اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں کا کردار
اردو زبان و ادب کے ارتقاء میں صوفیاء کا حصہ
یہ اردو زبان کی خوش بختی ت
ہے کہ اسے ابتداء ہی سے صوفیائے کرام کی سرپرستی حاصل ہوگی
اردو زبان کے ارتقاء میں بہیت عرصہ تک امراء اور سلاطین نے کوئی حصہ نہ لیا یہ تو صوفیاء کرام تھے جنھوں نے اردو کو دین کی تبلغ کےلئے استعمال کیا انھوں نے تبلغ کےلئے ہندوستان کی مقامی زبان کو اظہار کا وسیلہ بنایا
بقول احتشام حسین
٫٫اردو کو بادشاہوں اور امیروں نے منہ نہ لگایا اور نہ ہی اسے تہزیبی زبان کا درجہ دیا صوفیاء اور فقروں نے اپنا روحانی پیغام پہچانے کےلئے اسکو منتخب کیا اس لیے اردو کی ابتدائی شکل صوفیاء اور فقروں کی تصانیف اور ملفوظات ہی میں ملتی ہے ،،
بقول مولوی عبدالحق
٫٫بابائے اردو اپنی تصنیف میں "اردو کے ابتدائی نشونما میں صوفیائے کرام کا حصہ”میں فرماتے ہیں اُردو زبان کی ابتداء بادشاہوں اور امراء کے درباروں میں نہیں بلکہ فقیروں کی خانقاہوں اور صوفیائے کرام کے تکیوں میں ہوئی اور وہیں سے اس کو مقبولیت وسعت اور شہرت نصیب ہوئی،،
صوفیائے کرام اور بزرگان دین ایران اور عرب سے آکر فارسی عربی زبان نہیں بولتے بلکہ اپنے مقصد کے تحت مقامی بولیوں میں گفتگو کرتے تھے ہندوستان کی مقامی زبانوں کے ساتھ عربی فارسی اور دیگر زبانیں گھل مل گی اردو کی نشونما اور فروغ کا باعث بنی گئ
چند اہم صوفیائے کرام جنھوں نے اردو کی نشونما میں اہم کردار ادا کیا ان میں
شیخ فرید الدین گنج شکر
،امیر خسرو ،بندہ نواز گیسو دراز، شاہ برہان وغیرہ کا نام مشہور ہے۔
بیشک، اردو زبان کی ترقی اور فروغ میں صوفیائے کرام کا کردار اس لیے بھی زیادہ نمایاں ہے کہ ان کا میل ملاپ سماج کے ہر طبقے سے تھا۔ انہوں نے صرف خواص یا اہلِ علم تک اپنے پیغام کو محدود نہیں رکھا، بلکہ عام لوگوں تک اپنی تعلیمات پہنچائیں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو زبان نہ صرف ادبی اور مذہبی حلقوں میں مقبول ہوئی بلکہ یہ معاشرتی، سماجی اور سرکاری معاملات کی بھی زبان بن گئی۔
صوفیائے کرام کی مجالس میں ہر طبقے اور مذہب کے لوگ آتے تھے۔ وہ بادشاہوں سے لے کر عام کسان اور مزدوروں تک سب سے یکساں محبت اور شفقت کا برتاؤ کرتے۔ اسی وجہ سے اردو زبان میں وہ دلکشی اور سادگی آئی جس نے ہر دل کو جیت لیا۔ چونکہ ان صوفیوں کا مقصد محض دین کی تبلیغ نہیں تھا بلکہ اخلاقیات اور محبت کا فروغ تھا، اس لیے انہوں نے ایسی زبان کا انتخاب کیا جو ہر انسان کی فہم میں آسکے اور جس میں تہذیب و تمدن کی بھرپور عکاسی ہو۔
اردو زبان کا یہ کمال ہے کہ یہ اپنے اندر فارسی کی شائستگی، عربی کی گیرائی اور مقامی بولیوں کی مٹھاس کو یکجا کیے ہوئے ہے۔ صوفیاء نے اس زبان کو اپنے پیغامات کے لیے اس لیے چنا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ایک ایسی زبان جو ہر فرد کے دل تک پہنچ سکتی ہے، وہی اصلاح اور محبت کا پیغام بہتر انداز میں پھیلا سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوفیاء کرام کی خانقاہوں سے نکل کر اردو بازاروں، درباروں اور عام گھروں کی زبان بن گئی۔ اس کی سرکاری حیثیت نے اس کو مزید فروغ دیا، مگر اس کا اصل جوہر اس کا عوامی زبان ہونا تھا، جس نے مختلف قوموں اور نسلوں کو ایک مشترکہ ثقافتی دھارے میں باندھ دیا۔ صوفیاء کا کردار اردو کی اس عوامی مقبولیت میں بے مثال رہا، کیونکہ ان کا فلسفہ تھا کہ دین اور زبان دونوں کو عوامی سطح پر پہنچانا ہی ان کی کامیابی ہے۔
اردو زبان کا فروغ اور اس کے ساتھ ہندوستانی معاشرت پر صوفیائے کرام کے اثرات ایک اہم موضوع ہے جس پر گفتگو کرتے ہوئے ہم ماضی کی ایک تہذیبی کایا پلٹ کا ذکر کرتے ہیں۔ محمود شیرانی کے بیان کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اردو زبان کا ارتقاء محض خانقاہوں یا درباروں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس کی جڑیں ہندوستانی معاشرت کی ہر سطح پر پھیلی ہوئی ہیں۔ صوفیائے کرام نے اردو کو ایک ایسی زبان بنایا جو ہر دل کی آواز بن سکے، ایک ایسی زبان جس نے مختلف نسلوں، تہذیبوں اور مذاہب کو یکجا کر دیا۔
ہندوستان میں صوفیاء کی آمد نے صرف مذہبی فکر ہی کو نہیں بدلا، بلکہ ایک ہمہ گیر اخلاقی، سماجی اور علمی انقلاب برپا کیا۔ وہ اپنے ساتھ ایک نئی زبان اور ایک نیا پیغام لے کر آئے جس میں محبت، امن، اور رواداری کا درس تھا۔ اردو زبان، جس کو اکثر "محبت کی زبان” کہا جاتا ہے، صوفیائے کرام کی تعلیمات کا آئینہ دار ہے۔ ان صوفیوں نے ہندی و سنسکرت جیسی مقامی زبانوں کے ساتھ عربی، فارسی اور ترکی کا امتزاج پیدا کیا، اور اسی امتزاج سے اردو وجود میں آئی۔
اردو کا یہ سفر صرف ایک لسانی تحریک نہ تھا، بلکہ یہ تہذیبی تغیر کا باعث بنا۔ صوفیاء نے اپنے عملی نمونوں سے یہ ثابت کیا کہ علم کی روشنی صرف کتب خانوں یا علمی حلقوں تک محدود نہیں، بلکہ عام عوام تک بھی پہنچنی چاہیے۔ انہوں نے اپنے مزارات، خانقاہوں اور مکتبوں کو علم کا سرچشمہ بنایا۔ انہوں نے غیر مسلموں کو اسلام کی حقیقت اور اس کے اخلاقی اصولوں سے روشناس کرایا۔ ان کی دعوت کا مرکزی نکتہ محبت، اخلاص اور انسان دوستی تھا، اور یہی عناصر اردو زبان کی بنیادی روح بن گئے۔
صوفیاء کرام نے ہندومت کی فرسودہ اور طبقاتی تفریق پر مبنی رسم و رواج کے مقابلے میں اسلام کی برابری اور انسانیت پر مبنی اخلاقیات کو فروغ دیا۔ ان کی تعلیمات کا محور انسانی قدر و منزلت تھا، اور اس مقصد کے لیے انہوں نے اردو زبان کو ایک موثر ذریعہ بنایا۔ اس زبان نے ایک ایسی سماجی اور فکری دنیا کی تعمیر کی جس میں ہر فرد کو احترام اور عزت کا مقام ملا۔
ان صوفیوں نے نہ صرف مذہب کو پھیلایا بلکہ ہندوستانی عوام کے دلوں میں محبت اور پیار کی ایک نئی دنیا بسائی۔ وہ اپنے کردار و عمل سے لوگوں کے دل جیتتے اور اپنے ارد گرد ایک ایسا معاشرہ قائم کرتے جہاں مذہب، نسل اور زبان کے اختلافات ختم ہو جاتے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو آج بھی مختلف تہذیبوں اور نسلوں کو جوڑنے والی زبان ہے، جو صدیوں کے فاصلے پر بھی اپنے اندر وہی محبت اور اخلاص کا پیغام لیے ہوئے ہے۔
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اردو زبان کی بقا اور ترقی کے پیچھے صرف ادبی یا لسانی محرکات نہیں، بلکہ صوفیاء کی اخلاقی اور سماجی فکر کی بھی بڑی قوت شامل ہے۔ انہوں نے اردو کو علم، محبت اور اخلاقیات کی زبان بنا کر ایک ایسا ورثہ دیا جو آج بھی اپنی تمام تر تازگی کے ساتھ زندہ ہے۔
اردو زبان زیادہ تر خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے، لیکن میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہندوستان کی جدید تہذیب جس کو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد کی تہذیب کہنا چاہئے اس کو ایک نئی زبان کے ذریعے گھر گھرپہنچانے میں اس ہندوستان کےصوفیاء کرام کی بڑی خدمات رہی ہیں، جس نے اسلام کو سر زمین ہند پر استحکام تو بخشا ہی ساتھ ہی اخلاقیات کی نئی دنیا یہاں وضع کی۔ قدیم رسومات سے ہندوستان کو چھٹکارا دلاتے ہوئے نئی فکر سے یہاں کے باشندگان کارشتہ جوڑا اور فرسودہ روایات کا خاتمہ کرتےہوئے پیار اور محبت سے ہندی عوام کو علم کی نئی روشنی سے متعارف کروایا۔
محمود شیرانی۔
درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ یہ لوگ حب دنیا، حب جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصد حیات تھا۔ چنانچہ درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشو نما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔
انور سدید۔
Abstract (English)
The topic
"اردو زبان کی ترقی میں صوفیوں، مسلم علماء اور حکمرانوں کا کردار”
(The Role of Sufis, Muslim Scholars, and Rulers in the Development of the Urdu Language) was discussed in the WhatsApp group. محترم مشال خان and محترم سید اعجاز حسین shared their insights on the contributions made by Sufi saints, scholars, and rulers in advancing the Urdu language. This post compiles their views on the historical significance and efforts of these figures in the development of Urdu.
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں