کتاب کا نام ۔۔۔۔تاریخ ادب اردو 1
کوڈ۔۔۔۔۔5601
صفحہ نمبر ۔۔۔106سے102
موضوع ۔۔۔قطب شاہی دور کے قابل ذکر شعراء
مرتب کردہ ۔۔۔اقصئ
قطب شاہی دور کے قابل ذکر شعراء
جب دہلی میں اردو محض گلی محلہ کی بولی کی سطح پر تھی جب اردو کو تخلیقی لحاظ سے بروئے کار لانے کا سوچا بھی نہ جاسکتا تھا ایسے حالات میں عادل شاہی دربار میں اردو سرکاری زبان کے بلند مرتبہ پر فائز تھی۔
دکن کی حکومتوں کے بعض حکمران صاحب قلم تھے تاہم جو شاعر نہ تھے وہ بھی علم دوست ، علم پرور اور شعر پسند تھے جس کا نتیجہ تخلیقی ثروت میں ظاہر ہوا چنانچہ اس عہد کی شاعری اور نثر تاریخ ادب کا لازمی حصہ ہے، حصہ کیا اب تو تاریخ ادب رکن ہی سے شروع ہوتی ہے، صرف زبان کی اجنبیت دکنی ادب کی راست تحقیق میں رکاوٹ ہے۔
اگر یہ دور ہو جائے تو دکنی شعر آج بھی بامز ا معلوم ہو گا۔
اگر یہ کہا جائے کہ شاعر پروری اور شعر نوازی میں قطب شاہی دور سر فہرست نظر آتا ہے تو اسے مبالغہ نہ سمجھا جائے ۔ سلطان قلی قطب شاہ نے 1518ء میں جو حکومت قائم کی وہ 1686ء تک بر قرار رہی گولکنڈہ پایہ تخت تھا۔ اگر چہ اس خاندان کے آٹھوں بادشاہ ہی علم پرور تھے مگر قلی قطب شاہ (1580ء تا 1611ء) نمایاں ترنظر آتا ہے کہ خود بھی بہت اچھا شاعر تھا۔
قطب شاہی دور کے جن شعراء کا ذکر اونی تواریخ میں ملتا ہے ان کے نام درج ہیں۔ قطب الدین فیروز محمود ملا خیالی اسد اللہ و جہی شاہ محمد قلی قطب شاہ اور اس کا بھتیجاد اماد اور جانشین سلطان محمد قل اللہ اور پھر اس کا بیٹا اور جانشین عبد اللہ قطب شاہ ، غواصی احمد عاجز، قطبی سلطان سید میراں خداوند خدا نما، شیخ عبدالله احمد جنیدی بلاقی این نشاطی ، طبعی ، شاہ راجو حسینی محبت کبیر ( صحت کبیر نہیں) نعتی اولیاء خواص غلام علی سیوک فائرز، غلام علی خان لطیف شاہ محمد افضل محمد رفعتی فتاحی سالک، میاں نوری نمیشو سوامی اور آخری بادشاہ ابو الحسن تا نا شاه.
2- قلی قطب شاه
جہاں تک صلاحیتوں کا تعلق ہے تو ان میں سے متعدد شعراء تو اس تاریخی اور لسانی اہمیت ہی رکھتے ہیں جبکہ بعض شعراء کے کوائف کے بارے میں بھی کچھ معلوم نہیں اس لئے آجا کر پانچ سات ہی زندہ شاعر نظر آتے ہیں اور وہ ہیں : محمد قلی قطب شاہ و جہی ، غواصی، این نشاطی ، طبعی اور فائز ویسے اس تمام شعری منظر نامہ پر محمد قلی قطب شاہ چھایا ہوا ہے اس لئے نہیں کہ وہ بادشاہ تھا بلکہ اب تک کی معلومات کے بموجب وہ سب سے پہلا صاحب کلیات شاعر ہے۔ اس نے تمام مروج شعری اصناف میں طبع آزمائی کی اور ہر لحاظ سے صاحب اسلوب شاعر ہونے کا ثبوت دیا۔ ڈاکٹر سیدہ جعفر نے اس کی کلیات (نئی دھلی : 1985ء) مرتب کی۔ قلی قطب شاہ کو نظم نگاری سے طبیعی مناسبت تھی چنانچہ حمد نعت ، مثنوی اور منقبت کے ساتھ ساتھ اس نے تہواروں ، شاہی لوازم کھیلوں، موسموں محلات شاہی اور اپنی در جن پھر محبوباؤں ( جنہیں وہ پیاریاں کرتا ہے) کے علاوہ متفرق موضوعات پر کثیر تعداد میں نظمیں لکھیں اور ان پر مستزاد غزلیں ، قصائکہ رباعیات مربع قطعات مراثی وغیرہ لکھے۔
ڈاکٹر سیدہ جعفر صاحبہ کی فراہم کردہ معلومات کے مموجب محمد قلی قطب شاہ 14 اپریل 1565 ء بروز جمعہ پیدا ہوا اور ساڑھے انیس برس حکومت کرنے کے بعد چھیالیس برس کی عمر میں 10 دسمبر 1611ء کو راہی ملک عدم ہوا ۔ کلیات کا مطالعہ کرنے پر احساس ہوتا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کی تخلیقی شخصیت نے اظہار کے لئے نہ صرف متنوع پیرا ہائے اظہار اپنائے بلکہ موضوعات کی یہ قلمونی سے جدت پسندی کا بھی مظاہرہ کیا اور خوب کیا۔ اس کے صاحب اسلوب ہونے میں شک نہیں کہ موضوع کی مناسبت سے وہ اسلوب اپناتا ہے۔ اس کے کلام سے لطف اندوزی میں بس ایک زبان کی اجنبیت ہی رکاوٹ ہے۔ اگر ایک مرتبہ دکنی زبان کے نامانوس الفاظ کے معانی سے واقفیت ہو جائے تو پھر اس کے کلام سے لطف اندوزی مشکل نہیں۔ وہ شاعری میں قطب اور معانی مخلص کرتا تھا۔ کلیات میں 279 غزلیات ہیں جبکہ 30 غزلیں بطور ریختی درج ہیں۔
غزلوں۔ چند اشعار درج ہیں۔
وصل کہہ یا دوری اسے دونوں کا معنی ایک ہے
نہیں ہیں جلنا شمع پروا۔ کیا شے پروانے کا
سخن تیج کچھ عرق بند بند بہت در زور دستا اب اومد جن کو ہے سو عاشقی میں ہو دستا اب
جب کھلے امید دروازے دعا ہے مستجاب اب تو آپ نبی ہور قرآن تھے پایا ثواب اے بہشتی حور حج کیا کم نقاب دونی جنگ میں روشنی تو لکھ کے باب
عاشقان کے شعر جگ میں جگ سے میری آہ کا آگ ہے جیوں آفتاب
3- ملا وجہی
قطب شاہی عہد کا ایک اہم شاعر اور نثر نگار اسد اللہ تھا جو دنیائے ادب میں ملاو جہی (یاو جہی) کے نام سے مشہور ہوا۔ اگر چہ محمد قلی قطب شاہ کے دربار کا ملک الشعراء تھا مگر اس کے حالات کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں – 1659ء میں وفات پائی دکنی کے ساتھ فارسی کا بھی اچھا شاعر تھا۔ وجہی اپنی مثنوی ” قطب مشتری (1609ء) اور مرصع نثری تمثیل "سب رس” کی وجہ سے زندہ ہے۔ قطب مشتری، شہزادہ قلی قطب شاہ اور مشتری کی داستان عشق ہے اگر چہ یہ مثنوی شہزادہ کا عشق نامہ ہے مگر وجہی نے تاریخی کے مقابلہ میں تخلیقی پہلو پر زیادہ زور دیا ہے۔ اس میں ایک دلچسپ مثنوی کا سارا مسالہ موجود ہے۔ مثنوی کے علاوہ و جہی کی غزلیں بھی ملتی
ہیں۔
مثنوی کے چند اشعار پیش ہیں۔
رتن ل سنوارے محل
سو مریخ یاقوت فیلم زحل
آنگن آسمان ہور بادل سو فرش
کہ منڈوا سو کری چھیجا جیوں ہے عرش
مرصع جڑیا تخت واں لیائے کر
سو اس تخت پر شہ کوں بہائے کر
لے دوستاں آج چوند میرے
انند ر عشق کرتے ہمیں بھی میسر تھے
ملا وجہی کی مثنوی قطب مشتری اگر چہ اس صدی کی مثنویوں میں امتیازی شان رکھتی ہے لیکن اس کا اہم ترین کارنامه نثری تصنیف سب رس (1655ء) ہے۔ سب رس طبع زاد نہیں بلکہ فارسی کے مشہور انشاء پرداز محمد یعنی ان سیبک فتاحی نیشاپوری کے "دستور عشاق "(جس کے خلاصہ کا نام ” قصہ حسن و دل ہے) پر بنی ہے۔ یہ تمثیل ہے اور مرصع نثر اور شاعرانہ اسلوب میں قلم بند کی گئی ہے۔
4- تمثیل
تمثیل Allegory داستان و حکایت کا وہ انداز ہے جس میں مجرد انسانی صفات یا مظاہر فطرت کی تجسیم کر دی جاتی ہے۔ مثلاً استعارہ کو انسانی پیکر اور تشبیہ کو حسی روپ میں ڈھال دیا جاتا ہے ۔ مثلاً معصومیت خو خوب صورت پری اور نفرت بد صورت دیو کے روپ میں دکھائی جائے تو اسے علامت نگاری کا ایک انداز بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔ اس کا مقصد اخلاقی نکات کا دلچسپ انداز اور دلنشین اسلوب میں بیان تھا کہ پڑھنے والا خوب صورت اسلوب کی شکر شکر میں لپٹی نصیحت کی کڑوی گولی خوشی خوشی ہضم کرے (Allegory) یونانی لفظ (Allegoria) سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے اور طرح سے بات کرنا ” دیکھا جائے تو اسی میں تمثیل کا مزا ہے۔
5- غواصی
ملا وجہی کا معاصر اور سلطان عبداللہ قطب شاہ کا درباری اور ملک الشعراء غواصی اپنی مثنویوں سیف الملوک و بدیع الجمال (1035ھ) طوطی نامہ (1049ھ) اور چند اور لوک (دوسرا نام : مینا ستونتی) کی بنا پر شہرت کا حامل ہے۔ اگر چہ اس نے غزل ، مرثیہ، قصیدہ وغیرہ سب اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن شہرت کی اساس مثنوبوں پراستوار ہے ۔ خواصی بھی صاحب کلیات ہے۔ بادشاہ عبداللہ قطب شاہ کے مقربین میں شامل تھا چنانچہ اس نے اسے اپنا سفیر بنا کر یجا پور کے دربار میں بھی بھیجا تھا۔ غزلیات سے چند اشعار پیش ہیں۔
اے جونج تے حیات میری ہے سیج ادھر پر برات میری ہے عشق کی آگ میں جل کر راک ہوتا عشق بازی میں چاک چاک ہونا ہے غواصی یو عاشقانه غزل یو غزل سے درد ناک ہوتا
ہیں جو مجنوں کے نمتی آپسمیں بیابانی کیا
عشق میں داتا ہے چپ لوگاں میں نادانی کیا
غواصی کتنا پر گو اور قادر الکلام شاعر تھا اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ 2 ہزار اشعار پر مشتمل سیف الملوک و بدیع الجمال ” اس نے ایک ماہ میں مکمل کرلی تھی۔ غزلیات بھی کثیر تعداد میں لکھیں۔ بقول نصیر الدین ہاشمی :
غواصی کے کلام کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے وہ نہ صرف اپنے عہد کا بڑا شاعر تھا بلکہ اردو زبان کے شعراء کی صف اول میں اس کو جگہ دی جاسکتی ہے”۔
6- امن نشاطی
شیخ محمد مظہر الدین ائن نشاطی کی صرف ایک مثنوی پھول من (سال تصنیف : 1655ء) دستیاب ہے۔ اور اس پر اس کی شہرت کا انحصار ہے۔ سترہ سو اشعار کی یہ مثنوی فارسی با تین الانس (از احمد حسن دبیر ) عهد رود کی پر استوار ہے بقول ڈاکٹر جمیل جالبی این نشاطی نے پھول بن میں مشق اور عشق بازی کے راز کھولے ہیں۔ سراسر عشق کے ہیں اس میں رازاں گئے سو عشق بازی عشق بازان دکنی زبان کی لفظیات کے لحاظ سے اس مثنوی میں لطف زبان بھی ہے اور لطف داستان بھی۔
طبعی اور فائز
قطب شاہی خاندان کے آخری بادشاہ تاناشاہ کے عہد میں دو اور مثنوی کو ملتے ہیں۔ طبعی اور فائز دونوں کے سوانحی کوائف ناپید ہیں۔ طبعی کی مثنوی ” قصہ بهرام و گل اندام (1088ء) اور فائز کی مثنوی ” رضواں شاہ و روح افزاء ” (1094ھ) کا تذکرہ ملتا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں