سلمی صدیقی کی افسانہ نگاری

سلمی صدیقی کی افسانہ نگاری

سلمی صدیقی اردو کے مشہور نقاد ، انشاء پرداز اور طنز و مزاح میں ایک منفرد مقام رکھنے والے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی صاحبزادی ہیں سلمی ۱۸ جون ۱۹۳۰ء کو بنارس میں پیدا ہوئیں، ان کی والدہ جمیلہ خاتون شریف اور گھریلو امور میں ماہر پڑھی لکھی خاتون تھیں سلمی کی تعلیم و تربیت گھر پر ہوئی اس کے بعد ان کی تعلیم عبد اللہ گرلس ہائی اسکول سے شروع ہوئی۔ وہاں سے بی۔ اے کرنے کے بعد انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم ۔ اے اردو کیا۔ ان کی شادی خورشید عادل منیر سے ہوئی مگر بعض وجوہات کی بنا پر علیحدگی ہو گئی اور اسی بیچ ان کی ملاقات مشہور شاعر مجاز کے توسط سے اردو کے مشہور افسانہ نگار کرشن چندر سے ہوئی اور ۱۹۵۴ء میں نینی تال میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔

سلمی صدیقی درس و تدریس سے بھی وابستہ رہیں ۔ ایم ۔اے کرنے کے بعد وہ کچھ دنوں تک انہوں نے گرلز کالج علی گڑھ میں استاد کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر بمبئی یو نیورسٹی کے سینٹ پر دو سال رہیں، آٹھ سال مہاراشٹر اردو اکیڈمی کی ممبر اور لگ بھگ دس برس تک اسپیشل اکز یکیو مجسٹریٹ رہیں اور پھر منسٹری آف سوشل ویلفیر میں چیر مین رہیں۔ وہ ٹی وی سے بھی وابستہ تھیں، اور قرۃ العین حیدر کے افسانے ” حسب نسب "پر ایک ٹیلی فلم بنائی تھی۔ لکھنے پڑھنے کا شوق انہوں نے وراثت میں پایا تھا۔ انکے گھر میں اکثر ادبی محفلوں کا انعقاد ہوتا رہتا جس میں دانشور ، شاعر اور ادیبوں کی محفلیں سجتیں، اور جگر، فراق ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، سجاد ظہیر ، حسرت موہانی، تارا چند، شانتی سروپ بھٹناگر ،خواجہ غلام السیدین ، اصغر گونڈوی، سید سلیمان ندوی، ڈاکٹر عابد حسین، پطرس بخاری، پروفیسر احتشام حسین ، ڈاکٹر رشید جہاں، حفیظ جالندھری، شاہد لطیف، سردار جعفری اور عصمت چغتائی وغیرہ شامل ہوتے ۔ ان ادیبوں اور شاعروں کو سلمی نے بچپن سے دیکھا اور پڑھا تھا، اور ان سب کا گہرا اثر سلمی صدیقی کی شخصیت پر پڑا اور ان کے اندر چھپی تخلیقی صلاحیتیں باہر نکلیں۔

طاہر مسعود نے اس بارے میں بتایا:
"انہوں نے علی گڑھ سے ایم اے کیا۔ اس عرصے میں ان کی ملاقاتیں اس وقت کے معروف ادیبوں اور شاعروں سے ہونے لگیں اس میں خاصا عمل دخل گھر کے ماحول کابھی تھا”

سلمی صدیقی نے خود اعتراف کیا ہے کہ ان کی تخلیقی صلاحیتوں اور ادب سے شوق میں اس زمانے کے بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں سے قریبی تعلقات کا خاصا اثر رہا۔

فن اور شخصیت کے آپ بیتی نمبر میں سلمی صدیقی لکھتی ہیں :

"۱۹۴۲ء میں ذاکر صاحب علی گڑھ آئے تو انہوں نے پنڈت جواہر لال نہرو کی سوانح حیات میری کہانی (اردو میں ) مجھے پڑھنے کو دی ، اس وقت مجھے پڑھنے کا نیا نیا شوق ہوا تھا”

سلمی صدیقی کے لکھنے کی ابتدا بھی اسی دوران ہوئی تھی جن کے متعلق وہ بتاتی ہیں:

"لکھنے کا شوق جانے کس عمر میں ہوا چونکہ دن اور تاریخ یاد نہیں اس لیے خیال یہی ہے کہ بچپن ہی کے کسی حصے میں اس عارضے میں مبتلا ہو گئی”

سلمی صدیقی کا ایک مضمون ” ایک دن قوم کی نذر "سلمی رشید کے نام سے "ادیب“ دسمبر ۱۹۴۵ ء اور جنوری ۱۹۴۶ء میں موجود ہے، ان کی اسی تحریر کو انکی پہلی شائع شدہ تخلیق مانا جاتا ہے۔

سلمی صدیقی کے افسانے حقیقت پسندی پر بنی ہوتے ہیں۔ ان کے پاس ایک رچا ہوا اد بی شعور موجود ہیں ۔ انہوں نے اس صنف میں خاص تجربے نہیں کئے ہیں ۔ بلکہ تخیل اور مشاہدے کی بدولت وہ اپنے خیالات کو افسانے میں ڈھالنے کے ہنر سے واقف ہیں۔ ان کے مطابق کوئی ادیب اپنے معاشرے سے الگ نہیں رہ سکتا۔ اس کے ذہن پر اس کا ماحول سماج اور معاشرہ ضرور اثر انداز ہوتا ہے۔
سلمی کے موضوعات گھریلو زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ عورت اور اس کا سماج سے تعلق اور حیثیت کو ایک رد عمل کے طور پر دیکھتی ہیں۔ اس لیے عموماً ان کے موضوعات معاشرتی نا انصافیوں میں گھری ہوئی عورتیں و بے کس و مظلوم انسان، جاگیردارانہ نظام اور نواب ہیں۔ جاگیردار گھرانوں کو انہوں نے بہت قریب سے دیکھا ہے۔ طبقاتی کشمکش اور نا انصافیوں کے بیچ گھرے ہوئے انسان ان کو خاص طور سے متاثر کرتے ہیں۔

رضیہ حامد اس بارے میں کہتی ہیں:

"سرزمین علی گڑھ سے رشید احمد صدیقی کی زبان کی چاشنی کو اپنے مزاج میں سمو کر ایک افسانہ نگار ابھریں سلمی صدیقی ، ان کے افسانے متوسط طبقہ کی زندگی کے خدو خال پیش کرتے ہیں، موجودہ سماج میں عورت کو اس کا جائز مقام ملے اس طرف سلمی نے زیادہ توجہ کی ہے۔ مگر وہ لکھتی کم ہیں "

سلمی صدیقی ایک عورت ہونے کے ناطے عورتوں کے دکھ درد میں برابر کی شریک ہو کر اپنے افسانے تخلیق کرتی ہیں۔ اس لئے ان کے افسانوں میں عورتوں کی مظلومی اور ان کی بے بسی خاص موضوع کی شکل میں پائے جاتے ہیں۔ وہ حالات کو توڑ مروڑ کر نہیں بلکہ واقعات کو اسی تسلسل سے بیان کرتی ہیں۔ جن سے انسان اپنی زندگی میں گزرتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا افسانہ سمجھوتا، جس میں عورت کی بے بسی اور بدحالی کے ساتھ ان حالات میں سمجھوتا کرنے کی صلاحیت کو ابھارا گیا ہے۔ اس کہانی کی خاص کر دار فاطمہ بائی کے کردار کی تخلیق میں سلمی صدیقی نے اپنی فنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کیا ہے۔

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں