علی اکبر ناطق کے افسانوں میں دیہی پنجاب کے دیہی مسائل کا بیان | Depiction of Rural Issues of Punjab in Ali Akbar Natiq’s Short Stories
نوجوان افسانہ نگار، شاعر اور ناول نگار علی اکبر ناطق اوکاڑہ کے قریبی گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ وہاں کے گورنمنٹ کالج اوکاڑہ سے ایف اے کیا۔ معاشی حالات اتنے خراب تھی کہ نوجوانی میں 15 سال مستری رہا ہے اور احسان دانش کی طرح سیمنٹ اور ریت میں کرنی چلاتے لنٹریں اور گھروں کی دیواریں بنانے میں یہ عرصہ گزر گیا۔ لیکن اتنی تنگدستی کے باوجود بھی وہ تعلیم سے غافل نہ رہے جب حالات اور خراب ہو گئے تو غم روزگار میں با لاآخر 1998ء میں مشرقی وسطیٰ یعنی سعودی عرب گیا۔ کافی عرصہ گزارنے کے بعد جب وطن واپس لوٹ آئےتو وسیع مطالعے کے بعد اردو ادب میں قدم رکھا۔ اردو ادب نے ان کو ایک باوقار شخصیت بنایا ہے جس پر میراایم فل کا مقالہ جاری ہے۔ بہرحال علی اکبر ناطق نے زندگی کی کئی کڑوے دن دیکھے ہیں۔ خاص کر جب آپ کی جائے مسکن گاؤ ں ہو تب زندگی اور مشکل ہو جاتی ہے لیکن علی اکبر ناطق نے ان سب کو پس پشت ڈال کر اپنےمقصد کی طرف سے ساری توجہ دی اور اس کو اس محبت اور لگن نے اپنے منزل مقصود پرپہنچا دیا۔ ان کا پہلا افسانہ ” معمار کے ہاتھ” ادبی جریدے آج میں شائع ہوا۔ "آج” کے مدیر اجمل کمال نے سب سے پہلے علی اکبر ناطق کے اندر چھپے شاعر وادیب کو دریافت کیا۔ ان کی پہلا افسانہ جب شائع ہوا تو کسی بھی ادیب نے اس کو خاص توجہ نہیں دی لیکن جب اس افسانے کی ترجمہ محمد حنیف نے انگریزی میں کیا تو اس کے بعد اردو ادب کے حلقوں میں علی اکبر ناطق کا ذکر شروع ہوا اس کے بعد علی اکبر ناطق کے کئی افسانے "آج” میں شائع ہوئے۔ ان افسانوں کے ساتھ 10 نظمیں "دنیا زاد” جریدے میں بھی شائع ہوئیں۔ اور آہستہ آہستہ علی اکبر ناطق کی اردو ادب میں پہچان بننی شروع ہو گئی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ "بے یقین بستیوں میں” 2010ء میں شائع ہوا۔ دو سال بعد یعنی 2012ء میں افسانوی ادب میں ان کا پہلا مجموعہ "قائم دین” آکسفرڈیونیورسٹی پریس سے شائع ہوا جو دنیا کے مقبول پریس ہے۔ اشاعت کے بعد اس افسانے مجموعے نے "یو بی ایل” ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ اس طرح اگلے سال ادبی جریدے "آج "نے علی اکبر ناطق کا دوسرا مجموعہ کلام "یاقوت کے ورق” کو شائع کیا۔ قائم دین کی طرح یہ شعری مجموعہ بی یو بی ایل کے نامزدگی میں شامل کیا گیا۔ تھوڑے سے عرصے میں علی اکبر ناطق نے ادبی دنیا میں بہت نام کمایا ان کی تصانیف کا ترجمہ انگریزی میں بھی ہوااور انڈیا کے سب سے بڑے پبلشر پنگوین نے اس کو شائع کیا۔ اس مختصر سےکام سے علی اکبر ناطق نے ادبی دنیا میں مستند پہچان بنایا۔ لیکن اس کی اصل وجہ شہرت ان کا پہلا ناول "نولکھی کوٹھی” جو 2015ء میں شائع ہوا۔ "نو لکھی کوٹھی” ناول کا موضوع بھی عصمت چغتائی ، قرۃ العین حیدر، عبداللہ حسین، سعادت حسین جیسےادیبوں کی طرح تقسیم ہند کے موضوع پر مشتمل ہے۔ اس وجہ سے علی اکبر ناطق کو ادبی دنیا میں حقیقی پہچان نصیب ہوئی۔ یہاں یہ بات ضروری ہے اردو ادب کے جتنے بھی ناول، افسانے تقسیم ہند کے موضوع پر لکھے گئے ہیں ان میں نہ ہونے کے برابر دیہاتی حالات کو بیان کیا ہے یہاں یہ اعزاز صرف علی اکبر ناطق کو حاصل ہے کہ تقسیم ہند کے وقت صرف شہری بربادی نہیں ہوئی تھی بلکہ جتنے دیہات کے لوگ بھی متاثر ہوئے اگر یوں کہا جائے کہ دیہاتی لوگوں کی حالت اس وقت کے شہروں حالات سے بدتر تھے۔ کیونکہ اس کی خاص وجہ دیہاتوں کے بہت سے مسائل تھے جس کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں تھی بس دیہات کے سب لوگ اللہ کے حوالے کے گئے تھے۔ بہرحال ناول "نولکھی کوٹھی” کی طرح علی اکبر ناطق کی افسانے بھی دیہاتوں کے رنگ میں رنگیں ہیں۔ ناطق نے دیہاتوں کی عکاسی اس پختگی سے کی ہے کہ بڑے بڑے ناقد حیران رہ گئے اردوادب میں دیہی زندگی کا ایسا پراثر اور عمدہ بیانیہ بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ علی اکبر ناطق کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
” ناطق کے لیے اب یہ حکم لگانا مشکل ہے کہ ان کی اگلی منزل کہاں تک جائے گی کہ ہر بار وہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ ان کے تمام کام میں تازگی ہے، روایت اور تاریخ کا شعور حیرت زدہ کرنے والا ہے۔ جس طرح ان کا شعر اور پھر فکشن میں کام ہے۔ اس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ وہ شاعر بھی ہے افسانے نگار بھی ہے اور ناولسٹ بھی ۔ ان کے فکشن میں پنجاب کی سرزمین میں غیر معمولی دلچسپی ان کے بیان میں غیر معمولی مہارت کا ثبوت دیتی ہے۔ ناطق کے نثر سے مکالمہ اور بیانیہ کے ناموس سرگوشوں پر ان کی قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ناطق کے فکشن کا قاری خود انسان اور فطرت کے پیچیدہ رشتوں، انسان اور انسان کے درمیان محبت اور آویزش کے نکات سے بہرہ اندوز ہوتا ہوا دیکھ سکتا ہے۔ علی اکبر ناطق سے اردو ادب جتنی بھی توقعات اور امیدیں وابستہ کرے، نامناسب نہ ہوگا۔ ان کا سفر بہت طویل ہے، راہیں کشادہ اور منفعت سے بھری ہوئی ہیں”۔1؎
ناطق کے ہاں دیہی مسائل اور دیہاتی زندگی کی عکاسی کے بارے میں انتظار حسین فرماتے ہیں:
” علی اکبر ناطق کا فکشن حقیقت اور کہانی کے پیچیدہ پہلوؤں کو سامنے لا کر آتا ہے۔ وہ دیہات اور اس کے کرداروں کی بازیافت کا آدمی ہے اور حقیقی طور پر سن آف سوئل ہے۔وہ احمد ندیم قاسمی کی طرح دیہات کا رومان پیش نہیں کرتا بلکہ اپنے کرداروں کو حقیقی زندگی عطا کرتا ہے۔” 2؎
جس سے علی اکبر ناطق کے افسانوی ادب کا آغاز بھی ہوتا ہے۔ قائم دین مجموعے میں سب سے پہلا افسانہ "شریکا” ہے جو گاؤں کے عاقل خان اور شیداں کی محبت کی داستان پر مشتمل ہے۔ شریکا صرف عاقل خان اور شیداں کی محبت کا روداد بیان کرتا ہے۔ بلکہ یہ تقسیم ہند کے حالات پر بھی مبنی ہے شریکا کی کہانی کچھ یوں ہے۔ کہ تقسیم ہند سے پہلے گاؤں میں شیر سنگھ اور چودھری رہا کرتے تھے۔ شیر سنگھ کے خاندان جو سکھ مذہب سے تعلق رکھتاتھا۔ تو دوسری طرف چوہدری مسلمان تھے۔ اس دوران تقسیم ہند کا مسئلہ پیش آتا ہے۔ بٹوارے کے وقت سکھوں کو ہندوستان جانا ہوتا ہے۔حال آں کا شریکا گاؤں پاکستان میں آتا ہے۔ اس وجہ سے شیر سنگھ شیداں کی خاطر اپنا دھرم مذہب سب کچھ بدل دیتا ہے اور مسلمان ہو جاتا ہے شیر سنگھ کی بجائے وہ عاقل خان ٹھہرتا ہے۔ عاقل خان اس وقت اپنے خاندان کے لاکھ منتوں کے باوجود بھی جانے کے لیے تیار نہیں ہوا۔
” سردار جی! شیر سنگھ مسجد میں بیٹھا مولوی جان محمد سے کلمہ پڑھ رہا ہے "
” یہ سن کر سردار جی کے ہوش اڑ گئے خبر دھویں کی طرح اٹھی تو مائی دھیراں نےدو ہتڑ پیٹا اور بین کرنے لگی۔ نتھا سنگھ نے جلدی سے دلبر کو بھیجا کے بھائی کو لے کر آئے۔ اس نے لاکھ منتیں کی مگر اس کو نہ آنا تھا نہ آیا۔ "
” قافلہ تین دن رکا رہا۔ مائی باپو نے کیا کیا نہ سمجھایامگر شیر سنگھ ٹس سے مس نہ ہوا۔ کیس کٹوا، کھڑا کر پان نتا سنگھ کے منھ پر ماری اور مسلا ہونے کا اعلان کیا کر دیا۔ آخر سردار جی نے بیٹے کی ہٹ دھرمی کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ حویلی کی چابیوں کے علاوہ سو ایکڑ زمین کے کاغذات بھی اس کے حوالے کیے، روتی پیٹتی دھیراں کے ساتھ باقی اولاد کو لیا اور لدھیانہ چلا گیا۔ "3؎
تقسیم ہند کا معاملہ ختم ہوتے ہی کئی سال بعد شیر سنگھ(عاقل خان) نے جمال الدین سے شیداں کا رشتہ مانگ لیا۔ یہاں پر علی اکبر ناطق نے گاؤں کے اس اہم مسئلے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جو غیرت کے نام سے مشہور ہوتے ہیں۔ جو بیچاری عورتوں کے ساتھ یہ ظلم زیادتی ہوتی رہتی ہے۔ شیداں کے ساتھ بھی وہی ہوا جو عام طور پر گاؤں کے لوگ اکثر اپنے بیٹیوں کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔
” ایک دن عاقل خان نے جانے کیا سوچ کے جمال الدین سے رشتہ مانگ لیا۔ اس وقت چوہدری بد کے اور انھیں معاملے کی سنجیدگی کا احساس ہوا۔ فوراً انکار کر دیا۔ بلکہ لین دین بھی ختم کیا اس نے بڑا زور مارا لیکن کوئی بس نہ چلا۔ لاکھ زمینوں والا سہی، آخر تو سکھ کا بیٹاتھا۔ چودھری رشتہ دے کر زمانے کو کیا منھ دکھاتے۔ بالآخر شیداں دارے خان کے بیٹے شوکے سے بیاہ دی گئی۔ مگر یہ بھی نچلا بیٹھا، برابر ملتا رہا ۔ پانچ سال ہونے آئے اس کو دو بچے ہو گئے مگر ادھر وہی جذبہ بلکہ اب تو احتیاط بھی کچھ باقی نہ رہا اور بات دور تک نکل گئی کچھ لوگ تو یہاں تک کہنے لگے کہ بچے شوکت سے نہیں اس عاقل خان سے ہیں ۔ "4؎
اس وقت گاؤں کے حالات عاقل خان اور شیداں دونوں کے لیے خراب ہو گئے تھے۔ جودھری حضرات عاقل خان کے دشمن بن گئے تھے۔ شیداں کو اسی محبت کی وجہ سے کئی بار مار پڑی لیکن محبت کا جنون وہی تھا۔ عاقل خان کے لیے تو اب یہ محبت نہیں رہا بلکہ اس کے لیے تو ضد اورآنا بن گئی۔ کہ ہر حال میں شیداں کو حاصل کرنا ہے۔
” میں تو کہتا ہوں شیداں کا پیچھا اب چھوڑ ہی دے کہیں کوئی نقصان نہ ہو جائے شبیرے نے دھیمے سے کہا۔
” شبیرے یہ نہیں ہو سکتا عاقل خان بولا۔
” آخر کیوں نہیں ہو سکتا شبیرے نے پوچھا۔
” اسی لیے کہ اس بیچاری کی خاطر تو میں نے واہگرو سے بے وفائی کی، دین دھرم بدلا اور ساری برادری سے لعنتیں لے کر مسلا ہوا۔ جب سارا قبیلہ لدھیانہ چلا گیا تو میں نے اس کی خاطر گاؤں نہ چھوڑا اور شیر سنگھ سے عاقل خان بنا۔ بے بے روتی پیٹتی چلی گئی۔ "5؎
اَنا اور غیرت گاؤں کے لوگوں میں زیادہ پائی جاتی ہے جو ان لوگوں کا ایک اہم مسئلہ ہے جو کسی بھی وقت اس کے لیے یادوسروں کے لیے موت کا سبب بنتی ہے۔ یا وہاں سے اس کے لیے ہجرت کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کہانی کے اختتام بھی عقل خان کی ہجرت پر ختم ہوتی ہے اس افسانے میں علی اکبر ناطق کئی مسائل اُجا گرکرتے ہیں۔ اس میں ایک اہم مسئلہ تعلیم سے دوری بھی ہے جس کی وجہ سے گاؤں کے لوگ زیادہ آنا پسند ہوتے ہیں۔ اور اس آنا کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ حسدبھی رکھتے ہیں ۔ ایک دوسرے کے نقصانات پر خوش ہو جاتے ہیں، کوئی بھی شیطانی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، کہ فلاں یہاں سے کب جائے گا۔معمولی معمولی باتوں پر ایک دوسرے کو ہجرت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور اس کی اصل وجہ ایک دوسرے کی مال و جائیداد کے لیے بے اطمینان رہتے ہیں کہ کب میں اس کو بربادکروں گا۔ جس طرح اس افسانے کی اخر میں جب گاؤں کے لوگ عاقل خان کی ہجرت سے باخبر ہو جاتے ہیں۔ تو پھر دشمن بھی دوست بن جاتے ہیں کہ آپ کابڑا بھائی میرا بھائی جیسا تھا اسی لیے سب سے پہلا حق میرا بنتا ہے کہ آپ کی زمینیں خریدوں۔
اس کڑی کا دوسرا افسانہ” شاہ مدار کی پازیبیں” ہے جو گاؤں کے کبوتر بازوں کی کہانی پر مشتمل ہے۔ افسانے کا پلاٹ بہت خوبصورتی سے بنا گیا ہے۔ جس سے گاؤں کی عکاسی میں اوردلکشی پیدا ہو جاتی ہے۔ جو حقیقت کی روپ اختیار کر جاتا ہے افسانے کی کہانی مرکزی کردار” چراغ دین” اور ان کے بیٹوں پر مشتمل ہے۔ کہانی بھی ان کرداروں کے ارد گرد گھومتی ہے۔ دام واحد یہ ایک گھر تھا جو پورے گاؤں میں کبوتر بازوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ ہر وقت کبوتر بازو کی جنگ و جدل اس گھر کی کشادہ صحن میں لگا رہتا تھا۔ ان لوگوں کے ہاں نہ کوئی کام کاج ہوتا تھا۔ نہ کسی کی عزت کا خیال رہتا ہے اور نہ اس کام پر شرم محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ الٹا یہ لوگ کبوتر بازی کا کام عزت والا سمجھتے ہیں چاہیے اس میں کسی کی عزت آبرو کیوں نہ چلا جائے جیسا کہ:
” چار میل الٹا کبوتر بھی اس کی نگاہ سے نہ بچتا۔ بس ایک دفعہ نظر آنے کی دیر ہے۔ پھر تو یہ جا وہ جا۔ آخر پکڑا جاتا، چاہیے دشمن کی دیوار پر کیوں نہ بیٹھا ہو۔ اس معاملے میں بہت سکی بھی ہوئی۔ سرداربنی احمد سیال کی بیوی صحن میں چارپائی کھڑی کر کے اور اس کی ایک طرف سے اوٹ لے کر نہا رہی تھی کہ اچھا ایک کبوتر کے تعاقب دیوار پھلانگ کر سیدھا اس کے سر پر آکھڑا ہوا۔ وہ بیچاری کپڑے ڈھونڈتی رہ گئی اور یہ چارپائی کے پائے پر بیٹھے کبوتر دبوچ کر انہیں قدموں واپس دوڑ آیا ۔جسے کوئی بات ہی نہ ہو۔ شام کے وقت خوب ہنگامہ ہوا۔”6؎
گاؤں کے ان حالات کو دیکھ کر علی اکبر ناطق نے اس پرخوب طنز کیا ہے کہ بیچاری دیہاتی وہاں کے وہاں پڑے ہے۔ ان کے ہاں وہی صدیوں پرانی رواج آج بھی پائی جاتی ہے۔ ان کو مفلسی گھیر لیا ہے، سالہ سال گر میں ساگ پر گزارا کرتے نظر آتے ہیں۔ کام کاج کا کوئی غم نہیں رہتا۔ بس ان لوگوں کے لیے وہی کبوتر سب سے اچھے ہیں۔ چاہیے وہ لندن کیوں نہ چلا جائے پھر بھی یہ لوگ ایک دوسرے کا حال و احوال نہیں پوچھتے بس ان کو غم رہتا ہے تو اپنے کبوتر کے کہ فلاں کبوتر کیسا ہے۔ فلاں نے کس طرح کے کبوتر فال رکھے ہیں۔ یہ لوگ دین و دنیا سے بہت دور ہے اور قریب ہے تو صرف ان خرافات سے جس میں کوئی فائدہ نہیں۔ بہرحال اس حالات میں ان لوگوں کی بیچ ایک احساس رہتا ہے جو محبت، خلوص، انسانیت کا ہے۔ اپنے لیے کچھ نہ کرے لیکن گاؤں کے غریب و غربا میں سب کچھ دان کر دیتے ہیں۔ ہر کسی کی خدمت بغیر کوئی مفادات کے کرتے ہیں۔ جیسے اس کی سادہ لوحی اور وفاداری بھی ثابت ہو جاتی ہے۔ اس وجہ سے چودھری نے ارشد کو لندن کا ویزا بھی دیا ہے۔
” پچھلے سال چودھری گاؤں آیا تو عجیب خبر لایا۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ ارشد کے لیے لندن کا ویزہ لایا۔ خبر کیا تھی، جنت کا پروانہ تھا۔ تمام گھر ناچنے لگا۔ خوشی میں آکر کئی کبوتر اڑا دئیے( شام کو دوبارہ پکڑ لیے جب جوش ٹھنڈا ہوا) اور ایک بھینس بیچ کر سارے گاؤں کی دعوت کی۔ نیا لباس خریدا گیا۔ جسے ارشد "سنٹ پینٹ”کہتا۔گاؤں میں کوں گھر ہوگا جہاں نہ گیا ہو۔ برا بھلا معاف کروایا اور ایک ایک کبوتر اور بیڑ کو ہاتھ پھیرا۔ سوہا چوما ، ایسے کی خود ہمارے بھی انسو نکل آئے۔ بارہ فروری کو لندن کے لیے رخصت ہوا تو پورے گھر پر یوں نظر ماری جسے مرنے والا ہو۔آدھا گاؤں اور رخصت کرنے آیا اور دہاڑئیں مار مار کے روئے۔ خود میں اسے شہر تک چھوڑنے گیا۔”7؎
علی اکبرناطق نے پوری افسانے میں گاؤں کا ایسا نقشہ کھینچا ہے۔ جس سے گاؤں کے مسائل کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے محبت و ایثار کا جذبہ بھی اس افسانے سے واضح ہو جاتی ہے۔ جس طرح اوپر بیان کردہ اقتباس میں ارشد کو پردیس جانے کی لیے سارا گاؤں نکل جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ گاؤں والوں کے لیے ایک المیہ بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو گاؤں کے اکثر لوگ پردیس میں رہتے ہیں۔ جو ان حالات سے علی اکبرناطق خود بھی گزرا ہے۔ وہی درد و غم بیان کرنے کی بھی بھرپور کوشش کی ہے۔
اسی طرح” قائم دین” افسانہ بھی گاؤں کی عکاسی پر مبنی ہیں۔ یہ افسانہ پڑھتے ہوئے قاری کے دل و دماغ پر ایسا تاثر قائم کرجاتا ہے۔ کہ وہ یہ سب احوال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ قائم دین افسانہ ہندوستان اور پاکستان کے بارڈر کے قریب گاؤں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کا مرکزی کردار قائم دین ہے۔ بظاہر تو قائم دین ایک چور ہے جو بارڈر کے اس پار سے مال مویشی چوری کر کے اپنے گاؤں لا کے لوگوں کو سستے داموں میں بیچ دیتے ہیں۔ لیکن ایک دن گاؤں میں سیلاب آتا ہے۔ قائم دین نے چوری کرتے ہوئے ہر طرح کی ہنر سیکھ چکا تھا۔ سب لوگ سیلاب سے بچنے کے لیے بند کی طرف جا رہے تھے۔ سیلاب اتنا تیز تھا کہ گاؤں کے کچے مکانوں کے ساتھ لوگوں اور مال مویشوں کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ سیلاب کا یہ نقصان دیکھ کر قائم دین نے اپنی مدد آپ پانی میں کودنا شروع کر دیا۔
” قمے نے کنارے پر کھڑے ہو کر جب دریا کو دیکھا تو اسے ایسے لگا جسے زمین کے اندر سے پانی کا بڑا اژدہا نکل آیا ہو۔
ہزاروں چھپر بہے چلے جاتے تھے۔ سینکڑوں بکریاں اور گائے بھینسیں تیرتی اور ڈوبتی ڈباتی بند کی طرح آنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک اس کی نظر ارشاد علی پر پڑی جو اپنے بچوں اور بیوی کو بمشکل سنبھالنے، ہاپنتا ہوا بند کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قمے نے جسے ہی دیکھا، چھلانگ لگا کر چیتے کی سی پرتی ارشاد علی کے پاس پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے دریا سے بند پر اور بند سے دریا میں کئی چکر لگا دیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی سراج الدین، چودھری نوردین، فیض چوہدری، خان سیال اور سینکڑوں گاؤں والے بند پر بیٹھے لاچاری کے عالم میں مکئ ،گیہوں اور باجر کے غلوں کو پانی میں تیرتے دیکھ رہے تھے۔”8؎
اس منظر میں صرف واحد نام قائم دین کا تھا جو گاؤں والو کی خدمت میں لگاتھا۔ حکومتی امداد کو پہنچتے ہوئے گاؤں تو تقریباً پورا ڈوب گیا تھا۔ جو ویرانے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ہر طرف پانی ہی پانی نظر آرہی تھی۔ اس کرب سے گزرنے کے بعد جب قائم دین کئی مہینوں بعد واپس گاؤں آباد کرنے کا سوچتا ہے اور وہی ویرانے پر واپس سب سے پہلے قدم رکھتا ہے۔ جو کام حکومت کرنے کا تھا وہی کام قائم دین شروع کر دیتا ہے گاؤں کو واپس بسایا سب لوگوں نے گھر بنالیئے خستہالی مٹی کو واپس زرخیز بنا دی۔ ائمہ تین کو اس دوران چوری کا کوئی موقع فراہم نہیں ہوا بہرحال گاؤں کی حالات توڑی سے بہتر ہوئی تو قائم دین نے دوبارہ اپنا کام شروع کیا ۔اور ایک گنے جنگل کی وساطت سے بارڈر کی اس پار سے چوری کرنی شروع کر دی اور پھر سے اپنے گاؤں کو مال مویشیوں سے بھر دیا۔ اس دوران اس بار سے چوری کی شکایتیں موصول ہونے لگی۔ پہلے تو قائم دین کی دوستوں کو پکڑ لیے بعد میں قائم دین تک پہنچ گئے۔۔۔۔۔
یہاں پر کئی مسائل کا خلاصہ ہو جاتا ہے ایک تو حکومت کی نا اہلی دکھائی دی رہی ہے۔ جو لوگوں کو بے یار و مددگار چھوڑے ہوئے ہیں۔ اور خاص کر گاؤں کے لوگ، دوسری چوری کرنا۔ لیکن چوری کی کئی وجوہات بھی افسانے کے اندر موجود ہیں۔ افسانے کا اختتام وہی سیلاب پر ہوتا ہے لیکن اس بار ہندوستان کی طرف سے سیلاب آیا جس کی وجہ وہاں کے ڈیم حکومتی سازش کی وجہ سے چھوڑ کر پاکستان کے کئی دیہاتوں کو نقصان پہنچاتا ہے جس میں قائم دین کا گاؤ بھی شامل ہیں۔ اس بار جب سیلاب گاؤں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتا ہے تو قائم دین پاگل ہو چکا تھا۔ ان کے پاگل پن کی وجہ پاکستان کے افواج اور پولیس کی ٹارچر ہوتی ہیں۔ اس پاگل پن کی وجہ سے قائم الدین کے بیٹے نے گھر کی صحن میں ایک مضبوط زنجیر سے باندھا ہوتا ہے۔ جو لوگوں کو نقصان نہ پہنچائے اور کسی کو برا بھلا نہ کہیں۔ جب سیلاب کی خبر قائم الدین کے بیٹے کو پہنچ جاتی ہے تو اس کو یاد آتا ہے کہ میں نے اپنے باپ کو درخت کے ساتھ باندھا تھا لیکن بیٹا گاؤں سے بہت دور تھا۔ طفیل نے اپنے باپ کو نظیر کے ذمے چھوڑا تھا۔ لیکن سیلاب کے افراتفری میں وہ بھول گیا تھا۔
” نظیرے بند پر پہنچ کر سکھ کا سانس لیا۔ اور سوچا شکر ہے ہر چیز سلامت پہنچ گئی۔ مگر اچانک اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اسے خیال آیا کہ طفیل نے قائم الدین کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی تھی۔ مگر افراتفری میں کچھ یاد نہ رہا۔ اس نے چاہا کہ واپس گاؤں جائے مگر پانی کے شور سے ڈر گیا۔”9؎
یہ وہی قائم دین تھا جو پچھلے سیلاب میں جی جان لگا کر ہر کسی کو بچا رہا تھا۔ اور اس بار جب سیلاب ا پہنچا تو اس کی زندگی لے لی علی اکبر نے گاؤں والوں کی مجبوری کی بہترین عکاسی کی ہے۔اس حالات کو طنزاً بیان کیا ہے کہ جو لوگ گاؤں میں رہتے ہیں اس کی زندگی، جان و مال کی کوئی قیمت نہیں ہوتا۔ وہ اپنے مدد اپ سب کچھ کر دیتا ہے۔ ایک طرح ریاست سے گلہ شکوہ بھی موجود ہے کہ ریاست اس طرح خواب غفلت میں سو رہا ہے کہ قدرتی آفت تو خیر انسانی آفت سے بھی نہیں بچا سکتے اپنے دیش واسیوں کو۔ اور یہ حادیثات جب گاؤں والوں کے ساتھ ہوتے ہیں۔ تو ان کا کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا کیونکہ گاؤں والوں کو سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے کمزور رکھے جاتے ہیں بس ان سادہ لوح بندوں کو جو کچھ بھی کہو گے اس کے ساتھ اتنی شعور نہیں ہوتی کہ وہ یہ فیصلہ کر سکیں کہ یہ سب کچھ میرے لیے ہے میرے گاؤں کے لیے ہیں یا ان میں کوئی فائدہ ہے یا نہیں۔ بس ان کو معمولی چیزوں پر راضی کر دیتے ہیں۔ اور باقی سب کچھ ریاست اپنے پاس رکھتے ہیں۔ قائم دین افسانے کا ہر پہلو گاؤں والوں کی اسی طرح مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔
الغرض قائم الدین مجموعی کا ہر افسانہ تقریبا دیہاتی مسائل کو بیان کرتی ہیں اگر اس مجموعی میں” تابوت” افسانے کو دیکھا جائے تو یہ افسانہ بھی گاؤں کی طبعی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس افسانے میں مرکزی کردار یارعلی، ڈاکٹر منور بیگ اور افتاب پر مشتمل ہے افسانے کو بیانیہ انداز میں علی اکبر ناطق نے پیش کیا ہے۔ تینوں کرداروں کی گفتگو سے کہانی شروع ہو کر اسی پر ختم ہو جاتی ہیں ڈاکٹر منور بیگ جس کا گاؤں میں ایک میڈیکل سٹور ہیں واحد گاؤں میں یہ ایک ڈاکٹر ہے ایک دن تینوں شطرنج کھیل رہے تھے کہ اچانک گاؤں کے لوگوں نے ایک مریضہ کو تانگے پر لاد کر ڈاکٹر منور بیگ کے پاس لے آئے۔ یہ منظر تینوں دوست دیکھ رہے تھے۔ منور بیگ شش و پنج میں پڑ گیا اور جلدی سے مریضہ کے لواحقین کو کہاں:
” ڈاکٹر منور بیگ کچھ دیر مریضہ کو دیکھتا رہا۔ لیکن اس کی سمجھ میں غالباً کچھ نہیں آرہا تھا۔ آخر پریشانی کے عالم میں اس نے مریضہ کے لواحقین کو جواب دیا ان سے کہا کہ مریضہ کو دل کا زبردست اٹیک ہوا ہے۔ اسے جلدی سے شہر لے جاؤ۔ ڈاکٹر جواب دینے پر لواحقین گھبرا گئے۔ وہ اس گو مگو کی کیفیت میں تھے اتنی جلدی کیا کیا جائے مریضہ کو دوبارہ تانگے پر رکھا گیا۔ تانگہ چلنے کو ہی تھا کہ آفتاب نے بھاگ کر مریضہ کی نبض پکڑ لی، پھر ڈاکٹر کو اشارہ کیا۔ ڈاکٹر نے پاس آکر مریضہ کو دوبارہ دیکھ کر اور سر جھکا لیا۔ خیر ڈاکٹر اور آفتاب کو پریشان دیکھ کر ورثا سمجھ گئے اور دہاڑھیں مار کر رونے لگے۔”10؎
اس حادثے کے بعد ڈاکٹر ،آفتاب اور علی اس ملک کی حالات زار پر گفتگو شروع کر دیتے ہیں۔
اس شان سے” شہاب و خلیفہ کا شک” افسانہ بھی گاؤں کے عکاسی کرتا ہے اس افسانے میں گاؤں کے سارے لوگ پیر مست کے کتوں کے شکار کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ پورا گاؤں پیر مس کی کتوں کی شکار کے لیے جمع ہو کر ایک دوسرے کے ساتھ ضد پر رہتے ہیں کہ پیر مست کی مہمان نوازی کے لیے ایسا کیا کیا جائے جو اس کے کتے اور پیر مست صاحب خوش ہو جائیں ۔گاؤ کے لوگ پاری بیٹھ کر پیر مست اپنی مستی میں مست رہتا ہے ان کے پاس یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کل کے لیے کیا کیا جائے بس اس افسانے سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ گاؤں کے اکثر لوگ فارغ رہتے ہیں گھر میں ایک بندہ کام کاج کرتا ہے اور دس دس بندے اسے کھاتے ہیں۔ یہ لوگ اس طرح بات بات پر جمع ہو جاتے ہیں۔ یہ اتنے احمق اور عقل سے عاری ہوتے ہیں جو کتوں کو لڑانے والے کو بھی اپنا رہبر اور رہنما سمجھتے ہیں۔ بہرحال اگر قائم دین مجموعے کو دیکھا جائے تو اس میں ہر افسانہ دیہی سماج اور خاص طور پر پاسماندہ علاقوں پر بہت گہری وسعت رکھتی ہیں۔ اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ علی اکبر ناطق نے اپنے افسانوں کے ذریعے اردو افسانہ اور دیہاتی مسائل کو پیش کرنے میں اضافہ کیا ہے اس نے دیہاتی موضوع پر ایسے افسانے تحریر کیے ہیں کہ جن سے دیہاتوں کے ماضی کے حالات اور عصر حاضر کے حالات دونوں کو پیش کرنے کی سعی کی ہیں۔ جس میں دیہاتی سماج کی تصویر صاف جھلکتی ہیں ان کے افسانوں میں انسانیت کی اذیت بھی ہے اور راحت بھی۔ دیہاتی مسائل بھی ہیں اور ان کی روزمرہ کی مشکلات بھی بیرونی حکمراں اور ان کی جابرانہ معاشی، اقتصادی اور سیاسی پالیسی کی وجہ سے دیہاتی عوام بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان سب کی پردہ کشائی کی ہیں۔علی اکبر کے افسانے دیہاتی روایت اور دیہات کی سماجی مسائل سے وابستہ ہے جن میں وہ سانس لیتا ہے اور جن حالات سے علی اکبر ناطق دو چار ہوئیں اس کی نقوش اور خیالات ان کے افسانوں میں دکھائی دی جاتی ہیں۔ "قائم دین "مجموعے میں ایسے افسانے ہیں جو عصر حاضر کادیہاتی آواز اور دیہاتی مسائل کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے ۔ جس سے مختلف علاقوں کی تہذیب وہاں کے رہن سہن وہاں کی مجلسی زندگی کی عکاسی کی گئی ہیں "قائم لدین” مجموعے میں "کمی بھائی،جودہ پور کی حد، معمار کے ہاتھ، مومن والا کا سفر، شیدے نے پگڑی باندھی” یہ افسانے گاؤں والوں کے لیے ایک مقدس فریضے کا درجہ رکھتی ہیں ۔انہوں نے اوکاڑہ کی دیہات کو بہت تیز نگاہوں سے دیکھا ہے اور اسے اپنے تجربے کا حصہ بنایا وہ تاریخ اور سماج کے مروجہ شعور کو قبول نہیں کرتا ان کا خلوص جو مذہبی قیود سے آزاد ہے اوکاڑہ کی فطری شجاعت سے نمو پا ہے اور پھر ان کو افسانوں میں سمایاہے یہی وجہ ہے کہ علی اکبر ناطق کتنے کم عرصے میں قاری کی دل پر نئی راہ سے دستک دیا ہے تو اس کے لیے قاری فوراً اپنا دل کا دروازہ کھول دیتا ہے کیونکہ ان کا واحد مقصد گاؤں کے مسائل کو حل کرنا اور اور ریاست کے سامنے لانا ہے۔
علی اکبر ناطق کا دوسری افسانوی مجموعہ "شاہ محمد کا ٹانگہ” بھی دیہاتی عکاسی کرتی ہیں۔ یہ مجموعہ کم و بیش 200 صفحات پر مشتمل ہے اس مجموعے کے بارے میں علی اکبر ناطق خود لکھتے ہیں:
” شاہ محمد کا ٹانگہ اس افسانوی مجموعی کی کہانیاں زندگی کی رونق اور ایسے درد و غم ہیں۔ جنھیں جمع کیا توچودہ افسانوں کی کتاب مرتب ہو گئی۔ سچ پوچھیں تو مجھے افسانے اور کہانی کے مابعد اور جدید تنقید کے الف با کی خبر نہیں،مجھے نہیں معلوم یہ جدید افسانہ ہیں یا کہانیاں ہیں۔ یا یہ سب کچھ روایت ہی ہیں میں تو اتنا جانتا ہوں یہ میرے دل سے نکلی ہوئی وہ داستان ہیں جنہیں میں نے خود زندگی کے چرواہوں پر جوان اور بوڑھی ہوتے دیکھا ہیں اور اب دل کی بستیاں بسانے والوں کو دکھانے نکلا ہوں۔”11؎
آگے رقم طراز ہیں:
” اکثر شہری اور درسی نقادوں کو مجھ سے شکایت ہے کہ میری کہانیاں زیادہ تردیہات کے پس منظر میں ہوتی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم وہ یہ بات اپنے احساس کمتری کی باعث کرتے ہیں یا پھر انہیں کسی نے سکھا دیا ہے کہ دیہات میں انسان ربڑ کے بستے ہیں۔ اس لیے ان کی کہانیاں لکھنا عیب کی بات ہے اور شہری لوگوں کی کہانیاں برتر کام ہیں اور اعلی درجے کا فعل ہے میں نے اپنی زندگی جہاں بسر کی وہی کی کہانیاں لکھتا ہوں۔ اب اگر مجھے شہر کی زندگی میسر ہے تو شاید آنے والے دنوں میں شہروں پر لکھوں مگر ایک بات بتائے دوں کہ میری نظر میں کہانی صرف کہانی ہوتی ہے اور وہ کہانی وہ ہوتی ہے جس سے زندگی پھوٹتی ہے۔”12؎
بیان کردہ حوالے سے ایک بات تو بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ علی اکبر ناطق کے تحریر عموماً دیہاتی زندگی پر مشتمل ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس کا بچپن اور پیدائش ایک گاؤں میں ہوئی ہے اس وجہ سے ان کے افسانے گاؤں کی عکاسی اور گاؤں کی مسائل کو بیان کرتا ہیں۔علی اکبر ناطق کے اس مجموعے میں 13 افسانے شامل ہے ہر ایک افسانہ فن و فکر کے لحاظ سے مختلف ہے۔
"کت”یہ” شامحمد کا ٹانگا” کا پہلا افسانہ ہے۔ اس میں دوستی کے متعلق بات کی گئی ہے۔ دوستی کا رشتہ انمول ہے ۔ معاشرے میں دوست کے رشتے کو خونی رشتوں سے بڑھ کر اہمیت دی جاتی ہے۔ اس بات کی پختگی کا اندازہ حضرت علی علیہ السلام کی اس فرمان سے ہوتا ہے جس میں بیان میں ہوا ہے۔
” بے شک دوست ہیرے کی مانند ہے اور بھائی سونے کی۔”13؎
بے شک دوست کی قیمت زیادہ ہے اس لیے اس کی حفاظت بھی کڑی نظروں سے کرنی پڑتی ہے۔ علی اکبر ناطق کا یہ افسانہ بھی دوستوں کی داستان ہے جو بہادری میں اپنی مثال آپ ہے۔ اور ان کی دوستی کی نظیر نہیں ملتی۔ لیکن ان کی دوستی میں خلل کیوں کر آتا ہے وہ اس افسانے کو دیکھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے۔
رفیق عرف فیکا ساڑھے چھ فٹ قد اور چوڑی چاتھی کے ساتھ دس بھینسوں کا مالک تھا۔ اس کے متعلق مشہور تھا کہ وہ خالی ہاتھ شیر جیسے بہادر کا مقابلہ بڑی آسانی سے کرتا ہے۔ ایک بری عادت اس میں تھی وہ ہمیشہ بنا اجازت دوسروں کی کھیتوں سے چارا کاٹ کر لاتا۔ گاؤں کے لوگ اس فعل کی وجہ سے فیکے سے ناراض تھے۔ اور بے بس بھی۔ رفیق کا ایک ہی دوست تھا تھا شمشیرخان۔بہادری میں وہ رفیق کا ہم پلہ تھا مگر عقل کا تھوڑا موٹا۔ وہ مظلوم کی ہمیشہ حمایت کرتا۔ اس کی نزدیک مظلوم وہی ہوتا جو شکایت لے کر آتا۔ اس کی ایسی عادت سے کچھ چھیچھورے جوان دوسروں کو پٹواتے۔
گاؤں والوں کو رفیق اور شمشیر کی دوستی ایک آنکھ نہ بھاتی۔ وہ ان دونوں کی لڑائی دیکھنے کی خواہشمند تھے۔ ایک روزگاہ والوں نے شیرے کو بہکانے کی کوشش کی۔ شیرے کی خوشامند کرنے لگے۔ اس کے بہادری کی قصے بڑھا چڑھا کر بیان ہونے لگے۔اس نے خود بھی دو چار قصے اپنی بہادری کی کہہ دیے۔ موقع دیکھ کر ایک بولا اسے رفیق بھی برا آدمی نہیں اور بہادر بھی ہے۔ شیرے تیرا اصل مقابلہ تو اس کے ساتھ بنتا ہے۔
” شمشیر خان اب پوری طرح طیش میں آگیا، بولا لو میں کل ہی فیکے کو چیلنج دیتا ہوں۔ پھر جھجکتے ہوئے بولا؛ پر یہ اچھی بات نہیں۔ وہ ہے میرا یار۔
” اب غلام علی نے آگ پر مزید تیل چھڑکا تو کیا اتنی سی بات سے یاری ٹوٹ جائے گی؟ اگر ایک چیلنج سے یاری ٹوٹتی ہے تو یاری نہ ہوئی سوت کا دھاگہ ہوا۔ ٹھیک ہے میاں شمشیر خان نے اپنے گھٹنے سے بختو کی زنجیر کھولی اور اٹھ پڑا۔ کل دوپہر صید شاہ کے نیم والے تھڑے پر آجانا ۔”14؎
گاؤں کے لوگو کہ اس باتوں سے شیرا اسی بات پر اٹل ہو گیا اس نے رفیق سے مقابلے کی ٹھان لی ۔شیرا فیکے کے پاس گیا اور کہنے لگا لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تیرا یار ہمارے کھیتوں سے چارہ کاٹتا ہے۔ شیرے نے مزید دو چار تلخ باتیں کہیں۔فیکا سمجھ گیا کہ معاملہ خراب ہے فیکے نے سمجھانے کی کوشش کی۔ شیرا بولا ہمت ہے تو میرے باڑے سے چارہ چوری کر کے دیکھ فیکےجوش میں آکر چیلنج قبول کر لیا اور ایک ہفتے کی مدت بتائی۔
ساتویں دن فیکے نے رات کے وقت شیرے کے باڑے سے ایک گٹھڑی چارے کی اٹھائی اور جاتے ہوئے اسے اشارہ بھی دے گیا۔ صبح یہ بات آگ کی طرح پورے گاؤں میں پھیل گئی۔ اب شیرا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ اس نے ایک باری کلہاڑی بنوا لی۔ اب ہمیشہ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی اور دوسرے ہاتھ میں اس کی کتیا بختو کی زنجیر ہوتی۔ گاؤں والے فیکے کے قتل کے منتظر تھے۔ ایک دن شیرے کی فیکے بڑے بھائی بشیر کی ملاقات ہوگئی۔اس نے شیرے سے کہا تم دونوں کی یاری بڑی پرانی ہیں۔ تم تو ایک دوسرے کے بغیر لقمہ حلق سے نہیں اتارتے تھے۔ اب یہ کیا کر رہے ہو؟ شیرا بولا بات تو ٹھیک ہے لیکن میں نے قسم کھائی ہے اور اسے پورا کر کے رہوں گا۔ بشیر بولا میں خدا سے خود کہہ لوں گا۔ خیر شیرا بنا فیصلہ سنائے چھل دیا۔
اگلے ہی روز شیرہ ایک ہاتھ میں کلہاڑی اور دوسرے ہاتھ میں بختو کی زنجیر لیے فیکے کے دروازے پر آن پہنچا۔فیکا بلا جھجھک باہر نکلا فیکے کو دیکھتے ہی شیرا بولا یار بختو کت پہ ہے ساتھ والے گاؤں جانا ہے۔ وہاں ایک اعلیٰ قسم کا کتا موجود ہے۔
اس کہانی کی بنیادی بات یہ ہے کہ معاشرہ کا بھی خوش نہیں دیکھنا چاہتا۔ لوگ چاہتے ہیں جو خوش ہیں یا مل جل رہ رہے ان میں جدائی کا سامان پیدا کیا جائے۔ مختصر یہ ان سے کسی کی خوشی برداشت نہیں ہوتی۔ اکثر اس طرح واقعات گاؤں میں پیش آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ گاؤں والوں میں سماجی، سیاسی اور شعوری کمزوری ہوتی ہیں یا یوں کہہ لیجئے کہ یہ لوگ درس و تدریس سے بہت دور رہتے ہیں۔ کہانی میں بشیر کا کردار ایک ایسا کردار ہے جو ہم کہہ سکتے ہیں کہ برے لوگوں کے ساتھ ساتھ صالح لوگ بھی موجود ہیں فقط ان کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ ایک بات جس کی جانب مصنف نے اشارہ کیا۔ ہمیں خوشامند سن کر متکبر نہیں بننا چاہیے اور نہ ہی پچتانےوالا فیصلہ لیا جائے۔ افسانے کی خوبصورت بات مصنف نے بختو کے کت کو بہانہ بنا کر دو دوستوں کو ملا دیا۔ یہ بہانہ کو دو دوستی کی پختگی کی دلیل ہے۔ دوست سے لڑائی جس قدر ہو جائے بلآخر وہ کسی نہ کسی موڑ پر ایک دوسرے سے آہ ملتے ہیں۔ یہاں صرف ضرورت صرف ایک بہانہ تلاش کرنے کی ہے۔
اس مجموعے کا دوسرا افسانہ” جیرے کی روانگی” ہے۔ ہر معاشرے میں ہر طرح کے کردار پائے جاتے ہیں۔ لیکن کچھ کردار کسی ایک معاشرے کے ساتھ خصوصی طور پر منسوب ہوتے ہیں۔ جیسا کہ کچھ علاقوں میں مذہب کو اہمیت ہوتی ہے، کہیں کردار آزادی کو پسند کرتے ہیں، کوئی جادو ٹوٹنے پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتے ہیں، وغیرہ وغیرہ یہ کہانی بھی گاؤں کے ایک مخصوص طبقے کی عکاسی کرتی ہے۔
قصبے کے گرد ایک دریا بہتا تھا۔ جس کا پاٹ ایک کلومیٹر سے کم ہو کر نہر کے برابر رہ گیا تھا۔ مختلف لوگوں نے اس کے متعلق الگ الگ بیان دیا۔ مثلا کہا جاتا ہے کہ:
"ایک دفعہ یعنی اٹھ نو سو سال قبل پیر جتی شاہ دریائے بیاس کے کنارے بیٹا تین دن تک ملاحوں کی منتیں کرتا رہا کہ اسے پار اتار دیں۔ لیکن ملاح مان کے نہ دیے کہ تب پاراتار دیں گے جب پ سے دوں گے لیکن اللہ والوں کے پاس پیسے کہاں سے آئے۔ آخر تیسرے دن حضرت کو جلال آگیا۔ دوتی گھٹنوں سے اوپر کر لی اور دریا میں یہ کہہ کر قدم ڈال دیے کہ لو بھائی! نہ آج سے دریاہے، نہ تم کشتیاں چلاؤں۔ پھر جیسے جیسے پیر جتی شاہ دریا میں آگے بڑھتے گئے پانی گھٹنوں گھٹنوں ہوتا گیا۔ پار اترے تو دریا نہر کے جتنا رہ گیا۔”15؎
پیر جتی شاہ کو پیدل دریا عبور کرنے کے بعد ایسا حال ہے کہ دریا ہر سال دو تین لوگوں کی جان لے جاتا۔ گاؤں کے لوگ اسے قربانی کہہ دیتے۔
دریا پر پکڈنڈی نما پل تھی۔ ساون کے موسم میں یہ پل پانی میں ڈوب جاتی. انجان لوگ اسے عبور نہ کر سکتے تھے۔ایک سال سکول کے بچے واپس جا رہے تھے کشتی ڈوب گئی اور سارے بچے مر گئے۔ اس حادثے کے بعد حکومت نے بڑی پوری بنانے کا حکم جاری کر دیا ۔اس طرح حادثات کم ہو گئے۔
گاؤں میں ایک قصہ گو تھا۔ اس نے چور کی کہانی سنانے کا وعدہ کیا۔ یہ بات گاؤں والوں کے لیے انہونی تھی۔کیونکہ اس سے پہلے گاؤں کے جوبدیوں کے کہنے پر بھی جیرا کبھی راضی نہ ہوا۔ ایک بولا یہ سب پیر مودے شاہ کی کرامت ہے۔ پیر مودے شاہ گاؤں والوں کے لیے معتبر شخصیت تھی۔ اس کی کرامات کے قصے دور دور پھیلے ہوئے تھے۔ مختصر جیرے نے قصہ سنایا قصے کے بعد پیر مودے نے کہا جو مانگتے ہو مانگ لو۔ اصرار کرنے کے بعد جیرے نے پیر مودے سے ان کی گھوڑی مانگ لی۔ پیر صاحب نے گھوڑی تو دے دی مگر غصہ بہت آیا۔ جیرا اصل میں کہاں کا رہنے والا تھا یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔ البتہ 20 سال پہلے یہاں آیا تھا۔ اور ان 20 سالوں میں بھی اکثر باہر ہی رہتا بہت کم چکر لگاتا۔ وہ خود قرضہ لے کر دوسروں کی مدد کرنے کے قائل تھا ۔اکثر وہ قصبے والوں سے قرض لیتا اور قصبہ چھوڑ کر چلا جاتا۔
دو سال بعد دریا مکمل خشک ہو گیا۔ لوگوں نے سمجھا کہ قربانی دینا چھوڑ دی ہے شاید اس کی سزا مل رہی ہے۔ انہوں نے پیر مودی شاہ کی منت سماجت کی۔ بلآخر پیر صاحب مان گئے۔ چلا کاٹنے کے بعد کہنے لگے ایک آپ نے قربانی نہیں دی اس وجہ سے یہ سب ہوا۔ اپ قربانی دیں تو اللہ راضی ہوگا۔ اور قربانی کے لیے پیر صاحب نے جیرے کا انتخاب کیا۔ رات کو جیرے کی قربانی دینے کے بعد پیر صاحب فرار ہو گئے۔
” رات دس بجے کے قریب چار آدمی جیرے کی کوٹھڑی میں داخل ہو گئے۔ جیرا بہت رویا پیٹا مگر اب خدا کے کاموں میں دخل دینے کی قصبے والوں میں ہمت نہیں تھی۔ جیرے کو مضبوطی کے ساتھ رسیوں میں جکڑا اور دریا پر لے جا کر خشک ریت پر لٹا دیا۔ ایک آدمی نے تیز چھری اس کے گلے پر رکھ دی۔پھر چند لمحوں میں گلے سے نکلتے ہوئے گرم خون کو دریا کی پیاسی ریت پی گئی۔ اور اگلی صبح پیر صاحب سحر پھوٹنے سے پہلے قصبہ چھوڑ کر جا چکے تھے۔”16؎
اس افسانہ میں مصنف نے گاؤں والوں کی سادگی اور پیر پر اندھا دھند ایمان اور فراڈی پیروں کو پیش کیا ہے۔ آج یہ بات معاشرے میں عام دیکھنے کو ملتی ہے خاص طور پر گاؤں کی زندگی میں۔ لوگ بنا دیکھے پیروں کی تقلید میں چل پڑتے ہیں۔ ان کی روحانیت کے قائل ہوتے ہیں۔ مصنف کا تعلق چونکہ گاؤں سے ہیں اس وجہ سے وہ معاملات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں۔ انہوں نے افسانے کے ذریعے معاشرے میں موجود فراڈ کو بے نقاب کیا اور لوگوں کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کی دعوت دی۔ کسی بھی فن پارے کی متواتر تخلیق اس کے زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے۔ ادیب انہی کے ذریعے سے اپنےمقاصد کو بیان کرتے ہیں۔ یہاں مصنف کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ مکمل طور پر مقصد کی جانب توجہ نہ کرے بلکہ ادب پارے کے فن کو بھی مد نظر رکھیں۔ بہرحال افسانے کا اختتام المیہ ناک ہوتا ہے۔ لیکن اپنے ساتھ ایک سبق چھوڑ دیتا ہے کہ برے کاموں کا انجام بھی بورا ہوتا ہے لیکن دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو اس معاشرے میں ایسے نام نہاد پیر ہر جگہ موجود ہوتے ہیں جو لوگوں کو مذہب کے نام سے ورغلاتے ہیں۔ یہ صرف ایک گاؤں کی عکاسی نہیں اگر یوں کہا جائے کہ آج کل حالات کچھ اس طرح ہیں کہ مذہب کے نام پر قتل عام ہر جگہ جاری ہے۔
‘شاہ محمد کا ٹانگہ” بھی گاؤں کے عکاسی کرتی ہیں۔ یہ افسانہ بدلتے ہوئے سماج کو بیان کرتی ہے۔کیونکہ انسان روز بروز ارتقا کے منازل طے کیے جا رہے ہے۔ کھلے آسمان سے غاروں میں، غاروں سے قبیلوں میں، قبیلوں سے قصبوں میں اور پھر شہروں میں آباد ہوا۔ اسی طرح پیدل سفر سے سائیکل اور سائیکل سے موٹر سائیکل، کار اور پھر ہوائی جہاز پرآن پہنچا۔ اسی طرح یہ ارتقائی منزل ٹانگے سے رکشے یہ بھی محیط ہے ایک چیز کا دوسرے میں بدلنا صرف اس چیز کا بدلاؤں نہیں بلکہ پوری نسل کا بدلاؤ، پوری سوچ کا بدلاؤ ہوتا ہے۔ اس افسانے میں مصنف روایتی انداز میں گاؤں کی زندگی کا عکاسی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اور ایک نسل سے دوسری نسل کی منتقلی سے پیدا ہونے والی خلاء کو بیان کرتا ہے۔ افسانے کا بنیادی کردار”میں”ہے۔
مصنف کہانی کچھ یوں بیان کرتی ہیں۔ کہ میں اپنے مقامی شہر میں سکول پڑھنے کے لیے جاتا تھا۔ اور چھٹی کے وقت تانگے والے اڈے پہ آتا۔ یہاں مصنف نے سارے اڈے کا خوبصورت منظر بیان کیا ہے۔ کہ کیسے گھوڑے بندھے ہوتے تھے۔اور ٹانگے کس ترتیب سے کھڑے ہوتے تھے۔ ساتھ ہوٹل ہوتا اس میں ہر قسم کی تصاویر چسپا تھیں اوپر کی جانب اسلامی ہیروز اور مقدس مقامات اور نیچے فلموں کی ہیرو اور ہیروئنز کی۔ وہ کہتا ہے میں وہاں شاہ محمد کے ٹانگے پر بیٹھ جاتا اور سواریاں پورا ہونے کا انتظار کرنے لگتا۔ جب ٹانگا چلتا تو شاہ محمد اپنی نوابی اور بہادری کے من گھڑت قصے بیان کرتا اور بچہ ہونے کی وجہ سے انہیں حقیقت جان کر محفوظ ہوتا رہتا۔ تیسرے سال میں نے ضد کر کے سائیکل خرید لی اور اس پہ میٹرک تک سکول جانے لگ گیا۔ میٹرک کے بعد میں شہر میں ہی رہنے لگ گیا یو ٹانگوں کے ساتھ ریس لگانے کا سلسلہ بھی ختم ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سارے عرصے میں شاہ محمد کے ساتھ کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ اب کی جب میں گاؤں جانے لگا تو ٹانگوں والے اڈے تو کیا وہاں کا سارا منظر بدل ہی چکا تھا۔۔۔۔۔۔
شاہ محمد نے اب رکشہ خرید لیا تھا۔ اسے رکشہ البتہ چلانا کم ہی اتا تھا مگر پھر بھی کچھ سواریہ ہے اسے ہی جاتی ہے اور میں ہمیشہ اس کے ساتھ ہی سفر کرتا۔ پھر میں باہر چلا گیا اور کئی عرصہ بعد جب گاؤں لوٹا۔ مگر شاہ محمد کا رکشہ نہ ملا۔ میرے قدم خود بخود اس کے گھر کی جانب رواں دواں تھے۔ وہاں وہی ٹانگا کھڑا تھا جو مجھے 30 سال پیچھے لے گیا۔ اور آنسوں میرے آنکھوں سے بے ساختہ نکل پڑے۔
اس افسانے میں انسیت اور احساس کو اہمیت حاصل ہے۔ مصنف کو ٹانگے سے بھی انسیت تھی اور اس کے ساتھ ہی ساتھ ٹانگے کے مالک سے دلی محبت بھی جو بچپن سے ساتھ چلی آرہی تھی۔ اہم بات جس جانب مصنف نے اشارہ کروانا چاہا ہے وہ یہ کہ ہمیں تبدیلی کو قبول کرنے کی ہمت رکھنی چاہیے اگر ہم منجمد ہو جائیں گے تو تو مر جائیں گے۔ یہاں پر تبدیلی کو قبول کرنا بنسبت شہروں والوں سے گاؤں والوں کے لیے زیادہ مشکل ہوتی ہیں۔کیونکہ وہ اس قسم کی تبدیلی کو یا عذاب سمجھتے ہیں یا اپنے رسم و رواج اورمذہب کے مخالف سمجھتے ہیں۔ کیونکہ گاؤں والے زیادہ تر مذہبی، اور پرانی قدروں کے مالک ہوتے ہیں اس کے لیے نئے سماج کو قبول کرنا زیادہ مشکل بن جاتی ہے۔ بہرحال تبدیلی میں فلاح و حیات موجود ہے اور جدیدیت کے ساتھ خود کو بدلتے رہنا چاہیے وگرنہ آپ کی وقعت ختم ہو جائے گی۔آپ کی انسیت، محبت اور لگن اپنی جگہ لیکن معاشرے کے ساتھ اخلاق کے دائرے میں رہ کر چلنا بے حد ضروری ہے۔ کسی ایک چیز سے پوری پوری داستان جڑی ہوئی تھی جس طرح مصنف کی ٹانگے سے۔ مصنف نے اج سے تین چار دہائیاں پہلے کے واقعہ کو بیان کیا اور یہی واقعات آج بھی ہو رہے ہیں مگر انداز مختلف ہے۔ موبائل فون سے سمارٹ فون، آن لائن بزنس، آن لائن پڑھائی وغیرہ۔ اس افسانے سے واضح ہے اگر جدید طرز زندگی کو نہ اپنایا گیا تو شاہ محمد کی طرح صرف فرضی قصے کہانیاں سنانے میں ہی زندگی سرف ہو جائے گی۔ اور یہ کھلا پیغام خاص کارگاؤں والوں کے لیے ہیں۔
اس کے بعد "الہ دین کی چارپائی” بھی گاؤں والوں کی عکاسی کرتی ہیں۔ معاشرے میں گاؤں والوں کو اس نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا جس طرح دیکھنا چاہیے۔ لوگ انہیں کم ظرف، جاہل، بے شعور انسان سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے، معاشرے میں وہ اپنی انفرادی پہچان رکھتے ہیں۔ بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جو گاؤں کے علاوہ نافید ہیں۔ علی اکبر ناطق نے ان خوبیوں کو اپنے افسانوں میں بڑے خوبصورت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں گاؤں والوں کے بغیر زندگی ادھوری ہیں۔ کوئی کام نہیں ہو سکتا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ زراعت ہے۔ خیر یہ الگ بحث ہے اب اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں ۔
"الہ دین” گاؤں میں رہنے والا ایک معزز شخص تھا۔ اہل خانہ ہر روز علہ دین کی چارپائی سڑک کے کنارے دو جڑوا درختوں کے بیچ بیچھا دیتے۔ اور دھوپ انے پر دوبارہ چھاؤں میں کر دیتے ہیں چارپائی کے ارد گرد موڑھے لگا دیے جاتے۔ سارا دن وہاں خوب محفل جمائی جاتی۔ اور حقہ چلتا ۔سڑک کے دوسرے کنارے مونچی جوتیاں بناتا تھا۔گاہگ جوتا خریدنے کے بعد الہ دین کو دکھا کر تسلی کراتا ہے۔ اسی طرح گاؤں کی عورت ہر شاپنگ الہ دین کو دکھاتیں۔ الہ دین ان کا دل رکھنے کی خاطر تعریفوں کا مبالغہ آرائی سے کام لیتا۔
ایک روز جمال بھٹی الہ دین کے پاس بھیٹا کہنے لگا جب فیروز پور میں تھا۔ فیروزپور کی پانچ تحصیلوں میں کوئی ایسی جگہ نہ تھی جہاں میں نے چوری نہ کی ہو اور بڑی محنت اور عزت سے کماتا اور کھاتا۔ اس بٹوارے نے یہاں آپھینکا۔ دین ہنسا اور بولا اچھا جمالے وہ خچروں کی کیا کہانی تھی۔ جمال دین نے کہا ایک عرصہ تک جب کوئی بھینس نہ مل سکی تو ہم نے خچروں کو یہ سوچ کر بھیجنا شروع کیا کہ زیادہ نہیں تو کھانے کے لیے تو ملے گا۔ روحی کے خچر تولے آئے مگر اب بھیجیے کسے؟ پھر خیال آیا عیسیٰ اور دلاور بھی بڑے چور ہیں ۔ان کو مال کے بدلے مال دیتے ہیں۔
اسی دوران الہ دین نے جمالے کی بات کاٹی اور بولا ان دونوں کا ایک بڑا بھائی شبیر بھی تھا جو مزدوری کرتا تھا۔ جب بھی یہ دونوں بھائی چوری کرتے اس کے بعد دو تین دے گئے اللہ کی راہ میں دے دیتے۔ اور شبر سے بھی پورا حصہ لیتے۔ ان کے پیسے چوری کے ہوتے اور وہ بیچارہ محنت مزدوری کرتا۔ شبیر نے ایک دن کہا میں خود رب سے حساب کر لوں گا۔ آئندہ میں حصہ نہیں دینے والا۔
جمال دوبارہ کہانی شروع کی۔ روحی کے خچروں کی اصل قیمت اڑھائی تین سو ہوتی جبکہ وہ لوگ ہم سے صرف ایک گائے کے بدلے لے جاتے ۔ اس وقت گائے کی قیمت صرف 50 روپے تھی۔ اسی طرح سارے لوگ کوئی نہ کوئی قصہ سنایا۔ رجب علی بولا میرے والد ضد آگئے کہ میں ہری چند کھتری کو گندم نہیں بیچوں گا بلکہ خود منڈی جا کر ایک روپے چار آنے میں بیچ آؤں گا۔ اب ہونا کیا تھا۔ کمہار آیا تین آنے پی من کے حساب سے لے گیا اور ساتھ 15 آدمیوں کے ساتھ 15 گدھے ڈیڑھ مہینے میں ہمارا کھاتے رہیں یوں لینے کے دینے پڑ گئے۔
روز اسی طرح محفل سجتی۔ اصغرشہر جاتا تھا اور روز نئی نئی خبریں لاتا ۔ ایک روز اصغر آیا بتایا کہ روس والے ملک میں آرہے ہیں اور بے تحاشہ راشن تقسیم کریں گے۔
” میاں الہ دین! بس اب کچھ ہی دن رہ گئےگریبوں کی تقدیر بدلنے کے۔ روس نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پاکستان میں لال جھنڈا اب لگا ہی دیا جائے۔ روس کے صدر نے خط لکھا ہے کہ جلدی سے گریبوں کو دین میں تین مرتبہ روٹی اور گھر دے دو ورنہ ہم چار مہینوں کے بعد خود ا کر حکومتیاں کریں گے۔
کچھ دن اور تنگی کاٹ لو۔ پھر تو ہر شے مبت راشن میں آئے گی۔ برابر دال بنا کرے گی۔ میاں الہ دین ان ڈاکو اور سرمایہ داروں سے جان چھٹے گی، جنہوں نے یہی بھیٹے بھیٹے مہاجرین کی کئی کئی لاٹیں نام کرا لیں اور ملوں کے مالک بن گئے۔ اللہ قسم سب کچھ اس ملک کا یہاں کے شہر میں رہنے والوں نے اور وہاں سے آنے والے شہری مہاجروں نے لوٹ لیا۔ دیہاتوں کے ہاتھ میں ڈگڈگی دے دی، کہ لو، بجاتے پھرو۔ اب روس ان سے نپٹے گا۔”17؎
یہ بات سنتے ہی گاؤں والے شش پنج میں رہ گئے ہیں کہ روس والے تو مسلمان نہیں ہے۔ ایسا نہ ہو کہ لوگ ہمیں خود جیسے بنائے۔ لیکن ان میں ایک بولا کہ روس والوں کا سرخ جھنڈا تو امام حسین علیہ السلام کا جھنڈا ہے۔ اب حیات دین بولا سنا ہے وہ شراب پیتے ہیں۔ اصغر بولا اگر توں سال سال بغیر نہائے اور دن رات افیم کھا کر مسلمان رہ سکتاہے تو وہ کیوں نہیں؟ یہ محفل سال باسال چلتی رہی۔ میاں جی کو چارپائی پرچبیس سال ہو گئے تھے اس دوران ان کے ساتھ والے ایک ایک رخصت ہو گئے۔ یہ سارا واقعہ الہ دین کا بیٹا اپنے پوتے کو سنا رہا تھا۔ اور الہ دین کی قبر پر بیٹا تھا۔ وہ مزید کہتا ہے ایک دن میاں جی کی چارپائی معمول کے مطابق میں نے بچھائی اور کام پر چلا گیا۔ اور گھر میں بھی کوئی نہیں تھا سارا دن والد صاحب کی چارپائی دھوپ میں رہی اسی دن ان کی محفل میں بھی کوئی نہ آیا اور نہیں راہ گیروں نے انہیں چھاؤں پہ کیا۔ رات کو جب میں گھر آیاتو والد صاحب سے غصہ ہوا اور کہاں کہ نہ کسی راہ گزرتے سے کیوں نہیں کہا کہ اپ کی چارپائی چھاؤں میں کر دے؟ اس وقت تو والد محترم نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اگلے روز جب میرا غصہ ٹھنڈا ہوا تو کہنے لگا کہ:
” بیٹا یہاں بیٹھو۔ اب میرا کل والا جوش ٹھنڈا ہو چکا تھا اور پورے حواس میں تھا۔ اسی لیے ڈرنے لگا کہ میاں جی پتہ نہیں کیا کہیں؟ ڈرتے ادوائن کی طرف بیٹھ گیا۔ وہ آہستہ سے بولے، بیٹا مجھے ایک بات بتا، تم لوگوں نے میری کتنی سال خدمت کی ہے؟
میں چپ رہا اور کچھ جواب نہ دیا۔ آنکھیں بھی نیچے کیے رکھیں۔ کچھ لمحوں کے بعد وہ خود ہی بولے، دیکھ بیٹا،آج اس چارپائی مجھے پچیس سال ہوگئے۔ اس عرصے میں تم نے اور تمہاری ماں اور بھائیوں نے میری خدمت کا حق ادا کر دیا۔ جس کا اجر خدا ہی کے پاس ہے لیکن دنیا کانچ کے پیڑ کی طرح ہے۔ جس کا نہ تو سایہ ہے اور نہ ہی اس کا پھل ہضم ہوتا ہے۔ اگر کل میں کسی کو کہہ دے تاکہ میری چارپائی چھاؤں میں کردے۔ وہ چارپائی تو چھاؤں میں کر دیتا مگر سارے گاؤں میں کہتا پھرتا، دیکھو بھائی خون سفید ہو گیا، الہ دین کہ پانچ بیٹے ہیں مگر وہ بیچارہ دھوپ میں لاچار پڑا جل رہا تھا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔ میں نے اس کی چارپائی اٹھا کرسائے میں کی اور ٹھنڈا پانی پلایا۔ بس خدا کسی کو نافرمان اولاد نہ دے اور معذور ہونے سے پہلے ہی اٹھا لے۔”18؎
مصنف نے اتنی چالاکی سے گاؤں کی وہ باوقار زندگی جس میں بچے اپنے بزرگوں کے ساتھ اتنے پیار سے پیش آتے ہیں۔ کہ لوگ اس کے لیے ترس جاتے ہیں ایک طرف تو مصنف اپنی دیہاتی زندگی سے خوش نظر آتے ہیں کہ وہاں پر محبت، خلوص، اخلاق سب کچھ ہے لیکن دوسری طرف وہ اس زندگی سے بے بس بھی نظر آتے ہیں جس کی وجہ وہاں کی مالی، معاشی ،سیاسی اور تعلیمی مسائل حد سے زیادہ موجود ہیں۔ اس افسانے میں مصنف نے روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گاؤں کی زندگی کا حال بیان کیا ہے۔ اگر جمال کی بات کریں تو بطور شہری اس کے لیے شرمندگی محسوس ہوتی ہے وہ ساری عمر چوری کرتا رہا اور اس عمل کو اپنی محنت اور عزت والا کام کہتا۔ یہ چوری چکاری زیادہ تر گاؤں والوں کے ساتھ پیش آتے ہیں جب یہ بیچارے پہلی بار شہر جائے تو اکثر اوقات وہ اس طرح کے لوگوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ بہرحال دوسری جانب دلاور اور اس کا بھائی چوری کی چیز کو حلال کرنے اور معاشرے میں خود کو غریب و کا خیر خواہ کہلانے کے لیے حرام پیسے سے نذر نیاز دلواتے ہیں۔ آگے جا کر مصنف نے حکمرانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ کہتے ہیں عوام خوش ہے اب روس والے آئیں گے اور ہمیں کھلا راشن دیں گے۔ یہ خبر شہر سے آتی ہے۔ اس دور میں ٹی وی، ریڈیو نہیں تھاانتظار کرتے کوئی اخبار یا خبر گیر شہر سے آئے۔ آخر میں معاشرے والوں کا یہ رویہ اور باپ کی اولاد سے محبت اور احساس کو دکھایا گیا ہے۔ مختصراً یہ کہ پورے افسانے میں ایک تہذیب دکھایا گیا ہے۔ جو قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد کی ہے۔ گاؤں کے لوگوں کی فطرت، سوچ، تصورات، عقائد وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔
اسی طرح” زیارت کا کمرہ” افسانہ مذہبی عناصر پر مشتمل ہے جس میں سنی شیعہ کی طبقات کا ذکر مختلف طریقوں سے موجود ہے اور ان کے درمیان اختلافات اور رنڈی کے کوٹھے کو ایک ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ افسانے کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سنی شیعہ کے اختلافات ایک مدت سے چلی آرہی ہیں اور آج کے دور میں عروج پر ہے۔ یہ ہم خود نہیں کر رہے بلکہ ہم سے کروایا جا رہا ہے اور ہم کو خبر تک نہیں۔ اگر کوئی صرف یہ کہہ دے کہ اس نے صحابہ کی شان میں گستاخی کی ہے دوسرا بندہ تصدیق کیے بغیر اس کا قتل کر دیتا ہے۔ یہ نہیں دیکھتا کہ واقعی اس نے کچھ کہا ہے یا نہیں۔ وہی سنی شیعہ جو ایک ہی مسجد میں باری باری جماعت کرواتے تھے آج بات بات پہ ایک دوسرے کی دشمن بنے ہوئے ہیں۔ تاریخی اختلافات اپنی جگہ۔ انہیں علم بحث سے حل کیا جا سکتا ہے یا سمجھایا جا سکتا ہے۔ الغرض اس پرآشوب دور میں قدم پھونک پھونک کر رکھنے کی ضرورت ہے۔
” پانڈو کے” افسانہ گاؤں کے مہمان نوازی کو بیان کرتی ہے۔ مہمان نوازی پاکستان کے بہت سارے علاقوں کی خاص بات ہے۔ وہ لوگ کہتے ہیں کہ چاہے ہم ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوں مگر مہمان کسی گھر کا ہو قابل احترام ہے۔کیونکہ مہمان تو سانجھا ہوتا ہے۔ اس افسانے میں بھی مصنف نے اس بات کو اہمیت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ محبت و عشق کو بھی موضوع بنایا۔ مصنف پانڈو کے شہر میں کام کے سلسلے میں گیا تھا وہ یہ روداد اپنے دوست متوحش لالا کو سناتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔ یہ دس سال قبل کی بات ہے ان دنوں میں مسجدوں کے مینار اور گنبد بناتا تھا۔۔۔۔۔۔ میری کاریگری جب شہر سے باہر نکلی تو قصور کے گاؤں پانڈو کے میں کام کی دعوت ملی۔ یہ وہی گاؤں ہے جہاں بھلے شاہ بھی رہا۔ اس گاؤں میں بڑا سا چوک تھا اس چوک میں وہ مسجد تھی جس کا مجھے کام کرنا تھا۔ گاؤں کے گھر کھلے اور احاطے بڑے بڑے تھے۔ جگہ جگہ درخت تھے میں 50 فٹ کی بلندی پہ کام کرتا تھا۔ ایک روز اچانک سامنے والے گھر میں میری نظر پڑی۔ چانسا مکھری دکھائی دیا۔ ایسا حسین چہرہ میں نے زندگی میں نہیں دیکھا ہوگا میں روزانہ اسے دیکھنے کی کوشش کرتا مگر وہ چہرہ پھر کبھی نظر نہ آیا۔ میرے حالات کو بھانپتے ہوئے ساتھ کام کرنے والا مزدور کہنے لگا ان تلوں میں اب تیل نہیں ہے۔ میں نے اس کی خوشامد کی تاکہ وہ بات کو یہی دبا دے اور ایسا ہی ہوا۔
وہاں کی سب سے حیران کن بات رشید نام کا پاگل تھا۔ وہ مسجد کے سامنے والے چوک میں صبح چھ بجے کھڑا ہوتا اور عشاء تک وہیں کھڑا رہتا۔ گرمی کی شدت ہو یا گزرتی ہوئی گاڑیاں کوئی ایسے نہ ہلا سکتا ۔ایک روز میں نے اس سے پوچھا تم گرمی میں کیوں کھڑے رہتے ہوں؟ اس نے کہا کیا سردی نہیں آنی؟ میں اس بات سے حیران رہ گیا۔ایک ماہ مجھے وہاں گزر گیا۔وہاں مطالعہ کی کوئی شے مجھے میسر نہ آسکی۔ میں نے سبزی فروش دیکھا تم شہر جاتے ہوا سے میرے لیے کوئی کتاب وغیرہ لیتے آیا کرو۔ پہلی بار وہ "قوت باہ کے مجرب نسخے” لے آیا۔ اس میں اس کا قصور نہ تھا کیونکہ وہاں ہر دوسرا بندہ حکیم تھا۔ آٹھ دس تے وہاں بلو فلم چلتی اور جو کھیلا جاتا تھا۔ پورے ضلع کی 80 فیصد وارداتیے اس قصبے کی تھی۔ لڑائی جھگڑوں کی وجہ بھی کوئی خاص نہ ہوتی تھی۔ کبوتر کا چھت پر بیٹھ جانا، بھینس کا دوسرا بازار میں گوبر کر دینا۔ متوہش لالا نے پوچھا تم وہاں کس طرح رہ رہے تھے۔
چونکہ میں ان کا مہمان تھا اور لوگ مہمان نواز تھے۔ مہمان کی بہت قدر کرتے تھے اس کے ساتھ ساتھ میں مسجد کا کام کرنے گیا تھا۔ اس وجہ سے عزت تھی۔ اہم سہارا بلے شاہ کے والدین کی قبریں تھیں۔ وہ لوگ چاہے جتنے بھی لڑاکو تھے مگر اس بات پہ سب کا اتفاق تھا جو بھی جیسا بھی مجرم ہو جب وہ ان قبروں پہ آجائے گا کچھ نہیں کہا جائے گا۔
” جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں وہاں بلھےشاہ پیدا ہوا تھا۔ اس کے والد اور والدہ کے مقبریں وہی پر موجود تھے۔ اب یہ وہاں کی رسم تھی کی جو شخص ان مقبروں میں پناہ لے لے، وہ چاہے کتنے ہی بڑے خطرے میں کیوں نہ ہوتا اسے عافیت حاصل ہو جاتی۔ پھر معاملہ افہام و تفہیم سے طے کرنا ضروری سمجھا جاتا۔ خدا جانے یہ اچھی بات ان گنواروں میں کیسے پیدا ہو گئی۔اب یہ روایت صدیوں سے چلی آتی تھی۔”19؎
بہرحال کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے مصنف نے گاؤں والوں کے علم لحاظ سے کمزوری کا ذکر بھی کیا ہے تو دوسری طرف خطرے سے بچنے کے لیے مسجد کے مستری ان خطروں سے بچنے کے لیے مختلف طرح کی تراکیبیں سوچتے ہیں اگر ایسا ویسا کچھ ہوا تو میں بھی بھلے شاہ کے مقبرے چلا جاؤں گا۔ اسی طرح گاؤں والوں کی مہمان نوازی کی تو داد بنتی ہیں۔ اگر ایک گھر سے کچھ آیا تو دوسرے گھر سے آنا لازمی تھا ورنہ خود کو حقیر جانتے تھے۔
اس دوران مصنف نے مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ گاؤں والوں کی شرافت اور دوستی کا بھی ذکر کیا ہے۔ جس طرح مستری کا شریف حسین سے دوستی ہوتی ہے اور باقی عرصہ وہ گزار دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے شریف کے گھر میں قیام کیے ہوئے چار ماہ بیت گئے۔ ان چار ماہ میں نےکبھی اس کو غیر معمول بات کرتے نہیں دیکھا۔ وہ پڑھا لکھا تو نہ تھا البتہ جاہل بھی نہیں تھا۔ میں نے اس سے گاؤ چھوڑنے کا مشورہ دیا اس نے کہا اتنا رقبہ اور والدین کی قبریں چھوڑ کر کہاں جاؤں۔ ایک روز میں مسجد کے مینار پر کام میں مصروف تھا۔ شریف سر مئی رنگ کی چادر لپیٹے مسجد میں داخل ہوا۔ وہ نوافل ادا کرنے لگا۔ کوئی تین بجے کا وقت ہوگا داکاریں آکررکیں۔ اور سامنے والے گھر میں چار آدمی چلے گئے۔ مجھے سیمنٹ کی ضرورت پڑی۔ مگر مزدور وہاں موجود نہیں دیکھا۔ ارد گرد کا معائنہ کیا سوائے میرے اور پیپلوں کہ کوئی شے نہ تھی۔ میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ آج رشید میاں بھی موجود نہیں۔ اس لمحے شریف حسین نے چادر ایک طرف پھنکی اور فائیرنگ کرتا ہوا سامنے والے گھر میں داخل ہو گیا۔ باہر نکلا تو اس کے ہاتھ میں لڑکی کا ہاتھ تھا اور دوسرے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی۔ اس نے مجھے اشارے سے نیچے اترنے کا کہا۔ میں ڈرا ڈرا اس کے آگے چلنے لگا۔ بھلے شاہ کے والدین کے مقبرے میں داخل کرنے کے بعد اس نے دروازہ بند کر دیا۔ مجھے کہا وضو کراؤ اور دو رکعت نفل ادا کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد اس کے کہنے پر کانوں کو ہاتھ لگائے۔ معلوم ہوا کہ مزدور نے سامنے گھر میں نظر رکھنے والا میرا راز پاش کر دیا ہے۔
” اسے اطلاع ملی تھی کہ میں نے آتے ہی اس کی محبوبہ پر آنکھ رکھ لی تھی۔ وہی تو نور تھا جو پیپلوں کی اوٹ میں گھر کے صحن کو روشن رکھتا تھا۔”20؎
راز پاش کرنے کے بعد وہ بولا مولوی صاحب اب آپ ہی ہمارا نکاح پڑھائیں۔ یو ایک ماہر کاریگر بوقت ضرورت مولوی کا کام بھی سرانجام دے گیا۔
علی اکبر ناطق نے لوگوں کی دروخی حقیقت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ بظاہر اور باطن میں بہت فرق ہوتا ہے۔ انسان کو کبھی بھی اس کسی کی بظاہر سے اس کے باطن کو نہیں پہچاننا چاہیے۔ اسی طرح علی اکبر ناطق نے افسانے سے گاؤں والوں کے رہن سہن، رسم و رواج، اور ساتھ ساتھ میں تعلیمی شعور کی کمی کو بھی بیان کیا ہے جو افسانے میں ہر وقت گاؤں میں لڑائی جھگڑے کے طور پر ظاہر کیا ہے۔ جہاں پر لوگوں کے ساتھ شعور اور تعلیم کی کمی ہوتی ہے وہاں تو نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ لوگ ایک دوسرے کو زندگی جینے نہیں دیتے ہر وقت جھگڑے فساد کے لیے تیار رہتے ہیں۔
اس طرح "گرد” افسانے میں علی اکبر ناطق نے مزدوروں اور متوسط طبقے کی حالات کی عکاسی کی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ علاقے کی بدمعاشوں کو موضوع کا حصہ بنایا ہے۔ مصنف نے مزدوروں کی بے بسی کو بیان کیا ہے۔ اور لکھا ہے کہ پیسے والا طبقہ ہمیشہ سے ہی مزدور کا استحصال کرتا آیا ہے اور اس کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ہم خود بھی اپنے ساتھیوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ اسے مرتا ہوا دیکھتے رہتے ہیں۔ جب ڈیوڈ اور دونوں وحی انہیں مار رہے تھے سارے مزدور آرام سے تماشہ دیکھ رہے تھے۔ یہی بے حسی ہے جو ظالم کو ظلم کرنے کے لیے سہارا دیتی ہے۔ ہمیں خود بھی اپنے ارد گرد کے ماحول میں اپنے جیسوں کی مدد کرتے رہنا چاہیے۔
"سفید موتی” شاہ محمد ٹانگہ کا آخری افسانہ ہے۔ جس میں علی اکبر نے بچپن کی زندگی کا دور بیان کیا ہے۔ کیونکہ انسان کا بچپن زندگی کا ایسا دور ہوتا ہے جب انسان سیکھنے کی ابتدائی مراحل میں ہوتا ہے۔ اس وقت انسان ہر بات ہر عمل کے متعلق زیادہ تجسس کرتا ہے۔ خاص طور پر جنات کے متعلق جاننے کا زیادہ شوق ہوتا ہے۔ انسان کہتا ہے کہ زندگی میں کامیاب ہونے کا اسان طریقہ بھی جنات کے ساتھ دوستی کرنے میں ہے۔ پھر ان سے ہر کام کروایا جائے۔ مختصراً یہ کہ غیب کے علم میں زیادہ طاقت ہے۔ ایک اہم بات یہ علم فقد جنات کے پاس نہیں ہوتا بلکہ انسان کی بھی اس تک رسائی ہے۔ اگر انسان محنت کرے اور اس کائنات کو تسخیر کرنے کی کوشش کرے تو ضرور اس علم تک پہنچ سکتا ہے۔ اسے محسوس ہونے لگتا ہے کہ بہت کچھ اس کی مرضی کے مطابق چل رہا ہے۔ اس افسانے میں بھی علی اکبر ناطق نے بڑی خوبصورت سے اس بات کو بیان کیا ہے۔
علی اکبر ناطق کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب "کچے گھروں کی کہانیاں” واقعی ایک دلچسپ اور منفرد تصنیف ہے۔ اس کتاب میں ناطق نے اپنے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے واقعات کو ایک سادہ مگر دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے۔ یہ نہ تو روایتی خاکے ہیں اور نہ ہی خودنوشت، بلکہ ان میں ایک خاص نوعیت کی دلکشی اور دلچسپی ہے جو قاری کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔”کچے گھروں کی کہانیاں "مجموعےکی سب سے بڑی خوبی اس کی سادگی اور سچائی ہے۔ ناطق نے اپنے ذاتی تجربات اور یادوں کو اس قدر دیانت داری سے بیان کیا ہے کہ قاری کو لگتا ہے کہ وہ خود ان واقعات کا حصہ رہا ہے۔ ان یادوں میں ایک عام انسان کی زندگی کے تلخ و شیریں واقعات شامل ہیں جو ہر ایک کو اپنے ارد گرد ملتے ہیں۔ اسی اپنائیت اور سچائی کی وجہ سے کتاب قاری کی مکمل توجہ حاصل کر لیتی ہے اور وہ اسے ایک نشست میں پڑھنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
"کچے گھروں کی کہانیاں "مجموعےکے پس ورق پر موجود تحریر پڑھ کر بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں کسی ایک شخص کی نہیں بلکہ ہم سب کی کہانیاں ہیں۔ یہ واقعات اور حادثات ہم سب کی زندگی کا حصہ ہیں اور یہی چیز اس کتاب کو خاص بناتی ہے۔ یہ واقعی کچے گھروں اور عام لوگوں کی کہانیاں ہیں، جو ہم سب کے تجربات کا عکس پیش کرتی ہیں۔
”کچے گھروں کی کہانیاں“ علی اکبر ناطق کی دو سو چالیس صفحات پر مشتمل مختصر کتاب ہے، جس میں تقریباً پچاس دلچسپ واقعات شامل ہیں۔ عمدہ سفید کاغذ پر بہترین طباعت سے آراستہ یہ کتاب چھ سو روپے کی قیمت میں دستیاب ہے۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کا سادہ اسلوب ہے۔ علی اکبر ناطق نے اپنی خامیوں، کمزوریوں اور غربت کا حال بلا جھجھک اور شرمندگی کے بغیر بیان کیا ہے، جس سے کتاب کی دلچسپی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
مثال کے طور پر، ایک اقتباس میں ناطق نے بچپن کے ایک واقعے کو انتہائی دلکش انداز میں بیان کیا ہے:
"ایک دن گہرے بادلوں میں بھینسوں کا چارہ کاٹنے تینوں بھائی کھیتوں کی جانب گئے۔ اچانک تیز بارش کے ساتھ اولے برسنا شروع ہوگئے۔ اولے ہماری پشتوں پر گولوں کی طرح لگتے تھے، درد سے ہماری چیخیں آسمانوں کو بلند ہوتی تھیں۔ ہمیں تب تو ہوش نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے مگر اس وقت جو واحد پکار کسی کو کی جا سکتی تھی وہ اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ ہماری گدھی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس پر پتھروں کی بارش کون کر رہا ہے۔ اس بچاری کو خبر ہی نہیں تھی یہ آج کیا ہو رہا ہے۔ بھئی کچھ نہ پوچھو، ان دنوں جنرل ضیا کے مجرموں کو بھی کوڑے لگتے تھے مگر ان کی حیثیت ان اولوں کے سامنے خان نہیں تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ضرب کولہوں پر لگتی تھی اور ہم چیختے تھے۔ سردی ایسی تھی کہ اللہ بچائے، مجھے سب سے زیادہ فکر چھوٹے کی تھی۔ اس کی تو آخر میں چیخیں بھی نکلنا بند ہو گئی تھیں اور میں ایک تو خود روتا تھا دوسرا اس کے لیے روتا تھا۔ ہمارے جسم نیلے پڑے جاتے تھے اور زبانیں بند ہوئی جاتی تھیں۔ میں سب سے پہلے اٹھا، پھر اپنے دونوں بھائیوں کو اٹھایا۔ چھوٹے بھائی کے ہاتھ پاؤں کی مالش شروع کر دی۔ اتنے میں دور سے کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں دوڑی چلی آتی ہے۔ ہمیں اس کو دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوا۔ سڑک کچی تھی، کیچڑ اور برف کے سبب اس کے پاؤں ٹھیک طرح نہیں پڑ رہے تھے۔ مگر وہ ایسے دوڑتی آتی تھی جیسے اونٹنی اپنے بچوں کے لیے بے چین ہو کر بھاگتی ہے۔ قریب آ کر اس نے ہم تینوں کو ایک دم اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھے۔ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی مگر یوں لگا جیسے کہہ رہی ہو، ماں صدقے جائے، ماں مر جائے، میرے بیٹوں کے سر پر اولے برسے ہیں۔”21؎
اس اقتباس میں گاؤں کی زندگی، مشکلات، ضیاء دور کا جبر، سخت سرد موسم، ژالہ باری میں بھائیوں کا پیار اور ماں کی لازوال محبت سب شامل ہیں۔ علی اکبر ناطق نے خودنوشت لکھنے کا عندیہ بھی دیا ہے، تاہم ”کچے گھروں کی کہانیاں“ بھی کسی خودنوشت سے کم نہیں ہے۔ اس میں ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ قصہ موجود ہے، جیسے بابا مہندہ کی کہانی جو سانپوں کے زہر کا توڑ کرنے کا ماہر تھا، یا ملک شرافت خان کے پالتو بھیڑیوں کی کہانی۔
کتاب میں باباجی کے بھوت کی کہانی بھی شامل ہے، جنہوں نے علی اکبر ناطق سے اپنی زندگی میں ہی مزار بنوایا تھا اور لوگوں کے بکرے ہڑپ کر لیتے تھے۔ ایک اور دلچسپ کہانی ناطق صاحب کے دوستوں کے ساتھ طوائفوں کے محلے میں گھیرے جانے کی ہے، جہاں وہ سائیکل پر دانستہ گزرتے اور کچھ شرارت کرتے۔ ایک بار ایک بھاری بھرکم دلال نے انہیں پکڑ لیا۔ نظام الدین اولیاء کے مزار پر گدی نشینوں کے ہر شخص سے جبراً عطیات لینے کا ذکر بھی دلچسپ ہے۔ مصنف کو غالب کی قبر اپنی لگتی ہے، نہ وہاں پیسوں کا غلہ تھا، نہ کوئی گھورنے والا اور نہ ہی جیب سے پیسے نکالنے کے لیے بے چین کرنے والا۔ عجب آزاد مرد تھا، سب سے آزاد پڑا تھا۔
علی اکبر ناطق کی یہ کتاب واقعی کچے گھروں اور عام لوگوں کی کہانیاں ہیں، جو ہم سب کی زندگی کے تجربات کا عکس پیش کرتی ہیں۔”کچے گھروں کی کہانیاں“ علی اکبر ناطق کی بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کی یادوں پر مبنی کتاب ہے، جس میں انہوں نے اپنے کمزور معاشی حالات، گاؤں کے گھرمیں بھینسوں کو چارہ مہیا کرنے، جوانی میں راج مستری کا کام کرنے اور رزق کی تلاش میں سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ جانے کے تجربات بلا کم و کاست بیان کیے ہیں۔ یہ دو سو چالیس صفحات کی مختصر کتاب ہے، جس میں تقریباً پچاس کے قریب واقعات شامل ہیں۔ عمدہ سفید کاغذ پر بہترین طباعت سے آراستہ یہ کتاب چھ سو روپے کی قیمت میں دستیاب ہے۔
ناطق صاحب نے اپنی کسی خامی، کمزوری یا غربت کا حال بلا جھجھک اور شرمندگی کے بغیر بیان کیا ہے، جو کتاب کی دلچسپی میں اضافہ کرتا ہے۔ کتاب میں شامل واقعات دلچسپ اور زندگی کے تلخ و شیریں حقائق سے بھرپور ہیں، جو قاری کو اپنے اردگرد بکھرے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔
ایک واقعہ میں ایک مراثی کا مرغا صبح سویرے بانگیں دے کر لوگوں کی نیندیں حرام کرتا تھا، جس پر مولوی صاحب نے جمعہ کے خطبہ میں اس مرغے کو اسلام دشمن قرار دے کر فتویٰ دیا کہ اسے ذبح کرکے کھانے والے کو حج کا ثواب ملے گا۔ ناطق صاحب جب روزگار کے لیے سعودی عرب گئے تو پیسے ان کے پاس نہیں تھے۔ بھوک نے ستایا تو ایک ہوٹل میں کھانا کھایا اور باقی کھانا پیک کرا کر میز پر رکھا اور باتھ روم کا بہانہ بنا کر رفوچکر ہوگئے۔ پیدل چلتے ہوئے ایک ویران علاقے میں پھنس گئے، جہاں ایک ایرانی کوسٹر نے لفٹ دی اور بتایا کہ یہ خطرناک علاقہ ہے، یہاں بھیڑیے ہیں جو تنہا آدمی کا تیا پانچا کر دیتے ہیں۔
کتاب میں علی اکبر ناطق کے دوست احباب کے دلچسپ کردار بھی شامل ہیں، جیسے اچھو، جو کہانیاں گھڑنے اور گالیاں دینے میں ماہر تھا۔ ناطق اور ان کے بھائی چارہ لینے جاتے تو اچھو کو ضرور ساتھ لے جاتے، جو راستے میں دلچسپ کہانیاں سناتا:
"اچھو کبھی جنگل میں اپنے ساتھ شیر کے مقابلے کا قصہ سناتا، کبھی کسی ڈاکو کا افسانہ سناتا اور کبھی اژدھے کے ساتھ ہونے والے معرکے کی داستان بیان کرتا۔ نقشہ ایسا کھینچتا کہ ہم وہ تمام معرکہ گویا اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ ایک دن اس نے پدم ناگ کی کہانی شروع کی، جس میں ایک صحراء میں اچھو کا لگاتار تین دن ناگ سے مقابلہ چلتا تھا۔ ناگ دس گز لمبا تھا اور چھجلی اس کی ایک پنکھے کے برابر تھی۔ اس لڑائی میں ایسی ریت اور گرد اڑ رہی تھی کہ صحراء میں کچھ نظر نہ آتا تھا۔ سانپ کو مار تو میں پہلے دن ہی دیتا مگر میں نے اسے زندہ پکڑنے کی ضد باندھ لی تھی۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی لمحے ایک ڈیڑھ فٹ کا کالا سیاہ سانپ گنے کی فصل سے نکلا اور ہمارے سامنے سڑک پر آ گیا، عین اچھو کے قریب۔ اب کیا ہوا کہ سانپ کو دیکھتے ہی اچھو کے ہاتھ پاؤں پھول گئے، کہانی بھول گئی اور لب خشک ہو گئے۔ نہ آگے چلا جاتا ہے، نہ پیچھے ہٹا جاتا ہے، بولتی بند ہو گئی۔ ہم دونوں بھائی حیران کہ اچھو اس رسی جیسے سانپ کو مارنے کے بجائے ساکت کیوں ہو گیا جب محسوس ہوا کہ اچھو کی روح تو یہیں کھڑے کھڑے خشک ہو جائے گی تو میں نے اور میرے بھائی نے جلدی سے کھیت سے روڑے اٹھائے اور سانپ کی طرف پھینکے، سانپ ڈر کر بھاگا، اچھو کے پاؤں کے بیچ سے نکل گیا۔ اس پر اس نے ایسی چیخیں ماریں کہ پہلے ہمارے فرشتوں نے بھی نہیں سنی تھیں۔ ہم نے سانپ کو مار دیا۔ تب اس کی جان میں جان آئی۔ ہم دوبارہ اپنے سفر پر روانہ ہو گئے اور اچھو نے وہیں سے اپنی داستان شروع کر دی جہاں سے چھوڑی تھی۔ ہم نے اس سے نہیں پوچھا کہ جناب آپ تو پدم ناگ کا مقابلہ کر چکے ہیں، اس ڈیڑھ فٹے سانپ سے کیوں ڈر گئے؟”22؎
کتاب کی سب سے بڑی خوبی اس کی ریڈیبلٹی ہے، جس کی وجہ سے قاری ہر واقعہ پڑھنے کے بعد اگلے کی جستجو کرتا ہے اور کتاب ختم ہونے تک نہیں رکتی۔ علی اکبر ناطق کی یہ کتاب مستقبل میں ایک مستند شاعر اور ناول نگار بننے کی تشکیل کا آغاز ہے، بالکل جیسے احسان دانش کے تجربات نے انہیں شاعرِ مزدور بنایا تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے واقعات نہ صرف دلچسپ ہیں بلکہ ہر شخص کو اپنے اردگرد ہوتے نظر آتے ہیں۔علی اکبر ناطق کی کتاب "کچے گھروں کی کہانیاں” میں دیہی زندگی کے حقیقی اور دلچسپ واقعات شامل ہیں، جو نہ صرف مزاحیہ ہیں بلکہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بھی عیاں کرتے ہیں۔ ایک دلچسپ واقعہ "جب ہم نے ننگ دھڑنگ بارات نکالی” ہے، جس کا ذکر مصنف نے انتہائی خوبصورتی سے کیا ہے۔
واقعہ: "جب ہم نے ننگ دھڑنگ بارات نکالی”
علی اکبر ناطق اور ان کے چچازاد بھائی اور ہم عمر لڑکے روزانہ دریائے بیاس پر بھینسوں کو نہلانے جاتے تھے۔ اس عمل کے دوران، وہ اپنی شلواریں دریا کنارے اتار کر دریا میں غوطہ زن ہوتے۔ ایک دن، دو شیطان لڑکے ان کی شلواریں لے کر بھاگ گئے۔ پانی میں کافی دیر گزارنے کے بعد، آخر کار انہوں نے فیصلہ کیا کہ ننگے ہی گاؤں کی طرف جائیں اور اپنے کپڑے واپس لینے والوں کے گھر پہنچیں۔
"ایک دن ہم دس بارہ لونڈے حسبِ معمول شلواریں پانی سے دور پھینک کر دریا میں داخل ہوئے اور نہاتے رہے۔ کافی دیر بعد نکلنے کا سوچا مگر ہوا یہ کہ ہمارے گاؤں کے دو شیطان لڑکے ہم سب کی شلواریں لے بھاگے۔ ہم آوازیں لگاتے اور منتیں کرتے ہی رہ گئے مگر انہوں نے ایک نہ سنی۔ پانی میں دو تین گھنٹے ہو گئے۔ آخر پانی میں بیٹھے بیٹھے ہمتیں جواب دے گئیں تو سب ننگوں نے سر جوڑے، دریا بیچ پارلیمنٹ اور سینیٹ کا اجلاس ہوا۔ ارکانِ برہنہ نے قراردادیں پیش کیں، سوچ بچار کے بعد ایک قانون پاس ہوا، جس پر فوری عمل کا فیصلہ ہوا کہ اسی طرح ننگی پلٹن باہر نکلے اور پریڈ کرتی ہوئی کپڑے اٹھانے والوں کے گھر تک مارچ کرے۔ گھرمیں داخل ہوکر زنجیرِ عدل ہلائے اور دادِ عدل کے ساتھ شلواریں پائے۔”23؎
یہ ارکانِ برہنہ کا جلوس گاؤں کی طرف نکل پڑا۔ راستے میں بزرگ باریش توبہ توبہ کرتے، عورتیں آنکھیں ڈھانکتی اور لوگ حیرت سے انہیں دیکھتے۔
"لیجئے جناب! دس بارہ ننگے لونڈوں کا جلوس ہر طرح کی خارجی آلودگی اور پردے سے مبرا، الف ہوکر پانی سے نکلا اور قطار اندر قطار چلا گاؤں کی طرف۔ بزرگ باریش توبہ توبہ کرتے، کوئی ناری آنکھوں کو ڈھانک رہی تھی تو کوئی دیدہء عبرت سے تاک رہی تھی۔ ہمارا بازی گر دوست اچھو دوڑ کر اپنے گھر سے ڈھول لے آیا۔ لیجئے! اب تو ننگوں کی بارات بن گئی۔ ڈھول بجتا جاتا اور ہم چلتے جاتے۔ آخر ان کے گھر کے سامنے پہنچ گئے اور دروازے پر دستک دی۔ شور شرابا سن کر گھر والوں نے دروازہ کھول دیا اور ہم اندر گھس گئے۔ عجب تماشہ ہو گیا، بچاری عورتیں گالیاں دیتی ہوئی شرم کے مارے کمروں میں داخل ہو کر کنڈی لگا لی۔ لوگوں نے ہمیں پکڑا اور زبردستی ہماری شلواریں چڑھا کر باہر نکالا۔”24؎
دیگر دلچسپ واقعات
کتاب میں دیگر بھی دلچسپ واقعات شامل ہیں جیسے:
"میرا کورٹ مارشل ہوتے ہوتے بچا”
"ہم پھنسے گلیڈی ایٹروں کے چنگل میں”
"جب میاں صاحب نے گورکن پر سانپ سے حملہ کیا”
"جاٹوں کا مفت گراوردلِ بے رحم”
"جب لوگ ہماری لاش ڈھونڈنے نکلے”
"بینڈ پروفیسر اور باراتی گدھا”
"عربی گدھے، کھجوریں اور میں”
"اگر ہم پکڑے جاتے تو شاعر کے بجائے چور ہوتے”
نصیحت آموز کہانی: "جن لڑکا”
"آٹھ نو سال کی عمر تھی ان وقتوں میں غریب لوگ چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں استعمال کرتے تھے۔ لکڑیاں مول لینے کی طاقت عام گھر میں نہیں ہوتی تھی اس لیے لڑکوں کے ذمہ یہ کام ہوتا کہ لکڑیاں چن کر لاؤ ورنہ شام کو روٹی نہ ملے گی۔ ایک دن میں اور ہمسایوں کا لڑکا لکڑیاں چننے کھیتوں میں گئے۔ کچھ دیر میں کافی لکڑیاں جمع ہو گئیں۔ مجھے پیاس لگی میں نالے پر پانی پینے چلا گیا۔ واپس آیا تو میری اور اس لڑکے کی لکڑیوں کے ڈھیر غائب تھے اور وہ وہاں بیٹھا رو رہا تھا۔ میں نے پوچھا لکڑیاں کہاں ہیں؟ تو بولا ایک جن آیا تھا لے گیا۔ ہم دونوں روتے ہوئے واپس گھر آ گئے۔ ماں نے پوچھا لکڑیاں کہاں ہیں؟ تو اسے جن والا قصہ سنا دیا۔ میری امی نے کہا چل میرے ساتھ اور مجھے اس لڑکے کے گھر لے گئی۔ دیکھا تو ان کے چولہے کے پاس تمام لکڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ لکڑیاں جن یہاں کیسے پھینک گیا۔ میری والدہ نے کہا ان میں سے اپنی لکڑیاں اٹھا۔ میری امی نے بتایا، وہ جن تیرا یہی دوست ہے اور آئندہ تو نے اس سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا۔ میں نے آج تک اس جن سے سلام دعا نہیں رکھی۔ بلکہ اصول بنا لیا کہ ہر اس جن سے دور رہوں گا اور اسے اپنا دوست نہیں بناؤں گا جس کے بارے میں ذرا بھی شبہ ہوا کہ یہ دراصل جن ہے۔”25؎
مجموعی طور پر کہاں جائے تو ” کچے گھروں کی کہانیاں ” میں علی اکبر ناطق نے گاؤں کی زندگی اور اس کے مسائل کا احاطہ بخوبی کیا گیا ہے۔ یہ مسائل عام لوگوں کے تجربات اور مشکلات کو اجاگر کرتے ہیں جو دیہی زندگی کا حصہ ہیں۔ یہاں کچھ اہم مسائل کا ذکر کیا گیا ہے:
ایضاً،ص۔137
تعلیمی مسائل
گاؤں میں تعلیمی سہولیات کی کمی ہے، اور انگلش جیسے مضامین طلباء کو مشکل پیش کرتے ہیں، جس کی وجہ سے فیل ہونے کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
"انگلش ہر ایک کو لے ڈوبتی تھی، خاص کر گاؤں والوں کو تو انگلش آتی ہی نہیں تھی۔”26؎
غربت اور معاشی مشکلات
گاؤں کے لوگ معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ لوگوں کے پاس کپڑے خریدنے اور لکڑیاں خریدنے کی استطاعت نہیں ہوتی، اس لیے بچے لکڑیاں چن کر لاتے ہیں۔
"غریب لوگ چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں استعمال کرتے تھے۔ لکڑیاں مول لینے کی طاقت عام گھر میں نہیں ہوتی تھی۔”27؎
طبی سہولیات کی کمی
دیہی علاقوں میں طبی سہولیات کا فقدان ہے۔ بارش اور ژالہ باری جیسے موسمی حالات میں لوگ شدید متاثر ہوتے ہیں اور فوری طبی امداد نہیں مل پاتی۔
"سردی ایسی تھی کہ اللہ بچائے، مجھے سب سے زیادہ فکر چھوٹے کی تھی۔ اس کی تو آخر میں چیخیں بھی نکلنا بند ہو گئی تھیں۔”28؎
سماجی مسائل اور دقیانوسی تصورات
گاؤں کے لوگوں میں کچھ دقیانوسی تصورات اور توہمات پائے جاتے ہیں، جیسے کہ مرغے کو اسلام دشمن قرار دینا۔
"مرغے کی نجاست پر خطبہ دیتے ہوئے فتویٰ دیا کہ یہ مرغا اسلام دشمن ہے۔”29؎
مواصلات کی مشکلات
دیہی علاقوں میں مواصلاتی نظام بھی کمزور ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ناطق صاحب کو بی اے کے نتیجے کے لیے دس کلومیٹر دور جانا پڑتا ہے۔
"مومن والا سے اوکاڑہ شہر دس کلومیٹر تھا۔ میں نے اسی حال میں سائیکل پکڑی اور شہر کی طرف چل نکلا۔”30؎
پانی اور صفائی کی مسائل
دریا میں نہانے اور بھینسوں کو نہلانے کے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کی صفائی اور دستیابی کا مسئلہ بھی اہم ہے۔
"گاؤں کے پاس سے دریائے بیاس گزرتا تھا۔ جس میں خود اور اپنی بھینسوں کو نہلانا روزمرہ کی مصروفیات میں شامل تھا۔”31؎
موسمی مشکلات
گاؤں میں موسمی حالات جیسے بارش اور ژالہ باری لوگوں کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
"اچانک تیز بارش کے ساتھ اولے برسنا شروع ہوگئے۔ اولے ہماری پشتوں پر گولوں کی طرح لگتے تھے درد سے ہماری چیخیں آسمانوں کو بلند ہوتی تھیں۔”32؎
سماجی رویے اور رکاوٹیں
گاؤں کے لوگ مخصوص سماجی رویے اور رکاوٹوں کا شکار ہوتے ہیں، جیسے کہ بچوں کا لکڑیاں چرانا اور پھر جھوٹ بول کر جِن کا بہانہ بنانا۔
"واپس آیا تو میری اور اس لڑکے کی لکڑیوں کے ڈھیر غائب تھے اور وہ وہاں بیٹھا رو رہا تھا۔ میں نے پوچھا لکڑیاں کہاں ہیں؟ تو بولا ایک جِن آیا تھا لے گیا۔”33؎
ثقافتی اور تفریحی مسائل
گاؤں کے بچوں کے پاس تفریح کے مواقع کم ہوتے ہیں اور وہ اپنی تفریح خود پیدا کرتے ہیں، جیسے کہ ننگ دھڑنگ بارات نکالنا۔
"ایک دن ہم دس بارہ لونڈے حسبِ معمول شلواریں پانی سے دور پھینک کر دریا میں داخل ہوئے اور نہاتے رہے۔ کافی دیر بعد نکلنے کا سوچا مگر ہوا یہ کہ ہمارے گاؤں کے دو شیطان لڑکے ہم سب کی شلواریں لے بھاگے۔”34؎
معاشرتی انصاف کا فقدان
گاؤں کے لوگوں میں معاشرتی انصاف کا فقدان بھی ہے، جہاں لوگوں کو اپنی حق تلفی کے خلاف خود ہی آواز اٹھانی پڑتی ہے۔
"گھر میں داخل ہو کر زنجیرِ عدل ہلائے اور دادِ عدل کے ساتھ شلواریں پائے۔”35؎
علی اکبر ناطق کی تحریریں ان تمام مسائل کو نہایت سادگی اور دیانت داری سے پیش کرتی ہیں، جو کہ دیہی زندگی کے حقیقی چہرے کو بے نقاب کرتی ہیں۔ ان مسائل کے باوجود، گاؤں کے لوگ اپنی زندگی میں خوشیاں اور تفریح کے لمحات بھی پیدا کرتے ہیں، جو کہ ان کی محنت اور عزم کا ثبوت ہے۔
خلاصہ:
"کچے گھروں کی کہانیاں” علی اکبر ناطق کے بچپن، لڑکپن اور نوجوانی کے یادگار واقعات پر مشتمل ہے، جو قاری کو دیہی زندگی کی خوبصورتی، مشکلات اور مزاحیہ پہلوؤں سے روشناس کراتی ہے۔ ہر واقعہ مصنف کی زندگی کا حصہ ہوتے ہوئے قاری کو اپنے اردگرد بکھرے ہوئے واقعات کی یاد دلاتا ہے۔ سادہ زبان، حقیقی جزئیات اور منفرد تشبیہات کے ذریعے ناطق صاحب نے ان واقعات کو زندہ کر دیا ہے۔
حوالہ جات:
علی اکبر ناطق ، قائم دین ، مجموعہ ،ص۔6
ایضاً،ص۔6
ایضاً،ص۔7
ایضاً،ص۔10
ایضاً،ص۔11
ایضاً،ص۔18
ایضاً،ص۔20
ایضاً،ص۔21
ایضاً،ص۔21
علی اکبر ناطق ، افسانوی مجموعہ ، شاہ محمد کا ٹانگہ،اشاعت اول 2017،ص۔13
ایضاً،ص۔23
ایضاً،ص۔34
ایضاً،ص۔54
ایضاً،ص۔58
ایضاً،ص۔84
ایضاً،ص۔89
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/
علی اکبر ناطق ، کچے گھروں کی کہانیاں ، ص۔30
ایضاً،ص۔37
ایضاً،ص۔50
ایضاً،ص۔77
ایضاً،ص۔133
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
https://www.aawaza.com/naim-ur-rehman/15138/2021/
علی اکبر ناطق ، کچے گھروں کی کہانیاں ،ص۔132
سمیع اللہ ایم فل اردو خیبر پختونخوا دیر آپر, اپنی بیٹی کے صفواہ کے نام
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں