صوت مرکزیت سے کیا مواد ہے

صوت مرکزیت

ہر ترقی یافتہ زبان بہ یک وقت بولی اور لکھی جاتی ہے۔ زبان میں بولے جانے کا مرحلہ پہلے اور لکھے جانے کا مرحلہ بعد میں آتا ہے۔ یہ سوال اکثر اٹھایا جاتا کہ بولی اور لکھی جانے والی زبان میں کیا رشتہ ہے؟ کیا لکھی جانے والی زبان، بولی جانے والی زبان کی ہوبہو نقل ہے یا لکھنے کے عمل میں بولی بدل جاتی ہے؟ دوسرے لفظوں میں تحریر وتقریر میں کیا رشتہ کیا فرق و امتیاز ہے؟

موضوعات کی فہرست

یہ سوال بنیادی ہے، اور تحریر و تقریر کو دو بنیادی سرگرمیاں قرار دینے کے نتیجے میں اٹھایا جاتا ہے۔ اس سوال کے جواب میں صوت مرکزیت اور ” لوگو مرکزیت کے نظریات سامنے آئے ہیں۔

صوت مرکزیت کا دعوی ہے کہ زبان اپنا اولین اظہار بولی کی سطح پر کرتی ہے، اس لیے بولی اصل اور فطری ہے اور ابلاغ کا بنیادی اور فطری ذریعہ بھی ہے۔ اس کے مقابلے میں تحریر نہ صرف تقریر کے بعد ایجاد ہوتی بلکہ تقریر کی نقل بھی کرتی ہے۔

اس لیے تحریر دوسرے درجے کی کوشش ہے۔ لیونارڈ بلوم فیلڈ کا کہنا ہے کہ ” لکھنا زبان نہیں ہے بلکہ زبان کو محفوظ کرنا ہے ، یعنی اصل زبان تو وہ ہے جو بولی جاتی ہے، لکھنے کے ذریعے فقط اسے محفوظ کیا جاتا ہے۔ افلاطون اور روسو جیسے فلاسفہ نے بھی تقریر کو تحریر پر فوقیت دی ہے۔

Walterong نے بھی کہا ہے کہ تقریر فطری اور تحریر مصنوعی ہے مگر ہم اس بات کو بالعموم بھول جاتے ہیں۔ اس کا یہ موقف بھی ہے کہ بولنا نہ صرف آسان ہے بلکہ یہ ہر شخص کے اختیار میں بھی ہے، جب کہ لکھنا مشکل اور سب کے بس کا روگ نہیں ہے۔ اسی لیے مقرر کے سامعین زیادہ اور مصنف کے قارئین کم ہوتے ہیں۔
دریدا نے صوت مرکزیت کے نظریے کی مخالفت کی اور اس کے مقابلے میں لو گو مرکزیت (رک) کا نظریہ پیش کیا۔

Proof Reader : مُحمد حمزہ ( کِنگ بھائی )

حواشی

موضوع ۔۔۔{صوت مرکزیت}،کتاب کا نام ۔۔۔{ادبی اصطلاحات }،کوڈ نمبر ۔۔۔{9015}،مرتب کردہ ۔۔۔{عارفہ راز}

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں