علی اکبر ناطق کے افسانوں میں پنجاب کے دیہی سماج کی عکس بندی
افسانہ اپنے دور کا آئینہ ہو تا ہے اور اردو افسانے کے ہر دور میں سماج کی مثبت رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے۔ داستان ناول اور افسانہ اردو ادب کے مختلف ہے۔جیسے جیسے انسان کے شعور اور ذوق میں تبدیلی آتی گئیں ویسے ویسے افسانے کی شکلیں اور انداز میں تبدیلیاں آتی گئی۔اردو نثر میں داستان سے افسانے تک اور شاعری میں مسدس، مرثیہ، نظم اور غزل تک ہر جگہ ہمیشہ فنکاروں کے توسط سے ان کے دور کے حالات ، خیالات اور محرکات کا ہمیشہ اندازہ ہوتا رہا ہے۔ اردو افسانوی ادب انسانوں کو اپنے سارے بدن کی تھکن دور کرنے کے لیے فطرتاَ کسی ایسے مشغلے کی جستجو ہوئی تھی جو ان کے فطری احساس ِ برتری کو بھی تسکین دے سکے۔اور ان ہر عارضی طور پرایسی خور فراموشی بھی کر سکے کہ اس ماحول میں حقائق اور تلخیاں نہ ستائیں یا یہ کہا جائے کہ ان کا مقصد خواہ قاری یا سامعین کی دل بستگی کیوں نہ رہا ہو۔ وہ اپنے دور کے حالات ، لوگوں کی خواہشات وجذبات کی عکاسی کا زریعہ نہیں۔ اب وقت بدل گیا اور لوگوں کے ادبی تقاضے بھی بدلے ۔لہذا ارگرد کے ماحول سے متاثر لوگوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ناول نے اپنے ارتقا ء کے مختلف مدراج ومراحل طے کئے لیکن زمانہ بدلا تو اس کے تغیرہند مزاج نے ایک دوسر ی طرف کی کہانی کا مطالعہ کیا۔ ایسی کہانی کو زندگی کی ساری وسعتوں پر حاوی اور اس کی گہرایوں کی ترجمان ہونا بھی ایک ایسے فن کی علمبردار ہو جہاں ایجاز واختصار کی حکمرانی ہو۔ جاگیردارانہ نظام اور عشرت ہند تہذیب کے تقاضوں نے داستان جیسی صنف کی تخلیق کی تھی۔ حقائق کے تلخ احساس اور زندگی کے مسائل کو کہانی کے زریعے حل کرنے کی خواہش نے ناول کو جنم دیا۔ لیکن وقت میں پہلا ساپھیلاؤ باقی نہ رہا اور انسان کو اپنے تفریحی مشاغل میں کانٹ چھانٹ کرنی پڑی اور اس کے مزاج نے ایسی کہانی کی طلب کی جس میں کم جگر کاوی کرنی پڑے۔ جس کی وجہ سے افسانہ وجود میں آگیا۔ جس میں داستان کی طرح قاری کے لیے دلچسپی کا سامان، ناول کی طرح فنی کی پابندیوں میں ملبوس ایک مقصد اور ڈرامے کی طرح قاری کے دل میں آگے کا حال جاننے اشتیاق سب کچھ سمو گیا ہو۔ جہاں تک اردو فکشن میں دیہاتی زندگی کی عکاسی کا تعلق ہے تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے۔کہ اردو کی تمام نثری داستانوں میں عناصر ملتے ہیں۔ وہ صرف دیہات سے ہٹ کے ہے۔ بلکہ وہ آج کے دور کے مزاج کے بالکل بر عکس ہیں۔ مافوق الفطرت عناصر دیو پری کے قصے ، ہیرو کی ہمیشہ فتح، کسی جن کا شہزادی پر عاشق ہونا، حسن کے مختلف جلوئے، زمین کے نیچے خوبصورت باغ ہونا وغیرہ کا ذکر یہ داستانیں آج کے لئے مضحکہ خیز ضرور ہے۔ لیکن اپنے اپنے عہد کی دلچسپی کا اہم ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کی داستانوں پر غور کیجیے خصوصاَ فورٹ ولیم کا لج کی داستانیں جو انگریزوں کی آمد کے بعد ترجمہ کی گئیں۔ ان میں زبان وبیان اور قصے کی ایک بدلتی ہوئی شکل نظر آتی ہیں۔ خصوصاَ "باغ وبہار” اس کے ساتھ ساتھ "سب رس”” رانی کیتکی کی کہانی ” ” فسانہ عجائب” یہ داستانیں فورٹ ولیم کالج اور اس کی باہر کی پیداوار ہیں۔ یہ داستانیں اس وقت لکھی گئیں جب مغلیہ سلطنت دم توڑ رہی تھی یہ ضرور ہے کہ ان داستانوں میں دیہاتی عناصر نظر نہیں آتے، لیکن بدلتا ہوا سماجی شعور بیدا ہوتا ہوا سماجی زہن، لاشعوری طور پر ان میں جھلکتا ہو انظر آتا ہے۔ میمونہ بیگم انصاری اس بارے میں یوں رقم طراز ہیں:
” جیسے جیسے قصے زمانے کے قریب لکھے جارہے تھے ان کے اندر ہلکا ہلکا احساس کروٹیں لیتا ہوا محسوس ہوتا جارہا تھا با غ و بہار کا اسلوب ، داستان امیر حمزہ کی زبان اور بوستان خیال کی سادگی ادب کو زندگی کی کے قریب لانے ہر صاف دلالت ہوئی معلوم ہوتی ہے”1؎
اگر چہ ان نثری داستانوں میں دیہاتی زندگی کی عکاسی نہیں ملتی ہے لیکن ان کی یہ کاوش کیا کم ہے کہ انہوں نے ہی اردو ناول کے لیے راہیں ہموار کی۔ جس نے پہلی بار حقیقی زندگی کو ادب سے متعارف کر وایا۔
ناول کے بعد زمانے نے پھر ایک بار کروٹ لی تو صنف افسانے کا وجود عمل آیا اور بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوتے ہی اس نے برق رفتاری سے اپنی ارتقائی منزلیں طے کرتا گیا۔
علی اکبر ناطق کی افسانہ نگاری معمولی اور عام لوگوں کی زندگی کی حقیقتوں کو ایک دلچسپ اور انسانی طریقے سے پیش کرتی ہے۔ وہ اپنی کہانیوں میں دیہاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی تصاویر کو بہترین طریقے سے اُجاگر کرتے ہیں۔ علی اکبر ناطق کے افسانوں کے پلاٹ عموماَ دیہاتی علاقوں میں مرکوز ہوتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں عام زندگی کے مختلف پہلوؤں پر زور دیا جاتا ہے جیسے کہ خاندانی تعلقات، رومانی، ملی روایات اور معاشرتی مسائل وغیرہ سے افسانوں کے پلاٹ کوموزوںاور خوبصورت بنا دیتا ہے ۔
جیسا کہ افسانہ قائم دین میں” شاہ مدار کی پازیبیں” کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
"گاؤں میں یہ واحد ایسا گھر تھا جیسے آپ پورے گاؤں کا گھر کہہ سکتے ہیں دوکنال کا کھلا احاطہ جس کے چاروں طرف دیوار نہیں تھی بلکہ کانٹے دار لکڑیوں کی باڑھ کر دی گئی تھی تاکہ ملکیت کا پتہ چلتا رہے اندر تین چار کمرے ہوں گے جن کی دیواریں گارے مٹی کے اور چھتیں گھاس پھوس کی تھیں سردیاں آتیں تو بھینس بھی انھیں کمروں کے اندر بندھتیں میں نے بابا چراغ دین کو کبھی کام کرتے نہیں دیکھا جب بھی احاطے میں داخل ہو ا پہلےسیدھی نظر اسی پر رکتی بڑی کلغی کا ایک اصل مرغ گود میں ہوتا”۔۔۔۔۔۔2؎
علی اکبر ناطق اپنی افسانہ نگاری کے ذریعے طبیعت ماحول اور دیہاتی زندگی کی حقیقتوں کو بہترین طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ ان کے افسانے عموماَ عام دیہاتی لوگوں کی زندگی کے دلچسپ پہلوؤں پر مبنی ہوتےہیں ۔ اور یہی سب ان کے افسانوں کے پلاٹ کو دیگر افسانہ نگاروں سے جدا کر دیتا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ کار ایک افسانہ نگارکے لیے مشکل بھی ہوتا ہے۔ لیکن جب علی اکبر ناطق کے افسا نے پڑھے جاتے ہیں۔ تو ان کے افسانوں کے پلاٹ میں کوئی خامی نظر آتی۔ ان کی کہانیوں کے پلاٹ اس خوبصورت انداز سے بنے ہو تے ہیں۔ کہ قارئین کو ان کی کہانیوں میں شناخت اور ہمدردری محسوس کر نے کے مواقع فراہم کرتے ہیں جیسے کہ افسانہ قائم دین میں ” تابوت” کا اقتباس ملاحظہ ہوں:
” ایک دن حسبِ معمول شطرنج اور چائے میں مشغول تھے کہ ایک مریضہ کو اس کے لواحقین ٹانگے پر لاد کر لائے مریضہ بے ہوش اور لواحقین گھبرائےہوئے ۔ ڈاکٹر نے شطرنج جلدی سے میز کے نیچے چھپادی اور مریضہ کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔”3؎
اگر اس اقتباس کو دیکھا جائے تو پنجاب دیہی معاشرت میں ابھی بھی شطرنج جیسے کھیل کود ابھی بھی لو گ بڑے شوق سے کھیلتے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ علی اکبر ناطق کی زبان وبیان خالص دیہاتی رنگ پیش کرتی ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیہات کے ان مسائل کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔جیسے کہ اس اقتباس میں مریضہ کو اسپتال پہنچانے کا طریقہ اور وہاں اسپتال میں ڈاکٹر اور دیگر حضرات کے ساتھ شطرنج میں مصروف اس سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو دیہاتی علاقوں میں اسپتال کمی اور وہاں پر موجود سٹاف کی لاپرواہی نظر آتی اور تیسری حکومت کی غفلت جو دیہات کا شمار پاکستان میں کرتے ہی نہیں کچی سڑکیں، ایمبولینس سروس کا نہ ہونا وغیرہ وغیرہ بہرحال علی اکبر ناطق کے افسانے زندگی کے ان تمام مسائل کی عکاسی کرتی ہیں۔ جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔ علی اکبر ناطق کی تمام تر کہانیاں (دیہی کہانیوں) کا مجموعی مزاج بیان کرتا ہے اس لحاظ سے عموماَ ان کی زبان وبیان، کردار، اقدار ،روایت اور ان میں گزرتے واقعات دیہاتی کہانیوں کی زبان رواں اور سلیس ہے مقصد مقامات پر لوک کہانیاں اور اشعار بھی برتے گئے ہیں جیسا کہ:
” القصہ اسی طرح خیال آرائیاں پورے قصبے میں عشا تک ہوتی ہیں اُدھر شام ہی سے یونین کو نسل کے بڑے ہال میں کوئلے پکا کر انگھٹیاں روشن کر دی گئیں پیر مورے شاہ کی چارپائی شاہی تخت کی طرح لگ گئی جس پر سفید چادریں بچھی تھیں اور تکیہ سنہری موج مارتا تھا بڑے ہال میں چونکہ صرف تین سوکرسیاں تھیں اس لیے کرسیاں ہاہر نکال کر بچھا دی گئی تاکہ کم از کم پانچ سو آدمیوں کی گنجائش پیدا ہوجائے۔ ہر آدمی اتنا پر جوش تھا جیسے سونے کی کان ہاتھ آگئی ہو سب انتظام مکمل ہوگئے۔ ہال میں ایک سناٹے کا راج ہو گیا کہ اچانک چاچے جیرے کی آواز گونجی۔
؎ سارہ ماتا ایشری کرت نمو کئی بار
ہاتھ جوڑ کے عرض کراں لیو ہماری سار”4؎
علی اکبر ناطق کے اس انوکھے انداز نے ان کے افسانوں کی خو بصورتی کے ساتھ ساتھ دیہاتی بول چال اور رہن سہن کو اور بھی نمایاں طریقے سے بیان کیا ہے۔ الغرض علی اکبر ناطق کے افسانوں کا بغور مطالعہ کر نے سے معلو م ہو تا ہے کہ ان کے افسانوں میں مختلف دیہاتی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو ان کی کہا نیوں کو واضع اور دلچسپ بناتی ہیں۔ جن میں چند درجہ ذیل خصوصیات شامل جن کا تفصیل سے جائزہ لیا جائیگا۔
- دیہاتی زندگی کی عکس بندی:
علی اکبر ناطق کے افسانوں میں دیہاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں کی واضع تصاویر ہوتی ہیں جیسےکہ گاؤں کی محبت، کھیتوں کی بھرمار، اور روزمرہ زندگی کے عوامل وغیرہ کی عکاسی بہترین انداز میں ملتی ہے اس کی واضع مثال علی اکبر ناطق کا افسانہ ” الہ دین کی چارپائی” ہے جس میں پورے گاؤں کی عکاسی اس خوبصورت انداز میں کی ہے کہ قاری سے پڑھتے پڑھتے گاؤں کی تہذیب، محبتِ، خلوص کو محسوس کرواسکتا ہے اس کہانی کا خلاصہ کچھ اس طرح کہ ” الہ دین ” اس کا مرکزی کردار ہے اس کی بیماری کی وجہ سے وہ گاؤں میں درختوں کے نیچے ایک چارپائی کے ساتھ جمع ہوتے ہیں۔ جو گاؤں والوں کی محبت بھری زندگی کا ایک بہترین تصویر پیش کرتا ہے ۔
” چارپائی کے گرد بڑے موڑوں پر بیٹھنے والوں میں شریف کھوکھر۔۔ اسماعیل بھئی ،شیدا بیٹر، طفیل باجوہ بابور جب علی ، جمال بھئی اور دوسرے لوگ ایسے تھے۔کہ ان کو موت ہی ناغہ کرائے تو کرائے ہر ایک کے پاس سنانے کو اپنے وطن کی بے شمار داستانیں تھیں۔”5؎
وہاں پر جمع لوگ لوک کہانیوں کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی خبریں سنایا کرتے تھے ۔کیونکہ یہ افسانہ پاکستان بننے کے دس سال بعد عرصے کے دیہاتی احوال و آثار کو بیان کرتا ہے۔ جہاں نہ لوگ کے پاس کوئی کاروبار ہے نہ کوئی ایسا علم جو اس کی وجہ سے وہ مصروف رہیں آج کے دور کی طرح پہلے بھی حکومت نے تو دیہات پر توجہ دی تھی اور نہ ہی اسں کا ارادہ دکھا یا تھا جیسا کہ الہ دین کی چارپائی میں میں بیان ہے کہ:
” کچھ اور دن تنگی کاٹ لو پھر تو ہر شے مفت راشن میں آئے گی برابر دال بنا کرےگی میاں الہ دین ان ڈاکوؤں اور سرمایہ داروں سے جان چھٹے گی، جنہوں نے یہیں بیٹھے بیٹھے مہاجرین کے کئی کئی لا ٹیں نام کرالیں اور ملوں کے مالک بن گئے اللہ قسم سب کچھ اس ملک کا یہاں کے شہر میں رہنے والوں نے اور وہاں سے آنے والے شہری دیہاتوں کے ہاتھ میں ڈگڈگی دے دی، کہ لو بجاتے پھرو” مہاجروں نے لوٹ لیا”6؎
علی اکبر ناطق کے افسانوں میں گاؤں کے سیدھے سادھے لوگ کا رہن سہن ہوتا ہے۔ جہاں پر وہ پانچ وقت کی نماز اور بمشکل آٹھویں بار دسویں جماعت پاس ہوتے باقی دنیا سے بے خبر ، بے فکر ، محبت اور خلوص سے بری زندگی کے باشندے ہوتے ہیں۔ ان باتوں کے ساتھ علی اکبر ناطق نے ہر افسانے میں منظر نگاری کمال کی ہے منظر نگاری اس دور بہترین ہے کہ وہ جس بھی جگہ کی منظر پیش کرتا ہے ۔ وہاں کے کلچر وہاں مقامی سیاست ، زمانے کی کم ظرفی ہر طرح کی چیز عیاں ہوجاتی ہے۔ جس واضح خیال افسانہ”قائم دین” ہے جو اپنے آپ میں ایک مکمل افسانہ ہے کردار نگاری، منظر نگاری، پلاٹ مکمل طور پر حقیقت پر مبنی ہیں۔ علی اکبر ناطق نے صرف دیہاتی زندگی کوقلم بند نہیں کیا ہے اس نے اپنی کہانیوں میں خواتین مسائل کو بھی جگہ دی ہے جس میں طوائف کا روپ نمایاں ہے۔ جس پر بہت ان کے کئی افسانے ہیں لیکن ان میں ایک افسانہ "زیارت کا کمرہ” بھی اس موضوع پر مشتمل ہے جس میں طوائف کے ساتھ ساتھ مذہبی اشتعال انگیزی پر بھی نمایاں طور پر روشنی ڈالی ہے ، اقتباس ملاحظہ ہوں:
” ایک : بھائی عبدالصمد غضب ہوگیا
دوسرا: جی اب کے بھی اللہ عذاب نہ بھیجے تو پھر پتا نہیں کیا راز ہے؟
تیسرا: راز کیا ہونا ہے ، اللہ ہماری غیرت کو آزما رہا ہے۔
چھوتا: دیکھ تو سہی حرام زادہ ایک تو کنجر ہے اور اوپر سے شیعہ بھی رفیق بھائی میں نے اسے ہمیشہ امام باڑے میں دیکھا ہے۔
تیسرا: دیکھا ہے سے کیا مطلب؟ پورا کافر شیعہ ہے اور کنجر تو وہ ہے ہی
پہلا: اور اس بے غیرت کو دیکھو اس کو یہی حرامی عشق لڑانے کو ملا تھا۔
میرا بس چلے تو تیزاب میں غوطے دوں اللہ قسم پورے شہر میں سنی مسلمانوں کی ناک کٹوادی۔”7؎
علی اکبر ناطق ایک ایسا افسانہ نگار ہے جس نے اپنی کہانیوں میں موجودہ دور کے جو مسائل ہیں اس سے صلح کرنے کو تیار ہو جاتا ہے کہ ہاں یہ غلطیاں ہماری ہی ہیں جس کو سدھارنے کے لیے خدا زمین پر نہیں اُتر ے گا ۔بلکہ جس کام کے لیے اللہ نے بھیجا تھا اسی سے یہ تمام متروکات ختم ہو سکتی ہے۔بہرحال جہاں تک علی اکبر ناطق کے افسانوں میں دیہاتی زندگی کی منظر کشی کا تعلق ہے تو یہ بات قابل ذکر ہے کہ علی اکبر ناطق کے افسانے پڑھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ دیہاتی زندگی ان کی رگ رگ میں بسی ہوئی ہے۔کیونکہ اس مصروف دور میں بھی انھوں نے دیہاتوں کے مسائل پر روشنی ڈالی ہے جس کو اس ظالمانہ معاشرے کے شکنجے سے آزاد کرنے کی بھرپور کوشش کی ہیں۔ انھوں نے دیہات کی ہر قسم کے مسئلے کی طرف توجہ دی جس میں ذات پات، اونچ نیچ، اور چھوت چھات کی اس احمقانہ تصور نے دیہاتی لوگوں کی کئی برائیوں میں مبتلا کر دیا ہے جیساکہ:
” سید کوثر شاہ جو بڑی دیر سے خاموش بیٹھا تھا ، تحمل سے پہلو بدل کے بولا دیکھو بھائی قصہ تو یہ ہے کہ ایک بڑا نامناسب کام ہوا ہے اور پورے شہر میں شیعہ کی بدنامی ہوتی ہے جس میں میرا خیال ہے خادم اور نعمان برابر کے ذمہ دار ہیں یعنی غلطی تو ہر ایک سے ہوجاتی ہے مگر اس طرح امام بڑے کی عزت کو داؤ پر لگانا واقعی ہی گھناونا جرم ہے۔لہذا آپ کو ئی حتمی رائے دے کر فیصلہ کردیں تاکہ آئندہ کے لیے کوئی سدباب ہو سکےخادم حسین چابیاں کوثر شاہ کے حوالے کر کے امام باڑے سے نکلا تو اسے لگا، جیسےاس پر عذاب نازل ہو چکاہے وہ آہستہ آہستہ پیرا منڈی کی طرف بڑھ رہا تھا۔۔۔۔۔”8؎
علی اکبر ناطق نے اس ظلم و نا انصافی کے خلاف اپنا قلم ڈھال بنا کر لکھنا شروع کر دیا اور انسان دوست، اصلاح پسند اور خوش اخلاق ادیب ہونے کے ناطے اس نے اپنے افسانوں میں دیہاتی زندگی کو اس طرح پیش کیا ہے جس طرح اس نے دیکھا، پایا، سننا اور جس طرح اس کو نظر آیا اس طرح دیہات کی عکاسی ملتی ہے اور جس طرح علی اکبر ناطق نے دیہی زندگی کے احوال و مسائل کو قلم بند کیا ہے اس سے ان کی گہرے مشاہدے کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کو دیہات سے لگاؤ ہے ان کے افسانے پڑھتے ہوئے محسوس ہو تا ہے کہ وہ دیہاتی لوگوں کی خوبیوں اور خامیوں سے صرف باخبر نہیں ہے بلکہ ان کی ذہنی الجھنوں اور خواہشات کا بھی کافی علم ہے۔
دور جدید کے افسانہ نگاروں میں علی اکبر ناطق نے اپنے افسانوں میں گاؤں کی کھیت کھلیان سے لے کر دیہاتوں کی کھلی ہوئی زندگی ، اس مہمان نوازی، ان کے زندگی کے تمام اصول جوہر کوئی اس کے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔ اور ان احکامات کو توڑنے کی جرات تک نہیں جیسا کہ ان کا افسانہ”پانڈوکے” میں یہ سب کچھ آنکھوں سے ایک عجیب منظر پیش کرتا ہے۔
"بھائی یہ آپ کا سوال ٹھکانے کا ہے ویسے تو وہاں پیلوں کے پتوں میں بھی آسیب چھپے تھےلیکن اس کے باوجود دوباتیں بہت مثبت تھی میرے خیال میں انہی کی وجہ سے قصبہ ابھی تکآباد تھا جیسا کہ میں بتا چکا ہوں وہاں بلھے شاہ پیداہوا تھا۔ اس کے والد اور والدہ کےمقبرے پر موجودتھے اب یہ وہاں کی رسم تھی کہ جو شخص اُن فقیروں میں پناہ لے لے وہ چاہے کتنے ہی بڑے خطرے میں کیوں نہ ہو ت اسے عاقبت حاصل ہو جاتی پھر معاملہ افہام و تفہیم سے طے کرنا ضروری سمجھا جاتا۔”9؎
اس طرح علی اکبر ناطق نے اپنے افسانوں میں گاؤں کے نچلے طبقوں کی زندگی، اس کی محرومیوں اور مجبوریوں کی روداد ان کی مفلوک الحالی اور اس کے استحصال کو اس ڈھنگ سے بیان کیا ہے کہ اس دور کے گاؤں کی پوری تصویر واضح ہو جاتی ہے۔ - سادگی اور معمولیت:
علی اکبر ناطق کے افسانے عام لوگوں کی زندگی کی ساد ہ اور معمولی مسائل پر مبنی ہوتے ہیں۔ جو قارئین کو ان کی حقیقت تک لے جاتے ہیں۔ علی اکبر ناطق دور جدید کے افسانہ نگاروں میں خاص مقام رکھتے ہیں اگر یوں کہا جائے کہ وہ منٹو، پریم چند، غلام عباس کی طرح دور جدید میں ایک بڑا افسانہ نگار ہے تو غلط نہیں ہو گا کیونکہ ان کی اس ادبی قدر کاٹھ کے پیچھے ان کی محنت اور مشاہدہ ہے ۔ علی اکبر ناطق کے افسانے ایک نئی سر زمین کی سیاحت کا درجہ رکھتے ہیں۔ علی اکبر ناطق اپنی ندرت ، خوبصورت انداز، بیان اپنی تازگی اور شگفتگی کے باعث اردو افسانے نہایت خوشگوار اضافہ کیا ہے۔ اس کے افسانے پڑھتے ایسا محسوس ہو تا ہے کہ اس نے زندگی میں سماج کے بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ا ن کے پاس موضوعات کے تنوع کے ساتھ ساتھ دیہاتی کرداروں کا بھی ایک ہجوم لگا ہوا ہے۔ وہ خود کو سامنے دیکھ کر یا س کو اپنے اوپر ظاہر کر کے لکھتے ہیں بلکہ کہانی بن کر ہی مرکزی کردار بناتے ہیں ۔ علی اکبر ناطق کے کردار زیادہ تر گاؤں کی سیدھی سادھی زندگی گزارنے والے ہر قسم کی آلودگی سے پاک فضا میں بسنے والے کردار ہیں۔ اس ضمن میں ان کا افسانہ” شہابو خلیفہ کا شک” سے اقتباس ملاحظہ ہو:
” بابا جی میں نے تو اسی وقت اندازہ کر لیا تھا کہ یہ خرگوش نہیں، اجل ہے اجل شاموفوجی نے کہا”بس دن پورے ہو چکے تھے”
"حضور ، جوڑی کیا ٹوٹی ، آسمان ٹوٹا ایسا صدمہ یا تو اُجاڑے کے وقت پہنچاتھا یا اب پہنچا، کالے کی جدائی کا ” صدا حسین ٹھنڈی آہ کھینچی لطیف بھائی، مجھے تو ایک ہی دکھ ہے اس سارے نقصان کے باوجودخرگوش سالم نگل گیا، چیتل اسے پھاڑ کے دم لے گا۔۔۔۔۔”10؎
یہ اس قدر بہترین افسانہ ہے کہ اس میں پورے گاؤں کی عکاسی موجود ہے کہانی کا مرکزی کردار ہیرمست ہے ۔ اور ان کے اردگرد کہانی گھومتی ہوئی اس کے مزے پر ختم ہوجاتی ہے ” شہابو خلیفہ کا شک” میں گاؤں کے مسائل کی نشاند ہی کی گئی ہیں۔ جس میں ایک واضح ان لوگوں کے ہاں ہے روزگاری نظر آتی ہے جو فضول چیزوں کے لیے جمع ہو جاتے ہیں۔ دوسری ان میں ناخواندگی جو پیر مست کو قلندر مان کر ان کی خدمت سینکڑوں لو گ دیر رات جمع ہوتے تھے اور ساتھ ساتھ ان کےکتوں کی خدمت کرتا تھا۔ بہرحال علی اکبر ناطق کے بیشتر افسانے کے کرداروں کی ذات میں تہلکہ مچانے والے طوفان کا نفسیاتی تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے کرداروں کے اعمال کو سہارا بنانے کی بجائے براہ راست اس افسانے میں ملتے ہیں۔ یہ انسان کی فطرت میں شامل جو چیز اس کے علم میں نہیں ہوتا اور اس چیز کے بارے میں کوئی گفتگو کرے تو اس پر بالکل اثر انداز ہو گا اور ہاں یوں کہے کہ کسی چیز کے بارے میں اس نے کچھ سنا ہو اور اس فن میں کئی سوالات اس کے خلاف موجود ہو تو ان سوالات کے حل کے لیے وہ پیرمست جیسے پیر کے مرید بھی بن جاتے ہیں۔ جو عام طور پر حیران کی ہے۔معاملہ دراصل یہ تھا کہ پیر مست جن کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کے دادا نے مٹی کی دیوار پر بیٹھ کر حکم دیا کہ” چل” تو وہ دیوار چل پڑی تھی۔ سیالکوٹ کے گاؤں میں رہتے تھے جہاں ان کی بڑی زمینیں تھیں اور پورے پنجاب میں ہزاروں مرید تھے۔
” حضرت صاحب نے دو کتے پال رکھے تھے۔۔۔۔ وہ پاڑ کے فوراَ بعد اپنے قصبے سے پیدل چل نکلے جس کا ایک مقصد تو شکار کرنا اور دوسرا اپنے مریدوں کے ہاں پھیرا لگانا ہو تا ہے۔قصبے سے نکلنے سے پہلے ا یک آدمی رستے میں بڑے والے تمام گاؤں کو اطلاع کر دیتا پیر صاحب اپنے قصبے سے دو خلیفوں اور دونوں کتوں ، چیتل اور کالے کے ساتھ نکلتے شکار کرتے کرتے پیدل ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں تک جا پہنچے رات وہیں بسر کرتے، اگلے دن وہاں سے چار پانچ مرید مزید ساتھ ہو لیتے ۔”11؎
یہ سلسلہ ان گاؤں والوں کے ساتھ چلتا رہتا تھا۔ اور یہ ہجوم گاؤں گاؤں پھرتا رہتا تھا پیر مست کے ان کتوں کا شکار دیکھنے کے لیے علی اکبر ناطق نے ان تمام خصلتوں سے پردہ اُٹھایا ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے سیدھے سادھے لوگ عذاب میں مبتلا رہتے تھے۔
غرض علی اکبر ناطق اپنے کرداروں کی روح خواہشوں پارسا تمناؤں اور دکھوں کا گہرا مطالعہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان کےساتھ ان کی اپنی شناخت کرتے ہیں۔ جس سے قاری کو ان کے کرداروں کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوتی ہے علی اکبر ناطق کے افسانوں کی کرداروں کے اندر چھپی ہوئی ، خیانتوں، منافقتوں، خود غرضیوں اور انسانیت سوز تاریکیوں کو دیکھتا ہے۔ تو انہیں طشت از بام کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ علی اکبر ناطق کے افسانے اور اس میں موجود دیہاتی رنگ ہمارے دل و دماغ پر اپنا گہرا اثر چھوڑے چلے جاتے ہیں علی اکبر ناطق کے ہاں ایسے دیہاتی افسانے بھی موجود ہیں جو لازوال ہے اور اردو افسانے کی زینت ہے جس کی واضع مثال”جود پور کی حد” کا افسانہ ہے جس کے مرکزی کردار غضو اور بوندھو، الیاس، حاجی شریف اور کریماں ہے جس کے ارد گرد کہانی بنی گئی ہے جو المیاتی کہانی کے ساتھ ساتھ المیاتی اختتام ہو جاتا ہے۔
” الیاس نے کریماں کے منھ میں کپڑا ٹھوس کر اور ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک طرف لیٹا دیا اور غفورے کو ساتھ لے لر گڑھ کھودنے لگا۔ حاجی شریف بیٹھا دیکھتا رہا ۔ جب گڑ ھ 6 فٹ تک گہرا کھد گیا تو الیاس نے پکڑ کر کریماں کو اندر پھینک دیا اور غفورے کو حکم دیا کہ کسی کے اوپر مٹی پھینکے۔ حاجی شریف اللہ بھی ہاتھوں سے مٹی پھینکنے لگا۔ کریماں کے منھ میں کپڑا ٹھوسا ہوا تھا۔ مگر وہ بار بار کبھی الیاس اور کبھی حاجی شریف کو رحم طلب نظروں سے دیکھتی رہی، جس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ بلکہ حاجی شریف نے تیزی سے مٹی ڈالنے لگا لیکن الیاس نے غفورے کے ہاتھ سے کسی پکڑ کر جلدی جلدی سے مٹی ڈالنی شروع کر دی۔ کریماں کا چہرہ مٹی میں چھپنے لگا تو اس نے آخری رحم طلب نظروں سے غفورے اور بوندھو کی طرف دیکھا۔ اسی لمحے غفورے کا ہاتھ کلہاڑی پر جاپڑا اور پر ایک دم سے الیاس کے سر پر لوہے کا پہاڑ گر پڑا۔ اس کے بعد حاجی شریف دو قدم بھی بھاگ نہ سکا پھر بوندھو اور کریماں نے مل کر الیاس اور حاجی شریف کو گڑھ میں دفن کر دیا اور راب چار بجے سے پہلے جود پور کی حد پار کر گئے۔”12؎
کہانی کی اس اختتام کو دیکھتے ہوئے ایک کہاوت ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ "جیسا کروگے ویسا بھرو گے” اس افسانے کی کہانی بھی کچھ اس طرح واقعات پر مبنی ہیں جو انسان سوز ہیں۔ - انسانی روابط :
علی اکبر ناطق کے افسانوں میں دیہاتی لوگ کے روابط کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ ان کے افسانوں میں کہانی شخصیات کی دُرستی، خاندانی تعلقات اور ایک دوسرے کے مابین گہری محبت وغیرہ کا ذکر بار بار نظر آتا ہے ۔علی اکبر ناطق کے افسانے پڑھنے سے وہاں کا احساس، گاؤں کی پر سکون زندگی اور اس کی تسکین اطمینان اور ساتھ گاؤں کی فضا میں کوجود اپنائیت محسوس ہو تی ہے جس کے سرسبز کھیت، ہریالی جس کی ہوا میں شامل فرحت بخش مہک یعنی ہروہ چیز جو روح میں سرائیت کر نے کا مرتکب ہوتا ہے۔علی اکبر ناطق نے ان کو بیان کرنے کی بہترین کوشش کی ہے جس کی وجہ سے علی اکبر ناطق نے اپنے افسانوں کے رنگ وروغن کو حسین بنایا ہے ایسا لگتا ہے کہ ہر چیز علی اکبر ناطق کی قدرت میں ہیں جیساکہ:
” ہمارے گھر سے چالیس قدم مغرب کی طرف ہائی سکول تھا جس میں شمیم ، شہتوت اور نیم کے بے تحاشا درخت تھے گاؤں کے اکثر لوگ گرمی سے بچنے کے لیےاپنی چارپائی دوپہرکو وہیں لے آتے کیونکہ تین ماہ سکول بند رہتا کانے ٹیم پیس کا بھی سارا دن وہیں گزرتا وہیں حجامتیں ہوتیں حتی کہ کانے ٹیم پیس کے آوازبھی وہیں کسے جاتے جس پر بہت ہنگامہ آرائی اور شغل رہتا بعض اوقات گالیاں دیتے رہتے اسے کھانسی کا دوربھی پڑتا جس میں اسے کافی تکلیف ہوتی اور سانس ٹوٹنے لگ جاتا۔”13؎
علی اکبر ناطق کا یہ افسانہ گاؤں کے نائی کی کہانی پر مشتمل ہے یہ افسانہ سراسر حقیقت پر مبنی ہے جیسا اصل زندگی میں لوگ ان کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں نائیوں کا وہی چہرہ سامنے لاتے جو دیہاتی معاشرے میں اس کی اصل پہچان اس سے ہوتی ہے۔ بہرحال دیہاتی لوگوں میں ایک خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ گاؤں میں محض کئی ہوئی جگہ پر جمع ہوتے ہیں۔ جس کو اوطاف بھی کہا جاتا ہے جہاں پر لوگ جمع ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ روابط قائم ہو جاتے ہیں۔ ان کی زیر گفتگو میں شامل گاؤں کے مسائل، موسم، فصلوں اور گاؤں کے تمام معاملات پر سر حاصل گفتگو ہوتی ہے علی اکبر ناطق کا افسانہ ” مومن والا سفر” میں سکول کا منظر کچھ اس طرح حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں پر لوگ جمع ہو کر حجام کے ساتھ ساتھ گاؤں کے دوسرے معاملات بھی زیر بحث رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ گاؤں کی خوبصورتی کا ذکر بھی ملتا ہے اقتباس ملاحظہ ہوں:
” گھوڑے کی ڈلکی چال سے ٹانگے میں ادھم سا پیدا ہو گیا اور وہ دھکو دھکو کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ۔ نہر کی پٹٹری پر دونوں طرف کھڑے شیشم اور پیپل کےا ونچے اونچے درختوں نے سورج کا راستہ اس طرح روکا کہ دھوپ کی ایک کرن بھی سڑک پر دکھائی نہ دیتی تھی بعض درختوں کی شاخیں جھک کر نہر میں چلتے پانی کو چھو رہی تھیں اور بارشوں کے باعث ہو ا میں ایک سحر زدہ خنکی تھی اگر چہ مومن والا دو ہی کلومیٹر کے فاصلے پر تھا لیکن نذیراں کے برعکس میری اور اختر کی خواہش تھی کہ ٹانگہ شام تک یونہی دھکو دھکو چلتا رہے اور ہم جھولے لیتے رہیں درختوں کی بعض شاخیں اور پتے جب ہمارے چہروں سے ٹکراتے تو ٹھنڈک ہمارے سینے کے اندر تک اُتر جاتی۔ ہمیں نہ تو نذیراں کے مقصد سے سروکار تھا اور نہ ہی ان کے بگلوں کی کوئی پروا تھی جنھیں ہم ٹوکرے میں بند کر کے ٹانگے پر لادے مومن والا لے جارہے تھے۔”14؎
گاؤں کی اس طرح عکاسی سے قاری خوب لطف اندوز ہو جاتے ہیں اور دل میں ایک تمنا سی جاتی ہے کہ میں بھی دیکھوں یہ مناظر جو علی اکبر ناطق نے اپنے افسانوں میں پیش کی ہیں۔ - دیہاتی روایت:
علی اکبر ناطق کے افسانے دیہاتی روایت، عوامی کہانیاں اور فولکور سےملتزم ہوتے ہیں۔ کیونکہ دیہاتی ماحول اور اس دیہاتی معاشرے کی تصویر ہی بنیادی طور پر کسی بھی ملک کی اصل تصویر تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کی اصل وجہ وہاں کے لو گوں کے رہن سہن، ان کے مسائل ، اور دیہاتوں کی تہذیب یکسر مختلف ہے۔ دراصل گاؤں کا تصور کھیت کھلیان کے بغیر ادھورا ہے۔ اس طرح گاؤں کی مٹی کو فصل کے لیے تیار کرنا پھر آب پاشی کے لیے بارش کا انتظار کرنا پھر فصلوں کے پکنے کا انتظار کرنا یہ تمام تر احوال گاؤں کی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اور یہ سب چیزیں دیہاتوں کے سادہ لوح لوگوں کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ اگر اردو افسانہ نگاری کا مطالعہ بغور کیا جائے تو یہ سب چیزیں وقتاَ فوقتاَ افسانہ نگاروں نے بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اکیسویں صدی میں علی اکبر ناطق ایک ایسا واضح افسانہ نگار ہے جو ان کی طرف لوگوں کی توجہ مبتدول کرانے کی کوشش میں لگے ہیں ۔ جہاں پر لوگوں کے ساتھ ایک دوسرے کا حال پوچھنے کی فرصت نہیں ملتی پھر بھی علی اکبر ناطق نے اتنی کمال ہنرمندی کے ساتھ دیہاتی روایت کو اپنے افسانوں کی زینت بنایا ہے۔علی اکبر ناطق نے نہ صرف دور جدید میں روایت اپنے افسانوں کی زینت بنائی ہے بلکہ ایک نئی سمت اور پرجوش طریقے سے لوگوں کا رجحان بھی اس طرف کھینچا ہے ۔ا س لحاظ سے اگر اس کے افسانوں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے بہرحال علی اکبر ناطق کے افسانوں میں دیہاتوں کی روایت بہت ہے لیکن ان میں کئی خاص ہوتے ہیں ان خاص میں سے ایک یہ روایت بھی ہے کہ گاؤں کے لوگ دشمنی کئی پشتوں تک رکھتے ہیں۔ جس کا ذکر علی اکبر ناطق کے افسانے ” مومن والا کا سفر” میں ملتا ہے اقتباس ملاحظہ ہوں:
"اصل میں ہمارے گاؤں اردگرد کے دس پندرہ گاؤں کا مرکزتھا جس کی یونین کو نسل کے لیے ایک چیئر مین بذریعہ ووٹنگ منتخب ہو ا اس دفعہ مومن والا کا لا ل دین منتخب ہوا ۔ مومن والا ہمارے گاؤں سے کوئی آدھا کلو میٹر دور نہر کے کنارے واقع تھا۔ نذیراں ، جسے تمام گاؤں نے ایسے ہی مفت کی دی تھی ،گاؤں میں کوئی نہ کوئی شغل یا ہنگامہ رکھتی ہر پنچایت میں کرسی بچھائے سب سے آگے بیٹھتی۔کہیں شادی بیاہ ہو ، میت اٹھی ہو یا لڑائی جھگڑا یہ برابر کے شریک ہوتی۔ اور میلے ٹھیلوں سے لے ناجائز بچے کی پیدائش تک میں ملوث اس کی سات پشتوں تک اپنی رشتے داری گنوا دی ۔ کہیں کوئی دعوت ہوتی یہ بن بلائے جا دھمکتی اور اتنا کھاتی کہ گھر والے ہائے پائے کہہ اٹھتے”۔15؎
اس اقتباس کا جائزہ لینے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ گاؤں کے لوگوں کے اندر جو بھی روایت پائی جاتی ہیں وہ مرنے تک نہیں چھوڑتے ۔ جیسا کہ پنچائیت کے معززین کی قدر کرنا اور وہ بھی اس قدر کہ میت میں بھی اس کو آگے کی کرسی اور مہمان نوازی کے لیے کئی لوگ کھڑے ہوتے ہیں ۔ ان چیزوں سے گاؤں کی معصومیت بھی نظر آتی ہے جو علی اکبر ناطق نے مثالی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے ۔ اس طرح گاؤں کی روایت میں شامل کسی معزز شخص کی اولاد سے کوئی بھی شخص یہ نہیں پوچھ سکتا کہ آپ یہ کیوں کر رہے ہو۔ جو بظاہر ایک قیامت ہے کیونکہ پنجاب کے دیہات میں اکثر چودھری لوگ رہتے ہیں اور گاؤں کے بڑے لوگ ہوتے جو چاہتے ہیں وہ کرتے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ اس کی خاص وجہ وہاں کے اکثر لوگ غریب ہوتے ہیں اور اپنی غربت کے آگے چودھری حضرات کو کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ان کی واضح مثال افسانہ ” شیدھے نے پگڑی باندھ لی” جس کی کہانی چودھری کے اولاد اور ایک لڑکی رانو کے ارد گرد گھومتی ہے جو کسی بھی جرات نہیں ہوتی کہ ان سے سوال کرے۔
"بہر حال ہم سکون سے دیکھ رہے کہ رانو ( جس نے اب پگڑی اتار دی تھی اور اسے شیدے نے سر پر باندھ لیا تھا) اور وہ نیا آدمی قریب کے خشک نالے میں چلے گئے ۔ شیدے اور فیکا باہر ہی بیٹھے رہے ۔ کوئی نصف گھنٹہ اور وہ دونوں باہر آگئے اور نیا شخص اپنے گاؤں مٹر گیا۔ اس کے جانے کے بعد شیدے نے رانو کو پکڑ لیامگر اب اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اور شیدے کے لیکن سارا راستہ اس گھتی کو سلجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ یہ اجنبی آدمی کون تھا بہت غور کیا لیکن ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ پوچھ ہم نہیں سکتے تھے کہ وہ دونوں گاؤں کے چودھریوں میں سے تھے۔”16؎
علی اکبر ناطق کے افسانوں میں دیہاتی روایت کی مختلف شکلیں ملتی ہیں۔ جن میں زندگی کی معمولیت، گاؤں کی روز مرہ زندگی، دیہاتی روایت اور لوگوں کی روابط ایک دوسرے کے ساتھ، پنچائیت ، وغیرہ ان کے علاوہ ان کے افسانوں میں گاؤں کے سرسبز کھیتوں کی خوشبو ، گاؤں کی رات کی سنگت اور دیہاتی محفلوں کی تصویریں بہت واضع طریقے سے پیش کی جاتی ہیں۔ ان کے افسانے عام لوگوں کی زندگی کی مشکلات ، خوشیاں اور تجربات کو بھی بیان کرتے ہیں۔ جو قارئین کو ان سے ہم آہنگ کرتے ہیں۔
حوالہ جات: - علی احمد فاطمی ، داستان سے ناول تک،ناشر تہذیب نو آلہ آباد،1984،ص۔43
- علی اکبر ناطق ، افسانوی مجموعہ، قائم دین ، ص۔8
- ایضاً،ص۔21
- علی اکبر ناطق ، افسانوی مجموعہ، شاہ محمد کا ٹانگہ، ص،28
- ایضاً،ص۔49
- ایضاً،ص۔54
- ایضاً،ص۔65
- ایضاً،ص۔69
- ایضاً،ص۔84
- علی اکبر ناطق، افسانوی مجموعہ ، قائم دین، ص۔26
- ایضاً،ص۔24
- ایضاً،ص۔29
- ایضاً،ص۔49
- ایضاً،ص۔43
- ایضاً،ص۔43
- ایضاً،ص۔49
نام :سمیع اللہ ایم فل اردو خیبر پختونخوا دیر آپر, اپنی بیٹی صفواہ کے نام
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں