تخلیقی ادب اور تاریخ کا رشتہ

تخلیقی ادب اور تاریخ کا رشتہ | The Relationship Between Creative Literature and History

تحریر: ڈاکٹر غلام فرید

موضوعات کی فہرست

اس تحریر کے اہم مقامات:

  1. تخلیقی ادب اور تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا قاری ہو اور قاری بھی ایسا۔۔۔
  2. ہر وہ تحریر جو موئے قلم سے قرطاس پر ثبت ہو جائے وہ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے۔۔۔
  3. تاریخ اور تخلیق دونوں کا مُدعا ایک ہے دونوں کا منصب گزشتہ واقعات کو صحیح تناظر میں پیش کرنا ہے۔۔۔
  4. اس سلسلے میں فردوسی کے شاہنامے سے لیکر موجودہ دور میں انتظار حسین تک کے لکھاریوں کے مرقعے بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں۔۔۔

تخلیقی ادب اور تاریخ

تخلیقی ادب اور تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تخلیق کار کے لیے ضروری ہے کہ وہ اچھا قاری ہو اور قاری بھی ایسا جس کے مطالعے میں معاصر ادب کے ساتھ ساتھ قدیم علوم بھی رہے ہوں۔

"What makes a man into a writer ? work. What kind of work? for the most part, reading other writer, particularly readings good writer, writers who had something to say they can not be writers unless they they are readrs.”(33)

ہر وہ تحریر جو موئے قلم سے قرطاس پر ثبت ہو جائے وہ ماضی کا حصہ بن جاتی ہے اس لیے فنکار جو بھی مطالعہ کرے گا وہ ماضی کا مطالعہ ہو گا اور سب سے اہم بات یہ کہ تخلیق کار ماضی سے وابستہ ہو کر ہی وہ فن پارے تخلیق کر سکتا ہے جو اسے مستقبل کا لکھاری منوا سکتے ہیں۔ خود تخلیق کار کا موضوع بھی گزرا ہوا زمانہ ہوتا ہے

کیونکہ حال کا لمحہ گرفت میں نہیں آ سکتا کیونکہ یہ بات فکشن کے سیاق میں تو سچ ہے۔ ایلیڈ اور اوڈیسی گزرے ہوئے وہ جنگی معرکے تھے جن کو ہومر کے تخیل نے ادبی فن پاروں میں بدل دیا۔

کروکیشتر کے میدان میں مہا بھارت کی عظیم جنگ میں جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ بھی ماضی کو محفوظ کرنے کا کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ مہا رشی دیدو یاس جی کا ہے۔

اس سلسلے میں فردوسی کے شاہنامے سے لیکر موجودہ دور میں انتظار حسین تک کے لکھاریوں کے مرقعے بطور مثال پیش کیے جا سکتے ہیں

جو تخلیقی ادب کو تاریخ کیساتھ جوڑتے ہیں اس حقیقت سے شاید ہی انکار ہو کہ ایک تخلیق کار اپنے فن پارے میں ماضی کی بازیافت کے وسیلے سے اپنی ذات کو کھوجنے اور پانے کی سعی کرتا ہے۔ انتظار حسین ہی کی تحریر ہے جو کہ گوپی چند کی مرتب کردہ کتاب سے لے لیتے ہیں:

’’نظم اور افسانے میں عشق کے سوا بھی استعارے استعمال ہوتے ہیں اور بات تاریخ اور دیو مالا تک گئی ہے۔ سن ستاون ، الجزائر ، قدیم ہند، قصص روایات گویا ان نشانات سے اپنے آپ کو پانے کی، مختلف زمانوں اور زمینوں میں اپنے رشتے تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘‘ (۳۴)

تاریخ اور تخلیق دونوں کا مُدعا ایک ہے دونوں کا منصب گزشتہ واقعات کو صحیح تناظر میں پیش کرنا ہے۔ ہاں البتہ دونوں کی بناوٹ میں فرق ہے ۔تاریخ ایک عریاں حقیقت پیش کرتی ہے اور افسانہ (تخلیق) میں رنگی ہوئی حقیقت سامنے لاتا ہے۔

تخلیقی ادب میں تاریخ کو موضوع بنالینا۔ Histrography (تاریخیت) کہلاتا ہے اور اس کی روایت اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود تاریخ یا تخلیقی ادب۔ اس کا استعمال سب سے پہلے یونانیوں اور رومیوں نے کیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق ۔

Histrography and historical methodology: Disciplines dealing with the method of writing history & the techniques of historical investigation. Histrographical tradition developed in various cultures of pre modern world. Greece & Rome writing of history was considered a branch of literature.”(35)

ادب تاریخ کا قائم مقام بھی بن جاتا ہے۔ کسی بھی معاشرے کی تمدنی حالت کا اندازہ اگر تاریخ سے معلوم نہ ہو سکے تو اس زمانے کے قصے کہانیاں ،نظمیں اور مذہبی کتب آئینے کا کام دیتی ہیں:۔

’’اگرچہ ہند کے پرانے تمدن کا اندازہ کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت کم مواد ہے لیکن یہ مواد بمقابل تاریخی مواد کے بہت زیادہ ہے ۔مختلف ویدوں اور مہا بھارت و رامائن کے قصوں اور منو کی کتاب قانون کے ذریعے سے ہم بخوبی معلوم کر سکتے ہیں کہ ہندوؤں کی معاشرتی حالت اس زمانے میں کیسی تھی۔‘‘(۳۶)

بشکریہ: مقالہ انتطار حسین کے افسانوں اور ناولوں میں تاریخی و تہذیبی شعور

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں