کتاب کا نام: افسانہ ادب 1
کوڈ: 5603
موضوع: قصہ چہار درویش کے دیگر تراجم
صفحہ: 23
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
_————————————–
قصہ چہار درویش کے دیگر تراجم
میر امن سے قبل میر عطا حسین خان تحسین نے نوطرز مرصع کے نام سے اس داستان کا ترجمہ کیا تھا ۔ اس کے علاوہ محمد عوض زریں کا چار درویش کے نام سے بھی ایک ترجمہ ملتا ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر گیان چند جین نے اپنے تحقیقی مقالے اردو کی نثری داستانیں“ میں ڈاکٹر شار احمد فاروقی کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد عوض زریں مہمل نام ہے ۔ یہ اصل میں محمد غوث زریں تھا کسی کم سواد کاتب نے محمد غوث کو محمد غوص لکھدیا ہو گا جسے بعد میں محمد عوض پڑھ لیا گیا اور اس طرح ایک غلط نام مروج ہو گیا ۔
میر عطا حسین خان تحسین کا ترجمہ نوطرز مرصع جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے مرصع اور پر تکلف اسلوب میں ہے اور اسی وجہ سے اسے وہ مقبولیت نہ مل سکی جو میر امن کی باغ و بہار کے حصے میں آئی ۔ دراصل تحسین نے اردو ترجمہ اپنے زمانے کے رواج کے مطابق کیا تھا جس میں اردو کو فارسی کے رتبے تک پہنچانے کے لیے فارسی آمیز اسلوب اختیار کیا جاتا تھا جبکہ میر امن نے یہ ترجمہ فورٹ ولیم کالج کے لیے کیا تھا جس کا بنیادی مقصد کمپنی کے ملازمین کو اردو سکھانا تھا یوں تو اس کالج میں جتنی بھی کتابیں ترجمہ کی گئیں سادگی اور روانی ان کی بنیادی خوبی ہے مگر میر امن کا کمال یہ ہے کہ اس نے سادگی میں ایسی پر کاری پیدا کی ہے جس کی مثال پورے اردو ادب میں نہیں ملتی ۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال گزرنے کے باوجود آج بھی باغ و بہار کی زبان زندہ اور تر و تازہ محسوس ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ میر امن کا ماخذ فارسی قصے کے بجائے تحسین کا وہ ترجمہ ہے جو نو طرز مرصع کے نام سے ملتا ہے۔ میر امن کا کمال یہ ہے کہ اس نے فارسی آمیز اسلوب کو اس خوبی سے روزمرہ کے
قالب میں ڈھالا ہے کہ باغ و بہار ترجمہ سے پڑھ کر تصنیف کا درجہ اختیار کر گئی ہے ۔ نوطرز مرصع کی عبارت تشبیہات و استعارات سے اس قدر مملو ہے کہ بعض اوقات اکتاہٹ ہونے لگتی ہے ۔ زبان اس قدر بو جھل ہے ہے۔ ہے کہ پڑھنے والا داستان میں دلچسپی لینے کے بجائے زبان و بیان کے گورکھ دھندے میں الجھ جاتا ہے جبکہ باغ و بہار اپنے وقت کی نہایت فصیح اور سلیس زبان میں لکھی گئی ہے۔