سجاد باقر رضوی: تخلیق اور تنقید کا امتزاج
موضوعات کی فہرست
تخلیقی عمل کی اہمیت
ادیب در اصل داخلی محرکات کے تحت ہی تخلیقات کرتا ہے۔ وہ خارجی صورت حال پر زیادہ انحصار نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ اظہار کے لیے آزادی میسر نہیں ہے۔ ان کے بارے میں سجاد باقر رضوی کہتے ہیں کہ وہ اظہار کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اظہار کے لیے پابندی کا تصور سمجھ سے بالا تر ہے کیونکہ ادیب ہر حال میں اظہار کرنا جانتا ہے اور یہ اس کی مجبوری ہے اور اظہار ہی اس کا مقدر ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
تخلیق کرنے والے کے لیے قدرت نے یہ سہولت بھی نہیں رکھی کہ چاہے تو تخلیق کرے اور نہ چاہے تو نہ کرے تحقیق اس کا مقدر ہے خواہ وہ فنون لطیفہ کی ذیل میں ہو یا اعلیٰ معاشرتی رویوں سے زندگی کو خوبصورت اور توانا بنانے کی ذیل میں۔ تخلیقی ذہن اپنے مقدر سے فرار حاصل نہیں کر سکتا (۸۷)
ان کا خیال ہے کہ تخلیق کار ضرورت یا دباؤ کے تحت فن تخلیق نہیں کرتا بلکہ یہ تخلیق اس کی باقی جسمانی ضروریات کی طرح ایک ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے وہ فن تخلیق کرتا چلا جاتا ہے۔ اس میں اظہار کے سانچے اس کی مدد کرتے ہیں اور وہ فن تخلیق کرتے ہوئے اپنی ایک جسمانی حاجت پوری کر رہا ہوتا ہے۔
باقر صاحب کی تخلیقی شخصیت
تخلیقیت باقر صاحب کی شخصیت کا غالب عنصر تھا۔ اپنی شخصیت کے اس جزو اعظم کے باعث انھوں نے تنقید کی حتیٰ کہ تدریس کو بھی تخلیقی سطح پر پہنچا دیا ۔ وہ معاشرے میں تخلیقی رویوں کے موید رہے اور ہر غیر حقیقی صورت حال سے نالاں رہتے ۔ مادی ترقی کا عمل جس تیز رفتاری سے ہمارے معاشرے کی اخلاقی و مذہبی اقدار کو پیچھے چھوڑتا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں انسان مادیت کا امیر ہو کر جس تعلیقی بنجر پن کا شکار ہو رہا ہے، باقر صاحب اس صورت حال پر نہ صرف رنجیدہ ہوتے بلکہ کڑھتے تھے اپنے مضامین اور شاعری میں وہ صورت حال کے خلاف احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ (۸۸)
سجاد باقر رضوی کلاسیکی مزاج کے حامل تھے ، سرسید تحریک اور اکبر موضوع گفتگو رہتا۔ ان کے ہاں تہذیب اور تہذیب کی جڑوں کا ذکر ضرور آتا تھا ۔ ماضی کو سرمایہ قرار دیتے تھے۔ غزل ان کا محبوب صنف سخن تھا۔ ان کے ہاں نفسیاتی تصورات اور بینگ (Jung) کا لاشعور کا نظریہ مختلف تحریروں میں تہذیب کے حوالے سے نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری اس دور کا ذکر کرتے ہیں جب باقر صاحب سول لائنز کالج میں پڑھاتے تھے۔ ٹی ایس ایلیٹ (T.S. Eliot) اور بینگ اس دور میں ان کے لیے چینی سرچشموں کی حیثیت اختیار کر گئے تھے۔
یہ بات بھی یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ باقر صاحب اردو کے ان اولین ادیبوں میں تھے جنھوں نے بینگ کے نفسیاتی تصورات کو اردو تنقید میں متعارف کروایا اور ان سے ایک ادبی نقطہ نظر قائم کیا۔ بینگ کے تہذیبی لاشعور ، اساطیر اور انسان کے باطنی سرچشموں کی دنیا سے خصوصی دل چسپی رکھتے تھے ان کے علمی مطالعات میں ایرک فرام (Erich Fromm) کو بھی ایک خصوصی مقام حاصل تھا ا یرک فرام سے علمی استفادہ کرنے والوں میں باقر صاحب اولین نقاد تھے۔ (۸۹)
سجاد باقر رضوی اور نفسیاتی تنقید
نفسیاتی تنقید کا تعارف
نفسیاتی تنقید کے حوالے سے دیکھا جائے تو سجاد باقر رضوی کا مقالہ "ادب، نفسیات اور نفسیاتی تنقید” صحیفہ مجلس ترقی ادب لاہور میں ۱۹۸۵ء میں نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں نفسیات ایک موضوع کے طور پر نظر آتی ہے اور تنقید میں بھی نفسیاتی طریقہ کار نظر آتا ہے۔ انھوں نے جن نفسیات دانوں کے نظریات کو واضح طور پر پیش کیا ہے ان میں فرائڈ، ایڈلر اور ژونگ کے نام آتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ نفسیات کے نظریات کا نفسیاتی تنقید میں اثر موجود ہے۔
فرائڈ، ژونگ اور ایڈلر کے نظریات
وہ لکھتے ہیں کہ ژونگ کا میدان اجتماعی لاشعور ہے اس تصور کو پیش کرنے سے فرائڈ کے نظریہ لاشعور میں وسعت پیدا ہو گئی ۔ ژونگ کا خیال ہے کہ لاشعور میں انسانوں کے اجتماعی تجربوں کا ذخیرہ موجود ہوتا ہے اور یہ اجتماعی تجربے "آر کی ٹائپ“ کہلاتے ہیں۔ اجتماعی تجزیوں کو سجاد باقر رضوی روحانیت کی طرف لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جبلتوں کا روحانی پہلو ہوتے ہیں۔ ایک اور بات جس کا ذکر اس مقالے میں واضح طور پر ملتا ہے وہ یہ کہ فرائڈ کے نظریہ خواب سے ژونگ نے اختلاف کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تکمیل نہ پانے والی خواہشات کی ۱۷۸تکمیل نہیں بلکہ خواب تو دراصل مستقبل کا پروگرام ہوتے ہیں۔
سجاد باقر رضوی فرائڈ کے نظریات کے بارے لکھتے ہیں کہ فرائڈ کے ہاں انسانی شخصیت کے مختلف پہلو ہوتے ہیں جن میں لاذات ، انا اور فوق الا انا شامل ہیں۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ تمام جبلی خواہشات ہی لاذات میں محفوظ ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ مختلف صورتوں میں تسکین کی راہ تلاش کرتی ہیں یا تو یہ خواہشات تکمیل تک پہنچ جاتی ہیں بصورت دیگر ان کی تکمیل خوابوں میں ہوتی ہے۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر ژونگ متفق نہیں ہے۔ ژونگ کے نزدیک خواب مستقبل کی طرف اشارہ ہوتے ہیں۔
فرائڈ کے ہاں شخصیت کا دوسرا اہم پہلو انا آتا ہے۔ انا کا تعلق خارجی حقائق سے ہوتا ہے۔ خارجی حقائق اور جبلی خواہشات ان دونوں کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے جس سے ایک توازن کی صورت پیدا ہوتی ہے یہ توازن دراصل انسانی شخصیت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ تیسرا اہم پہلو فوق الا انا ہے۔ فوق الا انا اخلاقی و معاشرتی پابندیوں پر مشتمل ہے جن کی وجہ سے ہم اپنے آپ کو اخلاق کے دائرے میں مقید رکھتے ہیں اور معاشرتی و سماجی پابندیوں میں جکڑے رہتے ہیں۔ فرائڈ کا نظریہ یہ ہے کہ اگر انا، فوق الا انا اور لاذات پر غالب آجائے تو نفسیاتی مسائل پیدا ہوتے ہیں اور شخصیت میں توازن قائم نہیں رہتا۔
سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں کہ ایڈلر کے ہاں انا کی تکمیل اور قوت کا حصول کے نظریات پائے جاتے ہیں۔ اس قوت کے حصول دراصل اس لیے ہوتا ہے کہ انسان احساس کمتری پر قابو پائے۔ دوسرے لفظوں میں ایڈلر کے ہاں اقتدار کا حصول انسانی شخصیت کا نفسی مسئلہ ہے نہ کہ جنسی خواہشات۔
نفسیاتی تنقید کا دائرہ کار اور طریقہ کار
نفسیاتی تنقید میں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جانا مقصود ہوتا ہے جن میں فن کار کی شخصیت کی بناوٹ میں ماحول کا کردار، فن کار یاں ادیب کا تخلیقی عمل کس طرح وقوع پزیر ہوتا ہے۔ اسی طرح تخلیق شدہ ادب کے پڑھنے والوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں وغیرہ شامل ہیں ۔ ایک اہم بات جو کہ سجاد باقر رضوی نفسیاتی تنقید کے بارے لکھتے ہیں کہ نفسیاتی تنقید جہاں ہمیں ادب، ادیب اور تخلیقی طریقہ کار کا جائزہ لے کر مختلف مراحل بتاتی ہے اور ادیب پر ماحول کے اثرات یا وہ حالات جن سے ادیب گزرا وہ کس طرح ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان سب خوبیوں کے باوجود نفسیاتی تنقید فن پارے کا ادب میں مقام متعین نہیں کرتی۔
نفسیاتی طریقہ کار کے بارے میں سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں کہ ایک طریقہ کار تو یہ ہے کہ فن کا تخلیقی عمل کس طرح وقوع ۱۷۹پذیر ہوتا ہے دوسرا طریقہ کار یہ ہے کہ فن پارے سے ثبوت فراہم کر کے فنکار کی شخصیت کے مختلف پہلو سامنے لائے جاتے ہیں۔ جن میں اس کی زندگی کے بارے میں دینی نشو ونما اور ماحول کا جائزہ لیا جاتا ہے تا کہ پتہ چل سکے کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کی بنا پر فن پارہ وجود میں آیا۔
قدیم یونانی اور کلاسیکی نظریات
اس کے پس منظر میں سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں کہ قدیم یونانی ادب میں ایک نظریہ تو یہ تھا کہ شاعر کے ہاں تو مقدس دیوانگی پائی جاتی ہے اس دیوانگی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ شاعر ، شعر لکھتا ہے اور دوسرا نظریہ یہ تھا کہ جب کسی شاعر کے ہاں نا آسودگی پائی جائے تو اس محرومی کی وجہ سے اس کی تخلیقی صلاحیتیں بڑھ جاتی ہیں اور وہ شعر کہنا شروع کر دیتا ہے۔ ایسی شاعری جو کہ شاعر کی ذہنی کیفیتوں کو ظاہر کرے، نفسیاتی تنقید کے لیے موزوں ہوتی ہے۔
اسی طرح افلاطون اور ارسطو کے حوالے سے بھی سجاد باقر رضوی نے اپنی رائے پیش کی ہے۔ افلاطون نے کہا تھا کہ شاعر اخلاق کو بگاڑنے کا کام کرتا ہے جبکہ ارسطو کا کہنا ہے کہ شاعری جذبات کی تحلیل نفسی کا نام ہے تحلیل نفسی کے نتیجے میں شخصیت میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ سجاد باقر رضوی کہتے ہیں کہ شاعری جذبات کو برانگیختہ کرتی ہے مگر طبیعت میں توازن بھی لاتی ہے۔
میرا جی کی نفسیاتی تنقید
سجاد باقر رضوی، میرا جی کی نفسیاتی تنقید اور ان کا تنقیدی طریقہ کار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میرا جی پر فرائڈ کا گہرا اثر تھا جس کی وجہ سے انھوں نے نفسیاتی تنقید کے اعلیٰ نظری نمونے چھوڑے ہیں تاہم سجاد باقر رضوی کا خیال ہے کہ میرا جی کے ہاں عملی تنقید کی مثالیں بھی موجود ہیں۔
تخلیق کے مادری و پدری اصول
سجاد باقر رضوی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں نے نہ صرف تنقید میں اپنی الگ آراء قائم کی ہیں بلکہ انھوں نے تخلیق کے حوالے سے الگ ایک نظام مرتب کیا ہے۔ جن کا نام انھوں نے مادری اصول اور پدری اصول رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ تخلیق کے پیچھے دو بنیادی اصول کار فرما ہوتے ہیں پہلا اصول مادری ہے جن میں جبلتیں، تخیل ، جذبات ، وجدان اور لاشعور پایا جاتا ہے۔ دوسرا اصول پدری ہے جس میں توازن، عقل و شعور اور تنظیم شامل ہے۔ تخلیق میں ان دونوں اصولوں کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ ان دونوں اصولوں کے ملنے سے تخلیق ہوتی ہے۔ سجاد باقر رضوی "تہذیب و تخلیق” میں لکھتے ہیں۔
اس میں پہلا اصول تخلیق کا ذریعہ ہے اور دوسرا اصول تخلیق کا مقصد ہے اور تخلیق میں ان دو اصولوں کا یکجا ہونا ضروری ہے۔ (حوالہ…..) ۱۸۰
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اردو تنقید اور حلقہ اربابِ ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاہ
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: National University of Modern Languages, Islamabad
- صفحہ نمبر: 177,178,179,180
- آپ تک پہنچانے میں معاون: عابدہ پروین