مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر رازانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

رومی اور اقبال کا تصور عشق و عقل

جلد 37، شماره 1 • جنوری تا جون 2021
ISSN: 1726-9067, E-ISSN: 1816-3424 (جرنل آف ریسرچ (اردو

افشین شوکت
پی ایچ ڈی اسکالر ، شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی ، فیصل آباد
ڈاکٹر صدف نقوی
صدر شعبہ اردو، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی، فیصل آباد

رومی اور اقبال کا تصور عشق و عقل (تلمیحات کے تناظر میں)

Abstract:

Rumi and Iqbal have much similarity of thought. Both are great poets and their favourite field is passion and poetry through which both have enlightened the topics with their brightening. The poetry of both of them contains deep amplitude. In his famous poem about "Qurtaba”, Iqbal has followed Rumi completely while explaining passion. No scholar or poet has been impressed by Rumi, as much as Iqbal has been impressed.

In his book Bal-e-Jibreel, Iqbal has mentioned Rumi as a spiral teacher and himself Hindi descriple. Iqbal considers thoughts of Rumi as constructive material for the strength and existence of nations.

A strong spiritual connection is found in both of them so much so that in "Israr-e-khudi” and "Armagan-e-Hijaz” Iqbal considers Rumi as spiritual guide. Imagination about passion and Intellect is absolutely common and Iqbal considers Intellect as defective and undependable. Keywords:
Rumi, Iqbal, Love, Intellect, Common, Spiritual, Teacher

رومی اور اقبال کے کلام میں فکری مماثلت موجود ہے۔ اقبال ہمیشہ مولانا روم کو اپنی شاعری میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:

علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں مولانا جلال الدین رومی کو مختلف ناموں جیسے پیر روم ، پیر حق سرشت، پیر مے فروش ، پیر عجم ، مولانا جلال اور مرشد روم سے یاد کیا ہے۔ جس سے ان پیرومرید کی قربت اور وابستگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے جبکہ لفظ "رومی” ان کے کلام میں ۵۴ مرتبہ آیا ہے۔ (1)

اقبال نے اپنے شعور ، بیداری ، مستی اور سوز درون کو فیض پیر روم کے مرہون منت گردانا ہے۔ انہوں نے اپنے وجود کے اکسیر اور تعمیر و تعبیر جان کے سرمائے کو مولانا کے کسب و کمال کا مرہون منت گردانتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ان کے بحروں کی موج و مستی مولانا کے صہبا ، اور ان کی زندگی مولائے روم کے سانسوں کی گرمی کے مرہون منت ہے۔ ان اشعار میں ان کا عشق رومی سے تلمیحات کی زبان میں ملاحظہ ہو:

پیر روی مرشد روشن ضمیر
کاروان عشق و مستی را امیر
منزلش برتر از ماه و آفتاب
خیمه را از کهکشان سازد طناب
نور قرآن در میان سینه اش
جام جم شرمنده از آئینه اش (۲)

بلا شک و تردید اگر مولانا جلال الدین رومی کے افکار کی آبیاری نہ ہوتی علامہ محمد اقبال اس طرح بلند اقبال نہ ہوتے۔ وہ شاعر بھی ہوتے اور مفکر بھی ، دانشور بھی اور مصلح و مبارز بھی لیکن یہ کہنے کے قابل نہ ہوتے ۔ ان اشعار میں نے نواز بذات خود تلمیحات کا پیرا یہ رکھتے ہیں۔ اقبال فرماتے ہیں:

از نی آن نی نواز پاکزاد
باز شوری در نهاد من فتاد
اور نہ یہ دعوی کرنے کے اہل ہوتے کہ:
چو رومی در حرم دادم اذان من
از و آموختم اسرار جان من
دور فتنه عصر کین او
به دور فتنه عصر روان من (۳)

یعنی اقبال خود اپنے عصر کا رومی ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور یہ کچھ غلط بھی نہیں ہے۔ ان دونوں شعرا کے مابین بڑی فکری علمی اور انسانی مماثلتیں ہیں۔ شاعری کے موضوعات اور اسالیب شعری تک ۔

رومی اور اقبال میں بہت مماثلت پائی جاتی ہے، دونوں اعلیٰ درجہ کے شاعر ہیں، دونوں اسلامی شاعر ہیں، دونوں کی شاعری حکیمانہ ہے، دونوں معقولات کے سمندر کے تیراک ہونے کے باوجود و جدا نات کو معقولات پر مرجح سمجھتے ہیں ، دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت چاہتے ہیں ، دونوں کے نزدیک حقیقی خودی اور حقیقی بے خودی میں کوئی تضاد نہیں بلکہ ایک کے بغیر دوسری مہمل اور بے نتیجہ ہے۔

دونوں کا تخیل تقدیر کے متعلق عام مسلمہ تخیل سے الگ ہے، دونوں کا خیال ہے کہ تقدیر میں جزئی طور پر اعمال افراد پہلے ہی سے خدا کی طرف متعین اور مقدر نہیں بلکہ تقدیر آئین حیات کا نام ہے، دونوں ارتقائی مفکر ہیں نہ صرف انسان بلکہ تمام موجودات ادنیٰ سے اعلیٰ منازل کی طرف عروج کر رہے ہیں۔ دونوں جدو جہد کو زندگی اور خفتگی کو موت سمجھتے ہیں۔

اس از لی اور طبعی مناسبت کی وجہ سے اقبال اپنے آپ کو عارف رومی کا مرید سمجھتا ہے، یہ مرید معمولی تقلیدی مرید نہیں کمال عقیدت کے ساتھ پیر کے رنگ میں رنگا ہوا مرید ہے ۔(۴)

رومی و اقبال نے عشق اور عقل کے تصور کو بطور تلمیح کے بھی استعمال کیا ہے۔ رومی عشق کے متعلق فرماتے ہیں:

در مذهب عاشقان قراری دگر است
وین بادۀ ناب را خماری دگر است
ہر علم کہ در مدرسہ حاصل کردیم
کاری دگر است و عشق کاری دگر است (۵ )

اقبال بھی رومی کی طرح عشق کو انسان کا مقصد حیات جانتے ہیں لیکن یہ عشق ذات الٰہی سے ہونا چاہیے۔ ان کے نزدیک جب کوئی شخص ، عشق الٰہی میں کامل ہو جاتا ہے تو وہ نیابت الٰہی کے مرتبہ پر پہنچتا ہے۔

ایسے شخص کی ایک نگاہ تقدیر کو بدل سکتی ہے۔ اس عشق کی بدولت نا کشودہ راہیں کھلنے لگتی ہیں۔ اقبال اور رومی کے نزدیک عشق ، ایمان ہی سے پیدا ہوتا ہے اور ایمان کا پہلا جزء اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار ہے۔ اس کے بعد اتباع رسول اور ان کی تقلید کرنا عشق ہے۔ جس دل میں عشق خد ا و رسول ﷺ نہ ہو اس دل میں ایمان نہیں ، اس لیے اقبال عشق اور ایمان کو مترادف سمجھتے ہیں:

زندگی را شرع و آئین است عشق
اصل تہذیب است دین، وین است عشق
دین نگردد پختہ بے آداب عشق
دین بگیر از صحبت ارباب عشق
ظاہر اور سوزناک و آتشیں
باطن اور نور رب العالمین (6)

ان کے خیال میں عشق ، دین کی روح ہے اگر یہ عشق نہ ہو تو دین اور مذہب صرف تقلید اور روایت رہ جاتی ہے جس سے انسان کو کچھ فیض نہیں پہنچتا اس لیے رومی خود ہمیشہ اپنے اندر اوصاف الٰہی پیدا کرنے میں سرگرم رہتے تھے۔

ان کے خیال میں عشق اور معرفت، لازم و ملزوم ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف ہماری رہنمائی کرتے ہیں۔ رومی حضرت موسی کوہ طور پر جانے اور اللہ تعالی سے جلوہ دکھانے کی قرآنی آیت:

وَلَمَّا جَاءَ مُوسَىٰ لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ ۚ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَٰكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي ۚ فَلَمَّا تَجَلَّىٰ رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَىٰ صَعِقًا ۚ فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ

حوالہ:

سورۃ الأعراف (سورة نمبر 7)

آیت نمبر: 143

پارہ نمبر: 9 (قد أفلح)

کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جسم خاک از عشق بر افلاک شد
کوه در رقص آمد و چالاک شد (۷)

اس کشش اور جذبہ عشق کی بدولت کائنات میں ارتقاء ہوتا ہے اور اس ارتقاء کے نتیجے میں رجعت الی اللہ ہے۔ جس شخص پر عشق الٰہی کے ذریعے سے اسرار وجود فاش ہو جائے وہ خدا کی حکمتوں سے واقف ہو جائے گا اور اللہ تعالی کا عاشق بن جائے گا۔ یہی معرفت آمیز عشق ہے جسے رومی کیمیائے سعادت جانتے ہیں اور اس کو روحانی بیماریوں کا علاج بتاتے ہیں۔ اسی نے نامہ میں رومی عشق کی عظمت پر دلیل لاتے ہوئے یونان کے دو حکیموں کا
یوں ذکر فرماتے ہیں:


پروف ریڈر: نمرہ سخی اور محمد عرفان ہاشمی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں