رحمان بابا کی سوانح و شخصیت
خوشحال خان خٹک ہی کے دور میں، جو مغلوں کا دورِ انحطاط تھا، پشتو کے ایک اور بلند مرتبہ شاعر حضرت عبدالرحمان بابا بھی گزرے ہیں۔
موضوعات کی فہرست
رحمان بابا کی تاریخِ پیدائش اور تاریخِ وفات کے بارے میں مختلف آرا پائی جاتی ہیں، تاہم یہ بات سب تسلیم کرتے ہیں کہ خوشحال خان خٹک کی پیری کا زمانہ، رحمان بابا کی جوانی کا دور تھا۔
یہ بھی پڑھیں: رحمان بابا شخصیت و فن از ڈاکٹر پرویز مہجور خویشگی | pdf
خوشحال خان خٹک کا انتقال ربیع الثانی 1100ھ میں ہوا۔ اس وقت رحمان بابا لڑکپن سے نکل کر جوانی میں قدم رکھ چکے تھے۔
رحمان بابا پشاور کے قریب موضع بہادر کلی میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے حصول کے لیے کوہاٹ گئے اور ممکن ہے کہ دوسرے علاقوں میں بھی گئے ہوں، لیکن آخرکار واپس پشاور آ گئے اور اپنی زندگی کے آخری ایام پشاور کے جنوب میں واقع گاؤں ہزار خوانی میں گزارے۔
یہ بھی پڑھیں: د رحمان بابا کلیات | PDF
انتقال کے بعد وہیں، اس گاؤں اور پشاور شہر کے درمیان واقع بڑے قبرستان میں دفن ہوئے۔ ان کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔
رحمان بابا کی شاعری کے دو پہلو نمایاں ہیں: ایک اخلاقی اور دوسرا عرفانی۔ ان کے اشعار کے مطالعے سے ان کے بلند پایہ عالم اور عظیم مفکر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ ان کا فلسفہ اخلاق ہماری قومی زندگی کو مادی اور روحانی دونوں لحاظ سے توانائی اور پاکیزگی عطا کرتا ہے۔
رحمان بابا کی ساری شاعری غزل کی شکل میں ہے۔ غزل کے لیے انہوں نے جو زبان استعمال کی، وہ نہایت سادہ اور سلیس ہے، نیز اس میں وقار، سنجیدگی اور گداز بھی پایا جاتا ہے، جو غزل کے لیے ضروری عناصر ہیں۔
کہا جا سکتا ہے کہ رحمان بابا اپنی ان خصوصیات کی بنا پر پشتو ادب کے حافظ ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اپنے افکار و جذبات اور تجربات کو بڑے دلکش اسلوب میں بیان کیا ہے۔ ان کی شاعری کا بیشتر حصہ تصوفی افکار پر مشتمل ہے، لیکن انہوں نے تصوف کو رہبانیت کے خول میں نہیں لپیٹا بلکہ اسے صبر و قناعت، تزکیہ نفس اور تحفظِ خودی کا وسیلہ قرار دیا ہے۔
رحمان بابا کے دیوان کا منظوم اردو ترجمہ چند سال قبل پشتو اکیڈمی نے کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ پشتو کے معروف شاعر امیر حمزہ شنواری نے کیا ہے، جس سے اردو داں طبقے کو رحمان بابا کے افکار و خیالات کو سمجھنے میں آسانی ہو گئی ہے۔ ذیل میں رحمان بابا کے منتخب کلام کا اردو ترجمہ پیش ہے:
غزل
صدائے کیک گر ہوتی نہ غماز
اُچک سکتا اسے ہرگز نہ شہباز
ہوا ثابت کہ اس دورِ جہاں میں
ہر اک شے ہوتی ہے خود اپنی غماز
انجام دیکھو افشا کسی انسان کا راز
ورا منصور کا نہ ہو
اگر فرزند ہو خوار ہمدم!
تو گھر والد کا ہو جاتا ہے بے ساز
پھلا ہوتا، اگر محسوس کرتے
ہم اس انجام کو ہنگامِ آغاز
نہیں ہو سکتا مُنکر، کوئی "بابا”
ترے شعروں میں ہے کچھ ایسا اعجاز
پروف ریڈر: نمرہ سخی
حواشی
کتاب کا نام : پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ نمبر : 5618،موضوع : رحمان بابا،صحفہ نمبر : 98 تا 99،مرتب کردہ :عارفہ راز