رسا کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ اشعار
ملاحظہ فرمائیں:
زمین کا کروں واں کی کیا میں بیاں
عجب چاندنی میں گلوں کی بہار
وہ اجلا سا میداں چمکتی سی ریت
کہ صندل کا تھا ایک تختہ عیاں
ہر اک گل سفید سے مہتاب زار
اگا نور سے چاند تاروں کا کھیت
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں