صالحہ عابد حسین کی ناول نگاری | Saleha Abid Hussain’s Novel Writing
تحریر: پروفیسر برکت علی
موضوعات کی فہرست
صالحہ عابد حسین کی ناول نگاری
صالحہ عابد حسین نے ناول ، خاکے ، تنقید، ڈرامے، مذہبی مضامین ، سفر نامے، ڈرامے، بچوں کے لیے کہانیاں تقریباً سبھی اصناف پر طبع آزمائی کی ہے اور ترجمے بھی کئے ہیں۔
صالحہ عابد حسین نے کئی ناول لکھے اور تقریبا ان کے بھی ناول مشہور ہوئے ، انھوں نے اپنے ناولوں میں سماجی زندگی کی تصویر کشی کی ہے۔
ان کے ناولوں میں زندگی کا تنوع اور رنگارنگی ، حرکت اور ہلچل ملتی ہے۔
صالحہ عابد حسین اپنے ناولوں میں اپنے زمانے کے رجحانات ، سماجی میلانات اور معاشرے کی بدلتی تصویر کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔
صالحہ عابد حسین کے سارے ناول اخلاقی اور معاشرتی ہیں۔ ان کے تقریباً سبھی ناولوں میں پیش کی گئی کہانیوں میں سماج کی مثالی کردار ہوتے ہیں۔
جن میں وطن پرستی ، قوم اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ اور سماج کے اصلاح کا مقصد شامل ہوتا ہے۔
ان کے کردار اپنی زندگی کا ایک نصب العین رکھتے ہیں اور اپنی ذاتی زندگی پر سماجی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اور وہ اپنے ناولوں کے ذریعہ زندگی میں درپیش مسائل اور زندگی کے بدلتے اقدار اور بدلتے معاشرے میں کرداروں کے عمل کو پیش کرتی ہیں۔
کیونکہ وہ سمجھتی ہیں ادب محض تفریحی کے لیے نہیں ہے :
"ادب محض تفریح یا دماغی عیاشی کے لیے نہیں، بلکہ اس کا مقصد بہت بلند ہے اسے حقیقی بولتی چالتی زندگی کا آئینہ ہونا چاہئے۔” (۸)
اور اسی مقصد کے تحت انھوں نے ناول بھی لکھے ۔ جو بے حد مشہور بھی ہوئے۔
اُنھوں نے تقریبا آٹھ ناول لکھے ہیں۔ جس میں
عذرا
آتش خاموش
قطرے سے گہر ہونے تک
راہ عمل
یادوں کے چراغ
اپنی اپنی صلیب
ابھی ڈور
گوری سوئے بیچ پر
جیسے ناول شامل ہیں ۔ صالحہ عابد حسین اپنے لکھنے کے بارے میں کہتی ہیں کہ :
"میرے لکھنے کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے۔ میں چاہتی ہوں خصوصاً عورتوں کی زندگی بہتر ہو۔
ان کے حالات بہتر ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ عورت ہی عورت کے مسائل پر لکھ سکتی ہے ۔ ” (۹)
شاید اسی لیے صالحہ نے عورتوں کے مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ اگر نسائی حسیت کے اعتبار سے جائزہ لیا جائے تو ان کا ناول یادوں کے چراغ بے حد اہم ہے جس پر تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
ناول عذرا کا تنقیدی جائزہ
صالحہ عابد حسین کا پہلا ناول عذرا دراصل ایک اصلاحی ناول ہے۔
اس ناول میں تعلیم نسواں کا پر چار ملتا ہے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ ناول تحریک نسواں کی ایک کڑی ہے۔
اس ناول کے تقریباً سارے نسوانی کردار عورتوں کی اصلاح کے لیے مثال بنا کر پیش کئے گئے ۔
نوجوان نسوانی کرداروں میں سوائے رضیہ کے سبھی کردار نئے زمانے کے نظر آتے ہیں۔
جو بدلتی ہوئی قدروں کے زمانے میں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر بھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوتیں ۔ بلکہ اپنی زندگی کو سنوارتی ہیں۔
اس ناول کا مرکزی کردار عذرا کا ہے جو کہ عورت کے وجود کی اہمیت کو تسلیم کرواتی نظر آتی ہے۔
عذرا ایک نہایت حساس لڑکی ہے اس کا دل انسانیت کے درد سے معمور ہے ۔ وہ تعلیم حاصل کر کے اصلاح کرنا چاہتی ہے ۔
وہ دولت اور روپے کی خواہش رکھتی ہے لیکن اپنی ذاتی ضرورت کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ وہ اس دولت سے غریبوں کی تعلیم کا انتظام کر سکے ۔ وہ کہتی ہے:
"نہ جانے امیروں کے دل کیسے ہوتے ہیں میرے پاس روپیہ ہوتا تو سب کا سب شوقین لڑکے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کر دیتی …
مجھے روپیہ جمع کرنے کا شوق نہیں ہاں کبھی کبھی کسی غریب کو دینے یا اسکول کے لیے یا تعلیم پانے کے لیے جی چاہتا ہے کہ بہت سا روپیہ ہو”۔ (۱۰)
صالحہ عابد حسین اس ناول کے ذریعہ سماج کی اصلاح چاہتی تھیں اور لڑکیوں کو تعلیم کی طرف راغب کرانا چاہتی تھی۔
اس لیے وہ عذرا کو اس روپ میں پیش کرتی ہے نسائی حسیت کا اظہار مصنفہ کے اس ناول میں نہیں مل پاتا کیوں کہ یہ ناول میں وہ نسوانی کرداروں کی سوچ اور سماج میں ان کے مرتبہ پر زیادہ توجہ نہیں دے پاتی۔
لیکن عذرا کے روپ میں ہمیں ایسا کردار ملتا ہے جو اس سماج میں عملی طور پر عورت کی آزادی اور اس کی حیثیت کے تعین کے لیے پر چار کرتا نظر آتا ہے۔
عذرا کو اس طرح تعلیم یافتہ خود اعتماد، باشعور اور فعال بنا کر پیش کرنے کے مصنفہ کے انداز سے ہی پتہ چلتا ہے
کہ وہ سماج میں عورت کو کسی طرح دیکھنا چاہتی تھیں ۔ عورت کا جو قدیم روایتی روپ مردانہ سماج نے ڈھال رکھا تھا
اس سے صالحہ عابد حسین عورت کو باہر نکالنا چاہتی ہیں اس لیے انھوں نے اپنے ناول عذرا میں عذرا اور اس کی طرح کئی لڑکیوں کے کردار پیش کئے ہیں۔
عذرا کی ماں نسیمہ کا کردار بھی کچھ اس قسم کا ہے حالانکہ وہ پرانے زمانے کی عورت ہے لیکن سماج کے بدلتے تقاضوں اور وقت کی ضرورت سمجھ کر چلنے والی دوراندیش خاتون ہے۔
وہ نہایت کفایت شعار وسلیقہ مند اور سمجھدار خاتون ہے۔ جو لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کرتی ہے اور انھیں آزادی دینے کی قائل ہے۔
اس لیے وہ اپنے بچوں کو سب کی مخالفت کے باوجود زیور تعلیم سے آراستہ کرتی ہے۔
نسیمہ کی بہن جمیلہ کو نسیمہ کی اور ان کی بچیوں کی یہ روش پسند نہیں۔ وہ عورتوں کی آزادی اور تعلیم کی سخت خلاف ہیں
اور اپنے فرسودہ خیالات کو ہی صحیح مان کر چلتی ہیں اور عورت کو گھر کی دیواری میں قید رکھنا صحیح سمجھتی ہیں۔
صالحہ عابد حسین نے نسیمہ اور جمیلہ کے دو متضاد کردار پیش کر کے دو نظریات اور رجحانات کے ٹکراؤ کو پیش کیا ہے۔
ان کا ناول عذرا بے حد مشہور ہوا کیوں کہ اس میں زمانے کے بدلتے ہوئے ترقی پسند رجحانات کو موضوع بنایا گیا۔ لڑکیوں کی تعلیم اور ہندوستان کے بدلتے ہوئے سماج کی منظر نگاری اور معاشرتی زندگی کی تصویریں ہمیں دکھائی دیتی ہیں۔
نسائی حثیت کے اعتبار سے یہ ناول بے شک اتنا اہم نہیں ہے لیکن اس کی اہمیت اس لیے ہے کہ اس میں عورتوں کی تعلیم و آزادی کو موضوع بنایا گیا ہے ۔
اس ناول میں تقریباً سارے نسوانی کردار عورتوں کی اصلاح کے لیے مثال بنا کر پیش کئے گئے ہیں۔
نوجوان نسوانی کرداروں میں سوائے رضیہ کے سبھی کرداری نسل اور نئے دور کی نمائندگی کرتے نظر آتے ہیں۔
جو بدلتے معاشرے میں بدلتی قدروں کے ساتھ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو کر بھی بے راہ روی کا شکار نہیں ہوتے بلکہ تعلیم حاصل کر کے اپنی اپنی زندگیوں کو سنوارتے ہیں۔
ناول آتش خاموش کا تنقیدی جائزہ
آتش خاموش ناول میں صالحہ عابد حسین نے انجم اور جاوید کی داستان پیش کی ہے۔
انجم ایک تعلیم یافتہ فعال لڑکی اور زندگی کی ایک مثبت قدر کی نشاندہی کرتی ہے ۔
وہ تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ جاتی ہے وہاں پر انجم کی ملاقات ایک ڈاکٹر سے ہوتی ہے۔
جس کا نام جاوید ہے وہ جاوید کی شخصیت سے بہت متاثر ہوتی ہے اور اس کی قدر کرتی ہے پھر وہ ڈاکٹر جاوید سے محبت کرنے لگتی ہے
اور جاوید سے شادی کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جاوید پہلے سے شادی شدہ ہے تو اس سے شادی کا ارادہ ترک کر دیتی ہے۔
انجم جاوید سے بے انتہا محبت کرتی ہے اسی لیے اسے جاوید کو کھو دینے کا شدید غم ہوتا ہے
لیکن وہ زندگی سے ہار نہیں مانتی اور نہ بیزار ہوتی ہے بلکہ اپنی صلاحیتوں کو ایک اچھے کام یعنی انسانیت کے لیے وقف کر دیتی ہے۔
ناول قطرے سے گہر ہونے تک کا تنقیدی جائزہ
صالحہ عابد حسین کا یہ ناول گھر میلو زندگی کو پیش کرتا ہے ۔
ناول میں انہیں ایک گھر یلو تعلیم یافتہ لڑکی ہے جو اپنی صلاحیتوں ، روشن خیالی اور نیک ارادوں کے زیر اثر اپنے رشتہ داروں کی زندگی کو آسان اور کامیاب بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
وہ خاندان کے ہر فرد کے لیے اپنے دل میں محبت رکھتی ہے اور ان کے لیے قربانیاں بھی دیتی ہے۔
وہ زندگی میں کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہے لیکن زندگی سے ہار کر ٹوٹ جانے کے بجائے ناموافق حالات کا بھی حوصلہ مندی سے سامنا کرتی ہے
اور زندگی کے مسائل سے نمٹ کر زندگی کو آسودہ بنانے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتی ہے۔
انیس کا کردار بھی دراصل صالحہ نے ایک مثالی کردار بنا کر پیش کیا ہے تا کہ اس کردار کے عمل کو دیکھ کر حقیقت میں بھی لڑکیاں انیس ہی کی طرح با حوصلہ اور خود اعتماد بن پائیں۔
ناول راه عمل کا تنقیدی جائزہ
صالحہ عابدہ حسین کا ناول راہ عمل بھی ایک ایسا ناول ہے جس کے تقریباً سبھی کردار سماج کے بدلتے اقدار کو اپنا کر عملی طور پر انھیں اختیار کر کے اپنی زندگی کو بدلتے ہیں۔
اس ناول میں سیاسی نظریات اور آزادی کی جد و جہد کو پیش کیا گیا ہے۔
راہ عمل میں آزادی کی جد و جہد کی ذمہ داریاں نہ صرف مرد اُٹھاتے ہیں بلکہ صنف نازک یعنی خواتین بھی اس جدوجہد میں حصہ لے کر عملی طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔
راہ عمل کی صفیہ بیگم کا کردار کچھ اس طرح کا کردار ہے۔ جو ناز نعمت میں پرورش پانے کے باوجود آزادی اور سماج میں اجتماعی فلاح و بہبود کے کام میں منہمک ہو جاتی ہے۔
اس ناول میں اور کئی نسوانی کردار ملتے ہیں ۔ گیتا ، صفیہ بیگم، سکینہ ، ساجدہ ، خالدہ وغیرہ
۔تمام کردار اپنی اپنی زندگی اور سماجی مسائل کو حل کرنے میں جی جان سے جٹ جاتے ہیں۔
صفیہ بیگم کے شوہر کے ساتھ مل کر کملانگر کی ترقی کا بیڑہ اٹھاتے ہیں اور گاؤں والوں میں عام بیداری ، سماجی و تعلیمی بیداری پیدا کرتے ہیں۔
اس ناول میں خاص کر لڑکیوں کی تعلیمی بیداری پر زیادہ زور دیا گیا۔
الغرض یہ صالحہ عابد حسین ایک اصلاحی ناول ہے۔
ناول اپنی اپنی صلیب کا تنقیدی جائزہ
اپنی اپنی صلیب ایک حقیقت پسندانہ ناول ہے جس میں صالحہ عابد حسین نے زندگی کی محرمیوں، ناکامیوں اور الجھنوں کو فنکارانہ انداز میں پیش کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا۔
کہ زندگی میں ہر شخص اپنے دکھوں اور اپنے غموں کو سہتا رہتا ہے۔ کوئی دوسرا اس کے دکھ درد کو سہہ نہیں سکتا۔
اس طرح ہر کوئی زندگی میں اپنی اپنی صلیب لیے رواں دواں ہے۔
علی جمرا ، زہرہ اور رضوانہ اس ناول کے اہم کردار ہیں۔ یہ تمام کے تمام کردار اپنے اپنے دکھوں کو لیے نا آسودہ خواہشات اور جذبات کے سہارے زندگی کے سفر میں آگے بڑھتے جاتے ہیں۔
ناول الجھی ڈور کا تنقیدی جائزہ
اس ناول میں صالحہ عابد حسین نے دور جدید کے لڑکے لڑکیوں کی الجھنیں اور زندگی سے متعلق ان کا نقطہ نظر پیش کیا ہے۔
اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ اس ناول میں کوئی کردار بھی سکون کی زندگی گزارتا نظر نہیں آتا۔
ناول کا مرکزی کردار آسیہ کا ہے جس کی شادی احسن نامی شخص سے ہوتی ہے نئے زمانے کی ضرورتوں کی وجہ سے آسیہ نوکری کرتی ہے
اور اپنی بہن کی پڑھائی کا انتظام بھی خدمت و محبت کا جذ بہ دل میں رکھتی ہے لیکن زندگی میں کبھی کبھی خوش آسودہ حال یا مطمئن نظر نہیں آتی ۔
ایک تو شوہر سے ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوتی دوسرے پانچ بچی اور پھر گھر کے کام کاج اور پیسوں کی ضرورت کی وجہ سے آسیہ کی زندگی ایک مشینی زندگی بن کر رہ جاتی ہے۔
وہ خوش ہونا چاہتی ہے پر خوش نہیں ہو پاتی ۔ اس کردار میں زندگی سے جدو جہد سے زیادہ بیزاری اور اکتاہٹ کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے۔
آسیہ کے علاوہ ناول میں آسیہ کی سوتیلی ماں بی بی بیگم کا کردار نظر آتا ہے ۔
جن کا شوہر اپاہج ہو کر پلنگ پر ہے ایسے میں گھریلو اخراجات کی تکمیل بڑی مشکل سے ہو پاتی ہے۔
اس لیے آسیہ کی بہن کام کے سلسلے میں باہر نوکری کرنے جاتی ہیں۔
حالات کو دیکھ کر بی بی بیگم اپنی بیٹی کو غیر مرد کے ساتھ آزادانہ گھومنے کی اجازت دے دیتی ہے اور بیٹی سے کہتی ہے
کہ کسی بھی طرح شادی کی بات چھڑ جائے ۔ بی بی بیگم کے کردار کے لحاظ سے یہ بات بے حد نا گوار گزرتی ہے لیکن غور کیا جائے تو بی بی بیگم کے اس عمل کے پیچھے اقتصادی پریشانی پوشیدہ ہے ۔
معاشی بد حالی کی وجہ سے کسی طرح ماں اپنی بچی کو غلط راستے پر چلنے کے لیے کہتی ہے اس بات کو صالحہ عابد حسین نے بہت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے۔
ناول گوری سوئے سیج پر کا تنقیدی جائزہ
گوری سوئے سیج پر صالحہ عابد حسین کا ایک فکر انگیز ناول ہے جس میں صالحہ عابد حسین نے والدین کے تئیں اولاد اور والدین کے دردمندانہ احساسات کو موضوع بنایا ہے۔
یہ صالحہ عابد حسین کا آخری ناول ہے اور اس میں اُنھوں نے ایک اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا جو آج کے معاشرے میں تقریبا ہر گھر کا مسلہ بن چکا ہے اور وہ مسئلہ ہے ماں باپ کی۔
ذمہ داری اُٹھانے کا صالحہ کا کہنا ہے کہ ان کے ناول کے کردار ہر طرف ہی نظر آتے ہیں۔ وہ خود کہتی ہیں کہ:
"اس کے کردار ڈھونڈنے سے ہر خاندان میں پائے جاسکتے ہیں”۔ (11)
ناول کی کہانی دراصل سہیل میاں اور ان کی بیوی مہرو کی ہے جن کی دو بیٹیاں شاہین اور خورشید اور دو بیٹے تنویر اور غزالی ہیں.
جن کی پرورش میں والدین کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھتے لیکن یہی اولا د اپنی اپنی زندگیوں میں مصروف ہو کر اپنے ماں باپ کو بالکل بھول جاتی ہے
اور انھیں اپنے طرز عمل سے دکھ پہنچاتے ہیں۔ اسی ایک خیال کے گرد ہی ناول گھومتا ہے
جس کا آغا زماں کی وفات سے ہوتا ہے اور آخر کار بچوں کی آمد پر ختم ہوتا ہے ۔
صالحہ عابد حسین اس ناول کو اصلاحی مقصد کے تحت نہیں لکھا بلکہ دردانگیز دل کے ساتھ لکھ کر اولاد کے لیے ایک فکر انگیز خیال چھوڑا ہے
اور انھیں اپنے طرز عمل پر نظر ڈالنے کی دعوت دی ہے۔ ناول کا مرکزی خیال یہی ہے
لیکن ان کے دوسرے ناولوں کی بہ نسبت اس ناول میں نسائی حسیت کا اظہار کہیں کہیں مل جاتا ہے۔
سہیل میاں اس لیے اپنے بیٹے سے ناراض ہیں کہ وہ عالیہ سے شادی کرنے سے منع کرتا ہے
مہرو اپنے بیٹے تنویر کی جانب سے بات کرتے ہوئے انھیں ٹوکتی ہے ۔
سہیل میاں بھی مہرو سے شادی سے پہلے نسیم نام کی عورت سے عشق کرتے تھے اسی لیے مہرو سے شادی سے انکار کرتے ہیں
لیکن پھر بھی ان کی شادی مہرو سے ہو جاتی ہے اور سہیل میاں کچھ ہی دنوں میں مہرو کی محبت میں نسیم کو بھول جاتے ہیں۔
لیکن مہرو اس بات کو نہیں بھلا پاتی اس لیے بیٹے کی تائید میں بات کرتے ہوئے بھی وہ سہیل میاں پر چوٹ کرنے سے نہیں چوکتی ۔
وہ تنویر کو صحیح بتاتے ہوئے شوہر سے کہتی ہے:
"ہر مرد کو انکار کرنے کا حق ہوتا ہے۔ تم نے بھی اپنی ماں سے انکار کیا تھا۔” (۱۲)
بظاہر یہ ایک مختصر اور معمولی جملہ ہے لیکن اس سے مہرو کی حسیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ مردانہ سماج کے اس دوہرے معیار اور مردوں کی بالادستی کی وجہ سے عورت کسی طرح صبر کرنے پر مجبور ہے۔
اسی طرح عالیہ بھی تنویر کے بدل جانے پر سوچتی ہے کہ تنویر نے اسے بھلا دیا لیکن وہ بھلا نہیں پائے گی کیوں کہ وہ مرد نہیں عورت ہے اس لیے وہ سوچتی ہے؟
"عورت کبھی نہیں بھولتی ایک بار جس کو دل میں بٹھا لئے اس کو نکال ہی نہیں سکتی ہے ۔” (۱۳)
عالیہ کی سوچ مصنفہ کے نسائی مزاج کا پتہ دیتی ہے کہ کس طرح سے اُنھوں نے سماج میں مرد کے عورت پر ہونے والے مظالم کو پیش کیا ہے
حالانکہ انھوں نے اس کا تفصیلی طور پر بیان نہیں کیا پھر بھی ان چھوٹے چھوٹے جملوں سے عورت کی بے بسی اور استحصال کی سچی تصویر نگاہوں میں گھوم جاتی ہے۔
مہرو کی بیٹی خورشید کے کردار سے بھی سماج کے روایتی بندھنوں کی وجہ سے بے بسی کی شکار عورت کی عکاسی ملتی ہے۔
خورشید اپنی ماں کے پاس جانا چاہتی ہے لیکن اس کے سسر اور سرال کو چھوڑ کر وہ نہیں جا پاتی
جب ماں کی بیماری کی اطلاع اسے ملتی ہے تو ماں کے پاس آنا چاہتی ہے لیکن شوہر اجازت نہیں دیتا اور بیوی یعنی خورشید کو تن آسانی اور بہانے سازی کے طعنے دیتا ہے۔
ان حالات میں اس کا بھائی غزالی بھی خورشید کے جواب میں نصیحت کرنے پر اسے ہی غلط قرار دیتا ہے
تو شوہر اور بھائی کے طعنے سن کر ظلم سہہ کر خورشید بے بسی سے سوچتی ہے:
"مجھے طعنے دیتا ہے۔ وہ کیا جانے میرے مسائل ، ہوتا عورت اور پڑتا کسی بے درد کے پالے تو دیکھتی ۔
وہ جابر شخص مجھے جانے ہی کہاں دیتا ہے۔ "(۱۴)
حالانکہ خورشید کا کردار مرکزیت نہیں رکھتا لیکن خورشید کی بے بسی کو پیش کر کے صالحہ عابد حسین کی نسائی حسیت نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے
کہ عورت کسی طرح مجبور کر دی جاتی ہے شادی کے بعد اس کی مرضی ، پسند اور اپنے طور سے زندگی گزارنے کی آزادی نہیں ہوتی ۔
شوہر چاہے کتنا بھی ظلم کر لے بیوی کا فرض ہے کہ وہ اسے سہے کیوں کہ سماج کے نقطہ نظر سے یہی ٹھیک ہے ۔
صالحہ عابد حسین نے ایسے کردار کو پیش کر کے مردانہ سماج کی ظلم وزیادتی پر نہ صرف طنز کیا ہے بلکہ کئی سوال بھی کھڑے کئے ہیں۔
ناول یادوں کے چراغ کا تنقیدی جائزہ
یادوں کے چراغ بھی صالحہ عابد حسین کا ایک یاد گار ناول ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار کنول ہے جو بے حد حساس طبیعت کی مالک اور ذہین لڑکی ہے
اس کے والد نے تین شادیاں کیں پھر بھی اس کی ماں اپنے شوہر کو مجازی خدا سمجھتی ہے
کنول کی بہنیں غزالہ اور قمر اپنے والد کے ساتھ اپنی سوتیلی ماں کے گھر جا کر رہنے لگتی ہیں۔
لیکن کنول اپنی ماں کے پاس ہی رہتی ہے۔ گھر کے پیچیدہ حالات کنول کو حساس بنا دیتے ہیں۔
وہ غزالہ کی طرح آزاد خیال اور بے پاک لڑکی بلکہ دبو قسم کی لڑکی ہے
جو اپنی ماں کی حالت کا انجانے طور پر بہت اثر لے لیتی ہے۔
باپ کی لا پرواہی ، ماں کی خاموشی ، گھر یلو حالات یہ سب اس کی شخصیت پر اثر ڈالتے ہیں ۔
وہ سماج میں مرد کی آزادانہ روش اور عورتوں کی درگت دیکھ کر سوچتی ہے۔
"کہیں سکون نہیں۔۔۔۔ کیا ہے یہ زندگی؟ دکھ ہی دکھ۔ پریشانی ہی پریشانی، بھوک، افلاس، جہالت اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
عور تیں ظلم و ستم کا شکار ہیں مرد ظالم، بے درد بے حس مرداف یہ معصوم عورتوں پر کیسے کیسے ستم ڈھاتے ہیں
ابا جی نے ایک نہیں تین عورتوں کی زندگیاں تباہ کیں۔ اور پھر کیا بیٹیوں کی نہیں؟“(۱۵)
اپنے والد کی تیسری شادی پر وہ ایسا سوچتی ہے ان سب کا اثر اس پر کچھ یوں ہوتا ہے کہ وہ مردوں اور بیاہ جیسے رشتے سے متنفر ہو جاتی ہے۔
جب غزالہ کی شادی بڑی عمر کے دولت مند شخص سے کر دی جاتی ہے اور حسین و جمیل غزالہ کو بلکتے دیکھتی ہے تو کنول سوچتی ہے:
"یہ لین دین، یہ سودے بازی، بیاہ ہے کہ بیو پار اسے غزالہ پر بڑا غصہ تھا۔ وہ کیوں اتنی بزدل ہے کہ ڈرگئی کچھ نہیں پیسے کا لالچ ہے ان کی تو جان جاتی ہے پیسے پر ۔
غزالہ کو بلکتے دیکھ کر بھی اس کا دل نہ پسیجا۔ "(۱۶)
لیکن بعد میں کنول کو اندازہ ہوتا ہے سماج میں عورت کتنی مجبور ہو جاتی ہے وہ سوچتی ہے :
"اب بھی ہمارے سماج میں لڑکی کتنی بے بس، کتنی مجبور کر دی جاتی ہے بزرگوں کی ضد اور پسند پر اسے کسی آسانی سے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے کیسے کیسے جذباتی دباؤ اس پر ڈالے جاتے ہیں !۔ (۱۷)
صالحہ عابد حسین کنول کی شکل میں معاشرہ کی ان لڑکیوں کو پیش کرتی ہیں
جو اپنی ہم جنس لڑکیوں کی حالت دیکھ کر کانپ جاتی ہے۔ سماج میں عورت کے استحصال پر حیران رہ جاتی ہے۔
لیکن اتنی مجبور بے بس ہے کہ آواز نہیں اُٹھا سکتی کنول کا کردار بھی کچھ اس قسم کا کردار ہے لیکن وہ ایک ایسی لڑکی ہے جو مجبور نظر آتے ہوئے بھی بہت طاقتور ہے۔
اس کے نسائی احساسات اس احساسات کے سائے میں ہی زندگی گزارتی ہے زندگی کے تئیں اس کا اپنا نظریہ ہے
جس پر چل کر ہی وہ زندگی گزارتی ہے ۔ اپنے شریک زندگی سے وہ کئی امید میں رکھتی ہے۔
اپنے جیون ساتھی کا ایک خاص تصور اس کے پاس ہے اس لیے جب اس کی مامی کا بھائی احمد جو دل پھینک قسم کا انسان تھا کنول سے شادی کی خواہش ظاہر کرتا ہے
اور ان کا رشتہ طے ہو جاتا ہے تو کنول احمر پر اپنے خیالات خط کے ذریعہ یوں واضح کر دیتی ہے:
"جب تک آپ آزاد ہیں جو چاہے کریں۔ مگر میں جسے اپنا شریک حیات بناؤں گی اس سے توقع رکھوں گی کہ وہ میرا اتناہی وفادار رہے
جتنی میں اس کی رہوں گی۔ میرے عقیدے میں شادی ایک ایسا بندھن ہے جس میں آدمی ایک دوسرے پر مکمل اعتماد پوری و فارادی اور پکی محبت اور دوستی کا عہد کرتے ہیں۔
ایک بھی اس پر قائم نہ رہے تو یہ بندھن ٹوٹ جاتا ہے۔ ٹوٹ جانا چاہیے ممکن ہے عام طور پر دنیا میں ایسا نہ ہوتا ہو۔ مگر میں اس پر ایمان رکھتی ہوں اور رکھوں گی۔” (۱۸)
کنول اپنی ماں کی طرح مرد کے ظلم و ستم کو چپ چاپ سہنے پر تیار نہیں ہے
اسی احمر کی فطرت جانتے ہوئے وہ اس پر یہ بات واضح کر دیتی ہے احمر جو کہ ایک مرد ہے
وہ اس کے احساسات کو بہت تلخ سمجھتا ہے اور شرائط کو کڑی اور ایک طرح سے کنول پر ہی اس کی ذمہ داری ڈال کر بری ہو جاتا ہے۔
وہ کنول کو جواب میں لکھتا ہے :
"بڑی کڑی شرط ہے کنول تمہاری محبت کے ہاتھ تھامنے کا۔ بڑا سخت مطالبہ ہے تمہارا یہ ایک مرد سے اور مرد بھی وہ جو جذباتی ہو، شاعر ہو اور مجھ جیسا بے وقوف بھی ہو۔
ہاں کنول ان معاملات میں، میں بڑا بے وقوف ہوں کوئی چالاک عورت مجھے پھانس سکتی ہے
مگر تمہاری گھنی زلفوں کے سائے میں پہنچ کر میں جانتا ہوں کہ اپنی ان کمزوریوں کو چھوڑ سکوں گا۔
میں عہد کرتا ہوں کنول کہ تمہارے اس ایوریسٹ جیسے اونچے اخلاقی معیار پر پورا اترنے کی جان توڑ کوشش کروں گا
پھر بھی انسان ہوں اگر کبھی لغزش ہو جائے تو اتنی سخت نہ بنا جتنی آج ہو ۔” (۱۹)
احمر بھی چونکہ سماج میں اجارہ رکھنے والا مرد ہے اس لیے اسے لگتا ہے کہ مرد سے اتنی وفاداری اور ایمان داری کا مطالبہ کڑا ہے پھر بھی وہ اس کی کوشش کرے گا۔
لیکن کنول سے شادی کے بعد وہ بیرونی ممالک کے دورے کے دوران اجمل نامی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے اور اس سے جسمانی تعلقات قائم کر لیتا ہے کنول کو جب اس بات کا پتہ چلتا ہے
تو وہ بکھر جاتی ہے اور اپنی ماں کو یاد کر کے سوچنے لگتی ہے :
"اماں ۔ اماں ۔ آہ۔ اماں تمہاری طرح میرے مقدر میں بھی بے وفائی کا داغ اُٹھانا لکھا تھا۔ اماں میرا دل تمہارا جتنا بڑا نہیں پھر تم پرانی قدروں کی پرستار تھیں رسم و رواج کے بندھنوں میں جکڑی ہوئی تھیں
تم اپنے شوہر کو عزت کی نظر سے نہ دیکھتے ہوئے بھی اس کے سامنے مجبور ہو جاتی تھیں مگر تمہاری بیٹی نئے زمانے کی عورت ہے جو اپنے پاؤں پر کھڑی ہو سکتی ہے
میں آزاد ہند کی آزاد اور خود دار بیٹی سماج کے جھوٹے بندھنوں اور رواج کے گھناؤنے اصولوں کی پابندی نہیں کر سکتی۔
یہ دھوکے کی زندگی یہ ظاہر داری کا ڈھونگ نہیں رچا سکتی۔” (۲۰)
صالحہ عابد حسین نے کنول کی شکل میں اس ایک ایسی لڑکی کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے جو دکھ سے ٹوٹ سکتی ہے لیکن اس کی زندگی کا دار ومدار اس کی سوچ کے دائرے پر ہے ۔
کنول اور احمر جب بیرونی ملک جاتے ہیں تو وہاں پر احمر کے تعلقات ایک غیر ملکی لڑکی سے ہو جاتے ہیں۔
احمر اس لڑکی کی خوبصورتی اور کشش سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ جسمانی تعلقات قائم کرتا ہے۔ کچھ عرصے بعد جب وہ لڑ کی ہندوستان آتی ہے اور کنول کو پتہ چلتا ہے کہ
وہ احمر کے بچے کی ماں بننے والی ہے تو کنول احمر کے بیرونی دورے سے لوٹنے پر احمر کو اس عورت کے حوالے کر کے اپنے بھائی بہلو کے پاس آجاتی ہے۔
وہ سمجھوتے کی زندگی نہیں گزارنا چاہتی ببلو کہتا ہے کہ وہ احمر سے طلاق لے کر نئی زندگی شروع کرے تو وہ سوچتی ہے:
"نئی زندگی؟ کتنے بھولے ہوتے ہیں یہ مرد بھی وہ کیسے جانتا کہ اس کی بد بخت بہن نے احمر کو چھوڑ کر تنہائی کی اجاز زندگی اختیار ضرور کی ہے
مگر اس کے دل میں جو مورتی براجمان ہے وہ اسی بے وفا کی ہے عورت کی محبت کی شدت ، گہرائی اور پائیداری کو یہ مرد بچارے کجھ ہی کیسے سکتے ہیں؟ وہ تو اپنے پیانوں سے ناپتے ہیں جو کتنے اتھلے اور چھوٹے ہوتے ہیں اکثر ۔” (۲۱)
صالحہ عابد حسین کا ناول نسائی حسیت کے اعتبار سے کافی اہم ہے
کیونکہ صالحہ نے کنول کے خیالات کے ذریعہ ان تمام عورتوں کے خیالات اور احساسات کی عکاسی کی ہے جو اس مردانہ معاشرے میں ان حالات سے اکثر و بیشتر نبرد آزما ہوتی ہے ۔
مرد کے خیالات ، احساسات کی دنیا عورت کے خیالات اور احساسات کی دنیا سے پورے طور پر الگ ہوتی ہے وہ بات جو عورت کے لیے بہت اہم ہوتی ہے مرد کے لیے معمولی ہوتی ہے
اس طرح کنول اور احمر کتنی مختلف کیفیت ہوتی ہے کنواری دلہن اور اس کے دلہا کی اس رات ! ہندوستانی لڑکی، جو بہت کم بہت ہی کم جنسی کشش اور جسمانی پکار سے بے قرار ہو کر اپنے جیون ساتھی کی آغوش میں آتی ہے۔
وہ ڈھونڈتی ہے اس جوش میں عشق، اس ولولے میں دوستی اور اعتماد ، اس وقتی کشش میں جنم مرن کے ساتھی کو جس کو وہ اپنا سب کچھ سونپ سکے اور جس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بنا سکے وہ جسموں کی نہیں دلوں کی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر روحوں کے اعتقاد اور اعتماد پر یقین رکھتی ہے ۔ "(۲۵)
صالحہ ابد حسین نے ایک مشرقی لڑکی کی فطری سوچ اور شادی کے وقت ذہنی کیفیت کو بہ خوبی بیان کیا ہے۔
اس طرح کی کیفیت سے تقریبا ہرلڑ کی دو چار ہوتی ہے۔
میں نے صالحہ عابد حسین کی ناول نگاری کی تفصیلی جائزہ اس لیے پیش کیا ہے کہ عالم طور پر ہمارے ناقدین نے انھیں نظر انداز کیا ہے
جبکہ صالحہ عابد حسین ایک اہم خاتون ناول نگار بھی نہیں۔ مگر مگر ۔ وہ مرد تھے نا۔ گھر یلو زندگی اور عورت کے جذبات و احساسات کی ایسی کچی عکاسی ان کے بس کی بات تھی۔
"جیسی کہ اس نے کی خیر کی نہ سہی کوشش کی ہے کرنے کی ۔ ایک دن کرنے بھی لگے گئی (۲۳)
اس ناول میں صالحہ عابد حسین نے ایک متوسط طبقہ کی معصوم مشرقی لڑکی کے احساسات کو بڑے فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے
عام طور پر ایسے گھرانوں کی لڑکیاں شادی بیاہ کے معاملے میں زیادہ جانکاری نہیں رکھتیں اور سیکس کے بارے میں بالکل ہی جانکاری نہیں رکھتی۔
ایسے میں جب اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کے احساسات بے حد عجیب ہوتے ہیں۔
شادی کے وقت کنول کے جذبات و احساسات بھی کچھ اجنبی اجنبی سے تھے:
"کتنی عجیب حالت تھی اس وقت۔ نہ بخار کا احساس تھا نہ تھکان سے چور جسم کی پر واہ اس کا بند بند ٹوٹ رہا تھا بس ایک انجانا سا خوف دل و دماغ کو پیسے دے رہا تھا
۔ سیکس کے معاملے میں وہ بالکل معصوم تھی۔ اس کی ہم عمر سہلیاں اور بہنیں آپس میں اس مسئلے پر بات چیت ضرور کیا کرتی تھی ،
ایک دوسرے سے چھیڑ چھاڑ بھی کی جاتی تھی مگر وہ ہمیشہ ان باتوں سے الگ الگ رہی ۔” (۲۴)
صالحہ عابد حسین کے مطابق کہ کنول کی طرح اکثر لڑکیاں ایسے ہی جذبات و احساسات سے دوچار ہوتی ہیں۔ صالحہ کے خیال میں:
"کتنی مختلف کیفیت ہوتی ہے کنواری دلہن اور اس کے دلہا کی اس رات !
ہندوستانی لڑکی، جو بہت کم بہت ہی کم جنسی کشش اور جسمانی پکار سے بے قرار ہو کر اپنے جیون ساتھی کی آغوش میں آتی ہے۔
وہ ڈھونڈتی ہے اس جوش میں عشق، اس ولولے میں دوستی اور اعتماد ، اس وقتی کشش میں جنم مرن کے ساتھی کو
جس کو وہ اپنا سب کچھ سونپ ۔ ب سکے اور جس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا بنا سکے وہ جسموں کی نہیں دلوں کی اور اس سے بھی آگے بڑھ کر روحوں کے اعتقاد اور اعتماد پر یقین رکھتی ہے ۔ "(۲۵)
صالحہ ابد حسین نے ایک مشرقی لڑکی کی فطری سوچ اور شادی کے وقت ذہنی کیفیت کو بہ خوبی بیان کیا ہے۔
اس طرح کی کیفیت سے تقریبا ہر لڑکی دو چار ہوتی ہے۔
اردو ناول نگاری میں خواتین کا حصہ
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں