غزل: سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں کی تشریح

کتاب کا نام ۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ ۔۔
کورس کوڈ…. 5612
موضوع ۔۔۔۔ سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
صفحہ نمبر ۔۔۔۔225
مرتب کردہ ۔۔۔الیانا کلیم 🌼

غزل: سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

سب کہاں، کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی، کہ پنہاں ہو گئیں

کیا صورتیں ہوں گی یعنی بہت حسین اور دل کش صورتیں ہوں گی۔

دوسرے مصرع کی نشریوں ہوگی : کیسی کیسی حسین صورتیں ہوں گی جو خاک میں پنہاں ہو گئیں ۔

مطلب : کیسی کیسی حسین صورتیں خاک میں پنہاں ہو گئیں۔ اُن میں سے سب تو نہیں ، ہاں کچھ حسین صورتیں بشکل لالہ و گل نمایاں ہو گئیں ۔ شاعر نے حسین تقلیل سے کام لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ لالہ وگل میں جو اس قدر حسن اور دل کشی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حسینان عالم، جن کو بعد وفات زیر زمین دفن کیا گیا ، ان پھولوں کی شکل میں ظاہر ہو رہے ہیں !

بنیادی تصور : حسن تعلیل –

نوٹ: نظیر اکبر آبادی نے اس مضمون کو یوں باندھنا ہے :۔
4۔۔۔تھے کل یہ خط عارض خوبان سبزه رنگ

کہتی ہے آج خلق جنھیں سبزہ زار ہا !

یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہو گئیں۔

مطلب : کسی زمانے میں ہم بھی نت نئی بزم عیش منعقد کیا کرتے تھے لیکن اب وہ سب باتیں ( عیش کی محفلیں )

فراموش ہو چکی ہیں۔

بنیادی تصور : تصویر انقلاب روز گارمین

تھیں بنات النعش گردوں دن کو پردے میں نہاں

شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں!

بنات النعش کردوں ۔ آسمان میں قطب شمالی کے قریب سات ستارے ہیں ان میں سے چار ستارے چار پائی کی

شکل کے ہیں۔ ہندوستان میں ان کو سات سہیلیوں کا جھمکا کہتے ہیں۔

مطلب : ۔ یہ سات سہیلیاں دن کے وقت تو پوشیدہ تھیں ۔ خدا معلوم رات کے وقت ان سے ہی میں کیا آئی کہ عریان

ہو گئیں۔

نوٹ :۔ بجز ایک شاعرانہ تخیل کے اس شعر یں اور کوئی خوبی نہیں ہے زیادہ سےزیادہ یہ کہ شاعرات کی ایک کیفیت

مستی و سرور کو ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ رات ایسی سبانی تھی کہ یہ کچھ ہو گیا۔

بنیادی تصور : – کیف انگیزی شب ماهتاب

قید میں یعقوب نے لی، گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں، روزن دیوار زنداں ہو گئیں

مطلب :۔ حالی لکھتے ہیں کہ ” یعقوب کی آنکھوں کو روزن دیوار زنداں قرار دیا ہے ۔ کیوں کہ جس طرح روزن زنداں ہر وقت یوسف پر کشادہ رہتا تھا ( اُن کو دیکھتا رہتا تھا ) اسی طرح یعقوب کی آنکھیں شب و روز یوسف علیہ السلام کی طرف نگراں رہتی تھیں ۔ ( یادگار غالب ص ۱۳۶) ۔

بنیادی تصور : – تاثیر نالہ و فریاد۔

(۵) وہ نگاہیں کیوں ہوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار

جو مری کوتاہی قسمت سے مژگاں ہو گئیں

نگاہوں کا مژگاں ہو جانا کنا یہ ہے بچی یا شرمگیں نگاہوں سے اور سب جانتے ہیں کہ محبوب کی نیچی نگاہیں عاشق کو بہت مرغوب ہوتی ہیں۔ نگاہوں کا دل کے پار ہو جانا کنا یہ ہے ان کی دل کشی سے ۔

مطلب :۔ غالب نے ایک امر واقعی کو (کہ نیچی نظریں ہمیشہ عاشق کے دل کے پار ہو جاتی ہیں یعنی اسے بہت دل کش معلوم ہوتی ہیں ) حیرت اور تعجب کے رنگ میں بیان کیا ہے۔ حالی لکھتے ہیں کہ :۔

نگاہوں کے مژگاں ہو جانے سے یہ مراد ہے کہ شرم وحیا کے سبب سے اوپر نہیں اٹھتیں بلکہ پلکوں کی طرح ہر

وقت نیچے کو جھکی رہتی ہیں ۔“

بنیادی تصور : : تاثیر نگاه شرمگیں

6 ۔۔۔بسکہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے

میری آہیں بخیہ چاک گریباں ہو گئیں!

مطلب :۔ میں نے چونکہ بار بار اپنی آہوں کو ضبط کیا بایں طور کہ جب وہ ابھریں تو میں نے انھیں دبایا اس لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ میری آہیں میرے چاک گریباں کا بخیہ ہوگئیں۔

غالب نے اس شعر میں آہوں کے دبانے کو چاک گریباں کا بخیہ ہونے سے تشبیہ دی ہے۔ بخیہ کرتے وقت تا گا ابھرتا اور دیتا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی خاص بات نہیں ہے، اسی لیے نظم طبا طبائی نے یہ لکھا ہے کہ باعتبار مضمون کے شعر "
بے معنی ہے ۔ ( شرح دیوان غالب ص ۱۲۸)

(7) واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں!

” مطلب :۔ حالی لکھتے ہیں یعنی اب کوئی نئی دعا تو ذہن میں باقی نہیں رہی ٢٠٠ مستعمل دعا ئیں جو دربان کو دے چکا ہوں، محبوب کے حق میں صرف کرنے کو جی نہیں چاہتا ۔ اس شعر میں جو اصل خوبی اور لطافت ہے وہ یہ ہے کہ گالیوں کے جواب میں چاہتا۔ دعائیں دینے کو ایک اپنی معمولی اور ضروری بات ہونا ظاہر کرتا ہے کہ گویا اس کو ہر شخص جانتا ہے اسی لیے حیران ہو کر سب سے پوچھتا ہے کہ بتاؤ ان کی گالیوں کا کیا جواب دوں گا جب کہ دعا ئیں تو سب نبڑ گئیں (ختم ہوگئیں)۔ (یادگار غالب ص ۱۳۶)

بنیادی تصور : – قدر و قیمت دشنام طرازی محبوب۔

8۔۔۔جاں فزا ہے بادہ، جس کے ہاتھ میں جام آگیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہو گئیں

مطلب : – شراب بہت جاں فزا شے ہے۔ دوسرے مصرع میں اس دعوئی پر دلیل دی ہے کہ جو شخص بھی جام شراب ہاتھ میں لے لیتا ہے تو شراب کی تاثیر سے ، اس کے ہاتھ کی لکیریں گو یا رگ جاں بن جاتی ہیں یعنی ان میں زندگی کی لہر جاری ہو جاتی ہے۔

بنیادی تصور : – مبالغه در تحسین شراب

9 ۔۔۔ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایمان ہو گئیں

مطلب :۔ خالی لکھتے ہیں تمام ملتوں اور مذہبوں کو منجمد دیگر رسوم کے قرار دیتا ہے۔ جن کا ترک کرنا اور مٹانا ، موحد کا اصل مذہب ہے۔ چنانچہ کہتا ہے کہ یہی ملتیں جب مٹ جاتی ہیں تو اجزائے ایمان بن جاتی ہیں ۔ ( یادگار غالب ص ۱۳۶ )

شاعرانہ خوبی اس شعر میں یہ ہے کہ معدومیت مذاہب کو اجزائے ایمان قرار دیا ہے۔ حالانکہ قانون قدرت یہ ہے کہ جب کوئی شے مٹ جاتی ہے تو وہ کسی موجود شے کا جزو نہیں بن سکتی۔ بالفاظ دگر ، غالب نے اپنے انداز بیان کی ندرت سے محال کو ممکن اور معدوم کو موجود بنا دیا۔ مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رسوم ( مذاہب کو جس قدر ترک کرتا جائے گا اسی قدر مومن (موجود) بنتا جائے گا۔
بنیادی تصور : حقیقت توحید یا شناخت موحد
10۔۔۔ رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

مطلب : ۔ حالی لکھتے ہیں یہ خیال بالکل اچھوتا ہے اور نرالا خیال ہی نہیں بلکہ فیکٹ ( امر واقعی ) ہے اور ایسی خوبی سے بیان ہوا ہے کہ اس سے زیادہ نہیں آسکتا۔ کی کا اندازہ کی ضد حین کے ہو بیان ہوا ہے کہ اس سے زیادہ تصور میں نہیں آسکتا ۔ مشکلات کی کثرت کا اندازہ ان کی ضد یعنی ان کے آسان ہو جانے پر کرنا در حقیقت حسن مبالغہ کی معراج ہے جس کی نظیر آج تک نہیں دیکھی گئی۔ ( یادگار غالب )

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس شعر میں غالب نے انسانی نفسیات کی بڑی عمدہ تصویر کھینچی ہے۔ انسان پر جب پہلے پہل کوئی مصیبت وارد ہوتی ہے تو وہ بہت گھبراتا ہے لیکن جب مصائب کا نزول پے درپے ہوتا ہے تو وہ ان کا

عادی ہو جاتا ہے یعنی وہ مشکلات اسے آسان معلوم ہونے لگتی ہیں ۔

11 ۔۔۔یونہی گر روتا رہا غالب تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

مطلب : – گریہ میں مبالغہ کرنا غالب کا محبوب شیوہ پسندیدہ موضوع ہے مطلب بالکل واضح ہے کہ اگر غالب اسی طرح رہا تو کچھ عرصہ کے بعد دلی ہی نہیں بلکہ اس کے گردو نواح کی سب بستیاں اشکوں کے سیلاب سے تباہ ہو جائیں گی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں