پریم چند کے افسانے "راہ نجات” کا تنقیدی جائزہ

پریم چند کا افسانہ "راہ نجات” کا فکری و فنی تجزیہ:یہ افسانہ پہلے پہل اپریل 1924ء میں رسالہ مادھوری میں اور پھر 1929ء میں فردوس خیال میں اشاعت پذیر ہوا۔ اس افسانے کا تعلق پریم چند کے افسانوں کے تیسرے دور سے ہے۔ اپنی بعض خامیوں کے باوجود یہ کامیاب افسانہ خیال کیا جاتا ہے۔ اس دور میں پریم چند دیہاتی زندگی کی اصلاح کے نقطۂ نظر کے تحت افسانے تخلیق کر رہے تھے، ایک فاضل مصنف اس افسانے کے متعلق تحریر پرداز ہیں۔(اس کہانی میں پریم چند نے انسانی فطرت کی بڑی سادگی کے ساتھ عکاسی کی ہے۔ )انسان کے دامن میں کچھ نہ ہو تو وہ انسانی سطح پر ہی رہ کر ہمدردی اور مروّت کے جذبات کے زیر اثر اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا خیال کرتا ہے۔ جو خود چاہتا ہے، دوسروں کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہے ۔ مگر دولت کے آتے ہی انسان شیطانی وسوسوں اور غرور و تکبر اور بدلے کی خواہشات میں جکڑا جاتا ہے۔ وہ حاسد و حریص اور مفسدہ پرداز بن کر خود کو دوسروں سے برتر اور جداد دیکھنے کی خواہش کا رسیا ہو جاتا ہے۔ اُسے یہ قطعی نامنظور ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا اس کی برابری کرے اور یوں وہ انسانی سطح سے گر کر حیوانی سطح پر آجاتا ہے۔ وہ اپنی برتری اور بڑائی کا بھرم رکھنے کے زعم میں اسی خناس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایسی حرکات اور حماقتوں کا مصدر بن جاتا ہے، جن کے نتیجے میں وہ دوسروں کو محروم کرتے کرتے خود بھی محرومیوں کا شکار بن کے رہ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس بد خصلتی کا انجام حسرت و حرمان اور ناکامی و مایوسیکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔پریم چند اس افسانے میں یہ بتارہے ہیں کہ سادہ دل دیہاتی ، دولت اور روپے پیسے کے ہتھے چڑھے تو باہمی ہمدردی اور آدمیت وانسانیت کے بنیادی جوہر سے بھی عاری ہو گئے، مگر جب دولت کی ریل پیل نہ رہی تو ساری دشمنیاں اور عدادتیں فراموش کر کے پھر آپس میں گھل مل گئے ۔ گویا خوش حالی نے انہیں مختلف خانوں میں بانٹ کر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تھا، غربت اور محرومی نے ان کے دلوں میں محبت و مودت کی جوت جگا کر پھر یکساں سطح پر کھڑا کر دیا۔ڈاکٹر انوار احمد اس افسانے پر یوں رائے دیتے ہیں:(نچلے طبقے کی کچھ محرومیاں تو بالائی طبقے کی عطا کردہ ہیں۔ مگر ان کی مصیبتوں میں اضافہ ان کی جھوٹی انا، ناک اونچی رکھنے کی خواہش ، بدلہ لینے اور حسد کے آتشیں کھیل میں اپنا اور دوسروں کا گھر پھونکنے کی آرزو سے ہوتا ہے۔ ) جھینگر اور بدھو معصوم دیہی فضا میں ان چھوٹی چھوٹی کمینگیوں کو پالتے اور ایک دوسرے کو اُجاڑ دیتے ہیں ، مگر جب دونوں کی چھوٹی چھوٹی کائنات کو آگ لگ چکتی ہے اور وہ مزدوری کے الاؤ پر جمع ہوتے ہیں تو دونوں نے نمک مرچ کے ساتھ روٹیاں کھائیں، پھر چلم بھرگئی ۔ دونوں پتھر کے سلوں پر لیے اور چلم پینے لگے۔ بدھ نے کہا۔ تمہاری ایکھ کو میں نے آگ لگائی تھی جھینگر نے مذاق آمیز لہجے میں کہا جانتا ہوں، ذرا دیر بعد جھینگر بولا بچھیا میں نے ہی باندھی تھی اور ہریہر نے اسے کچھ کھلا دیا تھا ، بدھو نے بھی اسی لہجے میں کہا ، جانتا ہوں، پھردونوں سو گئے ۔“ڈاکٹر اور نگ زیب عالمگیر اس افسانے پر یوں اظہار خیال کرتے ہیں: دیکھنے میں آیا ہے کہ مقصدیت عام طور پر ادب کے لئے ضرر رساں ثابت ہوتی ہے اور اکثر لکھنے والوں نے مقصدیت کے ہاتھوں نقصان اُٹھایا ہے۔ عموماً مقصدیت کے تحت تخلیق کیا گیا ادب دوسرے اور تیسرے درجے کا ادب ثابت ہوا ہے۔ عام طور پر ایسے لکھنے والوں نے مقصد کی قربان گاہ پر تحریر کے حسن اور فنی تقاضوں کو بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ ایک ایسا فن کار جو مقصدیت کی ا بھاری بوجھ بھی اُٹھا لے تو اس کا سفر اور بھی کٹھن ہو جاتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پریم چند کی ابتدائی تحریریں کمزور تھیں بالاآخر وہ پختہ اور عمدہ افسانہ لکھنے پر قادر ہو گئے کہ اُنہیں مقصد کی قربان گاہ پر اپنے سے بعد بعض آنے والوں کی طرح فنی تقاضوں آور فنی حسن کی پھینٹ نہیں دمدینی پڑی۔) ‘راہ نجات’ کو بھی ہم پریم چند کے ایسے ہی فن پاروں میں شمار کر سکتے ہیں، جن میں انہیں مقصد کی خاطر فن کی قربانی نہیں دینی پڑی اور انہوں نے جدید افسانہ نگاری کے تمام تر تقاضوں کا خلوص سے پاسداری کی ہے ۔“جہاں تک افسانے کی زبان اور بیان کا تعلق ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ پریم چند نے اس افسانے میں بالکل وہی زبان وہی محاورہ اور وہی روز مرہ استعمال کیا ہے جو چھوٹے طبقے کے دیہاتی کسانوں کا اپنا ہے۔ مزید برآں پریم چند نے پوری کہانی مقتضائے حال کو بھی پوری طرح پیش نظر کھا ہے جس سے ان کے مشاہدے اور فنکارانہ دروں بینی کا اندازہ ہوتاہے۔ افسانے کی خارجی فضا بندی کے لئے اور مقامی تہذیب و تمدن کی عکاسی میں پریم چند کے جوہر بڑی خوبصورتی سے آشکار ہوئے ہیں۔܀܀܀

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں