مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

ریاض احمد حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ ایک منفرد نفسیاتی نقاد

ریاض احمد حلقہ ارباب ذوق سے وابستہ ایک منفرد نفسیاتی نقاد

ریاض احمد ایک نفسیاتی نقاد کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ حلقہ ارباب ذوق میں ان کی شمولیت ۱۹۵۳ء کے اجلاسوں میں نظر آتی ہے۔ حلقہ ارباب ذوق کے ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۳ء کے ایک جلسے کی کارروائی جو کہ دیال سنگھ کالج ہوٹل (لاہور) میں ہوا، حاضرین کی فہرست میں ریاض احمد کا نام درج ہے۔

حاضرین : ریاض احمد، قیوم نظر، امجد الطاف ، سجاد رضوی ، شہرت بخاری، صدر : قیوم نظر (۵۹) اس کے بعد باقاعدگی سے ریاض احمد کا نام حاضرین کی فہرست میں نظر آتا ہے اسی طرح ایک جلسہ جو کہ ۲۰ نومبر ۱۹۵۳ء کو ہوا اس میں ریاض احمد بطور صدر شریک تھے۔

حاضرین : ریاض احمد ، سجاد رضوی ، امجد الطاف ، اور شہرت بخاری ، صدر : ریاض احمد، (۲۰) سجاد باقر رضوی لکھتے ہیں ” میرا جی کے بعد نفسیاتی دبستان کے اہم نقاد ریاض احمد ہیں، (۲۱) یہاں ان کی جلسوں میں شمولیت گنوانا مقصود نہیں بلکہ حلقہ ارباب ذوق کے پلیٹ فارم سے ان کی تنقید کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

ریاض احمد سے پہلے بھی اردو ادب میں اور خاص طور پر حلقہ ارباب ذوق میں نفسیاتی نقاد سامنے آچکے تھے۔

میرا جی کے بعد نفسیاتی تنقید کا ارتقاء

حلقے کے حوالے سے دیکھا جائے تو ” میرا جی کو اس لحاظ سے اولیت حاصل ہے کہ انھوں نے نفسیاتی تنقید کو اردو میں با قاعدہ ایک دبستان کی حیثیت دی۔ ریاض احمد کا بطور نقاد اپنا ایک الگ اسلوب ہے، حلقہ ارباب ذوق میں ان کے اثر اور تنقید کے بارے میں ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں:

’’ریاض احمد کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ انھوں نے ادبی تنقید کو سائنسی عمل بنا دیا چنانچہ انھوں نے متخیلہ، ہیئت، اسلوب، جمال اور ذوق جمال جیسے مسائل کو عالمانہ انداز میں سلجھانے کی کوشش کی اور ترقی پسند نقطہ نظر کو ہدف بنائے۔

احساس لذت کی بجائے ، ان اشعار سے جو تلخی ٹپکتی ہے وہ میرا جی کے اعصاب زدہ ذہنیت کی آئینہ دار ہے اس کی ابتدائی نظموں میں بھی جنسی محرومی کا تاثر موجود ہے لیکن بعد کی نظموں میں یہ جنسی محرومی فرار کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور یہیں پہنچ کر اس نے جنسی اظہار کے غیر فطری میلانات کے متعلق نظمیں لکھی ہیں ۔‘‘ (۲۳)

ریاض احمد شاعری میں ان رویوں کا کھوج لگانے کو تنقید کا منصب سمجھتے ہیں جن کے تحت جنسی رویے سامنے آسکیں ۔ وہ اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ شاعری میں جنسی رویوں کا عمل دخل کیوں کر ہوتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ رومانوی خیالات کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جنسی خواہشات کو دبایا جاتا ہے۔

اس سلسلے میں وہ ریختی اور غزل کی مثالیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ریختی میں متکلم عورت ہوتی ہے اس لیے شعراء اپنے جنسی جذبات کی تسکین کرتے ہیں ۔ ریاض احمد کے بارے ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:

’’ریاض احمد ان ناقدین میں سے ہیں جنھوں نے بطور خاص نفسیاتی تنقید کی طرف توجہ ہی نہیں دی بلکہ نفسیات کی روشنی میں مختلف اصناف ادب کا مطالعہ بھی کیا ۔ تنقیدی مسائل میں ادب اور نقد سے وابستہ اہم اصولی بحثیں ہیں جبکہ قیوم نظر ایک تحقیقی مطالعہ میں قیوم نظر کی شخصیت اور فن کا جائزہ لیا گیا ہے۔‘‘ (۲۴)

نفسیات کا تنقید میں اطلاق: لفظ اور خیال کا رشتہ

نفسیات کا تنقید میں استعمال عام طور پر کسی فن پارے کو سمجھنے کے لیے اس کے تخلیق کار کا نفسی جائزہ اس کے شعور سے لاشعور کی طرف مختلف واقعات و نظریات کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔ اس سے ادبی مسائل اور رائج شدہ مختلف نظریات کی تفہیم و تشریح ممکن ہوتی ہے۔ ساتھ ساتھ مختلف فن پاروں کا جائزہ بھی نفسیاتی نقطہ نظر سے کیا جاتا ہے۔

ریاض احمد اس سلسلے میں ”لفظ اور خیال کا رشتہ“ پر بحث ایک نفسیاتی نقاد کی حیثیت سے کرتے ہیں ۔ جس میں لفظ کا لاشعور سے کیا رشتہ ہے یا لاشعور سے خیال پیش کرنے کے لیے لفظ کیسے وجود میں آتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’لفظ بھی لاشعور سے مسلسل شعور پر اثر انداز ہوتا ہے اس سلسلے میں اہم بات یہ نہیں کہ لفظ لاشعوری تلازمے کی صلاحیت رکھتا ہے بلکہ یہ کہ اس قسم کے تلازمات مفہوم خیال یا جذبے کے ذریعے بیدار نہیں ہوتے بلکہ لفظ ایک شعوری حقیقت کے طور پر اپنے ہی مماثل کیفیت پیدا کرتا ہے۔ لاشعور میں محفوظ الفاظ کے ذخیرے ایک طرف تو دبی ہوئی نفسی کیفیتوں کو سمیٹ رکھتے ہیں ، دوسری طرف وہ ایک چشمے کی طرح ابل کراوپر کی سطحوں میں تموج پیدا کرتے ہیں ۔ تخلیقی فنکار جب ایک لفظ کو صحیح تخلیقی معنوں میں استعمال کرتا ہے تو کوئی نہیں جانتا بلکہ وہ خود نہیں جانتا کہ اسے کون سی طاقت ایسا کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔‘‘ (۶۵)

ریاض احمد کا خیال ہے کہ ترقی پسند تنقید میں اشتراکی تنقید نظریات کی تشریح اور اس کا تاریخی لحاظ سے جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی پسند اصول اور معیار کو سمجھانے کے لیے بھی تنقید سے کام لیا جاتا ہے اور آخری بات یہ ہے کہ اردوفن پاروں پر تنقید ترقی پسندی کے تناظر میں کی جاتی ہے۔

ترقی پسند تنقید کی کامیابی کے بارے ریاض احمد کا نقطہ نظر یہ ہے کہ عملی تنقید میں کامیابی کم ہی نصیب ہوتی ہے وجہ یہ کہ ترقی پسند نقادوں نے بھی حالی اور غالب کے بارے وہی نکتہ نظر بیان کیا ہے جو کہ پہلے سے موجود اور رائج پذیر ہے۔

فرائیڈ، ایڈلر اور یونگ کے نظریات کا اردو تنقید میں استعمال

ریاض احمد نے اپنی کتاب ”ریاضتیں“ میں اردو تنقید کا نفسیاتی دبستان پر اظہار خیال کیا ہے۔ جس میں وہ کہتے ہیں کہ اردو کے نفسیاتی دبستان نے فرائیڈ کے نظریات کے ساتھ ساتھ ایڈلر اور یونگ کے نظریات سے بھی استفادہ کیا ہے۔

فرائیڈ نے انسانی ذہن کو تین خانوں میں تقسیم کیا جس میں ایک شعور اور دوسرا لاشعور ہے جبکہ ان دونوں کے درمیانی تحت الشعور ہے۔ ریاض احمد لکھتے ہیں:

’’یونگ کے نظریات بنیادی طور پر کچھ زیادہ مختلف نہیں، لیکن جس طرح ایڈلر نے اپنی بنیادی تصورات کی اساس پر اپنا علیحدہ نظریہ قائم کیا اس طرح یونگ نے بھی اپنا ایک علیحدہ نظام ترتیب دیا۔

یونگ نسبتا زیادہ وسیع النظر، زیادہ گہرے اور زیادہ فلسفیانہ نکتہ نظر کو پیش کرتا ہے ۔ موجودہ طبعی علوم کے ساتھ اس کے ہاں زیادہ گہری مناسبت پائی جاتی ہے۔‘‘ (۲۶)

ریاض احمد اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ اردو میں نفسیاتی تنقید کو ایک دبستان کی شکل دینے والے میرا جی ہی ہیں۔ ان سے پہلے نفسیاتی تنقید باقاعدہ طور پر نظر نہیں آتی ۔ نفسیاتی نقادوں کے بارے ریاض احمد کا خیال ہے کہ نفسیاتی علم سے نا واقفیت کی بنا پر سطحی نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔

ریاض احمد کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ”دریاب“ کے آغاز میں ڈاکٹر سجاد باقر رضوی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ریاض احمد اردو تنقید کا معتبر نام ہے۔

سجاد باقر رضوی کے خیال میں ریاض احمد کے ہاں معروضی نقطہ نظر، جانچ، پرکھ میں اعتدال اور متوازن آراء پائی جاتی ہیں۔ وہ شعر میں اعلیٰ قدروں کے متلاشی رہتے ہیں۔ اس کتاب میں علم معانی و بیان پر ریاض احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے او رکہا ہے کہ وقت کے تقاضوں کے مطابق ان اصطلاحات کو نئے سانچے میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

’’اس امر کی ضرورت ہے کہ ان تمام مباحث کو از سر نو نئی اصطلاحات اور نئے اسالیب کے سانچے میں ڈھال دیں جو جدید علمی تخلیقات اور تقاضوں کا ساتھ دے سکیں ۔‘‘ (۷۷)

تلمیحات کا نفسیاتی مطالعہ: شیریں فرہاد، یوسف زلیخا اور سکندر و خضر

تلمیحات کے بارے بھی ریاض احمد اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تلمیحات بھی نفسیاتی مطالعے کا موضوع بن سکتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اردو شاعری میں رائج تلمیحات عجمی روایات کی مقلد ہیں ۔

’’ اردو شاعری میں مروجہ تلمیحات بیشتر عجمی روایات کی مقلد ہیں ۔ ان میں سے بعض تحلیل نفسی کے لیے دلچسپ موضوع بن سکتی ہیں ۔ شیریں فرہاد کا قصہ اس ضمن میں پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘

اردو شاعری میں موجود ان بنیادی تصورات کی تشریح ریاض احمد کے ہاں ملتی ہے جو کہ نفسیاتی کے ساتھ ساتھ اولیت کا درج بھی رکھتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ڈاکٹر سلیم اختر کے بقول :

’’یورپ میں تحلیل نفسی کے ابتدائی دور میں ناقدین نے اپنے نفسیاتی جوش میں ہر شے کو جنسی معانی پہنا دیئے اور زندگی ادب اور فن و مذہب کے جملہ مظاہر کا تحلیل نفسی کی روشنی میں از سر نو مطالعہ کرتے ہوئے ان کی اساس جنس اور ایڈی پس الجھاؤ پر استوار کی ،‘‘ (۶۸)

ریاض احمد نے اردو تلمیحات کو اردو شاعری میں مروج ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اردو شاعری عجمی روایات کی مقلد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیریں فرہاد، یوسف زلیخا، سکندر اور خضر و غیرہ کا ذکر اردو شعرا کے ہاں ملتا ہے۔

ان سب باتوں کا جائزہ ریاض احمد نے یوں لیا ہے۔ شیریں فرہاد کے بارے لکھتے ہیں:

’’تخیل کے جس انداز نے پانی کو دودھ سے بدل ڈالا ہے، وہ یقینا ایک اہم غیر شعوری رحجان کا نتیجہ ہے اگر یہ کہہ دیا جائے کہ اس طرح کا سلسلہ بچپن کے اس زمانے سے ملتا ہے جب نفس اپنے ارتقاء کی ابتدائی منزلوں میں شیر مادر کا محتاج تھا تو بعض بزرگ غالباً اسے انتشار ذہنی کی رذیل ترین صورت قرار دیں گے ۔‘‘ (۶۹)

آگے چل کر اسی سلسلے کی ایک اور مثال جو کہ اردو شاعری سے ریاض احمد نے دی ہے وہ کچھ یوں ہے :

’’سکندر اور خضر سے ایک خاص قسم کی جو رقیبانہ چشمک ہر شاعر کے ہاں ملتی ہے، تحلیل نفسی کی رُو سے یہ نتیجہ ہے اس نفسی الجھن کا جسے ایڈی پس کمپلیکس کہا جاتا ہے۔‘‘ (۷۰)

اس طرح کی تلمیحات میں تیسری اہم مثال جس کا ذکر ریاض احمد نے تنقیدی مسائل میں کیا ہے وہ قصہ یوسف زلیخا ہے، یوسف زلیخا کو بھی ریاض احمد نے اپنے مخصوص نفسیاتی تنقیدی نظریات کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں