تخلیقی ادب اور تہذیب کا تعلق

تخلیقی ادب اور تہذیب کا تعلق | The Relationship Between Creative Literature and Civilization

تحریر: ڈاکٹر غلام فرید

اس تحریر کے اہم نکات:

  1. کوئی فنکار اپنے معاشرے سے الگ رہ کر فن تخلیق نہیں کرتا۔۔۔
  2. تخلیق کار اور تہذیب کے تعلق کو سمجھنے کے لیے میرزا ادیب نے بہت خوبصورت بات کہی ہے۔۔۔
  3. تہذیب پر کوئی حملہ کوئی مشکل وقت ، کوئی آفت آن پڑے تو تخلیقی ادب میں اس کے خلاف بھر پور۔۔۔
  4. ادب برائے زندگی کا نعرہ بھی در اصل تہذیب کو محفوط بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔۔۔
  5. اس کلچر کے خلاف تخلیقی سطح پر اردو ادب میں پہلی آواز منشی پریم چند نے بلند کی ۔۔۔

تخلیقی ادب اور تہذیب کا تعلق

کوئی فنکار اپنے معاشرے سے الگ رہ کر فن تخلیق نہیں کرتا اس کے ادب پر نہ صرف اپنے زمانے کے ماحول کا اثر ہوتا ہے بلکہ رسوم و رواج ، روایات ، بو دو باش اور عمومی مسائل اس کے ہاں موضوعات بنتے ہیں ۔

وہ عام لوگوں کی زندگی سے نہ صرف واقفیت رکھتا ہے بلکہ ان میں گہری دلچسپی بھی لیتا ہے۔ تہذیب کو تشکیل دینے میں جہاں ادب اور ادیب کا کردار اہم ہوتا ہے وہیں تہذیب بھی بڑے بڑے سپوتوں کو جنم بھی دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تہذیب کے اجزائے ترکیبی

فنکار اس تہذیب کا نمائندہ ہونے کی بدولت ہی بڑے مرتبے پر فائز ہوتا ہے۔ تخلیق کار اور تہذیب کے تعلق کو سمجھنے کے لیے میرزا ادیب نے بہت خوبصورت بات کہی ہے تہذیب نگار ان گلیوں ، کوچوں ، بازاروں میں جاتا ہے جہاں اس کی ملاقات عوام سے ہوتی ہے اور وہ ان لوگوں کے دلوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔ ان کی موسیقی کیا ہے ، ان کے ذرائع تفریح کیا ہیں۔۔۔۔۔۔

جو شخص ان سے سروکار کھنا چاہتا ہے اس کے لیے لازم ہے کہ اس کا اپنا دل بہت وسیع ہو اور پھر وہ جس شہر کے گلی کوچے میں سفر کرنا چاہتا ہے ان سے اور ان گلی کوچے میں رہنے والوں سے اسے گہری دلچسپی ہو ورنہ اس کا موضوع تاریخ تو ہو سکتا ہے تہذیب نہیں۔(۳۷)

یہ بھی پڑھیں: تہذیب کے عناصرِ تشکیلی

یہ بات تاریخی شواہد سے مسلم ہے کہ عظیم تہذیبوں ہی میں اعلیٰ ذہن پرورش پاتے ہیں اور تہذیب کا دائرہ تخلیق کا میدان بنتا ہے۔ لکھنے والا پہلے مہذب شہری ہوتا ہے اور پھر تخلیق کار کے درجے پر متمکن ہوتا ہے۔

یونان سے ہندوستان کی تہذیب تک ہمیں یہ تعلق کار فرما نظر آتا ہے۔ تہذیبی روایات کے خلاف جب کوئی عمل ہوتا ہے تو تخلیقی ادب میں اس کا ردِ عمل نظر آتا ہے۔

تہذیب پر کوئی حملہ کوئی مشکل وقت ، کوئی آفت آن پڑے تو تخلیقی ادب میں اس کے خلاف بھر پور مزاحمت ہوتی ہے۔

برِ صغیر میں جب انگریزوں نے حکومت سنبھالی تو انہوں نے Divide and Rule والے فارمولے کے تحت اپنے لیے کام کرنے والوں کو جاگیریں عنایت کیں اور بڑے بڑے اعزازات سے نوازا۔ اس شعوری عمل میں جاگیردارانہ عمل کو پروان چڑھایا ۔

اس کلچر کے خلاف تخلیقی سطح پر اردو ادب میں پہلی آواز منشی پریم چند نے بلند کی ۔ ان کے ناولوں اور افسانوں میں کسانوں اور مزدوروں کی بات کی گئی۔

سماجی انصاف کے لیے جو کہ مشرقی تہذیب کا وصف تھا آواز بلند کی یہ در اصل تخلیق کا تہذیب سے اٹوٹ تعلق تھا جس نے آگے چل کر اردو ادب میں ایک تحریک کی بنیاد رکھی۔

انگریزوں نے مشرقی تہذیب پر اپنی حکومت مستحکم کرنے کے لیے بیک وقت کئی محاذوں پر حملے کیے جن میں زبان، مذہب، قومیت، سیاست، تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔ مگر ان کا مہلک وار حرفتی وار تھا۔

یہ بھی پڑھیں : تہذیب کیا ہے؟ از ڈاکٹر غلام فرید

جسکی ضرب ہندوستانی تہذیب سہہ نہ سکی۔ یہاں کی تہذیب کے ستون یہاں کے دیہات اور سادہ طرزِ زندگی تھے۔

انگریزوں نے حرفتی تہذیب کے ذریعے اس کو تہہ و بالا کیا۔ اختر حسین رائے پوری نہ صرف پریم چند کا ہم عصر ہے بلکہ دونوں ایک ادبی تہذیب کے بانی ہیں ۔انہوں نے بھی اس کے خلاف یوں ردِ عمل دیا۔

’’حرفتی تہذیب پرانی بنیادوں کو تہہ و بالا کر کے زندگی میں خلا پیدا کر دیتی ہے۔ خاندان کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔ دیہاتوں کی خود اطمینانی ختم ہو تی اور شہروں کی ہنگامی پروری ان پر حاوی ہو جاتی ہے۔‘‘(۳۸)

ادب برائے زندگی کا نعرہ بھی در اصل تہذیب کو محفوط بنانے کے لیے کیا گیا تھا پھر تخلیق کیونکر بے مقصد ہو جب تہذیب خطرے میں ہو۔

تخلیقی ادب اپنے گردو پیش سے مواد لیتا ہے۔ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، کیونکر ہو رہا ہے کہاں بگاڑ ہے، کیسے سدھار کی راہیں نکل سکتی ہیں۔ ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں ان کے اسباب و علل اور ان کوتاہیوں سے سبق آموزی یہ سب موضوعات بنتے ہیں۔

وطن کے پہاڑ ،دریا ، کھیت، کھلیان، جنگل بیلے، فصلیں ، گلستان، بہاریں، خزائیں، برساتیں، میلے، تہوار، دیہات، گلیاں کوچے اور ان میں بسنے والے چرند پرند اور سب سے بڑھ کر انسان یہ سب تخلیقی ادب کے اجزا ہیں جن سے مل کر فن پارہ وجود میں آتا ہے۔

تہذیب کی کوکھ سے ہی فن پارہ تخلیق ہوتا ہے۔ اور تہذیب جتنی ذرخیز ہو گی تخلیقی ادب اتنا ہی شاداب ہو گا۔

ہمارے مقالے کا موضوع چونکہ فکشن ہے لہذا ہمارے پیشِ نظر صرف کہانیاں ہیں۔ عہد نامہ عتیق سے بابل و نینوا ، ندوات سمر سے اوڈیسی تک اور ہزار افسان سے الف لیلہ و لیلہ اور کھتا سرت ساگر سے جاتک کھتاؤں اور مہا بھارت تک ہمیں ہر ترقی یافتہ تہذیب میں کہانی کا وجود ملتا ہے۔

اور یہ تعلق اتنا پختہ ہے کہ آج بھی جب تاریخی شہادتیں کم ہیں تو ایسے میں کہانی تہذیب کو جانچنے اور پرکھنے کا آلہ ہے۔

کلثوم نواز نے سید ضمیر حسین دہلوی کا ایک اقتباس (از فسانہ عجائب کا تنقیدی مطالعہ) اپنی کتاب میں دیا ہے ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

داستان ہماری تہذیبی زندگی اور اس کے بے شمار گوشوں کی مصور اور ترجمان ہے ۔ داستان کی ہر سطر میں ہماری صدیوں کی معاشرت، تہذیب اور اندازِ فکر و تخیل کا رنگ چھلکتا نظر آتاہے۔ (۳۹)

تو گویا تخلیقی ادب اور تہذیب دونوں ایک دوسرے کیلیے لازم و ملزوم ہیں ۔

تمدن کی بنت میں علم و ادب اہم عوامل ہیں ۔ جب کہ تہذیب کی فضا کے بغیر ادب تخلیق کرنا شاید ممکن نہیں ہے کیونکہ تخلیق کار فنی عمارت کی تعمیر کے لیے فن کا مسالہ اپنی معاشرت اور سماج سے لیتا ہے۔

بشکریہ: مقالہ انتطار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں